زمانہ خاک کردیتا ہے۔ جسموں کو مٹی کرکے مٹی میں ملادیتا ہے لیکن کبھی کبھی ہانپنے بھی لگ جاتا ہے۔ غالبؔ نے کہا تھا: ع
مارا زمانے نے اسداللہ خاں تمہیں
لیکن اسد اللہ خان کہاں مرا۔ ڈیڑھ صدی سے زیادہ عرصہ بیت چکا۔ آج بھی اس کا دیوان سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں میں شمار ہوتا ہے۔
چٹانوں سے ٹکراتے دریائے سندھ سے کچھ میل مشرق کی طرف، ایک گوشے میں پڑا ہوا پنڈی گھیب کا خوابیدہ ، مٹیالا قصبہ… جب بھی وہاں جانا ہوتا ہے، اڑتی ہوئی مٹی پر اور چلتی ہوئی ہوا پر لکھا ہوا صاف نظر آتا ہے کہ زمانہ خاک کردیتا ہے لیکن کہیں کہیں ہانپنے لگ جاتا ہے۔ایک صدی سے زیادہ عرصہ گزرا جب پنڈی گھیب قصبہ نہیں دارالحکومت تھا۔ اس زمانے میں جو قصبہ یا جو شہر دارالحکومت بنتا تھا ، تمام پیشوں کے ماہر وہاں منتقل ہوجاتے تھے۔
پنڈی گھیب میں بھی بتیس پیشوں کے ماہر رہتے تھے جنہیں بتیس ذاتیں کہتے تھے۔ کوزہ گروں سے لے کر زین سازوں تک … نعل لگانے والوں سے لے کر شمشیر سازوں تک اور بافندوں سے لے کر کفش دوزوں تک۔ ہر فاتح یہاں کے جنگ جوئوں کا محتاج تھا اور ہر طالع آزما اپنے ستارے کو یہاں تلاش کرتا تھا۔ شہسوار یہاں کے ایسے تھے کہ گھوڑا دم توڑ دیتا تھا لیکن خستگی سوار کو چھو نہیں سکتی تھی۔راتوں کو وہ سفر کرتے تھے تو راستے کا ایک ایک پتھر ان کے حافظوں میں لو دیتا تھا۔ سورما ایسا ایسا تھا کہ رات کے آغاز میں روانہ ہوتا، پچاس ساٹھ کوس دور جاکر دشمن کو ہلاک کرتا اور صجدم اپنے بستر میں سویا ہوا ملتا۔ کیا لوگ تھے ،چلتے تو قدموں کی دھمک سے دل دہل جاتے۔ نشانہ با ندھتے تو اجل کا فرشتہ اثبات میں سر ہلاتا ؎
آج بھی اُس دیس میں عام ہے چشمِ غزال
اور نگاہوں کے تیر آج بھی ہیں دل نشیں
آج بھی یہاں کے اور اس پوری پٹی کے رہنے والے جو دل میں ہو ، برملا کہتے ہیں اور کھردرے انداز میں کہتے ہیں،ملائمت یا منت زاری سے نہیں کہتے۔ مصلحت کا لفظ لغت میں نہیں ۔احسان بھولتے ہیں نہ سبکی اور بے توقیری۔ ساتھ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں تو خوف اور موت دونوں کو درمیان سے ہٹا دیتے ہیں۔ دشمنی کا فیصلہ ہوتا ہے تو معافی کا کبوتر ہمیشہ کے لیے اڑ کر چلا جاتا ہے اورلکیر پتھر پر اتنی گہری پڑتی ہے کہ کبھی کبھی تو لہو سے بھی نہیں بھرتی۔
اسی خوابیدہ مٹیالے قصبے میں تقسیم کے لگ بھگ ریت کے ٹیلوں میں گھری ہوئی ایک مسجد میں فقر کا ایک پیکر علم کے جواہر بانٹتا تھا۔ علوم اس کے سامنے دست بستہ کھڑے رہتے تھے۔ لغت اس کی کنیز تھی۔ حدیث پر اسے دسترس تھی یوں کہ اطراف و اکناف سے علم کے متلاشی آتے تھے اور دو زانو ہوکر سال ہا سال کے لیے بیٹھ جاتے تھے۔ تفسیر اور تفسیر کی تاریخ اسے ازبر تھی۔ عربی ادب اس کی دہلیز پر چوبدارتھا۔ علم کی دنیا اسے قاضی شمس الدین کے نام سے جانتی تھی۔ مسجد کے درشت فرش پر وہ بیٹھتا تھا اور فضا میں نظر نہ آنے والے پروں کی پھڑپھڑاہٹ صاف سنائی دیتی تھی۔ جوجانتے ہیں وہ جانتے ہیں ، جونہیں جانتے وہ جان لیں کہ اس عہد کی مسجدوں میں مرمر کے فرش تھے نہ قالینی صفیں ، سنگریزے تھے اور ٹھٹھرتے جاڑوں سے بچنے کے لیے خاص قسم کی خشک گھاس بچھا دی جاتی تھی جسے ’’ ستھر‘‘ کہتے تھے ۔کچھ کچھ وہ خوشبودار ہوتی تھی۔ بس ایسے ہی سنگریزے تھے اور اسی قسم کا ستھر تھا جہاں بیٹھ کر قاضی شمس الدین علوم اور فنون بکھیرتے تھے ۔ پوپھٹے شروع کرتے تو اشراق کا وقت چاشت میں ڈھل جاتا۔ دن کے زوال سے شروع کرتے تو سورج کے زرد ہونے اور پھر چھپ جانے تک پڑھاتے رہتے ۔مختلف رنگوں اور مختلف زبانوں والے سائل روحوں کے کشکول بھرتے جاتے۔
دودھ اور سیندور کا آمیزہ بنائیں تو جو رنگ بنتا ہے وہی رنگ اس نواب کے چہرے کا تھا جو بابا جنگ بہادر خان کہلاتا تھا اور اس مسجد کا مربی اور سرپرست تھا۔ قاضی شمس الدین کے اساتذہ ، دور بہت دور وسطی ہند کی اس درس گاہ میں متمکن تھے جو دیوبند کے قصبے میں تھی اور چار دانگ عالم میں جس کا شہرہ تھا۔ حدیث کے استاد کی ضرورت پڑی۔ دارالعلوم دیوبند کے ارباب قضاو قدر نے حکم صادر کیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ یہاں سے پڑھ کر جانے والا قاضی شمس الدین اپنی مادرِ درسگاہ میں واپس آئے اور نصف دائرے میں دو زانو بیٹھنے والوں کو تعلیم دے۔ حکم پنڈی گھیب پہنچا۔ قصبے کے مکینوں کی نیند اور بھوک اڑ گئی۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ اپنے ہاتھوں سے اس لعل کو نہیں گنوا سکتے۔ نواب جنگ بہادر خان کو فیصلے سے آگاہ کردیاگیا۔ انکار کی خبر دیوبند پہنچی۔ دارالعلوم کے سربراہ اس وقت قاری محمد طیب ؒ تھے۔ وہ پابہ رکاب ہوئے اور طویل سفر کے بعد ،اس خوابیدہ مٹیالے قصبے میں بنفس نفیس پہنچ گئے۔قاری صاحب مرحوم نے باشندگان شہر کو جمع کیا اور گفتگو کی۔ دلیل یہ تھی کہ پڑھا تو شمس الدین یہاں بھی رہے ہیں اور وہاں بھی پڑھائیں گے ہی ،لیکن پنڈی گھیب اور دیوبند میں فرق ہے۔یہ ایک چھوٹی درسگاہ ہے۔ شائقین کی تعداد محدود ہے۔دیو بند ایک بڑی ، عظیم درسگاہ ہے جہاں سائلین کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے۔ خلق نے قاری صاحب کی پذیرائی کی اور شمس الدین کو ان کے عقیدت مندوں نے دلوں پر پتھر رکھ کر جدا ہونے کی اجازت دی۔ سالہا سال دیوبند میں پڑھانے کے بعد شمس الدین واپس ہوئے تو پنڈی گھیب نہ پلٹے اور گوجرانوالہ میں پڑھانا شروع کردیا۔ نان و نمک کے لیے صابن بنانے کا چھوٹا سا کاروبارر کھا۔ خوف خدا کا یہ عالم تھا کہ تدریس کا معاوضہ معمولی لیتے تھے۔ کسی اور شہر (غالباً فیصل آباد) سے زیادہ معاوضہ کی پیشکش ہوئی ،تیار ہوئے لیکن پھر فوراً ہی ارادہ منسوخ کردیا۔ اٹک پنڈی گھیب کی ہندکو میں بات کیا کرتے۔کہنے لگے مرجاتا تو کیا جواب دیتا کہ چند روپوں کے اضافہ کے لیے تدریس حدیث کی جگہ تبدیل کرلی ؟
انہی قاضی شمس الدین کے سامنے اس کالم نگار کے والد گرمی دو زانو بیٹھ کر فیض یاب ہوئے۔ کیا عقیدت اور کیا سپردگی تھی۔ استاد نے بیٹھنا ہوتا تو سر سے رومال یا دستار اتار کر نشست صاف کرتے ۔ فخر تھا یا جذبہ تشکر جس نے یہ شعر کہلوایا ؎
میں ایک ذرّۂِ ناچیز ہوں ظہوؔر مگر
خدا نے دی ہے مجھے ’’ شمسِ دیں‘‘ سے تابانی
پھر استاد کی مسند پر بیٹھ کر پڑھایا۔ نصف صدی تک عید کا اور جمعہ کا خطبہ دیا۔ مسجد سے ایک پائی تک لینا حرام تھی۔ دو وقت کی روٹی کے لیے سرکاری تعلیمی اداروں میں ملازمت کی اور کتابیں لکھ کرگزر اوقات کیا۔ کیا وسعت بخشی پروردگار نے اس تنگی میں کہ ایک بیٹا سول سروس کی چوٹی تک پہنچا، دوسرا امریکہ میں تقابل ادیان پڑھا رہا ہے اور پوتا کارڈیالوجسٹ ہے، ایسا کہ بحرالکاہل کے کناروں پر مریض کھچے چلے آتے ہیں۔ بخدا یہ فخر و مباہات نہیں، تحدیث نعمت ہے ؎
شکرِ نعمت ہائی تو، چندانکہ، نعمت ہائی تو
عذرِ تقصیراتِ ما، چندانکہ، تقصیراتِ ما
چٹانوں سے سرمارتے دریائے سندھ سے کچھ فاصلے پر نیم بیدار مٹیالی پنڈی گھیب میں جب بھی کالم نگار جاتا ہے، محبت کرنے والے باور کراتے ہیں کہ تمہارے بزرگوں کا فیض ہے جوآج ہم سر اٹھا کر سینہ تان کر چل رہے ہیں ورنہ کسی کتبے کے سامنے ، کسی لمبے چولے والے کے حضور دست بستہ کھڑے ہوتے یا فیض رسانی کے کسی دعویدار کے پائوں میں بیٹھے ہوتے۔ قطرے رخساروں پر ڈھلکنے لگتے ہیں یہ سوچ کر کہ ہم تو محض نام بیچنے والے ہیں ۔ شہرۂ آفاق ناول نگار شیرلیٹ برانٹی نے اپنے محبوب (ہنیگر) کو لکھا تھا:
The poor do not need much to keep them alive. They ask only for crumbs that fall from rich man's table.
افسوسٖ!ہم تو علم کے دستر خوان سے بچے کھچے ٹکڑے تک نہ چن سکے۔ اخترہوشیار پوری نے ہمارے لیے ہی کہا تھا ؎
دامن خالی، ہاتھ بھی خالی، دستِ طلب میں گردِ طلب
عمرِگریزاں! عمرِگریزاں! مجھ سے لپٹ اور مجھ پر رو