دمشق پر امریکی بمباری
13اپریل 2018ء کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام کے دارالحکومت دمشق میں منتخب اہداف پر بمباری کا حکم جاری کیا۔ ان کے اس حکم نامے کا سبب شامی صدر بشارالاسد کی جانب سے شام کے شہر دومامیں شہریوں پر کیمیائی ہتھیاروں کا مبینہ استعمال تھا۔ دوما، شام کے دارالحکومت دمشق سے تقریباً10کلومیٹر شمال مشرق میں واقع ہے اور اس پر باغیوں (ISIS طرز کے) کا قبضہ ہے۔ ان کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر امریکی صدر ٹرمپ کی جذباتی پریشانی کے نتیجے میں دمشق پر میزائل برسانے کے فیصلے سے ذرا پہلے انہوں نے اپنی رائے (یاد رہے کہ صدر ٹرمپ کے نزدیک رائے اور حقیقت میں کوئی فرق نہیں) کا اظہار کیا کہ شامی صدر بشارالاسد ایک ’’عفریت اور جانور‘‘ ہیں۔کیوں کہ شامی صدر ’’اپنے ہی عوام کے قتل‘‘ کے درپے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کے پاس کوئی ثبوت موجود نہیں کہ مبینہ گیس حملے اور اپنے عوام کے قتل کے پیچھے شامی صدر بشارالاسد کا ہی ہاتھ ہے ۔ بدقسمتی سے خانہ جنگیوں میں یہی کچھ ہوتا ہے۔
افسوس کہ دنیا ہمیشہ سے اور آج بھی ’’عفریت‘‘ اور ’’جانوروں‘‘ سے بھری ہوئی ہے۔ اور چوںکہ خود امریکی صدر دوسروںکو ایسے القابات سے نواز رہے ہیں تو ہمیں امریکہ کے اندر بھی کچھ ایسی مثالوں کو سامنے رکھنا چاہیے۔کچھ ذکر امریکہ کی جانب سے ’’غلط انٹیلی جینس اطلاعات‘‘پر جنگی حملے اور اس کے نتیجے میں لاکھوں انسانوں کی ہلاکت کا بھی ہوجائے؟انہی الفاظ میں کہا جائے تو یہی کچھ 2003ء میں عراق میں ’’عفریت‘‘ اور ’’جانور‘‘ جارج بش نے کیا تھا۔کچھ ذکر ہوجائے سرحد پر 100کے قریب "Sharpshooters"کھڑے کرنے کا، جنہوں نے بخوشی نہتے مظاہرین پر متواتر فائرنگ کی؟ اپریل 2018ء میں ’’عفریت‘‘ اور ’’جانور‘‘ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے غزہ اسرائیل سرحد پر نہتے فلسطینی مظاہرین پر فائرنگ کی صورت یہی کیا۔ ایسی بہت سی مثالیں یہاں بیان کی جاسکتی ہیں۔۔۔ مصر، سعودی عرب، میانمار اور کبھی نہ کبھی دنیا کے کسی بھی ملک میں صاحبانِ اقتدار رہنے والے ان ’’عفریتوں‘‘ اور ’’جانوروں‘‘ کے متعلق۔ اپنے نسل پرستانہ رحجانات اور ہیجان آمیز رویے کے ساتھ خود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ان القابات کے خود بھی بے حد اچھے امیدوار ہیں جن سے وہ دوسروں کو نواز رہے ہیں۔
اس ختم نہ ہونے والی فہرست سے سیکھاجانے والا سبق یہ ہے کہ کسی ریاست کا رہنما، خصوصاً کوئی مضبوط اور نظریاتی رہنما ہونا اور پھر ’’عفریت‘‘ نہ بننا بے حد مشکل امر ہے۔ صرف ایسا نہیں ہے کہ یہ طاقت کسی لیڈر کے ہاتھوں میں ہی ہے بلکہ اس طاقت کے استعمال کے لیے غلط انتظامی دبائو اور توقعات ہیں جو اس کے ناجائز استعمال کی راہ ہموار کرتے ہیں۔حتیٰ کہ نسبتاً مہذب شہرت کے حامل لیڈر بھی طاقت میں آکر اپنے ہاتھ لہو سے رنگ لیتے ہیں، امریکی صدر جمی کارٹر اور بارک اوباما اس کی مثالیں ہیں۔
تاہم، مسئلہ یہیں ختم نہیں ہوتا۔ آخرکار ہر ’’عفریت‘‘ کے اپنے چیلے بھی ہوتے ہیں۔ معروف سائنس دان البرٹ آئن سٹائن کا کہنا ہے کہ ’’جنگوں سے پاک دنیا کا راستہ وہ نوجوان نسل صاف کرے گی جو ملٹری سروس سے انکار کردے۔‘‘حال ہی میں، انسانی حقوق کی ایک اسرائیلی تنظیم B’tselem نے اسرائیلی فوجیوں سے اپیل کی کہ وہ غزہ کی پٹی میں فلسطینی مظاہرین پر گولیاں چلانے کے احکامات سے انکار کردیں۔ ان عوامی موقف سے کوئی قابل ذکر فرق سامنے نہیں آیا۔ اسرائیل اور دنیا بھر میں شدت پسندی بڑے پیمانے پر جاری ہے۔
انسانوں کے خلاف تشدد اور شدت پسندی کا تعلق ہماری ارتقائی تاریخ سے بھی ہے لیکن اس مہذب زمانے کے انسان کو پتھر کے زمانے کے انسان کی نفسیات کی جانب اس جھکائو کی طرف مائل ہی کیوں ہونا چاہیے؟ صرف اس لیے کہ ہمارا کسی جانب ارتقائی طور پر جھکائو ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم برائے نام بھی Self-Control نہیں رکھتے۔ اور بلاشبہ ہم انسانوں کی ایک بڑی تعداد زندگی بھر عموماًعدم تشددکے نظریوں پر کاربند رہتی ہے، لیکن جہاں کسی کو بری صورتِ حال یا خراب حالات کا سامنا ہو، وہ یہ Self-Controlکھو دیتا ہے۔
مسئلہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہماری ثقافتیں اور ادارے ہم میں سے بہت سو ںکو غیرمعتدل بچگانہ پن کا شکار کردیتے ہیں۔ یعنی ہمیں بالغ عمر میں بھی احکامات کی پیروی کرنا اور گروپ کے ساتھ چلنا سکھایا جاتا ہے۔ بچپن میں ہمیں والدین اور پھر اساتذہ کے حکم کی تعمیل کی تعلیم دی جاتی ہے۔ نوعمری میں (زیادہ تر مغرب میں) جب بچے والدین کے کنٹرول سے باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں تو والدین کی رہنمائی کی جگہ ساتھیوں یا دوستوں کا گروپ لے لیتا ہے۔ پھر پیشہ ورانہ کیریئر میں ہم پر نئے اصول وقوانین اور توقعات نافذ کیے جاتے ہیں۔ تاہم، ہر شے کی ایک قیمت ہے۔ ریاستی سطح پر یہ قیمت بلاحجت وفاداری، اطاعت، حب الوطنی اور یکجہتی کی صورت میں دیکھی جاسکتی ہے جو کسی شہری کے اپنے لیڈر کی بلا چوں چراپیروی پر منتج ہوتی ہے، اور یوں اس شدت پسندی میں شریک ہونے پر جسے ریاست نے لازم اور ضروری قرار دے دیا ہو۔
جارج بش، بینجمن نیتن یاہو اورا ب ڈونلڈ ٹرمپ جیسے ’’عفریت‘‘ درحقیقت ٹریگر نہیں چلاتے بلکہ ان کے احکامات پر کوئی اور یہ کام کرتا ہے۔۔۔ کوئی وہ جس کی تربیت ہی اطاعت اور حکم کی پیروی کے لیے کی جاتی ہے۔ درحقیقت ’’کوئی‘‘ گمراہ کررہا ہے۔ یہ کوئی ایک نہیں، لاکھوں ہیں۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ ایسی فضا رکھتی ہیں جہاں لیڈر کی بلاحجت پیروی اور تعمیل کی جاتی ہے۔ فوجی تنظیم میں بالغ اسی بچپن کی فضا میں بھیج دئیے جاتے ہیں جہاں اُن سے حکم کی تعمیل کی توقع کی جاتی ہے۔ البتہ انہی میں کچھ ایسی صورتِ حال بھی ہوسکتی ہیں جہاں کسی سے تعمیل کی امید نہیں رکھی جاتی، لیکن ایسی صورتِ حال بہت کم یاب ہیںاور انہیں اس قدر شدت سے Counterbalanceکیا جاتا ہے کہ یہ دیکھنے کو ملتی ہی نہیں۔ یوں فوج میں کسی بھی عہدے پر موجود اہلکار اپنے سینئرز کے احکامات کی تعمیل کے پابند ہوتے ہیں۔ انہیں گولی چلانے کا حکم ہو، وہ چلاتے ہیں۔ انہیں میزائل داغنے کا کہا جائے، وہ کرتے ہیں۔ انہیں بم برسانے کا حکم ملے، وہ برساتے ہیں۔ انہیں ہزاروں میل کے فاصلے پر ہتھیاربند ڈرون بھیجنے کا کہا جائے، وہ بھیجتے ہیں۔
اس سب کا کوئی تیار حل نہیں۔ ایسے لوگوں کی تعداد بے حد کم ہے جو آئن سٹائن کے مشورے پر فوجی احکامات ماننے سے انکار کردیں، جو B’tselem کے مشورے پر نہتے مظاہرین پر گولی چلانے سے انکار کردیں، اتنی کم تعداد کہ جو اس تخریب کو روک نہیں سکتی۔ شدت پسندی کی جانب ہمارا جھکائو اور رحجان اب Institutionalizedہوچکا ہے اور گروہ کو جوڑے رکھنے کی ہماری بنیادی سماجی ضرورت کا غلط استعمال وہ لوگ کررہے ہیں جو ہمارے لیڈر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ یہ ایک قسم کا منحوس چکر ہے۔۔۔ یا شاید ایسی Catch 22صورتِ حال جس سے کوئی فرار ممکن نہیں۔
“