میں نے آپ لوگوں کے سوال کا سادہ لفظوں میں جواب دینے کی کوشش کی ہے
قارئین یہ بات کبھی نہ بھولیں کہ ہتھیار رکھنا ہمیشہ Offensive ثابت ہوا ہے ، ہتھیار رکھنے کی صورت میں تھوڑی سی بات پر قتل ہوتے دیکھے ہیں، خود کو بچانے کیلئے ہتھیار کا استعمال بہت کم دیکھا ہے، ہتھیار کی موجودگی آگر جان بچانے والی تھوری سچ ہوتی تو سیکورٹی فورسز جدید ہتھیار رکھنے کے باوجود اپنی جانیں بچا نہیں پاتے۔
پاکستان بنے سے پہلے ہم اور بھارت برطانوی حکومت کے کنٹرول میں تھے۔ برطانیہ اور یورپ میں صرف شکار کیلئے ہتھیار رکھنے کی آجازت تھی اور آج تک ہے۔
شکار کیلئے ہتھیار خریدنے کیلئے بھی لائیسنس کیلئے ڈپٹی کمشنر کو درخواست دینی پڑتی تھی۔ ڈپٹی کمشنر پولیس تھانہ، پٹواری اور مختیار کار سے رپورٹ منگواتے تھے۔ مثبت رپورٹ آنے کے بعد لائیسنس کیلئے درخواست دینے والے کے ساتھ اُس کے والد، بیوی، بھائی اور بیٹوں کا ڈپٹی کمشنر انٹرویو کرتا تھا صرف یہ دیکھنے کیلئے کہ شکار کیلئے بندوق لینے والے کا چال چلن کیسا ہے ؟ اُس کی مالی حالت کیا ہے ؟ کیا اُس کی فیملی کی رضامندی ہے کہ یا نہیں کہ شکار کیلئے بندوق خرید کی جائے۔
لائسنس ملنے اور بندوق خریدنے کے بعد رہائشی تھانہ میں باقائدہ اندراج کرآیا جاتا اور کارتوسوں اور گولیوں کی تعداد کا اندراج کرآنا پڑتا تھا۔
آج بھی برطانیہ، یورپی ممالک،بھارت، ایران، عرب ممالک میں صرف شکار کیلئے لائسنس بڑی مُشکل کے بعد ملتا ہے، عرب ممالک اور ایران میں تو شکار والی بندوق گھر میں نہیں رکھ سکتے تھانہ میں لاکر بنے ہوئے ہیں۔
پاکستان بن گیا، ایک صدر صاحب تھے اُن کو پیسے کا بڑا شوق تھا۔ ان کی صدارت سے پہلے اسکندر مرزا کے دور میں ہی صوبوں کی حیثیت ختم کرکے پاکستان کو ون یونٹ میں تبدیل کردیا گیا تھا۔
اُن کے پاس درہ خیبر کے کچھ کاروباری لوگ آئے انھوں نے صدر پاکستان کو کہا کہ ہم درہ خیبر میں آپ کے ساتھ مل کر اسلحہ بنانے کی فیکٹریاں لگانا چاہتے ہیں آپ نے صرف ایک SRO جاری کرنا ہے کہ پورے مُلک کے ڈپٹی کمشنر لوگوں کو اپنی “حفاظت” کیلئے اسلحہ خریدنے کیلئے لائسنس جاری کریں۔ باقی کام ہم خود کر لیں گے ! اُس وقت کے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے سمری پر اعتراض لگایا کہ عوام کو سیکورٹی فراہم کرنا تو حکومت کی آئینی ذمیداری ہے اسطرح چھوٹے اور بڑے ہتھیاروں کے لائیسنس جاری ہوئے تو مُلک بدامنی اور خانہ جنگی پھل جائے گی ؟
اسٹیلشمنٹ ڈویژن کو اندر کی کہانی کا علم نہیں تھا، صدر پاکستان نے اسٹیلشمنٹ ڈویژن کے سارے اعتراضات مُسترد کرکے حکم جاری کردیا کہ پاکستان کے ساری ڈپٹی کمشنر شکار اور اپنی “ حفاظت “کیلئے اسلحہ کے لائسنس جاری کریں۔ اس طرح حکومت پاکستان نے عوام کو سیکورٹی فراہم کرنے کی آئینی ذمیداری سے ہاتھ اُٹھا لیئے۔
اُس کے بعد درہ آدم خیل کی فیکٹریوں نے اسلحہ بنانا شروع کردیا پورے مُلک میں اسلحہ کی دکانیں کُھلنا شروع ہوگئیں اور قانونی طور پر ممنوعہ بور تک کے اسلحہ کی خرید و فروخت شروع ہوگئی اور خرید شُدہ اسلحہ نے آگ اُگلنا شروع کردیا اور گذشتہ 60 سالوں سے مُلک میں قتل و غارت گری، اسلحہ کے زور پر چوری، ڈاکہ زنیُ اور خون بہنے کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا ۔، اور جاری ہے اور جاری رہے گا !!
اپنی حفاظت کیلئے لیئے گئے اسلحہ نے پورے مُلک کو غیر محفوظ کردیا ہے، اس اسلحہ سے لاکھوں لوگ قتل ہوگئے ہیں، اُس وقت کے صدر پاکستان کے ایک SRO اور درہ آدم خیل کے کاروباری حضرات “محنت “کی وجہ سے آج قبرستانوں، اسپتالوں، تھانوں ، جیلوں اور عدالتوں کی رونقیں بحال ہیں !!!!
جن مملک میں بڑی چھان بین کے بعد اسلحہ صرف شکار کیلئے دیا جاتا ہے وہاں کی جیلیں، اسپتال، تھانے اور عدالتیں خالی اور بے رونق پڑی ہیں ۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ افغانستان کے ساتھ سرحد ملنے کی وجہ سے بھی پاکستان میں اسلحہ کی بھتات ہے، میرا ان سے سوال ہے کہ افغانستان کی سرحد تو ایران سے بھی ملتی ہے وہاں اسلحہ کی ترسیل کیوں نہیں ہے ؟
یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ کون کون اسلحہ لاتے ہیں۔ مُلک میں رعایتی نرخ پر اسلحہ کی سیل جاری ہے اور “ ہوم ڈلیوری “ کا بھی انتظام ہے۔
بات کارخانے یا سندھ میں کارتوسی پسٹل بنانے کی نہیں
بات چھوٹے ہتھیار کو حفاظت خود اختیاری تحت قانونی حیثیت دینے کی اور PPC سے بڑی سزا ختم کرکے آرمز آرڈیننس سے معمولی سزا مقرر کرنا ہے
دوسرا یہ کہ آج تک جاپان میں ایٹم بم سے اتنے آدمی ہلاک نہیں ہوئے جتنے افراد یہاں TT اور چھوٹے ہتھیار سے ہلاک ہوئے ہیں
جس سے امن امان کا پورا ڈاھانچہ ہی تبدیل ہوکر رہ گیا ہےُ
ہیروشیما میں دو ایٹمی حملوں میں دو لاکھ چھبیس ہزار لوگ لقمہ اجل بنے، ہمارے مُلک کے صرف کراچی میں ہی ٹی ٹی پسٹل سے ایک لاکھ افراد سے زیادہ قتل ہوئے ہی ہیں، گزشتہ دس سالوں میں ( 2021-2011) صرف ایک شھر کراچی سے 38732 کاریں 294628 موٹر سائیکلیں اور 884553 موبائل فون پسٹل دکھا کر چھین لیے گئے ہیں، نقدی اور زیورات اور ڈکیتی کے مزاحمت پر قتل کی تفصیلات اس میں شامل نہیں ہیں، ایوب خان کے صرف ایک اقدام نے مُلک کو مکمل طرح جرائم پیشہ افراد کے حوالے کردیا ہے۔ آگر چھوٹے ہتھیار رکھنے کی اجازت نہ ہوتی تو کیا شکار کی بندوق لے کر جرائم پیشہ افراد کراچی جیسے شھر میں موٹر سائیکلوں پر اس اسطرح دندناتے پہرتے ؟؟؟
شکارپور واقعہ کے بعد یہ بحث جاری ہے کہ APC میں جوانوں کی شھادت کیسے ہوئی ؟ ان کے سوال کا جواب یہ ہے ٹینک شکن RPG 56 لانچر بناہی اس لیئے ہے کہ ٹینک کو تباہ کرے، لانچر نے نہ صرف APC کو تباہ کیا بلکہ جوانوں کی لاشوں کو شُناخت کے قابل نہ چھوڑا۔
پورے کراچی شھر خاص طور پر لیاری،ماڑی پور روڈ، ہاکس بے روڈ پر چھوٹے چھوٹے 10/12 سال کے لڑکوں نے موبائل فون اور چھینا چھپٹی کے دوران کئی قتل کیئے ہوئے ہیں، یہ لڑکے اس خوف سے گولی چلادیتے ہیں کہ اگلا آدمی اُس کو پکڑ نہ لے،
ایک مثال :
آپ کار میں سنگنل پر رُکے ہوئے ہیں ایک دس سال کا لڑکا آپ کو پسٹل دکھاتا ہے کہ شیشہ نیچے کرو۔ آپ پسٹل کے خوف سے شیشہ نیچے کریں گے اور اپنا سب کچھ” ڈاکو بچے”کو دے دیں گے
دوسری مثال:
آپ سنگنل پر رکے ہوئے ہیں ایک جوان عمر کا ہٹا کٹا آپ کو چاکو دکھتا ہے کہ شیشہ نیچے کرو ! آپ اُس سے نہیں ڈریں گے کہ میں شیشہ نیچے نہ کروں تو یہ کیا کرلے گا ۔
ہتھیار نے طاقت کا عدم توازن پیدا کردیا ہے، ایک آٹومیٹک ہتھیار والا کسی آڑ میں چھپا ہوا دس سال کا لڑکا، پولیس، اور دیگر قانون نافد کرنے والے اداروں کی دس گاڑیوں ہر بھاری ہے ۔
ایک جائزے کے مطابق پاکستان میں 1985 سے 2014 تک سالانہ 14672 قتل ہوتے تھے 2015 سے 2020 سالانہ 8241 لوگ قتل ہوتے ہیں ۔ دبئی میں سالانہ صرف 100 افراد قتل ہوتے ہیں ۔
مُلک میں قانون نافد کرنے والوں کے علاوہ کیسی کے پاس ہتھیار نہیں ہونا چاہیئے
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں ؟
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...