ریاستی اہلکاروں کی نااہلی دیکھئے کہ ان کے سامنے قومی شاہراہیں بازاروں میں تبدیل ہو رہی ہیں لیکن اُن کی آنکھیں دیکھنے سے قاصر ہیں۔ اُن کے ہونٹ جیسے سِل گئے ہیں اور کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ٹیکس بچا کر قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والے تاجر، کھنکتے سکّوں کی چمک سے سرکاری اہلکاروں کی استعداد کو مفلوج کر رہے ہیں۔ کسی کو پرواہ نہیں کہ چونچوں میں جو چوگ ڈالی جا رہی ہے وہ جائز ہے یا ناروا!
نااہلی کی صرف ایک مثال دیکھئے اور اس پر سارے ملک کو قیاس کیجئے۔ راولپنڈی سے کوہِ مری جانے والی قومی شاہراہ ملک کی اہم ترین شاہراہوں میں شمار ہوتی ہے لیکن آپ کنونشن سنٹر سے جیسے ہی مری کی طرف روانہ ہوتے ہیں، چھ سات منٹ کی ڈرائیو کے بعد ہی یہ قومی شاہراہ راجہ بازار میں تبدیل ہوتی نظر آتی ہے، شاہراہ کے دونوں طرف دکانیں اس طرح تعمیر کی گئی ہیں کہ وہ بالکل شاہراہ کے اوپر ہیں۔ سامان ڈھوتی سوزوکی ویگنیں، گاہکوں کی کاریں اور موٹر سائیکل، دکانوں کے سامنے تجاوزات، سب کچھ یوں گڈمڈ نظر آتا ہے جیسے بادامی باغ یا پیر ودھائی کا اڈہ یہیں منتقل ہو گیا ہو۔ چند کلو میٹر دور بیٹھے ہوئے سی ڈی اے کے اہلکار، ضلعی انتظامیہ کے جتھوں کے جتھے، سب اس صورتحال سے بے نیاز ہیں جیسے قومی شاہراہ کا یہ ٹکڑا اُنکی ذمہ داری کی سرحدوں سے باہر ہے، حالانکہ بچے کو بھی اس صورتِ حال کا حل معلوم ہے۔ بازار کے سامنے سروس روڈ بنانی ہے اور سروس روڈ اور شاہراہ کے درمیان دیوار تعمیر کرنی ہے۔
کوئی مہذب ملک اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ عوامی راستوں میں رکاوٹیں ڈالی جائیں لیکن ہم اتنے زیادہ مہذب ہیں کہ کسی بھی شاہراہ کے کسی بھی حصے کو اپنے ذاتی استعمال کےلئے بند کر سکتے ہیں۔ شادی ہو یا موت، سائبان شاہراہ پر لگائے جائینگے۔ مکان تعمیر کرنا ہے تو ریت بجری اور سریا شاہراہ کے اوپر ڈھیر کئے جائینگے۔ دکان کھولنی ہے تو اُس کا منہ شاہراہ کے کنارے سے بالکل جُڑا ہوا ہو تاکہ گاہک کی گاڑی شاہراہ کے اوپر پارک کی جائے۔ کوئی پابندی ہے نہ قانون، ضابطہ ہے نہ کسی کا خوف۔ نوکر شاہی سبز پتوں کا پانی پی کر خوابِ خرگوش کے مزے لے رہی ہے۔ رہا وہ زرِکثیر جو نوکر شاہی پر صرف ہو رہا ہے تو وہ ٹیکس دہندگان کے خون اور پسینے سے اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ وہی بدبخت ٹیکس دہندگان جن کی شاہرائیں راجہ بازاروں میں تبدیل ہو رہی ہیں!
لیکن اس میں تعجب کیسا! اس انوکھے دیس میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ یہاں عجائبات کا امکان وسیع سے وسیع تر ہو رہا ہے۔ قومی شاہراہوں کا کیا رونا کہ قومی سطح کے رہنما میاں نواز شریف تجویز کرتے ہیں کہ سیاچن سے پاکستان رضا کارانہ طور پر اپنی فوج واپس بُلا لے۔ کوئی پوچھے کہ یہی کرنا تھا تو سالہا سال تک اربوں کھربوں روپے کیوں صرف ہوتے رہے؟ اور کیا ڈاکو کو گھر سے نکالنے کا یہی طریقہ رہ گیا ہے کہ گھر کا مکین اپنا سامان اٹھائے اور گھر سے باہر نکل جائے؟ سیاچن پر مسلح واردات پاکستان نے نہیں بلکہ بھارت نے کی تھی۔ پاکستان نے کارروائی مجبوراً کی تھی۔ اگر وہاں سے فوجیں واپس آنی ہیں تو پہلے بھارت کی فوج واپس آنی چاہئے۔
مردِ مومن مردِ حق جنرل ضیاالحق نے بھی بھارت کی دلجوئی کرتے ہوئے کہا تھا کہ سیاچن پر تو گھاس کا تنکا تک نہیں پیدا ہوتا۔ حب الوطنی کا کیا اصول دریافت کیا تھا آپ نے! گویا ملک میں جہاں جہاں گھاس نہیں اُگتی، اُن حصوں کو دشمن کے حوالے کر دیا جائے! یہ درست ہے کہ دفاع پر ہمارے وسائل بے تحاشا خرچ ہو رہے ہیں اور ہماری غربت اسکی متحمل نہیں ہو سکتی لیکن بھارت کا جنگی جنون اور بے پناہ تیاریاں پاکستان کو اپنے دفاع پر مجبور کرتی ہیں، پانچ گنا بڑے ملک کو اتنا شدید احساسِ کمتری ہے کہ سیاچن کی چوٹی پر چڑھ کر بیٹھ گیا ہے، اسلحہ کے انبار لگا دئیے ہیں اور ساتھ ساتھ آہ و زاری بھی ہو رہی ہے اور واویلا بھی مچا رہا ہے۔ ایسے میں پاکستان اس محاذ سے پیچھے ہٹ جائے تو اسے اقدامِ خودکشی ہی کہا جا سکتا ہے!
ہماری بدقسمتی ہے کہ کچھ لوگ روشنی اور چاندنی تو اِس ملک کی استعمال کرتے ہیں لیکن دلوں میں محبت کسی اور کی بستی ہے۔ سعودی عرب میں پاکستانیوں نے انتہائی درد سے بتایا کہ ایک بڑے پاکستانی سیست دان سرمایہ دار نے وہاں کارخانہ لگایا لیکن بمشکل ہی کسی پاکستانی کو وہاں ملازمت دی جاتی ہے۔ پالیسی یہ بنائی گئی ہے کہ بھارتیوں کو نوکریاں دی جائیں۔ تعجب اور افسوس ہوتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ بستی پاکستان میں بسائی جاتی ہے لیکن نام اُس بستی پر رکھا جاتا ہے جسے بھارت میں چھوڑ آئے تھے۔ سچ کہا تھا اقبال نے
براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہوس سینوں میں چُھپ چُھپ کر بنا لیتی ہے تصویریں
بات قومی شاہراہوں سے چلی تھی لیکن قومی لیڈروں کی طرف مُڑ گئی۔ تاہم شاہراہوں اور لیڈروں میں کم از کم ایک مماثلت ضرور ہے اور وہ یہ کہ دونوں پر قانون کا نفاذ لازم ہے۔ آج ہماری شاہراہیں لاقانونیت کا نمونہ ہیں، اس لئے کہ انہیں قانون کی حدود سے باہر کر دیا گیا ہے۔ تجاوزات روکنے کا قانون، ٹریفک کے قوانین غرض شاہراہیں تمام قوانین سے آزاد ہو گئی ہیں۔ حادثات میں اموات کی شرح کئی دوسرے ملکوں سے زیادہ ہے۔ قصبوں اور بستیوں کا کیا شمار کہ بڑے شہروں میں رات کو گاڑیاں بتیوں کے بغیر چلائی جا رہی ہیں۔ یہی حال قومی سطح کے رہنمائوں کا ہے۔ ان پر کسی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ سیاسی جماعتیں گدیاں بن گئی ہیں، آخر کون سا قانون ہے جو پارٹیوں کو سربراہوں کی اولاد کی ملکیت میں منتقل کر رہا ہے؟ پشاور سے لےکر ڈی آئی خان تک، گجرات سے لےکر لاہور تک، ملتان سے لے کر لاڑکانہ تک، سیاسی پارٹیاں مکانوں اور دکانوں کی طرح نسل در نسل وراثت کی شکل اختیار کر گئی ہیں! قانون تو یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابات ہوں اور رہنمائی چند ہاتھوں میں مرتکز نہ ہو لیکن نون سا قانون اور کہاں کا قانون!
دوسرے قوانین سے بھی لیڈرانِ کرام کی فوج ظفر موج مستثنیٰ ہے۔ ٹیکس کے قوانین، اسلحہ کے قوانین ٹریفک کے قوانین، بنکوں کے قوانین، صنعت و حرفت کے قوانین، بین الاقوامی سفر کے قوانین، درآمد اور برآمد کے قوانین، تھانے اور کچہری کے قوانین، الیکشن کے قوانین‘ غرض جتنے بھی قوانین موجود ہیں، اُن کا نفاذ لیڈروں پر اور ان کی آل اولاد پر نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ لاقانونیت شاہراہوں پر زیادہ ہے یا سیاست میں زیادہ ہے، رہے عوام تو وہ بے چارے ان درختوں کی طرح ہیں جو شاہراہوں کے کنارے چپ چاپ لاقانونیت کو رات دن دیکھ رہے ہیں اور بے بس ہیں۔ ظہور نظر کا شعر یاد آ گیا
شاہراہیں پا بریدہ راہگیروں سی لگیں
صورتیں اشجار کی مجھ کو اسیروں سی لگیں