ڈاکہ اور ولی کا آٹا۔۔
ہری پور شہر سے تین میل مغرب کی جانب حسن ابدال روڈ پر پنیاں کا گاؤں آباد ہے۔
وہاں کوئی زمیندار کھوتی پر دوبورا جسے ہم مقامی زبان (چھٹ) کہتے ہیں گندم پسوا کر آٹا لا رہا تھا اورُلٹ گیا۔ہمارے ایک معزز بزرگ دوست جو علاقے کے بااثر زمیندار اور خوانین طبقہ سے تعلق رکھتےتھے۔بڑے خوش مذاق اور ہر دل عزیز تھے۔لندن علاج کے لئے جا رہے تھے۔مجھے آطلاع ملی تو تیمارداری کیلئے چلا گیا۔
وہاں کچھ ان کے دیگر ذاتی دوست اور معززین تشریف رکھتے تھے۔میں خان صاحب کے بچوں کا دوست اور ہم عمر تھا مجھے دیکھتے ہی ہنس پڑے۔اوئے گجرا کھوتی باندھ آئے ہو۔میں نے ادب سے کہا جی آپ کے حجرے کے باہر ہے اندر لے آؤں ۔اس کا پاسپورٹ بھی لے آیا ہوں۔ سارے لوگ ہنس پڑے کہ پاسپورٹ کس لئے۔
تو میں نے کہا بیماری تو خان صاحب کا بہانہ ہے۔ملکہ کے محل پر ڈاکے کا پروگرام ہے۔یہ بات علاقے میں مشہور تھی کہ خان صاحب کے بزرگ سکھوں کے زمانے میں پنڈی تگ ڈاکہ زنی کرتے تھے۔خان صاحب نے ہنستے ہوئے ایک واقعہ سنایا۔
کہ ہمارے بزرگ پنیاں والے زمیندار کی چھٹ لوٹ کر گھر لے آئے۔
نوکرانیوں نے بورا کھول کر پرات میں آٹا انڈیل کر پانی ڈالا تو دھواں ہی دھواں اٹھنا شروع ہو گیا اور ساتھ شاں شاں کی آوازیں۔
عورتوں نے واویلا مچا دیا اور ساتھ کوسنا شروع کردیا۔
ہائیے ہائے کسی بزرگ یا ولی کا آٹا تھا۔آگ اور دھواں۔
آلللہ کا لاکھ شکر ہے خان بابا صاحب خود آٹا لوٹتے ہوئےآگ سے بال بال بچ گئے۔آٹا سمجھ کر خان صاحب چونے کا بورا لوٹ لائے۔
اچھا ہوا حضرت سخی شہباز قلندر ماواں نوں بچڑے دیتے دیتے خود محفوظ رہے۔اور خارجی خود کش دہشت گرد جنت کے تمام سیکورٹی حفاظتی حصار توڑ تآڑ کر جنت الفردوس میں کود گیا۔مزاروں کی سیکورٹی مزید سخت کرنے کی ضرورت ہے۔
لوگوں کا کیا ہے وہ تو کھلے بازار میں بھی مارے جا رہے۔
جب ہارورڈ آکسفورڈ اور کیمرج کے پڑھے لکھے وزیراعظم یونیورسٹیوں کے پی آیچ ڈی مزاروں پر چادریں چڑھائیں اور مقالے پڑھیں تو عام زائرین کا تو معصوم ہیں ۔زندہ پیر تو اسمبلیوں اور پروٹو کول میں پھرتے ہیں۔