کیا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آپ کتنی دیر سے فیس بُک استعمال کر رہے ہیں؟ کیا وقت یہاں پر صرف کرنے کی وجہ سے کسی اور چیز میں دیر تو نہیں ہو گئی؟
یہ وہ جواب ہیں، جو آپ کے دماغ کے دو حصوں میں الگ الگ ہر وقت مرتب ہو رہے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو صبح کا شاور لیتے وقت اپنے کام پر جانا لیٹ ہو جاتا یا پھر سرکاری دفتر میں لائن میں لگے احساس بھی نہ ہوتا کہ رش کچھ زیادہ ہے اور کام کرنے والے کچھ کم۔
وقت گزرنے کے شعوری ادراک کے لئے نہ صرف اس چیز کی ضرورت ہے کہ دماغ وقت کی پیمائش کرے بلکہ اسے اس کی مسلسل بدلتی یادداشت بھی چاہیۓ۔ پہلے خیال تھا کہ یہ سب ہپوکیمپس کا کام ہے کیونکہ ہپوکیمپس کے نیورون وقت کے لمحوں کو ڈیٹیکٹ کرنے کے خلیے دریافت ہوئے تھے لیکن وہ لوگ جن کا ہپوکیمپس خراب بھی ہو چکا تھا وہ بھی وقت کا ادراک کر سکتے تھے۔ وقت کے چھوٹے دورانیے کا ادراک یہ لوگ زیادہ بہتر کر سکتے تھے لیکن لمبے دورانیے میں انہیں مشکل پیش آتی تھی۔
پارکنسن کی بیماری میں یہ گھڑیاں متاثر ہوتی ہیں۔
دماغ کے ان دونوں ٹائم کیپرز کا طریقہ فرق ہے اور تفصیل نیچے دئے گیے لنک میں، لیکن اگر آپ صبح کا نہانا مختصر کر کے اپنے کام پر وقت پر پہنچ سکتے ہیں، فیس بُک کی بیکار بحثوں اور ٹی وی کے آگے گزارے وقت کے دورانیے کا احساس کر کے اسے چھوڑ کر دوسرے کاموں پر توجہ دے سکتے ہیں، تو وہ ان دونوں گھڑیوں کی وجہ سے ہے۔
وقت کے احساس کے لئے دماغ میں اور بھی کئی گھڑیاں ہیں جو فرنٹل کورٹکس، بیزل گینگلیا اور سریبلئم میں ہیں۔ ہر ایک کا اپنا کردار ہے اور ان کے جوڑ سے ہم وقت کا ملی سیکنڈز سے لے کر منٹوں تک ادراک کر سکتے ہیں۔
آخر میں ایک اور گھڑی کا تعارف۔ آنکھ بند کر کے اپنے دائیں کان کے قریب چٹکی بجائیں اور پھر بائیں کان کے قریب۔ آپ کو یہ کیسے پتہ لگ گیا کہ یہ آواز کس سمت سے آئی ہے۔ یہ ہمارے دماغ کی سب سے تیز ترین گھڑی کا کام ہے۔
وقت کے ادراک کی نیوروسائیکولجی
ہپوکیمپس کے ٹائم سیلز کے بارے میں