دوپہر کا وقت تھا اور ہُو کا عالم تھا۔ میں اپنی لائبریری میں بیٹھا کام کر رہا تھا۔ بچے برآمدے میں کھیل رہے تھے میری چھ سالہ نواسی کمرے میں داخل ہوئی ”نانا ابو، باہر ڈاکو انکل آپ کو بلا رہے ہیں“۔ میں ہنسا اور پھر کام میں مصروف ہو گیا۔ دس منٹ بعد وہ پھر آئی اور کہنے لگی ”نانا ابو ڈاکو انکل پورچ میں کھڑے آپ کا انتظار کر رہے ہیں“۔ اب کے اسے مذاق سمجھنا مشکل تھا۔ میں باہر نکلا تو دیکھا کہ پچیس تیس سال کا ایک نوجوان، سر پر ڈھاٹا باندھے، بندوق ہاتھ میں پکڑے کھڑا ہے، ڈھاٹا آنکھوں کے اوپر اس طرح آیا ہوا تھا کہ چہرہ پہچاننا مشکل تھا۔ خوف کی ایک لہر میرے جسم میں دوڑ گئی لیکن میں نے اپنے آپ کو مجتمع رکھا اور رعب دار آواز میں کہا کہ اب تم لوگ باقاعدہ گھر سے باہر بلا کر ڈاکے ڈالو گے؟ وہ ہنسا اس کے پیلے دانت اسے اور بھی خوفناک کر رہے تھے، میں ڈاکہ ڈالنے نہیں آیا۔ آپ اخبار میں لکھتے ہیں میں آپ سے کچھ باتیں کرنے آیا ہوں۔ کیا ہم بیٹھ سکتے ہیں؟ میں اسے لائبریری میں لے آیا، ٹھنڈا پانی پلایا اور اس سے پوچھا کہ کیا کہنا چاہتے ہو؟ اس نے بندوق کتابوں کی الماری کے ساتھ کھڑی کر دی اور اطمینان کے ساتھ کرسی سے ٹیک لگا کر میری طرف دیکھنے لگا۔
آپ ڈاکوﺅں والی خبروں کو بہت اہمیت دیتے ہیں، آپکے خیال میں ہم بدترین مخلوق ہیں، ایسا ہی ہے نا؟
میں نے جواب دیا کہ اس میں شک ہی کیا ہے تم لوگ ایک گھر میں داخل ہو کر گھر والوں کو باندھ دیتے ہو، گھر کی بجلی کاٹ کر ٹارچوں کے ساتھ کارروائی کرتے ہو اور جمع پونجی لیکر چل دیتے ہو۔ کیا اس سے بدتر بھی کوئی کام ہو سکتا ہے؟
وہ ہنسا، پیلے دانت پھر نمودار ہوئے۔
معاف کیجئے، میں یہی آپ کو بتانے آیا ہوں کہ آپ یا تو چشم پوشی کر رہے ہیں یا اصل ڈاکوﺅں سے خوف زدہ ہیں اور سارا غصہ ہم نقلی ڈاکوﺅں پر نکال رہے ہیں۔
خوب! تو تم نقلی ڈاکو ہو! اصلی ڈاکو کون ہیں؟
بہت اچھا سوال کیا ہے آپ نے۔ ہم کسی ایک گھر کی بجلی ایک آدھ گھنٹے کےلئے کاٹتے ہیں اور ہم بہت بُرے ہیں آپ کا ان ڈاکوﺅں کے بارے میں کیا خیال ہے جو پورے ملک کی بجلی غائب کر دیتے ہیں، پورا ملک اندھیرے میں ڈوبا ہوتا ہے لیکن افسوس! آپکو وہ ڈاکو نہیں دکھائی دے رہے۔ ان لوگوں کے بارے میں آپ کیا کہیں گے جنہوں نے پورے پورے شہر کےلئے ایک گرڈ اور پورا پورا گرڈ صرف اپنے گھر کےلئے رکھا ہوا ہے؟ہم ایک گھر کا سامان باندھ کر لے جاتے ہیں لیکن آپ کو وہ لوگ نہیں نظر آتے جو پوری قوم کا مال اسباب باندھ کر دوسرے ملکوں کو لے گئے ہیں اور اب قوم کا وہ سامان جدہ، لندن، پیرس، نیویارک، دبئی اور میڈرڈ میں پڑا ہے! ہم اسلئے ڈاکو ہیں کہ محلات میں نہیں رہتے۔
آپکے راستوں، سڑکوں اور گلیوں پر جو لوگ دن دیہاڑے ڈاکے ڈال رہے ہیں وہ بھی آپ کو نظر نہیں آ رہے۔ کیا بظاہر شریف نظر آنےوالے وہ لوگ ڈاکو نہیں جو آپکی سڑکوں پر ریت، بجری اور سیمنٹ کے ڈھیر ڈال کر آپکا راستہ لوٹ رہے ہیں؟ اپنا گھر اور اپنی دکان بنانے کےلئے سریا اور اینٹیں سڑکوں پر رکھ دیتے ہیں؟ آپ انہیں ڈاکو کیوں نہیں کہتے؟ کیا اس سے بڑا ڈاکہ بھی کوئی ہو سکتا ہے کہ آپ سینکڑوں ہزاروں راہ گیروں اور سواریوں کا راستہ تنگ کر دیں؟ یا بند کر دیں؟ آپ ان لوگوں کو ڈاکو کا خطاب کیوں نہیں دیتے جوراستے پر شامیانے لگا کر لوگوں کا راستہ بند کرتے ہیں، کیا وہ ڈاکو نہیں جو چند سکوں کی خاطر اپنی دکان کے آگے ریڑھی والے کو کھڑا کر دیتا ہے اور پیدل چلنے والے کے حق پر ڈاکہ ڈالتا ہے؟ اور کیا فٹ پاتھ پر دکان کا سامان رکھنے والا ڈاکو نہیں ہے؟ تعجب ہے کہ یہ سارے ڈاکو آپ پر ڈاکے ڈال رہے ہیں اور دن دیہاڑے ڈاکہ ڈال رہے ہیں اور آپ صرف ہم غریب لوگوں کو ڈاکو کا خطاب دیتے ہیں!
ہم ایک آدھ بس لوٹنے کےلئے جب کسی راستے پر ناکہ لگاتے ہیں تو سارا کام ایک دو گھنٹوں میں ختم کر دیتے ہیں اور پھر ناکہ ہٹا کر عوام کےلئے راستہ کھول دیتے ہیں لیکن جو لوگ آپ کا راستہ پورے پورے دن کےلئے بند کرتے ہیں انہیں مناسب خطاب دینے کےلئے آپ کا قلم بے بس ہو جاتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہم ناکہ لگاتے ہیں اور وہ روٹ لگاتے ہیں۔ آپ لوگ ہسپتال پہنچ سکتے ہیں نہ ایئر پورٹ پر، آپکے بچے کمرہ امتحان میں نہیں پہنچ سکتے اور غیر حاضری کی وجہ سے فیل ہو جاتے ہیں، آپکی عورتیں رُکی ہوئی ٹریفک میں بچے جنتی ہیں اور مر جاتی ہیں لیکن آپ لوگ چوں کرتے ہیں نہ اُف کرتے ہیں اور ہم ایک گھنٹہ راستہ روکیں تو ڈاکو ڈاکو کے نعروں سے آسمان میں شگاف پڑ جاتے ہیں، کیا یہ انصاف ہے؟اور آپ انہیں کیوں نہیں ڈاکو کہتے جو آپکی یونیورسٹیوں اور کالجوں پر ڈاکے ڈال رہے ہیں؟ کیا وہ ڈاکو نہیں جو فیل ہونے کے بعد، یونیورسٹی سے تعلق ختم ہونے کے باوجود، ہوسٹلوں کے کمروں پر قابض ہیں؟ اور ان طلبہ کے حق پر ڈاکہ مار رہے ہیں جن کا ان کمروں پر، ان ہوسٹلوں پر حق ہے؟ آپ انہیں کیا کہیں گے جو اساتذہ پر حملے کرکے تعلیم پر ڈاکے ڈال رہے ہیں؟ آپ نام نہاد مذہبی سیاسی جماعتوں کے کردار پر کیوں نہیں لکھتے جو تعلیمی اداروں کو اپنی فتوحات کا حصہ سمجھتی ہیں؟ اور ان ڈاکوﺅں کا کیا ہو گا جو ہر سال حج کرکے، دیگیں تقسیم کرکے، ٹیکس چوری کرتے ہیں اور قومی آمدنی پر ڈاکہ ڈالتے ہیں؟ اور کیا وہ ڈاکو نہیں جو جعلی دوائیں بنا کر اور بیچ کر صحت پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں؟ کیا معصوم بچوں کو ملاوٹ والا دودھ پلانے والے ڈاکو نہیں؟ ناجائز منافع کھانے ولے، ذخیرہ اندوزی کرنے والے اور سودا بیچتے وقت جھوٹ بولنے والے بھی تو ڈاکو ہی ہیں لیکن انہیں آپ حاجی صاحب کہتے ہیں!
حیرت ہے کہ اپنے بندے کو صوبے کی بجلی کمپنی کا سربراہ بنانے کےلئے ووٹ پر ڈاکہ کسی اور نے ڈالا اور خطاب ہمیں مل رہے ہیں! کاش آپ لکھنے والے انصاف سے کام لیتے۔
میں دم بخود ہو کر سن رہا تھا اور پگڑ میں چھپا ہوا چہرہ مسلسل بول رہا تھا۔ بندوق کتابوں والی الماری کے ساتھ کھڑی تھی، میری نواسی کمرے میں داخل ہوئی اور بندوق کو چھیڑنے لگی، میں نے منع کیا تو کہنے لگا، بندوق خالی ہے، بچی کو کھیلنے دیں۔ پھر اس نے جیب سے پچاس روپے کا مڑا مڑا بوسیدہ نوٹ نکالا اور میز پر رکھ دیا۔
میں خالی ہاتھ آیا ہوں، میں ایک غریب ڈاکو ہوں، آپ میری طرف سے ان روپوں سے اپنی نواسی کےلئے آئس کریم منگوا لیجئے۔ اسکی آواز بھرا گئی۔