شانو ابا سے ڈرتی تھی ۔ ذرا ذرا سی بات پر اس کی اور اماں کی دھنائی کر دیتا ۔ جب بھی کھانستا ہوا گھر میں داخل ہوتا سہم کر کمرے میں دبک جاتی ۔ اکثر خود سے سوال کرتی ۔ کیا دنیا کے سارے مرد ایک جیسے ہوتے ہیں ۔ ؟ غصیلے ۔ بے صبرے ۔۔بات بات پر لڑنے جھگڑنے والے ۔۔؟ ابا پر نظر پڑتی توکسی حد تک جواب بھی مل جاتا ۔
شانونے بہت چھوٹی عمر میں ہر لڑکی کی طرح گھر کے کام کاج سیکھ لیئے تھے ۔ مگر اسے کھانا پکانے کا بالکل شوق نہ تھا ۔سکول سے واپسی پرگھر کے دیگر کاموں میں ماں کا ہاتھ بٹاتی ۔
شانو جیسے جیسے بڑی ہورہی تھی ویسے ہی اسے پابندیوں کا بھی سامنا تھا یہاں بیٹھو یہاں نہ بیٹھو ۔ باہر نہ جاو سامنے سے دوبٹہ پھیلا کے لو ۔ بھاگو دوڑو مت ، بھاری چیزیں نہ اٹھاو آئے دن کی روک ٹوک سے اسے وحشت سی ہونے لگتی ۔ اس بات کو سمجھنے سے قاصر تھی کہ اس پر اب یہ ساری پابندیاں کیوں لگائی جارہی ہیں ۔ اور کوئی اسے بتاتا بھی تو نہ تھا ۔ نو جوانی کی دہلیز پر قدم کیا رکھا گھر میں ہی مقید ہوکر رہ گئی تھی ۔ اپنے اندر ہونے والی بلوغت کی تبدیلیاں بھی اس کی عقل و سمجھ سے بالاتر تھیں ۔ شروع شروع میں تو اسے عجیب سی بے چینی اور سینے کے دونوں طرف جسم گھٹا ہوا محسوس ہوتادو چھوٹے چھوٹے دائروں میں درد سا کیوں اٹھتا ہے ۔ کسی سے پوچھنے کی ہمت نہ تھی ۔
شانو کی کوئی بہن ہوتی تو وہ ان سے جسم میں ہونے والی ان تبدیلیوں کی بابت جاننے کی کوشش کرتی ۔ اماں سے پوچھنا چاہا مگر حجاب آڑے آجاتا اور الفاظ زبان تک آکے رک جاتے ۔
ایک بھائی تھا جو تین سال چھوٹا تھا ۔ اماں ابا کو اس سے کچھ زیادہ ہی پیار تھا ۔ اور وہ بھی اسی لاڈ پیار میں بگڑ کر آوارہ ہوگیا تھا ۔ پڑھائی بھی چھوڑ چکا تھا دوستوں کے ساتھ کھیلتے اس کا سارا دن گزر جاتا ۔ گھر آتا تو شانو پر حکم چلاتا ، ''شانو چل پانی دے ، روٹی لے آ ، کپڑے استری کردے ۔ '' شانو چپ چاپ بھائی کے کام کر دیا کرتی تھی ۔اگر کبھی کام میں دیر ہوجاتی تو چوٹی پکڑ کر گما دیتا اور وہ درد سے سسک کے رہ جاتی ۔
باپ نے قریبی گاوں میں انگریزی اور دیسی دوائیوں کی دوکان کھول رکھی تھی ۔ کبھی کسی حکمت کے تحت گھر میں ہی کوئی دوائی تیار ہوتی تو گھر بھر میں عجیب قسم کی بو رچ بس جاتی ۔
شانتی نگر قصبے سے ہر روز ایک ریل گاڑی گزرتی تھی جو اس گاوں میں کوئی پندرہ بیس منٹ میں پہنچا دیتی تھی ۔ اس لئے شام تک ابا کی واپسی ہوجاتی ۔کبھی ابا گاوں کی سوغات لاتا تو گھر کے قریب سے گزرتی ریلوے لائین کے قریب لڑھکا دیتا تھا ۔ سوغات میں گنے کے گھٹے کبھی پیاز یا مالٹے کی بوری ہوتی جسے ابا کے آنے سے پہلے بھائی اٹھا کر لے لاتا ۔اگر کبھی دیر ہوجاتی تو ابا کا غصہ آسمان سے باتیں کر نے لگتا ۔ اماں اور بھائی پر خوب غصہ نکالا جاتا ایسے میں اگر منہ سے جواب میں کچھ نکلتا تو نوبت مار پیٹ تک پہنچ جاتی اماں تو چلو کسی طرح بر داشت کر لیتی مگر بھائی بھی آگے سے خوب جواب دیتا اور غصے میں زور سے دروازہ بند کر تا ہوا نکل جاتا ۔ اماں کا دل دہل جاتا اور رو رو کر بھائی کی واپسی کی دعائیں مانگا کرتی ۔
اماں ہمیشہ ابا کے آنے سے پہلے لکڑیاں جلا کر کھانا تیار کر دیا کرتی ۔ ایسا نہیں تھا کہ ساتھ والے گھر جو شانو کے ماموں کا تھا رسوئی گیس نہیں تھی ۔ مگر وہ گیس کا کنیکشن دینے پر راضی نہ تھےنہ ہی ابا کو احساس تھا کہ اس سہولت کا گھر میں انتظام کریں ۔
شانو اماں کو دھوئیں میں گھرا دیکھتی تو اس کے اندر سے بھی دکھ کا دھواں اٹھتا اور کئی سوال بھانبڑ بن کر بھڑکتے رہتے ۔لیکن وہ صرف سوچ کے رہ جاتی سوال کرنے کی ہمت نہ تھی جبھی تو یہ بھانبڑ خود ہی جل کر راکھ ہوجاتے ۔ یہ اور بات تھی کہ ا ماں مٹی کے چولہے پر بھی بہت مزے دار کھانا بنایا کرتی تھیں ۔ ہر ایک کھانے کی تعریف کرتا ۔ پتہ نہیں کیسے اماں کے ہاتھوں میں اتنا ذائقہ آجاتا ہے ۔ کیسے اتنے لذیذ کھانے بناتی کہ دیر تک انگلیاں ہی چاٹتے رہو ۔
جب بھی بارش ہوتی سب سے پہلا خیال یہ آتا کہ لکڑیوں کو فوری طور پر گیلا ہونے سے بچایا جائے تار پر پڑے کپڑے اٹھائے جائیں اور صحن میں بچھی چارپائیوں کو اندر کر لیا جائے ۔۔ شانو یہ کام اماں کے ساتھ مل کر کیا کرتی جونہی سامنے سے گھنے سیاہ بادل آتے دکھائی دیتے فوری طورپر لکڑیا ں اور دیگر سامان برامدے کے ایک کونے میں رکھ دیا جاتا ۔ اگر کبھی لکڑیا ں گیلی رہ جاتیں اور کھانا بنانے میں دیر ی ہوجاتی تو ابا دیر تک اماں کو کوسنے دیتا ۔ شانو اکثر سوچتی ایک دن صرف ایک دن اگر کھانا دیر سے تیار ہوگیا ہے تو ا س میں ایسی کیا بری بات ہے ۔ کیوں ابا یہ نہیں سوچتا کہ ماں ہر روز اس کے آنے سے پہلے کھانا تیار رکھتی ہے ۔ بلکہ پانی کا گلاس لئے اس کے سرہانے کھڑی رہتی ہے پھر کیوں ابا ایسا کرتا ہے ۔۔ ؟ کیا واقعی میں سب کے ابا ایسے ہی ہوتے ہیں ۔۔ '' ؟پھر اپنی ہی سوچ کو جھٹک دیتی ۔ مگر سجو کا ابا تو ایسا نہیں وہ تو ساتھ مل کر کھانا بناتا ۔ ہر کام میں مدد کرتا ۔ ہر طرح سے خیال رکھتا ہے اور اسے اپنے ہاتھوں کا چھالا بنا کر رکھتا ہے ، اک ذرا سی چوٹ لگ جائے تو کیسے تڑپ اٹھتا ہے با ر بار ابا سے آکر دوائی لیتا ہے ۔ اسے بستر سے اٹھنے تک نہیں دیتا ۔ میرا ابا ایسا کیوں نہیں ۔۔۔؟
شانو کی بس یہی ایک دوست تھی ۔ بچپن سے ایک ساتھ سکول جاتے مل کر کھیلتے ،سجل جسے سب سجو کہتے تھے اس کا گھر گلی کی پرلی طرف دو گھر چھوڑ کے تھا اسلئے بھی دونوں کا زیادہ وقت ایک ساتھ گزرتا تھا کبھی ہوم ورک کرنے اس کے گھر چلی جاتی تو کبھی بریانی پلاو یا حلیم بنتی تو سجو پلیٹ میں سجا کے لے آتی ۔
۔ شانو صحن میں پانی کا چھڑکاو کرنے کے بعد ترتیب سے چارپائیاں لگاتی اور اس پر تکیہ اور چادر بچھادیتی ۔ مٹی کی سوندھی خوشبو رات کی رانی کے ساتھ مل کر روح کو بھی سرشار کر تی رہتی ۔چودہویں کا چاند، چاندی کی ٹکیہ کی مانند چمکتا اور اس کی چاندنی چار سو پھیل جاتی ۔شانو صحن میں کھڑی اس منظر کو اپنے اندر اتار لیتی
آج شانو پر خوشی اور غم کی ملی جلی کیفیت طاری تھی ۔ اس کی پیاری دوست سجل کی شادی تھی ۔ ۔
سجو کی ماں چپکے سے دوبٹے کے پلو سے آنکھوں میں آئے آنسو صاف کر لیتی ۔ اور پھر ایک مسکان چہرے پر سجائے کام میں مصروف ہوجاتی ۔ ڈھول کی تھاپ پر شادی بیاہ کے گانے گائے جارہے تھے ۔ نوجوان لڑکیاں بے فکری سے قہقے لگا رہی تھیں ۔شانو سجو کے کان میں کوئی بات کہتی تو اس کا چہرہ گلنار ہوجاتا ۔ اور شرما تے شرماتے اس کا سر گھٹنوں سے جالگتا ۔
سب نے نم آنکھوں سے اسے رخصت کیا۔ جدائی کے احساس سے شانو پھوٹ پھوٹ کر رو دی ۔ بیس سال کا ساتھ پل بھر میں ٹوٹ جائے گیا یہ سوچ کر اس کا دل بے قابو ہوا جارہا تھا ۔
سجو کی شادی کوابھی دو ماہ بھی پورے نہیں ہوئے تھے ۔ ۔ اس دوران اس کی شانو سے صرف ایک بار ہی ملاقات ہوسکی ۔ کیسی بجھی بجھی سی دکھائی دیتی تھی ۔ لڑکیاں نئے سپنے سجائے جب پیا دیس سدھارتی ہیں تو ان کے رنگ و روپ کیسے نکھر آتے ہیں مگر سجو تو کملا کے رہ گئی تھی ۔ پوچھنے پر اس نے ہنس کے ٹال دیا تھا ۔ ''ارے شانو تیرا وہم ہے میں بہت خوش ہوں،''
شانو بیوقوف نہیں تھی اسے کچھ کچھ اندازہ ہورہا تھا کہ اس کی عزیز از جان دوست خوش نہیں ہے ۔ سجو پہلے سے بھی زیادہ کمزور دکھائی دے رہی تھی آنکھوں کے سیاہ ہلکے نمایا ں تھے ۔
شانو کو گئے ابھی ایک ہفتہ بھی نہ ہوا تھا کہ ایک دن گلی میں عجیب ساشور اٹھا وہ کمرے میں گلی کی طرف کھلنے والی کھڑکی کھول کر ان آوازوں کو سننے کی کوشش کرنے لگی ۔ بار بار سجو کے ذکر سے اسے تشویش ہوئی ۔ قریب سے جاتے ایک لڑکے کو آواز دی اور اس سے صورت حال جاننے کی کوشش کی ۔'' او باجی سجو کو اس کے میاں نے گول روٹی نہ بنانے پر کلہاڑی کے وار کرکے مار دیا ہے ۔ ابھی کچھ دیر تک اس کی لاش گاوں پہنچنے والی ہے ۔''
یہ سنتے ہی اس کے اوسان خطا ہوگئے اسے کسی طرح اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا
۔ دکھ اور صدمے سے نڈھال جہاں کھڑی تھی وہی بیٹھ گئی ۔پھر اٹھی اور کمرے میں داخل ہوتی اماں کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رودی ۔اتنی ذرا سی بات پر اس کی پیاری دوست کا ایک ظالم شخص نے قتل کر دیا ۔ سوچ سوچ کر دماغ کی نسیں پھٹی جارہی تھیں ۔
ضروری کاروائی کے دو دن بعد لاش گھر پہنچی تو پوری گلی افسردہ تھی اور سجو کے گھر کہرام مچ گیا ۔
سجو کے قتل سے شانو کےاندر خوف، سانپ کی طرح کنڈلی مار کر بیٹھ گیا ۔ اب وہ شادی کے نام سے بدکنے لگی ۔ شانو کی اما ں نے اسے بہتیرا سمجھایا ۔ ''سب مرد ایک سے نہیں ہوتے یہ تو قسمت کا کھیل ہے تقدیر اور قسمت کے آگے کس کا بس چلتا ہے ۔''
اس حادثے کے کے بعد اسے ہر اس چیزسے خوف آنے لگا جو دائرے کی صورت اس کے سامنے آتی ۔ وہی چاند کی چاندنی جس میں وہ پہروں نہایا کرتی تھی سورج کی چمکتی سنہری روشنی ابھرتا اور غروب ہوتا نظارہ اب اسے آسیب ذدہ سا محسوس ہوتا ۔
شانو کی بڑھتی عمر سے اماں کو تشویش ہورہی تھی ۔ سجو کو گزرے بھی سال ہونے کو آیا تھا ۔ گلی محلے کے آوارہ لڑکے اب اس کا پیچھا کرتے آوازیں کستے اور جسم کے پیچ وخم کو کھلے الفاظ میں بیان کرتے کہ اسے شدید غصہ آتا اور وہ بری طرح جھنجھلا جاتی ۔ اس سب سے تنگ آکراماں کے اصرار باپ اور بھائی کے فیصلے کے آگے نہ چاہتے ہوئے بھی سر تسلیم خم کرنا پڑا ۔ ایسے میں اسے سجو کی بہت یاد آئی اس سے بچھڑنے اور بہیمانہ قتل کا دکھ ایک دفعہ پھر تازہ ہوگیا ۔
شانو بیاہ کر نئے گھر آگئی ۔دل میں بیٹھا ہوا خوف بھی اسی کے ساتھ چلا آیا ۔ وہ ہر معاملے میں احتیاط سے کام لیتی، میاں کی خوشنودی کے لئے اس کے آگے پیچھے پھرتی ۔ ایک ہی آواز پر دوڑی چلی آتی ۔ ۔ لاشعوری طور پر کوشش کرتی تھی کہ روٹیاں اسے نہ بنانی پڑیں اس لئے زیادہ تر چاول بناتی یا سالن تیار کر دیتی روٹیاں ساس یا نند بنا دیتیں ۔
آج گھر مں کوئی نہیں تھا ۔ چارو ناچار اسے ہی روٹی بنانی تھیں ۔
وہ بہت پریشان تھی اسے یوں محسوس ہورہا تھا کہ جیسے موت اس کے سامنے ہی کھڑی ہو ۔ اندر کا ڈر اور خوف اچھل اچھل کے باہر آنے لگا ۔ بار بار انگلیوں کو مروڑتی تو کبھی بے چینی سے پہلو بدلتی ۔ اگر اس سے روٹی صحیح نہ بنی تو کیا اس کی بھی خبر اخبار میں چھپے گی ۔ شاید دنیا کے سارے مرد ایک جیسے ہوتے ہیں بے صبرے ۔ ظالم خود غرض ۔ یکایک اس کے ذہن میں ایک خیال بجلی کی مانند کوندا ۔ وہ اطمنان سے اٹھی ۔ ہمسائے کی دیوار کے ساتھ دو تین اینٹیں اوپر تلے جوڑ کے رکھیں اور احتیاط سے اوپر چڑھی دیوار کے اس پار سامنے دری پر کچھ بچے بیٹھے سکول کا کام کر رہے تھے اس نے ان میں سے ایک کو آواز دی ۔ ایک چھوٹا بچہ بھاگتا ہوا قریب آیا
'' سنو مجھے کچھ دیر کے لئے پرکار چاہیے ''
بچہ سر ہلاتا ہوا الٹے قدموں واپس گیا بیگ کھول کر پرکا ر نکالی اور شانو کے حوالے کر دی ۔ شانو پیچھے ہٹی اور اطمنان سے چلتی ہوئی کچن میں آئی فریج میں سے آٹا نکالا ، تھوڑا سا لے کر اس کا پیڑہ بنایا اور پھر نفاست سے روٹی کو دائرے کی شکل دے دی ۔
https://www.facebook.com/groups/1690875667845800/permalink/1750111721922194/
“