دلیلِ وجودی پر اعتراضات ہمیشہ مغالطہ آمیز رہے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلیلِ وجودی پر اقبالؒ سمیت سب فلسفیوں کے اعتراضات میں واضح منطقی مغالطے موجود ہیں۔ دلیل ِ وجودی کا سب سے پرانا ورژن 1078 عیسوی میں کنٹربری کے ایک بشپ ’’اینزلم آف کنٹربری‘‘ (Anselm of Canterbury) کا ہے۔ آرگومنٹ یہ ہے،
’’تصورِ خدا انسانی تصورات میں کامل ترین تصورہے، جس سے کامل تر تصور ممکن نہیں‘‘
’’یہ تصور لازمی طور پر ہرذہن میں موجود ہے۔ اُس ذہن میں بھی جو خدا کے وجود سے انکاری ہے‘‘
’’اگر کسی کامل ترین ہستی کا تصورانسانی ذہن میں موجود ہے تو اس کا وجود حقیقت میں لازمی ہوجاتاہے‘‘
’’کیونکہ اگر یہ تصور صرف ذہن میں ہےاور حقیقت میں اس کا وجود ممکن نہیں تو پھر اس سے بھی کامل تصور کا وجود لازمی ہوجاتا ہے جو حقیقت میں بھی موجود ہو‘‘
’’چنانچہ خدا لازمی طور پر وجود رکھتاہے‘‘
اس دلیل کو سترھویں صدی کے عظیم فلسفی اور بابائے فلسفۂ جدید رینے ڈیکارٹ نے دوبارہ سے پیش کیا۔ ڈیکارٹ کا ورژن یہ ہے،
’’تصورِ خدا انسانی ذہن میں موجود تمام تر تصورات میں اکمل ترین تصور ہے‘‘
’’یہ تصور خارجی کائنات سے وارد نہیں ہوسکتا کیونکہ خارجی کائنات میں مستقل تغیر ہے اور خدا تغیر سے پاک ہے‘‘
’’انسانی ذہن میں کوئی تصور ایسا موجود نہیں جو خارجی کائنات سے وارد نہ ہوا ہو‘‘
’’چونکہ خدا کا تصور انسانی ذہن میں موجود ہے جو خارجی کائنات سے وارد نہیں ہوا فلہذا خدا کا تصور کہاں سے آیا ہے؟‘‘
’’انسانی ذہن بغیر حقیقی وجود کے کوئی تصور گرفت میں نہیں لاسکتا‘‘
’’خدا لازمی طورپر موجود ہے‘‘
لائبنز نے اس دلیل کے بارے میں کہا تھا کہ یہ خدا کے وجود پر واحد ایسی عقلی دلیل ہے جسے واضح اور جامع ترین کہا جاسکتاہے۔
دلیل وجودی پر سب سے بڑا اعتراض سب سے پہلے ’’گوانیلو آف مارموٹیئرز‘‘ (Gaunilo of Marmoutiers) نے اپنی کتاب ’’بی ہاف آف دہ فُول‘‘ (Behalf of the Fool) میں کیا۔ اس نے کہا کہ،
’’یہ دلیل ناکام ہے کیونکہ اگر ایسا مان لیا جائے تو پھر فقط خدا ہی نہیں بلکہ ہرایسی چیز جسے ذہن میں فرض کرلیا جائے حقیقت میں لازمی وجود رکھتی ہوگی۔ جبکہ حقیقت میں تو ایسا نہیں ہوتا‘‘
اس نے ایک جزیرے کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’’اگر ایک شخص ’کامل ترین جزیرے‘ کا تصور کرے تو کیا اس کے تصور کرنے سے جزیرہ وجود میں آجائے گا؟‘‘
کانٹ نے بھی اسے ’’پَے ٹیشیو پرنسی پائے‘‘ (petitio principii) کہہ کر پکارا۔ ’’پَے ٹیشیو پرنسی پائے‘‘ کا مطلب ہوتاہے، مصادرۂ علی المطلوب۔ یہ ایک منطقی مغالطہ ہے۔ اس مغالطے میں کسی شئے کو پہلے سے فرض کرلیا جاتاہے اور پھر باقی بحث اسی فرض کی گئی شئے پر کی جاتی ہے۔ کانٹ نے یوں مقدمہ قائم کیا کہ،
’’کیا ایسا تصور کرنے سے کہ میری جیب میں تین سو ڈالرز ہیں، میری جیب میں فی الواقع تین سو ڈالرز آجائیں گے کیا؟‘‘
اقبال نے کانٹ کے ہی اعتراض کو دہرانے پر اکتفاکیا۔ لیکن اگر ماہرین منطق غورکریں تو اس اعتراض میں بھی ایک منطقی مغالطہ موجود ہے جسے منطق میں اَن ڈِسٹری بیوٹڈ مڈل ٹرم کہتے ہیں۔
تصور خدا کلیہ موجبہ ہے یعنی یونیورسل اَفرمیٹِو ہے۔ یہ تصور ہرانسان کے ذہن میں موجود ہے۔ منطقی مقدمہ بناتے وقت ضرور یوں کہا جائے گا کہ
’’تمام انسانوں کے ذہن میں کامل ترین ہستی کا تصور ہے‘‘
یوں نہیں کہا جائے گا کہ
’’کچھ انسانوں کے ذہن میں کامل ترین ہستی کا تصورہے‘‘
کیونکہ ’’کچھ‘‘ کا اضافہ کرنے سے مقدمہ کبریٰ کا قضیہ جزیہ موجبہ یعنی ’’پرٹیکولرافرمیٹِو‘‘ بن جاتاہے۔ یہ گویا یوں کہناہے،
’’کچھ انسان غیر تعلیم یافتہ ہیں‘‘
’’اسلم ایک انسان ہے‘‘
چنانچہ اسلم غیر تعلیم یافتہ ہے۔
اس میں مقدمہ کبریٰ مڈل ٹرم ’’انسان‘‘ اَن ڈسٹری بیوٹڈ ہے جبکہ استنتاج میں ڈسٹری بیوٹڈ ہے۔ یہ ایک فارمل مغالطہ ہے جو کانٹ یا گوانیلو کے دریافت کیے گئے مغالطہ سے بڑا مغالطہ سمجھا جاتاہے۔
چنانچہ گوانیلو اور کانٹ نے جو مغالطہ قائم کیا ہے وہ ہے ’’ان ڈسٹری بیوٹڈ مڈل ٹرم‘‘ کیونکہ کانٹ نے بھی فرد ِ واحد سے ڈالرز فرض کروائے اور گوانیلو نے بھی فردِ واحد سے جزیرہ فرض کروایا ہے۔ جبکہ تصور ِ خدا یونیورسل طورپر ہرانسان کے ذہن میں موجود ہے۔ جس وجہ سے تصور خدا کلیہ موجبہ ہے یعنی یونیورسل افرمیٹِو اور کامل جزیرے یا ڈالرز کا تصور جزیہ موجبہ ہے یعنی پرٹیکلولر افرمیٹِو۔ اور پرٹیکلولر افرمیٹو کو مقدمہ کبریٰ میں لے لیا جائے تو استنتاج میں اسے بطور اصول نہیں لیاجاسکتا۔
زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتاہے کہ تمام انسانوں کے ذہن میں کامل ترین ہستی کا تصور، ارتقأ کے دوران سینہ بہ سینہ منتقل ہواہے۔ چونکہ یہ تصور بہت پرانا ہے اس لیے ہرکسی کے ذہن میں موجود ہے۔ اس سوال کا جواب الگ سے دیا جاسکتاہے۔ سردست یہ بتانا ضروری ہے کہ دلیل ِ وجودی کا امکان ابھی تک پوری طرح باقی ہے۔
ڈیکارٹ ہی کے تھاٹ ایکسپری منٹ میں دیکھا جاسکتاہے ہم تصور کی حدتک ’’مطلق اَنا‘‘ یعنی مطلق خودی کے تصور تک آرام سے جاسکتے ہیں۔ ڈیکارٹ کا تھاٹ ایکسپری منٹ یہ ہے کہ ہم ذہن سے ہر وہ تصور الگ کردیں جو بیرونی دنیا سے وارد ہورہاہے۔ ہم کائنات کی ہر وہ شئے جو ہییت رکھتی ہے اپنی سوچ کے ذریعے غائب تصور کرسکتے ہیں لیکن ہم آخر میں اپنی موجودگی کے تصور کو رد نہیں کرسکتے۔ اِسی موجودگی کے تصور کو ڈیکارٹ نے ’’میں سوچتاہوں‘‘ کی صورت دریافت کیا ہے۔ اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ جب ’’میں‘‘ کا تصور، بغیر کسی ہییت اور شبیہ یا بیرونی تمثیل کے ذہن میں اپنا وجود رکھ سکتاہے اور اس کی خارجی کائنات میں موجودگی کی تصدیق ایک انفرادی شخص کی صورت کی جاسکتی ہے تو تصورِ خدا کی کیوں نہیں؟ کیونکہ ’’مطلق مَیں‘‘ کا تصوربھی ویسا ہی یونیورسل یعنی کلیہ موجبہ ہے جیسا کہ خدا کا تصور۔
مطلق مَیں کا تصور اس قدر یونیورسل ہے کہ تازہ ترین سائنسی تحقیقات کے مطابق اورنگٹاؤن نسل کے بندر بھی اپنی انفرادی شناخت رکھتے ہیں۔ اس پر مستزاد ہم یہ جانتے ہیں کہ جانور ایک دوسرے کو بخوبی پہچان سکتے ہیں تو ہمیں یہ مفروضہ قائم کرنے سے کوئی منطق نہیں روک سکتی کہ اگر وہ ایک دوسرے کی انفرادی شخصیت کو پہچان سکتے ہیں تو اپنی انفرادی شخصیت کو ضرور پہچانتے ہونگے۔ اس پر تازہ ترین تجربات بھی ہوچکے ہیں کہ بھیڑیں ایک دوسرے کی انفرادی شناخت رکھتی ہیں۔ چنانچہ یہ مقدمہ قائم کیا جاسکتاہے کہ جو کوئی اپنی انفرادی شناخت رکھتاہے وہ تصورِ انا یا ’’مطلق مَیں‘‘ کو بغیر کسی خارجی امپریشن کے ذہن میں قائم کرسکتاہے۔ ایسی صورت میں ’’ایک ایسی مطلق انا کا وجود‘‘ لازمی ہوجاتاہے جو سب کی انفرادی شناخت کی خالق، ضامن اور بطورِ خاص نمائندہ ہو۔
دلیل ِ وجودی کی سب سے بڑی کامیابی یا خاصہ یہ ہے کہ اس دلیل کے مطابق خدا کو تمام ترصفات سے پاک جان کر ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یعنی بیرونی کائنات سے کوئی تصور اس کی مثال کے لیے موجود نہیں۔ اب جب ہم قران میں دیکھتے ہیں تو ہمیں ایک بڑی عجب بات نظر آتی ہے۔ ایک طرف تو قرانِ پاک نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی مثال کسی شئے پر نہیں دی جاسکتی ہےاور دوسری طرف کہہ دیا کہ ’’اللہ زمین اور آسمانوں کا نُور ہے‘‘۔ یہ تو مثال دے دی گئی!!!! لیکن اگر ذرا گہرائی سے غور کریں تو روشنی کی مثال دی ہے جو کہ کوئی شئے نہیں ہے۔ جدید فزکس کے مطابق روشنی کے ذرّے فوٹان کا کوئی وقت نہیں گزرتا اور نہ اس کا کوئی مکان ہے۔ وہ بِگ بینگ کے وقت جس حال (Present) میں موجود تھا، آج بھی اُسی حال میں موجود ہے کیونکہ سپیڈ آف لائٹ پر کسی شئے کا وقت زیرو ہوجاتاہے اور وہ شئے ابدی حال بن جاتی ہے۔ اس کا نہ کوئی ماضی ہوتاہے اور نہ ہی کوئی مستقبل۔ وہ ایک ہی لمحے میں اپنے اول سے آخر تک موجود ہوتی ہے۔ گویا وہی اول اور وہی آخر ہوتی ہے۔ چنانچہ روشنی ٹائم لیس ہے۔ اور یوں روشنی تمام تر صفاتِ مادی سے ماروا ہے کیونکہ نہ تو اس کا کوئی ٹائم ہے اور نہ ہی مادے کی عدم موجودگی میں اس کے وجود کا کوئی ثبوت۔۔ روشنی اپنے وجود کے اظہار کے لیے مادے پر پڑتی ہے۔ اگر مادہ نہ ہو تو روشنی کے وجود کا امکان باقی رہتاہے لیکن اس کا اظہار ناممکن ہوجاتاہے۔ مادہ موجود ہو تو وہ دیکھی جاسکتی ہےاور مادہ غائب ہوجائے تو روشنی کو دیکھا نہیں جاسکتا لیکن یہ بات طے شدہ ہوتی ہے کہ روشنی پھر بھی موجود ہے۔
ایک سادہ سی مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ خلا میں تاریکی ہی تاریکی ہے۔ صرف ستارے روشن ہیں، سیارے روشن ہیں، پتھر روشن ہیں یا خلائی مسافروں کے جسم روشن ہیں۔ جہاں جہاں مادہ ہے وہاں وہاں روشنی کی موجودگی کو مظہرفطرت کے طورپر دیکھا جاسکتاہے۔ جہاں مادہ نہیں ہے وہاں روشنی نظر نہیں آتی۔ اب یہ بات کہاں جاپہنچی؟ عین دلیلِ وجودی کے دامن میں۔ یعنی روشنی وجود رکھتی ہے ہمیں یقین ہے لیکن بیرونی کائنات میں مادہ موجود نہ ہوتو اسے دیکھا نہیں جاسکتا اور وہ فقط ایک تصور ہی رہتی ہے۔ ایک ایسا تصور جس کے وجود کا یقین مادے کے بغیر ممکن نہیں۔ بعینہ اُس تصور کی طرح جو ذہن میں موجود ہے اور اس کے وجود کا یقین بیرونی دنیا میں فقط ایک پرتَو کی صورت حاصل کیا جاسکتاہے۔ بیرونی دنیا میں مادہ ہے اور اسی کا علم خداوندتعالیٰ کے وجود کے ثبوت کا علم ہے۔ اسی لیے میں کہا کرتاہوں کہ بے شک عقلیت کے ذریعے تو میٹافزکس کو نہیں پرکھا جاسکتا لیکن سائنس یعنی حسّی علوم کے ذریعے خدا تک پہنچا جاسکتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ قران نے عقلیت پر حسیّت کو واضح اور جابجا ترجیح دی اور سائنسی علوم کے حصول پر زور دیا۔ اور یہی وجہ ہے کہ قران نے کائنات کو بھی آیاتِ الٰہی کہہ کر پکارا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔