ہم جانتے ہیں کہ دائرے کا کنارہ نہیں ہوتا۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر دائرے میں چلنا شروع کریںِ اور دور چلے جائیں۔ خواہ بائیں طرف سے یا پھر دائیں طرف سے تو ہم ایک ہی جگہ پر پہنچیں گے۔ یہ وہ سمت ہے جس پر ہم آج چل رہے ہیں۔
رفتہ رفتہ شدت پسندی ہر جگہ پر بڑھ رہی ہے۔ سیاست، قانون، مذہب، اقتصادیات، تعلیمی نظام، ایتھکس یا کوئی بھی اور شعبہ ہو، دنیا بھر میں یہ رجحان واضح ہے۔ اس کے بڑھنے کے وجہ جو سمجھ میں آتی ہے، وہ مختصر اور سطحی پیغامات ہیں۔ اس وقت ہمیں انفارمیشن کے سیلاب کا سامنا ہے اور ان کا سامنا کرنے اور پراسس کرنے کے لئے وقت نہیں ہے۔ الیکٹرانک ذریعے سے آئے پیغامات کو پرکھنے اور سوچنے کا موقع بھی نہیں ملتا۔ ٹویٹر، واٹس ایپ، فیس بُک کے ذریعے پہنچنے والے مقبول ترین پیغامات میں ایک چیز مشترک ہوتی ہے۔ یہ مختصر ہوتے ہیں۔ ایک سطر میں صرف انتہاپسند ہی اپنا پیغام ٹھیک سے پہنچا سکتا ہے۔
دیکھنے میں ایسا لگتا ہے کہ انتہاپسندی کے دو کنارے ہوتے ہیں۔ دائیں بازو کی سیاست اور بائیں بازو کی سیاست کے انتہاپسند۔ ایک مذہبی فکر بمقابلہ دوسری مذہبی فکر کے انتہاپسند۔ اخلاقیات کی پرواہ کئے بغیر بائیولوجی کی تحقیق کے حق میں سے لے کر بائیولوجی کو مکمل طور پر جکڑ دینے کا زور لگانے والے انتہاپسند یا پھر درجنوں دوسری مثالیں دی جا سکتی ہیں۔
یہ دو الگ کنارے صرف دیکھنے میں ہی الگ لگتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ انتہاپسند اصل میں ایک ہی جگہ پر آ کھڑے ہوتے ہیں۔
ہٹلر اور سٹالن، فکری اعتبار سے بالکل متضاد تھے لیکن ایک ہی جگہ پر آ کھڑے ہوئے تھے۔ دونوں نے اپنے اپنے نظریے کی بالادست کے لئے کئی ملین افراد قتل کروائے اور دوستی کا معاہدہ کر لیا (1939 کا ہٹلر سٹالن پیکٹ)۔ اسی طرح اگر کوئی صفر فیصد انکم ٹیکس کے حق میں ہے یا سو فیصد انکم ٹیکس کے حق میں۔ دونوں کا نتیجہ ایک ہی ہے یعنی کوئی ٹیکس اکٹھا نہیں ہو گا۔ (یہ اقتصادیات میں لیفر کرو ہے)۔ یہ اقتصادی انتہاپسندوں کا ملنے کا مقام ہو گا۔
معاشرے جو شہریوں کی برابری کو اولین مقصد بنا لیتے ہیں، جلد ہی بدترین معاشی ناہمواری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ری نیو ایبل توانائی کے جنونی جو کسی بھی حل کے لئے ملنے کو تیار نہیں ہوتے اور ہر قسم کے درمیانی قدم کی مخالفت کرتے ہیں، ماحول کو اتنا ہی نقصان پہنچاتے ہیں جتنا ماحول کی بالکل بھی پرواہ نہ کرنے والے۔ جانوروں کا بائیولوجی کی ریسرچ میں بے جا اور غلط استعمال کرنے والے اور جانوروں کے حقوق کے جنونی ایک ہی جتنے نقصان دہ ہیں۔ قومیت پرست ہوں یا پھر کسی بھی رائے اور کسی بھی تقسیم کے طرف کے انتہاپسند، یہ مثالیں ایسی ہی رہیں گی۔ اکیسویں صدی میں مواصلات کے ڈیجیٹل ذرائع سے رابطے شروع ہونے کے بعد یہ شدت بڑھتی جا رہی ہے اور نمایاں ہو رہی ہے۔ شاید ہم انتہاپسندی کے عہد کے آغاز پر کھڑے ہیں۔
اس دائرے کے کناروں پر وہ جگہ ہے جہاں یہ انتہاپسند ملتے ہیں، رہتے ہیں اور اپنا پیغام آگے بڑھاتے ہیں۔ مخالف جذبات کو اپنی خوراک بنا کر مزید بڑھتے اور پھلتے پھولتے ہیں۔
اگر آپ ایک معتدل مزاج سمجھدار شخص ہیں تو خبروں کا کوئی بھی ذریعہ کھول لیں۔ مقبول ہونے والی خبروں پر، اداریوں پر، تجزیوں پر، خواہ کسی بھی خیال کے حق میں ہو یا مخالف، ان کو پڑھیں اور غور کریں۔ یہ پہچاننے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا کہ ان میں بڑھتی انتہاپسندی والے مواد میں کوئی خواہ دائیں طرف سے آیا ہے، خواہ بائیں طرف سے۔ بہت سے لوگ جو کناروں پر کھڑے لگتے ہیں، دراصل ایک ہی جگہ پر ہیں۔
تو پھر اس میں آپ خود کہاں پر ہیں؟ اس کا ایک جائزہ آپ اپنی معلومات کے ذرائع کا تجزیہ کر کے دیکھ سکتے ہیں۔ ہم سب اپنی دنیا کے بارے میں اپنی رائے اور موقف رکھتے ہیں (اور رکھنا چاہیے) لیکن موقف رکھنے اور انتہاپسند ہونے میں بڑا فرق ہے۔ کیا آپ انفارمیشن کے سیلاب میں تو نہیں گھر چکے جہاں سوچنے کا وقت ہی نہیں ملتا؟ کہیں آپ کی انفارمیشن کے ذرائع مختصر ہیڈلائنز اور تصویریں تو نہیں؟ کیا آپ بلاسوچے سمجھے چیزیں آگے بتا دینے اور بڑھا دینے والوں میں سے تو نہیں؟ کہیں بے ہنگم اور بے معنی سطحی شور میں آپ اپنا حصہ تو نہیں ڈال رہے؟ کیا انفارمیشن کو تجزیاتی، تنقیدی اور گہری سوچ سے دیکھنے کی صلاحیت تو نہیں کھو بیٹھے؟
اگر ایسا ہے تو آپ دنیا کی اکثریت کی طرح ہیں۔ کہیں دائرے کے کناروں پر آپ اور آپ کے مخالفین اکٹھے تو نہیں کھڑے؟
نوٹ: یہ خیالات حائم حراری کے ہیں جن کی پی ایچ ڈی پارٹیکل فزکس میں ہے۔