ادبی فائل –قسط – چار
دانیال: وہ خدا کو اپنی نظم سنانے گیا ہے ..
تاریخ– ستائیس اگست دو ہزار اٹھارہ .لرزتی انگلیوں میں جنبش ہوئی اور فیس بک، تلاش کے صفحے پر جا کر میں نے بے نیازی اور بے خودی کے عالم میں دانیال طریر کا نام لکھ دیا .مجھے یقین تھا ، دانیال ہوگا ، کہاں جائے گا دانیال .ہمیشہ کی طرح ان لائن دیکھ کر مجھ سے باتیں کرنے آ جایئگا ..اور دانیال یہ ضرور دیکھ رہا ہوگا کہ میں اس وقت ان لائن ہوں .ممکن ہے ، انباکس میں اسکا کویی پیغام ہی آ جائے .مجھے غصّہ تھا کہ مولانا رومی کا وہ فارسی شعر اس وقت میرے ذہن سے کیوں غایب ہے ، جس کا مفہوم تھا کہ میرا محبوب غیب کا علم رکھتا ہے اور میں جہاں کہیں بھی ہوتا ہوں ، اسکی آنکھیں مجھے دیکھ رہی ہوتی ہیں .. اہ :برسوں پہلے ، مجھے ایک نظم نے پاگل کیا تھا .اس وقت میری عمر بیس برس کی تھی .شاعر تھا ، انس معین ..نظم کا عنوان تھا ..تم کیا جانو ، مبہم چیزیں کیا ہوتی ہیں ..اسے ساری دنیا ، ساری اشیا مبہم لگتی تھی ..اتنا جلدباز تھا کہ صرف بیس برس کی عمر میں خودکشی کر لی — خدا کے پاس چلا گیا مبہم چیزوں کا حساب لینے .. مگر دانیال ، تم میں اور انس معین میں فرق تھا ..وہ اتنا ناراض تھا کہ اس نے خود ہی دنیا سے اپنا تعلق ختم کر لیا جبکہ تم تو خدا کو نظم سنانے کے بہانے خدا سے ملنے کے خواہشمند تھے ،ایک ایسی جنت میں جہاں میر بھی تھے ، شیکسپیر اور گویٹے بھی ..یہ سارے کردار تمہارے نظم کا حصّہ تھے اور کہیں نہ کہیں تم مطمئن بھی تھے کہ ان عظیم کرداروں کے ذریعہ تم یہ بتانے کا حوصلہ رکھتے ہو کہ عظمتوں ، برکتوں ، کثافتوں ، عیاروں سے بھری دنیا ادب میں بھی خلق کی گیی ہے اور یہ دنیا خدا کی دنیا سے کم نہیں ہے
..مجھے یاد ہے ، تم نے فیس بک سے رشتہ توڑ لیا تھا ..پھر تم سےبات کرنا بھی مشکل ہو گیا . تم اپنے کینسر کےمرض کے ساتھ کینسر زدہ اس دنیا کو بھی الوداع کہنا چاہتے تھے ..مگر کیا تمھیں خبر تھی ..جب زندہ تھے ،اس وقت بھی تمھارے چاہنے والوں کی کویی کمی نہیں تھی .جب تم بیمار تھے ، اس وقت بھی ہزاروں لاکھوں دعاؤں کی ہتھیلیاں تمہاری حفاظت اور تمہاری صحت کے لئے اردو بستیوں سے اٹھتی تھیں اور فرشتے ان دعاؤں کو بوسہ دیتے ہوئے عرش پر لے جاتے تھے ..مگر شاید خدا کو بھی تم سے ملنے کی جلدی تھی کہ کویی تو تھا جس نے خدا کی عظیم سلطنت کو للکارا تھا اور کہا تھا کہ خدا میری نظم کیوں سنے گا ؟
تاریخ– ستائیس اگست دو ہزار اٹھارہ .لرزتی انگلیوں میں جنبش ہوئی اور فیس بک، تلاش کے صفحے پر جا کر میں نے بے نیازی اور بے خودی کے عالم میں دانیال طریر کا نام لکھ دیا . اس وقت مجھے کیا خبر تھی کہ باہر آندھیاں تیز ہیں . موسلادھار تیز بارش میں گرجتے بادلوں کے درمیان کچھ مقدس روحیں آسمان سے رقص کرتی ہوئی زمین کو بوسہ دینے والی ہیں .اور ان میں سے ایک سب سے مقدس روح مسکراتی ہوئی سایے کی طرح شیشے کی چمکتی کھڑکیوں کے پاس آ کر رک جائے گی ..ہاتھ ہلاہے گی ..دروازہ کھولنے کے لئے کہےگی .میں اسے دیکھ رہا تھا ..پہلی نظر میں اسکو پہچان گیا تھا .اور اس وقت بھی اسکے ہونٹوں پر وہی مسکراہٹ تھی ، جس محبت اور گرم جوشی کے ساتھ وہ مجھ سے باتیں کیا کرتا تھا .،. اس کے سر پر ایک فلکی ٹوپی کا کسی قیمتی تاج کی طرح بسیرا تھا ..وہ دندناتا ہوا کمرے میں آیا . تپاک سے .گلے ملا اور کرسی پر بیٹھ گیا ..خدا کو میری نظمیں سمجھ میں نہیں ایں..میں کہتا نا تھا ..
پھر وہاں کیا کر رہے ہو ..؟
ہمیشہ کی طرح عیش ..میر ، غالب سب ہیں ..مگر ..بہت اداسی ہے وہاں ..جنت کا تصور بھی خیالی نکلا ..
میں زور سے چیخا — آنس معین مت بنو .خدا تمہاری نظمیں سن چکا ہو تو عرش سے واپس آ جاؤ دانیال ..
باہر اب بھی بارش ہو رہی تھی ..میں گھوما تو وہ اپنی جگہ سے غایب تھا .کرسی اب بھی ہل رہی تھی ..میں نے فیس بک کے دانیال طریر والے صفحے کو غور سے دیکھا .تیس اگست دو ہزار سترہ کے پوسٹ میں رفیع رضا نے اپنا یہ شعر ، دانیال کی وال پر شیر کیا تھا ..
گلے مِلا ھے تو پہچان بھی نکل آئی
پتہ چلا مَیں اِسی حادثے سے ڈرتا تھا
پھر اس کے ٹھیک نیچے ایک تصویر میں وہ اپنے دوستوں کے ساتھ ہے .میز پر سگریٹ کا پیکٹ رکھا ہے ..ایسا لگتا ہے کہ وہ لایعنیت کا معمّہ حل کر رہا ہو .لایعنیت پر اس کے مضامین کی کتاب شایع ہو چکی تھی ..لیکن وہ اس لایعنیت کی دھند سے کبھی باہر نہیں نکل سکا .وہ اپنے وقت کا مصور اور مفکر تھا ، اور یہی تلاش اسے ایک لا یعنی دنیا میں لے کر چلی گیی .
میں دانیال کے فیس بک کا صفحہ پلٹ رہا ہوں ..نعیم رضوان کی ایک پوسٹ نظر آتی ہے ..میری آنکھیں اس پوسٹ پر ٹھہر گیی ہیں ..
31 جولائی 2015ء کو یہ خوبصورت شاعر کینسر سے اپنی زندگی کی جنگ ہار گیا۔ اس کے بعد دانیال کے کچھ اشعار دیے گئے ہیں ..
آخر جسم بھی دیواروں کو سونپ گئے ۔۔!!
دروازوں میں آنکھیں دھرنے والے لوگ
۔۔۔۔۔۔۔
ایک کباڑی گلیوں گلیوں واج لگائے ۔۔۔۔ !!
راکھ خریدو ، آگ کے بھاؤ ، خواب کا کیا ھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی جیسے بڑی عمر کی عورت کوئی !!
ایک دو گام ہی چلتی ھے تو تھک جاتی ھے
۔۔۔۔۔۔
نجانے کس نے سکوتِ فنا سے بھر دی ھے
خیال و خواب سے بستی بھری ھوئی میری
۔۔۔۔۔۔۔۔
بلا جواز نہیں ہے فلک سے جنگ مری
اٹک گئی ہے ستارے میں اک پتنگ مری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ہزار چشمی بلا تھی جو مجھے کھا گئی
مِرے پھول مجھ کو پکارتے ہوئے رہ گئے
اس وقت مجھے منٹو یاد آ رہا ہے .پھر یوں ہوا کہ منٹو اور دانیال کی تصویریں آپس میں گڈ مڈ ہو گیئں ..اب انباکس میں پیغامات پر میری نظریں دوڑ رہی ہیں …وہ اپنی تحریروں میں زندہ ہو گیا ہے ..لوح محفوظ پر کچھ نقش ابھرے .. ..منٹو بیالیس خزاؤں کا حساب لینے خدا کے دربار میں پہنچ گیا ..دانیال کو بھی چھتیس بہاروں اور خزاؤں کا حساب منظور تھا مگر اس سے الگ وہ اپنی تخلیقی کائنات کے بسیرے میں خدا کو لے جانے کا خواہشمند تھا مگر کیا کویی اتنی جلدی خدا سے ملنے کا فیصلہ کرتا ہے ..؟.
وہ اپنے پیغامات میں زندہ ہو گیا ہے ..
— ذوقی بھایی -کتابیں آپ کو مل گیی ہیں میرے لیے یہی خوشی بہت ہے ..
اگر کتابیں اس قابل ہیں کہ آپ کو لکھنے پر مائل کر سکیں تو میرے لیے اعزاز ہوگا..
–میں نے ہمت کی .پوچھا ..تم کیسے ہو ..بیماری کی باتیں کرنا اسے کبھی منظور نہیں رہا ..اس نے بات بدل دی —
—یہ آپ کی محبت ہے ذوقی بھائی – ادب سے آپ کا مبنی بر اخلاص رشتہ ہے میں تو آپ کا پہلے ہی مقروض ہوں..آپ اس عہد کا ایک بڑا نام ہیں آپ کی پسند یدگی میرے لیے اعزاز ہے اور یہ اعزاز میرے لیے بیش قیمت اس لیے ہے کہ میں جانتا ہوں آپ کا قلم بد دیانت نہیں آپ نے ہمیشہ سچ لکھا ہے اور پورے دھڑلے سے لکھا ہے
.اب آنکھیں اشکبار ہیں ..میں اس کے پیغامات زیادہ در تک نہیں پڑھ سکتا …
اس نے اپنی تمام کتابیں بھیج دیں ..مضامین ..نظمیں ..غزلیں ..وہ نیی شاعری کا دیوتا تھا .ایسا دیوتا جسے خدا کو اپنا کلام سنانے کی جلد بازی بہت تھی .
میرا یار : دانیال
اکتیس جولائی،دو ہزار پندرہ ، کوئٹہ بلوچستان کے اپنے گھر سے دانیال طریر سوئے عدم کو روانہ ہوگئے— دو سال سے سرطان کے موذی مرض میں مبتلا تھے— چوبیس فروری انیس سو اسی کوپیدا ہوئے— اور مختصر عمر میں دار فانی سے کوچ کر گئے— لیکن چھتیس برسوں کے ادبی سفر میں غزلوں، نظموں اور تنقیدی مضامین کا جو ذخیرہ ہمارے لئے چھوڑ گئے، وہ نایاب ہے— اُس کی نظیر مشکل سے ملے گی۔ اصل نام مسعود دانیال ، تخلص طریر تھا۔دانیال طریر کے نام سے ہی ادب میں مضبوط شناخت قائم ہوئی۔ تصانیف میں آدھی آتما (شاعری)، خواب کمخواب (شاعری)، خدا مری نظم کیوں پڑھے گا (طویل نظم)، معنی فانی (شاعری)، بھوکھے بھجوکے (نظم) معاصر تھیوری اور تعین قدر قابل ذکر ہیں۔
میری دانیال سے ملاقات نہیں تھی۔ ملاقات ادب کے ذریعہ ہی ہوئی۔ اور جیسے جیسے دانیال کو پڑھتا گیا ، دانیال کے لئے میری دیوانگی بڑھتی چلی گئی۔ دو ہزار تیرہ میں، میں لکھنو میں تھا۔ اور پہلی بار دانیال سے گفتگو کا موقع ملا۔ اس کے بعد دانیال نے اپنی تمام کتابیں ڈاک سے مجھے بھجوائیں۔ میں اب تک اُس کی غزلوں اور نظموں کا ہی مدّاح تھا مگر اس کے تنقیدی مزاج اورتنقیدی شعور نے بھی میرا دل جیت لیا —
دانیال طریر کو پڑھنااور سمجھنا آسان نہیں۔ آسان اس لیے نہیں کہ وہ باربار آپ کو shock دیتا ہے۔ اور مطالعہ کے درمیان وہ آپ کے سامنے اتنے سوال رکھ دیتا ہے کہ آپ ان سوالوں سے باہر نہیں جاسکتے۔ وہ آپ کو اداس کردیتا ہے اورایسے اداس کرتا ہے کہ صدیوں کی اداسی بھی کم معلوم ہوتی ہے۔ آپ شعوری طور پر مطمئن ہوتے ہیں کہ دانیال کے آسان سے خیال کو آپ نے سمجھ لیا ہے لیکن دوسرے ہی لمحہ آپ صدمے جیسی کیفیت میں داخل ہو جاتے ہیں۔ وہ تسلیم کرتا ہے کہ کائناتی نظر کا کوئی دائرہ خدا کے تصور کے بغیر مکمل نہں ہوسکتا اور اس لیے نقطہِ آغاز سے نقطہ اختتام تک وہ خدا سے مکالمہ کرتا ہے۔ وہ علامہ اقبال کی طرح شکوہ اورجواب شکوہ کا قائل نہیں۔ بلکہ اس کا خیال ہے، کہ خدا میری نظم کیوں پڑھے گا؟ اور اشارہ یہ ہے کہ خدا اس کی نظم پڑھ چکا ہے۔ اس کی نظم جو معنی فانی سے شروع ہوئی، آدھی آتما، ازل اورابد کے فلسفے تک پہنچی اور اس نئی دنیا کو سامنے رکھیں تو انسانی تمنا کے اس پر اسرار سفر میں، وہ لفظ ومعنی کی ایک نئی کائنات تلاش کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اورغور کریں تو اسی لیے اس کا سارا زور لفظوں پر ہے کہ جب کچھ نہیں تھا تو لفظ تھے۔ جب کچھ نہیں ہوگا تو لفظ ہوں گےاورانہی لفظوں کے سہارے وہ انسان ہونے کی کشمکش کو، ہزاروں سوال سے گزار کر خدا کی بار گاہ تک لے جاتا ہے۔ اس کشمکش میں دانیال طریر کی شکل میں جو انسان ابھرتا ہے، وہ عام انسان نہیں ہے۔ وہ اس حیرت کدے میں خدا کے وجود کا منکر بھی ہے۔ اوراس کے مکالمے نئی صدی کے لیے بھی چیلنج بن کر ابھرتے ہیں جہاں سوشل نیٹ ورکنگ کی نئی دنیا میں لفظ ومعنی کی شکلیں روز روز بدلتی جارہی ہیں۔ اور اس لیے اسے کہنا پڑتا ہے۔
لفظ کے اندر لفظ کا ڈیرا
کوئی علامت کوئی نشانی
تیز بگولہ، بہتا پانی
مطلب سب لا یعنی، یعنی
معنی فانی، معنی فانی
(معنی فانی)
معنی فانی…. سب لایعنی….
”خلا بہت ہے
خلا کے اندر خلا سے بھی ان گنت اچھوتے
خلا بہت ہیں“
آسمانی آیتوں کی قرات کے ساتھ، وہ میر کے ساتھ ایک بگھی میں بیٹھ کر لکھنو آتا ہے۔ آدمی نامے والے نظیر سے ملتا ہے۔ میرا جی، راشد، فیض، مجید امجد کے ساتھ وہ اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ….
”زمانہ بازار بن گیا ہے
جواز جینے کا نظم کے ما سوا نہیں ہے“
اور یہی وہ نقطہ ہے، جہاں دانیال کی کائناتی نظم، اپنے تخلیقی سوتے دریافت کرتی ہے۔ یہ دنیا دیکھتے ہی دیکھتے ایک بڑے بازار میں تبدیل ہوگئی۔ اور ایک ایسی دنیاہے جہاں لفظ ومعنی کا سیل رواں مختلف اور متعدد شکلوں میں سامنے ہے۔ یہاں خدا حاضر بھی ہے اورغائب بھی۔ نئی دنیا تشکیک اورخوف کی فریاد لے کر آئی ہے۔ یہاں انسان ہونا اہم نہیں کیونکہ سائنس نے بیماری سے کلوننگ پروسیس تک نیا انسان دریافت کرلیا ہے۔ سائنس موت پر شب خوف مارنے کی تیاری کررہی ہے اور کہا جارہا ہے کہ آئندہ برسوں میں موت ایک فانی حقیقت نہیں رہ جائے گی۔ یہاں سوشل نیٹ ورکنگ کے دائرے میں لغات، شبد کوش اور ڈکشنری کے معنی تک تبدیل ہورہے ہیں۔ شیکسپئر کے ٹو بی اینڈ ناٹ ٹو بی سے آگے نکل کر یہ دنیا نئی صدی کے محض اٹھارہ برسوں میں وہاں پہنچ گئی ہے جہاں سوالات تو ہوں گے مگر جواب کے لیے مایوس مکالموں کی فضا ہوگی۔ فنٹاسی حقیقت ہوگی اور حقیقت پر فنٹاسی کا بھرم ہوگا۔ معجزہ، چمتکاروں کی دنیا پرانی ہوچکی ہوگی اور نئی ڈسکوری یا دریافت انسان کو بلندی بھی دے رہی ہوگی اور ساتھ ہی بونسائی بھی بنارہی ہوگی۔ انسانی ذات اور تشکیل، رد تشکیل کے درمیان ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب نہ خواب ہوں گے نہ رشتے، ایک مبہم کائنات میں انسانی تمنا کا سفر کھو چکا ہوگا…. اور ایک بے نام سی تسلی رہ جائے گی کہ جینا بھی آسان نہیں۔
”Dying is an art, like every thing else I do it exceptionally well“
لیکن جینا آسان نہیں
وہ بھی لفظوں سے دنیا کو بھرنے کی آرزو کے ساتھ
دنیا وہ زخم ہے جسے کسی ایک شاعر کے لفظ نہیں بھر سکتے
میں جانتا ہوں
’ایک روز موسم گدلا جائیں گے
چہرے ساکت ہوجائیں گے
شورتھم جائے گا
سارے دن
میرے اندر…. غروب ہوجائیں گے“
میں مرجاوں گا
اوردنیا لفظوں سے نہیں بھرسکوں گا“
یہ وقت غالب و میر اوراقبال و فیض سے بہت آگے کا وقت ہے۔ ایک ایسا وقت جہاں سمندر کی اچھال ہے اورصفر کے شور (y2k) اقتصادیات، مارکیٹ اکانومی، شیئرس کی اچھال اور نئی تہذیبوں کے زوال کا مرثیہ پڑھ رہے ہیں۔ جہاں ہر لمحہ ایک صدی ہے۔ اور اس صدی کے بطن سے ن م راشد کا لا: انسان برامد ہورہا ہے۔ یہ لا: انسان سے آگے کا سفر ہے اور اسی لیے دانیال سوال کرتا ہے۔ سوال کرتے ہوئے وہ کبھی آدھی ادھوری آتما تک پہنچتا ہے تو کبھی معنی فانی اور لایعنی کے جال میں الجھ جاتا ہے اور اس سے آگے بڑھتا ہے تو خدا سے شکوہ کرتا ہے کہ اس موہوم کائنات میں یہ انسان بلندی اور پستی کے بنائے ہوئے اپنے ہی فارمولے میں گھر کر ایک باریک اور موہوم نقطہ میں تبدیل ہوچکا ہے۔
–’تار کول کی سڑک میں تیزی سے دوڑتا ہوا خواب بھک سے اڑ گیا“
یہ ایک تنہا ہوتے انسان کی نظمیں ہیں یا انسان کو ننہا بنانے والی نظمیں ہیں۔
”وہ ایک لمحہ
پہاڑ جب دوڑنے لگے تھے
سمندروں نے تمام پانی نگل لیا تھا
ہزار ہا مچھلیاں زمیں پر تڑپ رہی تھیں
جو چپ تھے وہ چیخنے لگے تھے
جو چیختے تھے وہ سب زبانوں سے چپ کی دیوار چاٹتے تھے“
(خدا میری نظم کیوں سنے گا)
یہ ایک ایسے دانشور کا بیان ہے جس کا تخلیقی دائرہ وسیع اور دوسروں سے مختلف ہے۔ وہ اکیسویں صدی کی چیخ میں، لفظوں کے سراغ میں گم ہے۔ لایعنی ، بے معنویت اور رد تشکیل کے فلسفوں میں اس کی اپنی ذات سراب کی سی کیفیت میں ہے۔ اور ظاہر ہے، سائنسی چیلنج کے سامنے نظم ونثر، شاعری اور ادب سیلاب بلایا ان دیکھے طوفان میں ایسے گھرگیا ہے کہ ہردور میں، شیکسپئر سے دانیال تک شاعر انسان، خدا، لفظ اور معنی کی تلاش وجستجو میں اپنی دانست بھر فکر کو آزاد کرتا ہے اور ان کے معنی سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور اسی لیے دانیال لفظوں کی موت کا اعلان کرتا ہے…. یا دیگر صورت میں لفظوں کے ساتھ انسانی زندگی کو بھی لایعنی گردانتے ہوئے خدا سے مکالموں کی صورت پیدا کرتا ہے۔
وہ مختلف تھا۔ آن بان شان نرالی۔ نئے انداز سے سوچتا تھا۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ جب تک اردو زبان زندہ ہے اور دعا ہے کہ زندہ رہے، دانیال کی تحریریں بھی زندہ رہیں گی۔– ماضی کے اثاثہ کو حال اور مستقبل سے کیسے وابستہ کیا جاسکتا ہے، یہ دانیال جانتا تھا۔ وہ جدید علامتوں اور نئے نئے استعاروں سے کھیلتا تھا۔ وہ خدا کا سچا عاشق تھا۔وہ خدا جسے اللہ کے نام پر پاکستان سے جلا وطن کردیا گیا ۔مگر دانیال کی خوبی تھی کہ وہ خدا سے ہی اپنے سوالوں کا جواب چاہتا تھا . ہم ایسے موقع پر اُسے یاد کر رہے ہیں، جب وہ خدا کے دربار میں پہنچ چکا ہے۔ دانیال کو کہاں پتہ تھا کہ خدا بھی اُس کی نظم پڑھ چکا ہے۔ خدا کو اُسے بلاینے کی جلدی بھی اسی لئے تھی کہ وہ ایسے نایاب ہیرے کو کو درد سے کراہتا ہوا کہاں دیکھ سکتا تھا۔ لیکن خدا کو کیا معلوم کہ اس کراہ اور بے چینی کے پیچھے چپکے سے دانیال نے گمشدہ ماضی اور اس پرآشوب دور کا زہر پی لیا تھا۔ اندر سے اُس کا جسم نیلا تھا اور باہر سے شاداب اور نورانی۔ وہ تو آہستہ آہستہ مر رہا تھا۔ مگر نہیں…. اب وہ کسی دھند سے، پہلے سے زیادہ نورانی چمک کے ساتھ باہرآیا ہے۔ اپنی نظمیں سنانے کے لئے….۔ خدا سن چکا…. اب ہماری باری ہے— ہمیں سننا بھی ہے اور دانیال کو زندہ رکھنے کی ذمے داری بھی ہماری ہے۔
باہر اب بھی مسلادھار بارش ہو رہی ہے ….
[email protected]
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“