دو چار روز پیشتر امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روس کو امریکہ کے لیے انتہائی خطرے کے حامل عوامل کی فہرست سے خارج کرکے اعلان کیا ہے کہ امریکہ دہشت گردی کو ہی انتہائی خطرہ تصور کرتا ہے۔
روس کی عسکری معاونت و مشاورت سے شام کے ایک بڑے مگر برباد شدہ شہر حلب پر شامی فوج کے قبضے کے فورا" بعد ایک تو ہولناک سانحہ یہ ہوا کہ ترکی میں روس کے سفیر آندرے کارلوو کو ایک تصویری نمائش کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرنے کے دوران ترکی کی دہشت گرد مخالف پولیس کے ایک اہلکار نے جو روس کے سفیر کا باڈی گارڈ ہونے کی اداکاری کر رہا تھا، اپنے پستول سے گیارہ گولیاں چلا کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ سفیر موصوف کو لگنے والی آٹھ گولیوں میں سے بیشتر ان کی پشت میں لگی تھیں۔ دوسرے ایک بار پھر دو سال پیشتر کریمیا کے تنازعے پر معطل کی جانے والی روس نیٹو کونسل کےمذاکرات کا پھر سے دور ہوا۔
سفیر کے قتل کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا، اس سے متعلق مشرقی ممالک بارے صدر روس کی انتظامیہ کے مشیر اور نامور مستشرق الیکساندر اگناتینکو نے شبہ ظاہر کیا کہ اس کے پس پشت لامحالہ سعودی عرب اور قطر ہو سکتے ہیں کیونکہ یہ دونوں ملک شام میں بحران کے آغاز سے شام کے معاملے کے پرامن حل کے مخالف رہے ہیں۔ اگناتینکو کا کہنا تھا کہ جب مقتول سفیر کے قاتل، جس کو پولیس نے پندرہ منٹ کے مقابلے کے بعد مار دیا تھا، کے گھر کی ترکی کی پولیس نے تلاشی لی تو وہاں سے ایسا لٹریچر ملا جس میں شام کی جنگ اور اس میں ملوث فریقین سے متعلق سعودی فتاوی درج تھے۔ یاد رہے پاکستان کے شہر پشاور میں شام اور برما کے مسلمانوں پر مظالم کے خلاف جماعت اسلامی پاکستان کی جانب سے نکالے جانے والے ایک جلوس میں ایک مقرر نے سفیر موصوف کے قاتل کو "مجاہد اور شہید" قرار دیا اور لوگوں نے حراج تحسین پیش کیے جانے کی خاطر قاتل کی تصویروں والے کتبے بھی اٹھائے ہوئے تھے۔
دوسری جانب سعودی عرب کی حکومت نے روس کے ساتھ ایک معاہدہ کر لیا ہے جس کے تحت تیل کی پیداوار کو کم کیا جائے گا تاکہ تیل کی عالمی قیمتوں کو مستحکم کیا جائے۔ سعودی عرب کے بجٹ کا خسارہ 98 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ شہزادہ محمد سعودی معاشرے میں بہت سی تبدیلیاں لا رہے ہیں۔ ان کے مطابق سعودی عرب ایسا جدید ملک ہوگا جہاں کا آئین شریعہ پر مبنی ہوگا مگر ملک کو ترقی دیے جانے کے انداز کی بنیاد جدت کاری ہوگی۔ علاوہ ازیں ملک میں 2017 کے بعد عیسوی کیلنڈر رائج کرنے کا بھی فیصلہ کر لیا گیا ہے، جس کے باعث ملازمین کو 19 روز مزید کام کرنا پڑے گا۔ ہجری کیلنڈر محض مذہبی تقریبات کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ چونکہ اب سعودی عرب مغرب والوں کے لیے تجوری نہیں رہا اس لیے مغربی ماہرین سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب میں بادشاہت کے خلاف شورش اس شورش سے کہیں سریع اور شدید ہوگی جو ایران کے شاہ رضا پہلوی کے خلاف ہوئی تھی۔
ساتھ ہی یوکرین کے مخاصمے کے بعد نیٹو نے روس کو ہر دوجانب یعنی بالٹک ریاستوں اور بحر اسود کی جانب سے گھیرنے کا عمل تیزتر اور بہتر کیا ہوا ہے۔ نیٹو جس میں امریکہ پیش پیش ہے، بتدریج بالٹک ریاستوں میں اپنی متنوع عسکری ٹکنالوجی جمع کر رہی ہے۔ ماہ نومبر میں بارودی سرنگیں ہٹانے والے چھ جنگی بحری جہاز لتھوانیا پہنچے۔ جبکہ گذشتہ ماہ جون میں امریکی فوج کی فرسٹ آرمرڈ بریگیڈ سے ابرامز نام کے ٹینک اور بریڈلے نام کی متحرک توپیں، امریکہ کی فوج کی معاونت کے اشارے کے طور پر تین بالٹک ریاستوں میں پہنچائی گئی تھیں۔
اقوام متحدہ میں روس کے مندوب الیکساندر گروشکو نے روس کی جانب سے فرضی خطرے کی آڑ میں روس کی سرحدوں کے نزدیک تر بالٹک ریاستوں میں نیٹو کی بڑھتی ہوئی عسکری موجودگی پر تحفظات ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس طرح کا تعاون روس کے خلاف مجتمع ہونے کے اسطور کو پھر سے زندہ کر سکتا ہے۔
اگر بحیرہ اسود پر نظر ڈالی جائے تو اس کے ساحلوں سے وابستہ چھ ملکوں میں سے تین پہلے ہی نیٹو کے رکن ملک ہیں۔ چوتھا ملک جارجیا نیٹو میں شامل ہونے کی سرتوڑ کوششیں کر رہا ہے جبکہ باقی دو ملکوں یعنی روس اور یوکرین کے تعلقات گذشتہ دو سالوں سے انتہائی کشیدہ ہیں۔
26 اکتوبر کو نیٹو کے جنرل سیکرٹری سٹولٹنبرگ نے کہا تھا کہ نیٹو بحیرہ اسود میں اپنی موجودگی کو بڑھانے سے متعلق نیٹو میں شامل ملکوں کے وزرائے دفاع کے اجلاس میں طے کر لے گا جو فروری 2017 میں ہونا متوقع ہے۔
نیٹو کے سربراہ نے مزید کہا کہ کینیڈا، جرمنی، نیدرلینڈ، پولینڈ، ریاستہائے متحدہ اور ترکی، جو بحیرہ اسود کے ساحل کا واحد ملک ہے، اس پہل کاری میں حصہ لینے پررضامندی ظاہر کر دی ہوئی ہے۔
یہ بیان اس بیان کے اگلے روز دیا گیا جو نیٹو میں امریکہ کے مستقل ترجمان ڈوگلس لیوٹ نے دیا تھا جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ نیٹو رومانیہ میں ، جو بحیرہ اسود کے ساحل کا ایک ملک ہے، ملٹی نیشنل بریگیڈ بھیج کر اپنی موجودگی کو بڑھائے گی۔
اس پر روس کی وزارت خارجہ میں ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ اور ان پر قابو پائے جانے کے شعبہ کے ڈائریکٹر میخائیل اولیانوو نے کہا تھا کہ روس نیٹو کے غیر علاقئی جنگی بحری جہازوں کی بحیرہ اسود میں موجود گی کو تحفظ بڑھائے جانے کے ایک جائز عمل کے طور پر نہیں دیکھتا بلکہ مجبور ہوگا کہ اس عمل کو اپنی عکسری منصوبہ بندی کی غرض سے دیکھے۔
روس کئی بار کہہ چکا ہے کہ یوکرین کے مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے جس میں یوکرین کے آزادی خواہ مشرقی حصے کے نمائندوں کو بھی شریک کیا جائے مگر اس پر یوکرین اور مغربی ملکوں کا ردعمل ایک سا ہے کہ نہ رضامند ہوتے ہیں اور نہ ہی براہ راست انکار کرتے ہیں۔
ساتھ ہی ترکی میں روسی سفیر کے قتل کے تیسرے روز شام کے معاملے پر روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروو، ترکی کے وزیر خارجہ میولود چاؤش اوگلو اور ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف اکٹھے ہوئے اور انہوں نے شام کے بحران کو بات چیت کے ذریعے سیاسی اور سفارتی بنیادوں پر حل کیے جانے پر رضامندی ظاہر کی۔
اس کے برعکس وہائٹ ہاؤس کے ترجمان نے کہا ہے کہ شام سے متعلق مذاکرات اقوام متحدہ کے تحت ہونے چاہییں جن کی نگرانی اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری کے ایلچی دی مسطورا کریں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ شام کے معاملے میں جہاں ایک جانب روس کے ساتھ تعاون کر رہا ہے وہاں اس ضمن میں روس کی ہر کوشش کی نفی کرنے سے بھی باز نہیں آتا۔ یوکرین کے معاملے پر تو ویسے ہی امریکہ اور نیٹو دونوں نے ہٹ دھرمی کا وتیرہ اپنایا ہوا ہے۔
عالمی معاملات بارے روس اور امریکہ کے اختلافات امریکہ کی جانب سے "مل کر کرو پر کچھ نہ کرو" اور روس کی جانب سے "بھائی کچھ کرنا ہے تو کرو ورنہ ہم تو جو کر رہے ہیں وہ کریں گے ہی" والے ہیں۔
کیا امریکہ کے نئے صدر کی ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور آنے کے بعد ان ملکوں کے بیچ پڑی ہوئی گھنڈی کھل پائے گی یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن بہر طور یہ واضح ہو چکا ہے کہ روس اب پندرہ برس پہلے کا روس نہیں رہا جسے سموچا نگلنے کی خاطر خوفناک دانتوں والے جبڑے دیکھ کر ڈرا دیا جائے۔ اب وہ کھلا ہوا جبڑا دیکھ کر نہ صرف ہنس دیتا ہے بلکہ اغماض بھی برتتا ہے تاکہ کھلا ہوا جبڑا تھک کر خود بخود بند ہو جائے۔
https://www.facebook.com/mirza.mojahid/posts/1669017233124380
“