دلیل
سائیں بابا اور میرے درمیان ہمیشہ سے ایک اختلا ف رہا ہے ۔بابا دلیل کو نہیں مانتے اور میں ہر وقت ان کے سامنے دلیلیں اور تاویلیں پیش کرتا رہتا ہوں ۔مجھے ہمیشہ یہ لگتا ہے کہ وہ میرے ان دلائل کا مزاق اڑاتے رہتے ہیں ۔بابا مذاہب کو بھی نہیں مانتے ،عقیدوں کے نظام کے قائل نہیں ۔خدا کے بارے میں بھی ان کے خیالات مختلف ہیں ۔بابا دلیل اور عقل کے بھی مخالف ہیں ۔وہ صرف زندگی کو جانتے اور مانتے ہیں ۔مزاروں پر جاتے ہیں ،عرس جیسی تقریبات میں شامل ہوتے ہیں ۔رقص ،موسیقی ،شاعری،ڈرامہ،فلم ان سب کے شوقین ہیں ۔ہر حوالے سے بابا ایک آزاد انسان ہیں ۔جنت و دوزخ ،حوروں وغیرہ کو بھی وہ نہیں مانتے ۔وہ خود کہتے ہیں کہ نہ وہ مسلمان ہیں ،نہ عیسائی اور نہی ہی ہندو ہیں ۔وہ صرف اپنے آپ کو ایک چلتی پھرتی زندگی سمجھتے ہیں ۔جس کا نہ کوئی آغاز ہے اور نہ ہی انجام ۔آج شام میں اور بابا لکشمی چوک گلستان سینما کے ساتھ کشمیری چائے کا مزہ لینے چلے گئے ۔بابا سے میں نے کوئی بات چھیڑ دی ۔اس کے بعد اس بات کو سچا ثابت کرنے کے لئے کئی دلائل دے ڈالے ۔بابا میرے ان دلائل کے سامنے مسکراتے رہے ۔میں نے کہا بابا آپ جواب کیوں نہیں دیتے ان دلائل کا ۔بولے دلائل کی دنیا سے باہر نکلو گے تو مقالمے کا مزہ آئے گا ۔بابا کی مسکراہٹ سے تنگ آکر میں نے ان سے کہا بابا آج لاجک یا دلیل کی کہانی سنائیں ؟اس بات پر بابا مسکرائے اور کہنے لگے ،بچہ ،آج میں تمہیں دلیل ،عقل یا منطق کی کہانی سناتا ہوں ۔لیکن اسی دوران تم نے خاموش رہنا ہے ۔بابا نے کہا ،دلیل بھی ایک قسم کی انتہا پسندی کا نام ہے ،یہ دلیل والے بھی انتہا پسند ہی ہوتے ہیں ۔صرف مولوی انتہا پسند نہیں ہوتے ۔یہ سیکولر ،لبرل اور کمیونسٹ بھی کبھی کبھار مولویوں سے بھی آگے چلے جاتے ہیں ۔دلیل ہمیشہ انتہا پسندی کی طرف سفر کرتی رہتی ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ دلیل می زندگی نہیں ہوتی ،بنیادی طور پر دلیل موت کی مانند ہے ۔ دلیل دینے والے ہمیشہ زندگی سے محروم رہتے ہیں ۔دلیل کا مسئلہ ہمیشہ یہ رہا ہے کہ وہ کسی نہ کسی نتیجے تک پہنچنا چاہتی ہے ۔دلیل کا رحجان ہی ہمیشہ کسی نہ کسی نتیجے تک پہنچنا ہے ۔زندگی کسی حتمی یا غیر حتمی نتیجے کا نام نہیں ہے ۔زندگی ایک ایسی سرگرمی کا نام ہے جو ہمیشہ جاری و ساری رہتی ہے ۔زندگی مسلسل جاری و ساری ہے اور ناچتی گاتی ایک ایسے سفر میں ہے جس کا کوئی نتیجہ نہیں ۔زندگی کا مطلب آغاز و انجام نہیں ہے ۔۔یہ آغاز و انجام کے درمیان ناچ رہی ہے اور ان دونوں کا مزاق اڑا رہی ہے ۔اس لئے زندگی انجوائے کرنی ہے تو کسی قسم کا کوئی حتمی نتیجہ اخز کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔یہی زندگی انجوائے کرے کا بہترین انداز ہے ۔اسی طرح زندگی میں توازن رہ سکتا ہے ۔ایسا انسان جو انڈراسٹینڈنگ یا سمجھ بوجھ سے مالا مال ہے اسے کسی قسم کی دلیل یا لاجک کی ضروت نہیں ہوتی ۔اس کے لئے انڈراسٹیندنگ ہی کافی ہے ۔زندگی غیر فیصلہ کن کیفیت کا نام ہے اور انسان خوامخواہ اسے فیصلہ کن بنانے پر تلا ہوا ہے ۔بابا نے کہا آج سے پچیس سو سال قبل یونان میں ایک شخص رہتا تھا جس کا نام افلاطون تھا ۔اسے لاجک یا دلیل کا باپ مانا جاتا تھا ،آج بھی جو سب سے زیادہ دلائل دیتے ہیں ان کے بارے میں لوگ کہتے ہیں یار وہ تو افلاطون ہے ۔یونان میں افلاطون طالبعلموں کو دلیل یا لاجک پڑھاتا تھا ۔ایک دن افلاطون اپنی اکیڈمی میں طالبعلموں کو لاجک کا درس دے رہا تھا ،ایک شاگرد کھڑا ہوا اور اس نے کہا ،یہ آدمی کیا ہے؟افلاطون نے کہا آدمی دو ٹانگوں والا جانور ہے،جس کے پر نہیں ہوتے اور بس ۔افلاطون کی کلاس میں ایک ملامتی صوفی بھی بیٹھا تھا ۔افلاطون کی آدمی کے بارے میں تعریف سن کر وہ صوفی زور زور سے ہنسنے لگا ۔افلاطون نے کہا ،کیوں ہنس رہے ہو ؟صوفی بولا انسان کی تعریف جس طرح آپ نے کی ،اس کا جواب سوچ کر ہنس رہا ہوں ۔افلاطون نے کہا ،تمہارا کیا جواب ہے؟صوفی ایک مرغے کوکلاس میں لے آیا ،مرغے کے پر اتار کر بولا یہ ہے آدمی ۔اس کی بھی دو ٹانگیں ہیں اور پر نہیں ہیں ۔صوفی نے کہا یہ ہے آدمی کے بارے میں تمہری تعریف ۔صوفی نے ساتھ یہ بھی کہا کہ آدمی کی کچھ اور تعریف کرو گے تو اس کا بھی وہ جواب دے گا ۔صوفی کی باتیں سن کر افلاطون نروس ہو گیا اور خاموش رہا ۔صوفی نے افلاطون کو کہا،بھائی پریشان مت ہو ،بس اب کبھی کسی چیز کے معانی نہ بتانا ۔پتھر کے بھی معانی مت بتانا ۔کسی چیز کی کوئی تعریف نہیں ہوتی ۔زندگی کی بھی کوئی تعریف و توضیح نہیں ۔صوفی نے کہا ،زندگی کے کوئی فکس اصول نہیں ہوتے ۔زندگی بہتی جارہی ہے ،ایک لہر دوسری لہر کو تبدیل کررہی ہے ۔زندگی کی ایک تعریف کرو گے تو دوسری لہر آجائے گی ۔معانی و مقاصد کا تعلق ماضی سے ہوتا ہے ۔زندگی حال کا نام ہے ۔زندگی ہمیشہ تبدیلی کی کیفیت میں ہے اس لئے زندگی کی تعریف نہیں کی جاسکتی ۔ہر چیز ہر لمحہ تبدیل ہو رہی ہے لیکن لاجک اس چیز کے معانی و مقاصد کو فکس کردیتی ہے ۔لاجک زندگی کے خلاف ہے ۔زندگی تبدیل ہو رہی ہے ،کسی مستقل کیفیت میں نہیں رہتی جبکہ لاجک زندگی کو قیدی بناکر رکھنا چاہتی ہے ۔صوفی نے کہا جس دن انسان دلیل سے نجات پاگیا اس دن وہ حقیق طور پر آزادی پا لے گا ۔دلیل تو فوٹو گراف کی مانند ہے ۔فوٹو گراف فکس ہوتا ہے جبکہ انسان بوڑھا ہورہا ہوتا ہے ۔زندگی عقل پرستی یا عقل پسندی کا نام نہیں ،زندگی تو پر اسرار کائنات کی مانند ہے ۔بابا نے کہا بیٹا وجدان اور زندگی کا آپس میں گہرا تعلق ہے ۔اس لئے وجدانی کیفیت میں رہا کرو ۔وجدان ہی وہ آرٹ ہے جو زندگی میں خوبصورتی لاتا ہے ۔دانش مندی میں غلطی ہو سکتی ہے۔دلیل میں غلطی ہو سکتی ہے۔لیکن وجدان غلط نہیں ہو سکتا ۔کیونکہ وجدان غلطی سے مبرا ہوتا ہے ۔وجدان انسان کی الہامی خصوصیت ہے اور ہر انسان میں وجدان ہوتا ہے ۔کسی میں کم تو کسی میں زیادہ اور کوئی ساری زندگی وجدانی کیفیت کو سمجھ نہیں پاتے ۔وجدان فطرت کی طرف سے انسان کے لئے عظیم تحفہ ہے ۔وجدان براہ راست وہ شعور ہے جو انسان کو پہلے سے ہی حقیقت کا احساس دلا دیتا ہے ۔جو انسان ،تعصبات اور عقیدوں کے نظام سے پاک و صاف ہوتے ہیں یعنی جوکسی عقیدے ،کسی تعصب یا نفرت سے مبرا ہوتے ہیں اور یہ چیزیں ان کی زندگی میں مداخلت نہیں کرتی ،ان میں کمال وجدانی کیفیت ہوتی ہے ۔وجدان دلیل سے آوپر کی کیفیت کا نام ہے۔بابا کی کچھ باتیں مجھے سمجھ آرہی تھی اور کچھ نہیں۔میں نے کہا بابا لگتا ہے اب آپ وجدانی کیفیت میں آگئے ہیں اس لئے مجھے آپ کی باتیں سمجھ نہیں آرہی ۔بابا نے کہا چلو اس وجدانی اور دلائل کی کیفیت کی دنیا کو خیر باد کہتے ہیں اور یہاں سے چلتے ہیں ۔اس کے بعد میں اور بابا وہاں سے اٹھ کر ایک اور پراسرار سفر کی طرف روانہ ہوگئے ۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔