گاڑی چلاتے ہوئے دو گھنٹے ہو چکے تھے۔خستگی اور ضعف غالب آ رہے تھے۔بائیں طرف ایک سبزہ زار تھا‘درختوں میں گھرا ہوا۔گاڑی ایک طرف کر کے روکی۔ایک چٹان نما پتھر سائے میں تھا۔اس پر بیٹھا اور بوتل سے پانی پینے لگا جو گرم ہو چکا تھا۔سہ پہر ابھی شام میں نہیں ڈھلی تھی لیکن درختوں کی چھائوں اور مسلسل چلتی ہوا نے خنکی پیدا کر دی تھی۔سبزہ زار کے دائیں طرف پہاڑیاں تھیں‘ ابر پارے آ جا رہے تھے۔دھوپ چھائوں کا منظر نامہ لحظہ لحظہ تبدیل ہو رہا تھا۔دفعتاً ایک خواہش نے دل میں انگڑائی لی۔ایک بان کی چارپائی ان درختوں کے نیچے ہوتی اور میں اس پر دراز ہو جاتا۔میں شہر میں بسنے والوں کی اس نسل سے تعلق رکھتا ہوں جنہوں نے بچپن‘درختوں کی چلتی چھائوں کے ساتھ ساتھ ‘بان کی کھردری چارپائیاں گھسیٹتے گزارا ہے۔ پیڑوں کے پتے ہل ہل کر سایہ بُنا کرتے تھے۔دھوپ میں بھی برکت ہوتی تھی۔درست ہے کہ اس وقت ہماری بستیوں میں برقی روشنی اور پنکھے نہیں تھے لیکن کسانوں کے پاس نقدی تو ہوتی تھی۔اب برقی روشنی ہے جو لوڈشیڈنگ کے عذاب میں دکھائی نہیں دیتی۔ہاں بِل آتے ہیں اور نقدی کسانوں کی جیب سے غائب ہو جاتی ہے۔
یوں آواز آئی جیسے مویشیوں کو کوئی ہانک رہا ہو۔دائیں طرف دیکھا تو پہاڑیوں سے ایک ریوڑ اتر رہا تھا‘بکریوں اور بھیڑوں پر مشتمل۔پیچھے پیچھے ایک کتا سر جھکانے چل رہا تھا اور اس کے بھی پیچھے ایک لڑکا جو مشکل سے بارہ تیرہ سال کا ہو گا۔ریوڑ قریب آتا گیا۔لڑکا پھرتی سے دائیں بائیں بھاگ کر ریوڑ کو ایک سیدھ میں رکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔پھر وہ اسے سبزہ زار کے اندر لے آیا۔مجھے اس نے سلام کیا اور ساتھ والے پتھر پر چادر بچھا کر بیٹھ گیا۔اس کے ہاتھ میں لاٹھی تھی۔دو درخت چھوڑ کر کتا بھی بیٹھ گیا۔کتا ہانپ رہا تھا‘یوں لگا جیسے وہ پیاسا ہو۔
اس علاقے میں گزر پہلی بار ہو رہا تھا۔اردگرد کے دیہات کے نام اور مقامی جغرافیہ میرے لیے اجنبی تھے۔لڑکے نے ایک گائوں کا نام بتایا جس سے اس کا تعلق تھا۔میرا پہلا سوال اس کے علاوہ اور کچھ ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ وہ سکول کیوں نہیں پڑھتا۔اس کے چہرے پر زہر خند بکھر گیا۔
’’پانچ جماعتیں پاس کر لی تھیں‘پھر چھوڑ دیا‘‘
’’کیوں ؟تمہیں آگے پڑھنا چاہیے تھا۔‘‘
وہ پھر ہنسا
’’چاچا‘تمہیں بہت سی باتیں نہیں معلوم‘ میں اگر چھٹی جماعت میں داخل ہو جاتا تو یہ بکریاں اوربھیڑیں کون چراتا؟
’’یہ کام تمہارا باپ بھی تو کر سکتا ہے‘‘
’’ہاں ۔وہ کر سکتا ہے۔لیکن وہ چودھریوں کا ٹریکٹر چلاتا ہے۔ہمارا مکان اپنا نہیں۔وہ ہمیں چودھریوں نے دیا ہوا ہے۔میرا بڑا بھائی بھی انہیں کے گھر کام کرتا ہے‘‘
’’تم نے پانچ جماعتیں کہاں پڑھیں؟‘‘
’’اپنے گائوں کے سکول میں‘‘
جانے کیا لہر میرے دماغ میں اٹھی۔ لڑکے سے پوچھا ’’تمہارا سکول یہاں سے کتنا دور ہے؟‘‘
اس نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا ’’ان درختوں کی اوٹ کے اس طرف وہ جو بڑی سی حویلی ہے‘ اس کے پیچھے ہے‘‘
میں نے اس سے پوچھا ’’کیا تم مجھے اپنا سکول دکھا سکتے ہو؟‘‘
اس نے کہا۔ ’’ہاں‘‘۔ میں نے پوچھا ’’گاڑی پر چلیں گے؟‘‘ اس نے کہا ’’نہیں‘ وہ دور پڑے گا‘ پیدل جلد پہنچ جائیں گے‘‘
’’اور تمہارا ریوڑ؟‘‘
’’اسے کچھ نہیں ہوتا۔میرا کتا اس کی حفاظت کے لیے کافی ہے۔‘‘
لڑکا درختوں کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا کھیتوں کے گرد چکر کاٹ کر ایک کمرہ نما عمارت کے پاس رک گیا۔
’’یہی ہمارا سکول ہے‘‘
یہ پتھروں سے بناہوا ایک بڑا سا کمرہ تھا۔ پتھروں پر کوئی گارا تھا نہ پلستر‘کہیں کہیں سے پتھر گرے ہوئے تھے‘ اور بس اتنے رہ گئے تھے کہ دیوار کے پار دیکھا نہیں جا سکتا تھا۔دو چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں تھیں جو آدھی کھلی تھیں۔غالباً بند نہیں ہو سکتی تھیں۔
’’سکول‘‘کے اندر داخل ہوا تو منظر عجیب و غریب تھا۔بچے دیواروں کے ساتھ ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔میں نے نوٹ کیا کہ وہ ٹاٹ پر نہیں بیٹھے تھے۔ہر لڑکا ایک بوری نما کپڑا اپنے نیچے رکھے تھا‘ جو وہ اپنے گھر سے لاتا تھا۔ ایک چالیس سالہ شخص کرسی پر بیٹھا تھا۔کرسی کی ایک سائیڈ جس پر بازو رکھا جا سکے‘سلامت تھی لیکن دوسری غائب تھی ۔کرسی کے آگے میز نہیں تھا۔میں نے سلام کیا۔ماسٹر صاحب بہت احترام سے ملے۔ہو سکتا ہے انہوں نے سمجھا ہو کوئی انسپکٹر معائنہ کے لیے آیا ہے۔تعارف کرایا تو وہ تھوڑے سے ریلیکس ہو گئے۔بچوں کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے الگ الگ ’’کلاسوں‘‘ کی تفصیل بتائی۔پانچ کی پانچ جماعتیں اسی کمرے میں تھیں۔ماسٹر صاحب نے بتایا کہ ایک اور استاد بھی ہونا چاہیے لیکن دو سال پہلے اس کا تبادلہ ہوا تو اس کا نعم البدل ابھی تک تعینات نہیں ہوا۔ایک طرف پانی کا گھڑا گیلی ریت پر پڑا تھا۔گھڑے کی گردن سے پتلی سی زنجیر بندھی تھی جس کے دوسرے سرے پر ایلومینیم کا گلاس تھا۔میں نے اپنے ہاتھوں سے گھڑے سے پانی ایلومینیم کے گلاس میں ڈالا‘پانی میں مٹی اور ریت تھی جو کافی دیر کے بعد نیچے بیٹھی۔میں نے آنکھیں بند کر کے دو گھونٹ بھرے۔
لڑکے کو ساتھ لے کر میں واپس اپنی گاڑی تک پہنچا۔رخصت ہوتے وقت میں نے اسے پانچ سو روپے دینے کی کوشش کی لیکن اس نے انکار کر دیا ۔اس نے پوچھا ’’یہ رقم کیوں دے رہے ہو؟‘‘اس سوال کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
میں نے اپنا سفر دوبارہ شروع کیا۔پاکستان میں ایسے کتنے ’’سکول‘‘ ہیں‘پتھروں کے بنے ہوئے کمروں پر مشتمل‘ جن میں پوری پوری پانچ اور آٹھ آٹھ جماعتیں پڑھائی جا رہی ہیں؟ شاید کسی سرکاری فائل میں یہ تعداد نہ ملے۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“