بھارت کی صدر تو وہ 2007ءمیں منتخب ہوئی لیکن اس کا سیاسی کیرئر طویل ہے اور چالیس سال پر محیط ہے۔ تین سال وہ راجستھان کی گورنر رہی۔ پانچ سال لوک سبھا کی ہائوس کمیٹی کی سربراہ رہی۔ دو سال راجیہ سبھا کی ڈپٹی چیئرمین رہی اور پورے اٹھارہ سال مہاراشٹر کی صوبائی حکومت میں مختلف محکموں کی وزیر رہی۔
ایم اے کی اور بعد میں قانون کی ڈگری حاصل کرنےوالی پرتیبھا پٹیل 2007ءکے صدارتی مقابلے میں کانگرس اور دوسری اتحادی پارٹیوں کی مشترکہ امیدوار تھی۔ اہم بات یہ تھی کہ بائیں بازو نے بھی اُسکی حمایت کی تھی۔ بھارتی سیاست میں دلچسپی رکھنے والوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ بایاں بازو وہاں کس قدر طاقتور ہے۔ پرتیبھا پٹیل صدارتی مقابلہ جیت گئی اور بھارت کی پہلی خاتون صدر بن گئی۔
1951ءکے ایکٹ کی رو سے بھارت کے صدر کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی گذارنے کےلئے ایک سرکاری گھر بنوا سکتا ہے، اس ایکٹ میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ یہ گھر کہاں ہو گا۔ زیادہ تر بھارتی صدور نے دہلی ہی میں گھر بنوائے اور ریٹائرمنٹ کے بعد وہیں رہے۔
صدر پرتیبھا پٹیل نے اپنے آبائی صوبے مہاراشٹر کے شہر پونا میں سرکاری رہائش گاہ بنوانے کا فیصلہ کیا۔ قانونی طور پر اس میں کوئی رکاوٹ نہ تھی۔ ایکٹ کی رُو سے اُسے اسکی اجازت تھی۔ پونا میں زمین جہاں یہ گھر بننا تھا محکمہ دفاع نے دی۔ لیکن بات اُس وقت بگڑی جب سابق فوجیوں کی ایک تنظیم نے میڈیا میں احتجاج کیا۔ تنظیم کی دلیل یہ تھی کہ اس زمین پر اُن بیوائوں کا حق ہے جن کے شوہروں نے بھارت کے دفاع کےلئے جانیں قربانیں کیں۔
آپ کا کیا خیال ہے کہ بھارتی صدر کا ردعمل کیا تھا؟ قانونی طور پر اُس نے کوئی غلط کام نہیں کیا تھا۔ جہاں مکان بنانے کی تیاری ہو رہی تھی، وہاں بیوائوں کے گھر بننے کا کوئی منصوبہ، کوئی نقشہ، کوئی پروگرام نہ تھا۔ احتجاج کرنےوالے اگر عدالت کا دروازے کھٹکھٹاتے تو یقیناً ہار جاتے۔
بھارتی صدر ایک گھر، ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی گذارنے کےلئے بنوا سکتا ہے یا بنوا سکتی ہے اور یہ گھر بھارت میں کہیں بھی بنوایا جا سکتا ہے لیکن آپ بھارتی سیاست کی پختگی اور بھارتی سیاست دانوں کی اپنے عوام کے ساتھ ہم آہنگی دیکھئے کہ پرتیبھا پٹیل نے اعلان کیا ہے کہ وہ اب یہ گھر نہیں بنوائے گی۔ یہ بھارتی میڈیا کی فتح ہے نہ سابق فوجیوں کی تنظیم کی سرخروئی ہے، یہ اگر کامیابی ہے تو بھارت کی سیاست کی کامیابی ہے اور اس سے بھارتی اہل سیاست کا وہ رویہ ظاہر ہوتا ہے جس کی وجہ سے آج بھارت پوری دنیا میں ”سب سے بڑی جمہوریت“ کہلاتا ہے اور ہر جگہ اُسے پاکستان پر فوقیت دی جاتی ہے۔
ہم اپنی خفّت مٹانے کیلئے لاکھ واویلا کریں کہ بھارت میں کروڑوں شودر غیر انسانی زندگی بسر کر رہے ہیں، بھارت میں اقلیتوں کےساتھ بدسلوکی ہو رہی ہے۔ بھارت پاکستان، سری لنکا، بنگلہ دیش اور نیپال جیسے پڑوسیوں پر دھونس جماتا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہمارے سیاسی ریکارڈ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جسے ہم بھارتی صدر کے اس اقدام کے مقابلے میں پیش کر سکیں۔ پورا ملک چیخ رہا ہے کہ سوئٹزر لینڈ سے قوم کا مال واپس لایا جائے، وزیراعظم حکومت میں رہنے کا استحقاق کھو بیٹھے ہیں لیکن صدر پر کوئی اثر ہوتا ہے نہ وزیراعظم کے کان پر جُوں رینگتی ہے۔
قانون کے معاملے میں ہمارا رویہ اسی ایک مثال سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ ایک سابق آرمی چیف مہران بنک سکینڈل کے سلسلے میں عدالت عظمیٰ میں حاضر ہوتے ہیں تو اظہار افسوس کے بجائے دھڑلے سے اعلان کرتے ہیں کہ تیسری بار عدالت میں پیش ہو کر انہوں نے ہیٹ ٹرک مکمل کی ہے!
ایوب خان اور بھارتی وزیراعظم دونوں تاشقند میں پاک بھارت کانفرنس میں شریک تھے۔ شاستری کا وہیں انتقال ہو گیا۔ وفات کے وقت اس کا بیٹا بمبئی کے ایک بنک میں عام سا ملازم تھا، اسکے مقابلے میں ایوب خان کے بیٹوں نے جو کچھ کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے جسے مٹایا نہیں جا سکتا۔ آپ بلاول، حمزہ اور مونس الٰہی کا سیاسی ”کیرئیر“ دیکھئے اور اسکے مقابلے میں راہول گاندھی کے کیرئیر پر نظر ڈالئے، وہ آٹھ سال سے سیاست میں ہے لیکن کانگرس کا ”چیئرمین“ ہے نہ اس پر مالی بددیانتی کا کوئی مقدمہ یا الزام ہے اور نہ ہی کوئی عورت ملک بھر میں پریس کانفرنسیں کرتی پھرتی ہے کہ میں راہول کی قانونی بیوی ہوں اور یہ رہا میرا نکاح نامہ!
یہ موازنہ اُس بھارت سے ہے جو اسی خطے میں واقع ہے اور ہمارا حریف ہے، رہے ترقی یافتہ ممالک تو اُنکے ساتھ موازنے کا ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ اُن ملکوں میں تو ریاست اور حکومت کے سربراہ اُس معیارِ زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتے جس سے ہمارے صدر، وزیراعظم اور صوبوں کے سربراہ لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ مارگریٹ تھیچر کھانا اپنے ہاتھوں سے پکاتی تھی۔ کلنٹن کٹہرے میں کھڑا کیا گیا۔ رواں ہفتے کی خبر ہے کہ آسٹریلیا کے ایک وزیر نے سرکاری کریڈٹ کارڈ سے کھانا کھایا، وزیراعظم نے اُسے فارغ کر دیا ہے۔
ہمارے ہاں ریلوے کے ایک وزیر نے کہا تھا کہ میں کیوں استعفیٰ دوں؟ کیا میں ڈرائیور تھا؟ گویا سزائیں صرف ڈرائیوروں کےلئے ہیں۔ وزیراعظم نے شکوہ کیا ہے کہ عدلیہ مجھے چپڑاسی سمجھتی ہے۔ گویا قانون کی نظر میں وزیراعظم اور چپڑاسی میں فرق ہونا چاہئے۔ ماضی میں پولیس نے ایک معروف سیاست دان کے گھر کا رُخ کرنا چاہا تو کہا گیا کہ یہ مالو مصلّی کا گھر نہیں ہے۔ گویا مالو مصلّی ہی سے حساب کتاب کیا جا سکتا ہے اور کسی سے نہیں!
تعجب ہے کہ ہمارے اہل مذہب اُن احادیث کا پرچار تو کرتے ہیں جن کی پیش گوئیاں ابھی ظہور پذیر ہونی ہیں لیکن اللہ کے رسول کے وہ فرمان انہیں یاد نہیں جن کی سچائی کا آج ہم سامنا کر رہے ہیں۔ اللہ کے رسول نے بتا دیا تھا کہ جو قومیں اپنے طاقتوروں کو چھوڑ دیتی ہیں اور کمزوروں کو قانون کے شکنجے میں جکڑتی ہیں وہ تباہ ہو جاتی ہیں۔ آج پوری دنیا ہماری تباہی کی گواہ ہے اور ہم سے عبرت پکڑ رہی ہے۔ ہماری ٹیکسٹائل کی صنعت کا چالیس فیصد حصہ بنگلہ دیش میں منتقل ہو چکا ہے۔ اسکے نتیجہ میں صرف پنجاب میں دو لاکھ خاندان بے روزگار ہوئے ہیں اور فاقے کر رہے ہیں۔ آٹھ سو ارب روپے سے زائد کا سرمایہ ملائیشیا منتقل ہو چکا ہے۔
ہمارے ڈاکٹروں، انجینئروں اور سائنس دانوں کی اکثریت مغربی ملکوں کے سفارت خانوں کے سامنے ہاتھوں میں پاسپورٹ پکڑے قطاروں میں کھڑی ہے۔ سیاسی اور سفارشی بھرتیوں سے قومی ائر لائن شہید ہو چکی ہے۔ نااہلی کی انتہا یہ ہے کہ ناقابل پرواز جہازوں کو روکنے والا کوئی نہیں۔ ریلوے کی زمینوں پر جن جرنیلوں نے قانون کو پائوں تلے روند کر گالف کلب بنوائے وہ آج بھی ٹیلی ویژن پر لوگوں کو وعظ سُنا رہے ہیں۔ عقیدے اور زبان کی بنیاد پر بے گناہوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔
اس صورت حال کو ہم تباہی کا نام نہ بھی دیں تو ریت میں سر چھپانے سے حقیقت بدل نہیں سکتی۔ جس دجّال نے ابھی آنا ہے اُسکے بارے میں کتابیں لکھی جا رہی ہیں اور مفت تقسیم ہو رہی ہیں لیکن جو ہمارے درمیان چل پھر رہے ہیں ہیں ان کی کسی کو پرواہ نہیں۔