(Last Updated On: )
موجودہ حکومت جہاں ایک طرف مہنگائی، کرپشن اور بیڈ گورننس کے نت نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے وہاں ہفتہ رواں کے دوران پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران ایک ہی وقت میں ریکارڈ تعداد میں بل پاس کروا کے موجودہ حکومت نے عالمی ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔ حکومت کو چاہئیے کہ اپنے اس ریکارڈ کے اندراج کے لیے گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ والوں سے رابطہ کرے تاکہ حکومت کے اس کارنامے کو عالمی سطح پر بھی پذیرائی حاصل ہو سکے۔ پاس کروائے جانے والے بلوں کی تعداد بھی مختلف ذرائع سے مختلف ہی سامنے آ رہی ہے کوئی ستر بل بتا رہا ہے کوئی ساٹھ اور کوئی تینتیس بل بتا رہا ہے جن کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظوری لی گئی ہے۔ جس طرح عجلت کے ساتھ اور پارلبمانی روایات کے برعکس بغیر کوئی بحث کروائے جس طرح یہ سارے بل منظور کروائے گئے ہیں، منظور کرائے جانے والے بلوں کی اصل تعداد شائد حکومتی اراکین کو بھی معلوم نہ ہو۔ گیارہ نومبر کو بھی پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کیا گیا لیکن اتحادیوں کا سرد رویہ دیکھ کر حکومت کو مشترکہ اجلاس ملتوی کرنا پڑا لیکن پھر یکایک اتحادی بھی مان گئے اور حکومتی جماعت کے ناراض اراکین اسمبلی بھی بل کی حمایت میں ووٹ ڈالنے کے لیے تیار ہو گیے۔حکومتی جماعت کے ایک رکن عامر لیاقت نے اس سارے انتظام کا بھانڈہ بیچ چوراہے میں بہرحال یہ کہہ کر پھوڑ دیا کہ ہم آئے نہیں بلکہ لائے گیے ہیں۔ ایک حکومتی رکن کا یہ کہنا کسی حکومت کے لیے نہایت شرمندگی کا باعث ہونا چاہئیے لیکن وزیراعظم اورحکومتی اراکین اپنی اس کامیابی پر پھولے نہیں سما رہے۔
حکومتیں اپنی عددی اکثریت کی بنا پر قانون سازی کیا ہی کرتی ہیں اس میں نہ تو حکومتی جماعت کی جیت ہوتی ہے اور نہ اپوزیشن جماعتوں کی ہار۔ کسی بھی قسم کی قانون سازی کے لیے اپوزیشن سے مشاورت اور اپوزیشن کے نقطعہ نظر اور تجاویز کو قانون سازی میں مدنظر رکھا جاتا ہے کیونکہ کسی بھی قانون سازی کا براہ راست اثر ملک کے عام عوام پر پڑتا ہے اور جس طرح حکومت عوام کی نمائیندہ ہوتی ہے اسی طرح اپوزیشن بھی عوام ہی کی نمائیندگی کرتی ہے اس لیے قانون سازی کے لیے حکومت اور اپوزیشن برابرکی فریق سمجھی جاتی ہیں۔ پاکستان میں قانون سازی کے لیے اپوزیشن سے مشاورت اور اپوزیشن کی تجاویز کو قانون سازی میں شامل کیے جانے کی روایت موجود رہی ہے۔ اٹھارویں ترمیم سے پہلے اس وقت کی حکمران جماعت پیپلزپارٹی نے اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن سمیت اس وقت کی پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتوں کے ساتھ ایک سال سے زائد عرصے تک مشاورت کی اور تمام جماعتوں کے اتفاق رائے کے بعد اٹھارویں ترمیم کو ایوان میں لایا گیا۔ کسی بھی قانون سازی کو متنازعہ ہونے سے بچانے کے لیے بہتر اور مروجہ طریقہ کار یہی ہوتا ہے کہ اپوزیشن کی مشاورت سے اسے اتفاق رائے سے منظور کروانے کی کوشش کی جائے لیکن جہاں نیک نیتی نہ ہو اور کوئی قانون کسی ذاتی فائدے یا کسی ایک شخص کی مرضی و منشا کے مطابق بنانا مقصود ہو تو پھر اسی طرح کی عجلت سے کام لیا جاتا ہے اور پارلیمانی روایات کو اسی طرح پامال کیا جاتا ہے جیسے حالیہ مشترکہ اجلاس کے دوران بلوں کی منظوری کے موقع پر کیا گیا۔
حالیہ منظور شدہ بلوں میں کم از کم تین بل ایسے ضرور ہیں جو شدید متنازعہ ہیں جن پر اپوزیشن جماعتیں اور عام عوام شدید تخفظات کا شکار ہیں۔ ان بلوں میں ایک بل انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال سے متعلق ہے جس پر الیکشن کمیشن بار بار اورہر فورم پر اپنے شدید تخفظات کا اظہار کرتا رہا ہے۔ حکومتی بدنیتی کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ملک میں انتخابات کرانے کے ذمہ دار ادارے الیکشن کمیشن کے شدید اعتراضات کے باوجود حکومت نے الیکشن اصلاحات کے بل کو اپنی مرضی ومنشا کے مطابق بڑی ڈھٹائی اور دھونس کے ساتھ منظور کروا لیا ہے۔ بل کی منظوری کے بعد ہونے والے قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں الیکشن کمیشن کے نمائیندے نے ایک بار پھر یہی موقف اپنایا ہے کہ اگلے انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے کروانا ممکن نہیں ہیں اور بجا طور پر توقع کی جا رہی ہے کہ اپوزیشن جماعتیں اور الیکشن کمیشن الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے معاملے پر سپریم کورٹ سے رجوع کریں گی۔
منظور کروایا جانے والا دوسرا متنازعہ بل بھارتی جاسوس کلبھوشن کو اپیل کا حق دینے سے متعلق ہے جس کے بارے میں عالمی عدالت انصاف کی آبزرویشن موجود ہے لیکن کہا جا رہا ہے کہ اس معاملے میں اتنی جلدی کی ضرورت نہیں تھی بلکہ بھارت کے ساتھ تعلقات کے تناظر میں اس معاملے کو سست روی کا شکار کیا جا سکتا تھا۔ ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں کئی ممالک نے یا توعالمی عدالت کے فیصلوں کو مکمل طور پر ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا یا پھر اس پر عملدرآمد میں بڑی حد تک سستی سے کام لیا گیا۔ عمران خان تو ویسے بھی اپنے اپوزیشن کے دنوں میں اس وقت کی حکومت پر کلبھوشن کے لیے نرم گوشہ رکھنے کا الزام لگاتے رہے ہیں لیکن اپنے دور حکومت میں ان کا بس نہیں چل رہا کہ ابھی نندن کی طرح کلبھوشن کو بھی جلد از جلد بھارت کے حوالے کر دیں۔ منظور ہونے والا تیسرا متنازعہ بل سٹیٹ بینک کی خود مختاری سے متعلق ہے جس کے بارے بتایا جا رہا ہے کہ اس بل کی منظوری کے بعد گورنر سٹیٹ بینک اس حد تک خود مختار ہو چکے ہیں کہ پارلیمان کو بھی جوابدہ نہیں رہے اور اس سارے معاملے کوآئی ایم ایف کی غلامی قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ اب سٹیٹ بینک کے معاملات پر ریاست کا اختیار بس واجبی سا ہی باقی رہ گیا ہے۔ ان بلوں کے علاوہ بھی بہت سارے بل منظور کروائے گیے ہیں لیکن زیادہ اعتراض ان تین بلوں پر ہی سامنے آیا ہے۔
الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ کے حق کو لے کر بہت زیادہ شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ عمران خان الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ کو استعمال کر کے اپنی اگلے پانچ سال کی حکومت کی راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں۔ اس شبے کو تقویت اس بات سے بھی ملتی ہے کہ جس طرح الیکشن کمیشن کے شدید ترین اعتراضات کے باوجود عمران خان الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے لیے بضد ہیں وہ ظاہر کرتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا بل آئین سے متصادم ہے اور یہ معاملہ اگر سپریم کورٹ میں جاتا ہے تو سپریم کورٹ اس پر کیا فیصلہ کرتی ہے، الیکشن کمیشن کے ابتدائی ردعمل نے یہ بات بالکل واضح کر دی ہے کہ اگلے انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے ہونے اگر ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہیں۔ سب سے پہلے تو الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو خریدنے کے لیے بڑی خطیر رقم درکار ہے، کہا جا رہا ہے کہ شائد پچیس تیس ارب کی رقم ان مشینوں کی خریداری کے لیے درکار ہے۔ یہاں سوال ہے کہ کیا بجٹ میں ان مشینوں کی خریداری کے لیے اتنی بڑی رقم مختص کی گئی ہے جس کا جواب نفی میں ہے۔ تو اگربجٹ میں رقم ہی نہیں ہے تو ان مشینوں کی خریداری کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے؟ اور سب سے بڑھ کر جب ملکی معیشت شدید ترین بحران کا شکار ہے اتنی بڑی رقم ایک شخص کی ضد پوری کرنے کے لیے خرچ کرنا کیا ایک دانشمندانہ عمل ہو گا جبکہ انتخابات کرانے کا ذمہ دار ادارہ اس کی شدید مخالفت بھی کر رہا ہے۔
الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے انتخابات کروانے سے پہلے کوئی چودہ قسم کے مراحل ہیں جن سےمرحلہ وار گزرے بغیر الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے انتخابات کروائے ہی نہیں جا سکتے۔ ان مشینوں کی پائلٹ ٹیسٹنگ بہت ضروری ہے، اس کے بعد مرحلہ وار ان مشینوں کا استعمال کیا جانا چاہئیے۔ پہلے بلدیاتی انتخابات میں ان مشینوں کا استعمال کیا جائے، پھر ضمنی انتخابات اور پھر اگر اچھا رزلٹ ہو تو قومی انتخابات میں ان مشینوں کا استعمال کیا جائے۔ ویسے بھی جس ملک کا ایف بی آر کا ڈیٹا ہیک ہو چکا ہو، جہاں آر ٹی ایس کے بیٹھ جانے کی روایت موجود ہو وہاں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے ہونے والا الیکشن بہت بڑا بلنڈر ثابت ہو سکتا ہے۔ اگلے عام انتخابات میں اگر بغیر ٹیسٹنگ اور دوسرے ضروری مراحل سے گزرے بغیر الیکٹرانک ووٹنگ مشین جھونک دی گئی اور رزلٹ توقع کے مطابق نہ نکلا تو وہ یُدھ پڑے گا جو کسی سے سنبھالا نہ جائے گا۔ اپوزیشن نے تو ابھی سے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے ہونے والے انتخابات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ بھارت کو الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں پر جانے میں بیس برس کا عرصہ لگا اس کے باوجود وہاں بھی ان مشینوں کی کارکردگی پر بہت سارے سوال موجود ہیں۔ یورپ کے کئی ممالک بھی ان مشینوں کا ناکام تجربہ کرکے پرانے طریقہ انتخاب پر واپس جا چکے ہیں۔ کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ ہم ان ممالک کے تجربے سے ہی سبق سیکھ لیں اور خود یہ تجربہ کرکے اپنی پہلے سے کمزور معیشت اور سیاسی ماحول کو امتحان میں نہ ڈالیں۔
یہاں یہ سمجھا جانا بھی نہایت ضروری ہے کہ صاف شفاف اور منصفانہ انتخابات کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا نہیں بلکہ نیت کا ٹھیک ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر نیت ٹھیک ہو تو سسٹم کوئی بھی ہو منصفانہ انتخاب کروایا جا سکتا ہے لیکن اگر نیت ہی ٹھیک نہ ہو تو جو مرضی کر لیں انتخابات متنازعہ ہی رہیں گے۔ ویسے بھی یہ عمران خان کی خوش فہمی ہی ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کےذریعے وہ اپنا اگلا الیکشن درست کر لیں گے۔ انہیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئیے کہ انتخابات نگران حکومت کے ذریعے کروائے جاتے ہیں اور نگران حکومتیں انہی قوتوں کے زیر اثر ہوتی ہیں جنہوں نے اس بل کی منظوری کے لیے ووٹ پورے کر کے دئیے ہیں اور وہی نگران حکومت کے ذریعے اپنے مقاصد بھی حاصل کریں گے۔ زیرک سیاستدان آصف علی زرداری نے تو یہ کہہ بھی دیا ہے کہ جو بیج یہ حکومت آج بو رہی ہے اس کا فائدہ یہ نہیں کوئی اور اٹھائے گا۔ اب یہ وقت ہی ثابت کرے گا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین موجودہ حکومت کی نہیں بلکہ مقتدرہ کی کامیابی ہے۔
پیپلزپارٹی نے اس سرزمین بے آئین کو آئین دیا لیکن بعد میں آنے والے بدترین آمر ضیا اور اس کے پیش رو مشرف نے آئین کےساتھ بے دریغ کھلواڑ کیا اور آئین کا حلیہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا جسے پیپلزپارٹی کی پچھلی حکومت کے دوران بڑی حد تک درست کیا گیا لیکن ابھی بھی آمروں کی شامل کردہ بہت ساری شقیں آئین میں موجود ہیں جنہیں درست کیا جانا ضروری ہے۔ جمہوری قوتوں کو جب بھی موقع ملتا ہے آمروں اور کٹھ پتلی حکومتوں کی جانب سے آئین میں شامل کی گئی خرابیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتی ہیں، آئین کو درست کرتی ہیں لیکن پھر کوئی کٹھ پتلی حکومت آتی ہے سب کچھ تباہ کرتی ہے آئین کا حلیہ بگاڑتی ہے اور کھوتی پھر سے بوڑھ تھلے لے آتی ہے۔۔۔ اس لیے اگر متنازعہ شق 58/2B آئین میں باقی نہیں رہی، آمر ضیا کی جانب سے آئین میں ڈالا جانے والا اس کا نام باقی نہیں رہا تو منظور کروائے جانے والے حالیہ متنازعہ قوانین بھی باقی نہیں رہیں گے لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ دائروں کا یہ سفر کب تک جاری رہے گا؟