دانشورانہ مزاحمت ،سیاسی مزاحمت کی مانند راست اورعملی نہیں ہوتی ۔کوئی دانشور عملی مزاحمت میں حصہ لے سکتا ہے ، وہ سڑکوں پر نکل سکتا ہے، چوراہوں پرآسکتا ہے اور پولیس کے ڈنڈے کھانے کی ہمت کرسکتا ہے ،مگرجن تحریروں کو ہم دانشورانہ مزاحمت کے طور پر پہچانتے ہیں،ان کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ ان میں سچائی پر طاقت کے اجارے یعنیEpistemic authority کو چیلنج کیا گیا ہوتا ہے۔اجارے کی کئی قسمیں ہیں۔ سیاسی اور معاشی قسمیں زیادہ نمایاں ہیں۔ یہ آمریت اور سرمایہ داریت کی پیداوار ہیں۔ ایک قسم ثقافتی اجارہ ہے،یعنی ایک ہی قسم کی ثقافت کو تمام اعلیٰ اقدار کا علمبردار سمجھنا ، اسی کو مہذب اور تما م بڑے فنون کا حامل سمجھنا ، اور پھرباقی ثقافتوں کے لیے اس کو کسوٹی بنایا، ثقافتی اجارہ ہے،جس کا مظاہرہ شہنشاہی اور استعماری ادوار میں ہوا اور سابق نوآبادیاتی ملکوں میں یک رنگ “قومی ثقافت” (جو عام طور پر تخیلی ہوتی ہے)کے نام سے کیا جاتا ہے۔سچائی پر اجارہ ،سب سے خوفناک اور ہمہ گیر اجارہ ہے،اس لیے کہ اس سے مزید کئی قسم کے اجاروں کی راہ کھلتی ہے۔ سچائی پر اجارہ کیا ہے؟ یہ کہ سچائی کو انسانی اقلیم سے باہر کی چیز قرار دینا اور اس پرعام انسانی فہم کے دروازوں کو مقفل کرنا۔اس کا لازمی نتیجہ، ایک محدود اقلیت کا سچائی کی وضاحت و تفہیم پر کامل ومطلق اختیار حاصل کرلینا ہے اور اس نوع کاہر اختیار سیاسی رخ کا حامل ہوتا ہے اور وہ اپنا تعلق اپنے عہد کی غالب سیاسی قوت سے عام طور پر جوڑتا ہے۔اجارے ی دوسری صورت، سچائی تک رسائی کے کسی ایک طریقے اور راستے کو مطلق خیال کرنا اور اس سے انحراف کرنے والوں پر زمین تنگ کردینا(یہ جامعاتی تحقیق میں عام ہے)۔سچائی پر اجارے کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ سچائی کو چھپایا جائے، اس چھپانے کی منطق و جواز کو بھی چھپایا جائے؛سچائی کے منتخب حصوں کو سامنے لایا جائے ، اور اگر کوئی اس پر سوا ل کرے تو اسے الٹا لٹکا دیا جائے ۔یہ بھی سچائی پر اجارہ ہے کہ فرضی و جھوٹی باتوں کو ، تاریخی واقعات کے من مانے انتخاب اور اس کی خاص طرح کی پیش کش کو سچ کے طور پر پیش کیا جائے، اور اصل سچ بولنے والوں کو کڑی سزاؤں سے دوچار کیا جائے اور سزا صرف جسمانی نہیں ہوتی، دوسروں کو خاموش کر ادینا، انھیں غدار، کافر ، جھوٹا قرار دے کر ان کے خلاف عوامی نفرت بھڑکادینا اور انھیں “گفتگو کرنے کی دنیا” اور خود اپنے وطن سے جلاوطن کردینا بھی سزا ہے اور نہایت کڑی سزا!۔ نیز لکھنے والوں کے لیےخوف کی فضا طاری کیے رکھنا، ان پر مسلسل نگرانی کے نظام کو استوار کرنا اور لاشعوری طور پر ان کے دلوں میں خود مذمتی کے رویے کو فروغ دینا بھی سچائی پر اجارہ ہے۔
دانشورانہ مزاحمت میں سچائی کو طاقت کے اجارے کی ان سب کوششوں سےسے واگزار کرانے کی سعی کی جاتی ہے۔ دانشوروں کی یہ کوشش سال کے چاروں موسموں میں جاری رہتی ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...