ڈیم چندہ اور تنقید، چند گزارشات
پاکستانی عوام کو ہمیشہ سے ہی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر رکھا گیا ہے، ملک کے بڑے بڑے دانشور بھی میڈیا کی سیٹ کی ہوئی لائن پر چلتے ہیں اور میڈیا نے ہمیشہ نان ایشوز پر عوام کو الجھائے رکھا ہے میڈیا چاہے تو کسی فلم ایکٹریس کے ٹھمکے کو ہی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ثابت کر دے میڈیا کا کیا انہیں تو ریٹنگ سے مطلب ہے اور خدا کے فضل سے اس ملک میں ٹھرکیوں کی بہتات کبھی نان ایشوز کی ریٹنگ کم نہیں ہونے دیتی. لیکن اس ملک کے چند ایسے درینہ مسائل بھی ہیں جنہیں اب تک ایمرجنسی بنیادوں پر اجاگر کیا جانا چاہیے تھا، مثلاً پانی، مہنگائی، معیار تعلیم، مذہبی تشدد پسندی، انصاف اور صحت.. لیکن بدقسمتی یہ وہ مسائل ہیں جو ہمیشہ سے ہی ریٹنگ حاصل کرنے سے محروم رہے. ان میں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے. میرے خیال میں پانی کے مسئلے کا مذاق اڑانے والے دانش گردوں کو اگر ایک ایک دن کیلئے تھر کے ریگستانوں یا ڈی جی خان جیسے علاقوں میں سروائو کرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے جہاں وہ گدھوں اور کتوں کے منہ کے ساتھ منہ ملا کر گندے جوہڑ میں سے پانی سُرک سُرک کر پیئیں تو یہ واپس آ کر کم از کم پانی کے مسئلے کا مذاق بالکل نہیں اڑائیں گے.
اٹھارہ سو ارب روپیہ ایک بہت بڑی اماؤنٹ ہے یہ باہر کے ملکوں میں بیٹھے نوے لاکھ پاکستانی جن میں اکثریت مزدوروں کی ہے یہ کبھی نہیں پورا کر سکتے اور نہ ہی یہ منصوبہ چیرٹی فنڈ سے مکمل ہو سکتا ہے. مدد کی اپیل کا سب سے بڑا مقصد مسئلے کی حساسیت کو اجاگر کرنا تھا. ڈیم کی تعمیر کے لیے بجٹ کھپانا پڑے گا ٹیکس اکٹھا کرنا پڑے گا کچھ بانڈ شانڈ بیچنے ہوں گے لیکن یہ کام سود پر قرضہ لیے بغیر کرنا عین ممکن ہے، اسی طرح چیرٹی فنڈ اس منصوبے میں بہت زیادہ مدد دے گا اور پھر عمران خان کا پیسا اکٹھا کرنے اور پھر پوری ایمانداری سے متعلقہ پراجیکٹ پر لگانے کا ریکارڈ بہت امید افزاء ہے. یہ بھیک ہرگز نہیں ہے اور میرے نہیں خیال کہ کوئی بھی پاکستانی اس خیال سے پیسہ دے رہا ہوگا کہ میں اس ملک کو بھیک دے رہا ہوں اور نہ ہی چندہ دینے والوں کی کوئی ڈومور جیسی شرائط ہونگی اس لیے یہ دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے سے بہت بہتر ہے. یہ وہ ڈیم ہے جسکا افتتاح اس سے پہلے کئی حکومتیں کر چکی ہیں لیکن ان کے پاس پیسہ نہیں تھا اور جو تھا انہوں نے نمائشی منصوبوں پر کھپائے رکھا. خیر اس سنگین غفلت کا بدلہ تو تاریخ ان ظالموں سے ضرور لے گی لیکن اس وقت سب سے گھناؤنہ کردار شاید ان دانش گردوں کا ہے جو عوام کو مدد نہ دینے کی ترغیب دلا رہے ہیں یا شاید اس مسئلے کو بھی شرجیل میمن کے شہد زیتون اور عمران خان کے ہیلی کاپٹر کی طرح مذاق بنا رہے ہیں. میرے خیال میں یہ پہلی جمہوری حکومت ہے جس پر عوام نے اس قدر اعتماد کیا ہے اور اس حکومت نے انتہائی نااہل ٹیم کے باوجود چند دنوں میں ہی انقلابی اقدامات کئے ہیں. ہمیں اس مسئلے پر ہر حال میں حکومت کی مدد کرنی ہوگی، اور جو نہیں کر سکتے وہ دوسروں کو ترغیب ضرور دیں روکیں ہرگز نہیں. خدارا اس مسئلے پر دل میں کچھ درد پیدا کریں.
تنقید کرنے کیلئے ہمارے پاس بہت سے مواقع اور موضوعات ہیں اور پھر یہ شغلی دور حکومت، کپتان کے یو ٹرن، وزیروں کی چولیں اور ہر تیسرے دن کوئی نہ کوئی نیا کٹا کھل ہی جاتا ہے لہٰذا ہمارے پاس تنقید کرنے کے لیے بہت کچھ ہے.
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“