تلواریں سونت لی گئی ہیں۔ گردنوں پر نشان لگا دئیے گئے ہیں۔ قبریں کھودی جا رہی ہیں ؎
سنبھال لو اب درانتیاں خچروں کو ہانکو
کہ فصل پک کر سروں کی تیار ہو چکی ہے
لوگوں کو گروہوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ جو یہ زبان بولتے ہیں وہ اس طرف کھڑے ہو جائیں۔ جو وہ زبان بولتے ہیں وہ فلاں قطار میں چلے جائیں۔ قبیلوں کے نام پیشانیوں پر کھود دئیے ہیں۔ لوگوں کو زبانوں اور قبیلوں کی بنیاد پر قتل کیا جا رہا ہے۔ جو بچ گئے ہیں انہیں ٹھکانے لگانے کی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔ چلتی بسوں سے اتار کر شناختی کارڈ جانچے جا رہے ہیں۔ گولیوں کی آواز آتی ہے۔ جسم دھم سے گرتے ہیں۔ سر دھڑوں سے الگ ہوتے ہیں۔
محلے الگ الگ ہو گئے ہیں۔ آبادیاں مخصوص ہو چکی ہیں۔ یہ فلاں قبیلے کا محلہ ہے، یہ فلاں زبان بولنے والوں کی آبادی ہے۔
تلواریں سونت لی گئی ہیں۔ گردنوں پر نشان لگا دئیے گئے ہیں۔ عقیدوں کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ لوگوں نے اپنے اپنے عقیدے لکھ دئیے ہیں۔ اپنی گاڑیوں کے پچھلے حصوں پر، اپنی دکانوں کے ماتھوں پر، اپنی مسجدوں کی دیواروں پر، اپنے گھروں کے دروازوں پر، عقیدہ جو بندے اور خالق کے درمیان تعلق کی بنیاد تھا، عقیدہ جو ساجد اور مسجود کے درمیان رازداری کا اثاثہ تھا، کھُل کر سرِعام آ چکا ہے۔ اس کا اظہار پوشاکوں کے سٹائل میں اور دستاروں کے رنگوں میں ہو چکا ہے۔ گردنیں مارنے کا کام سہل ہو چکا ہے۔ دیکھنا صرف یہ ہے کہ مسجد کی دیوار پر کیا لکھا ہے، دکان کے ماتھے پر کیا تحریر ہے۔ دستار کا رنگ کیا ہے اور لباس کا ڈیزائن اور سٹائل کیا ہے۔ پھر گولی چلا دینی ہے۔
باسٹھ سال پہلے بھی یہی ہوا تھا۔ عقیدے کو دیکھ کر قتل ہوتا تھا لیکن اُس وقت نیام سے تلوار نہیں، کرپان نکلتی تھی۔ مسجد کے مقابلے میں مسجد نہیں تھی، گوردوارہ اور مندر تھا، مسئلہ یہ نہیں تھا کہ سندھی بلوچی مہاجر پنجابی بریلوی دیوبندی شیعہ کون ہے، اُس وقت مسئلہ یہ تھا کہ ہندو کون ہے اور سکھ کون ہے اور مسلمان کون ہے۔ باسٹھ سال ہو چکے ہیں۔ گوردوارے اور مندر ویران ہو چکے ہیں۔ سکھ اور ہندو رخصت ہو گئے ہیں، انکی ضرورت نہیں رہی، جو کام وہ کرتے تھے، اب ہم خود کر سکتے ہیں۔ کر رہے ہیں۔ کشتوں کے پشتے لگا دئیے ہیں۔ اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے۔ غارت گری آسمان کو چھُو رہی ہے۔ تاخت و تاراج کرنا، نیست و نابود کرنا، میدان لاشوں سے بھر دینا۔ لغت میں اس قسم کے جتنے محاورے ہیں، ہم نے انہیں جیتی جاگتی شکلوں میں پیش کیا ہے ؎
ز سمِ ستوراں دراں پہن دشت
زمیں شش شُد و آسماں گشت ہشت
نظامی نے سکندرِ اعظم کی لڑائی کے بارے میں جو کچھ کہا تھا، ہم نے اِس زمانے میں اُسے زندہ کر دیا۔ گھوڑوں کے سُموں سے اور گرتی ہوئی لاشوں سے اتنا گرد و غبار اُٹھا ہے کہ سات زمینوں میں سے اُوپر کی زمین دُھول میں تبدیل ہو کر آسمان سے جا لگی ہے۔ اور نتیجہ یہ نکلا ہے کہ زمینیں سات کے بجائے چھ رہ گئی ہیں اور آسمان سات کے بجائے آٹھ ہو گئے ہیں۔
زمین دُھول میں تبدیل ہو کر گم ہو گئی ہے۔ پیروں تلے سے نکل رہی ہے۔ سات کے بجائے ملکیت میں چھ رہ گئی ہیں۔ چار پانچ ہزار روپے کے روزینے کی خاطر ہمارے نمائندے جعلی حاضریاں لگا رہے ہیں۔ ایک دو نہیں، پانچ سات نہیں، پورے ستائیس! یہ مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن چونکہ یہ سب بڑے لوگ ہیں، اقتدار سے وابستہ ہیں، اس لئے انہیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ سیاسی پارٹیوں کے قائدین ان کے ساتھی ہیں۔ ان لوگوں کے نزدیک روپے حاصل کرنے کیلئے جو کچھ کیا جائے، جائز ہوتا ہے۔ انہیں معلوم نہیں کہ زمینیں پہلے ہی چھ رہ گئی ہیں۔ یہ ایک اور زمین کو گرد و غبار میں بدلنے کے درپے ہیں، بددیانتی، اخلاقی انحطاط اور جعل سازی تیزی سے ایک اور زمین کو پیروں کے نیچے سے سرکا ر ہی ہے۔
زمین کے وہ حصّے جو خشکی پر مشتمل ہیں اور وہ جو پانی کے نیچے ہیں فساد سے بھر گئے ہیں۔جب وفاقی وزیر یہ کہنے لگ جائیں کہ۔۔۔۔۔۔" اگر کچھ ارکانِ اسمبلی ، سینیٹرز اور افسران کے رشتہ داریا ووٹر بھرتی ہو گئے ہیں تو اس سے کوئی قیامت نہیں آگئی۔یہ سب لوگ پاکستانی ہیں۔ہم نے انڈین تو نہیں بھرتی کیے جو کسی کو اعتراض ہو–" تو ایک اور زمین پائوں کے نیچے سے سرک جاتی ہے۔ تو کیا وہ جنہوں نےدرخواستیں دی تھیںاور جو اہل تھے لیکن ان کی بغل میں سفارش نہیں تھی اس لیے بھرتی نہیں کیے گئے کہ وہ انڈین ہیں ؟؟ تاریخ کسی کی رشتہ دار نہیں۔ نہ قدرت اپنے اصول تبدیل کرتی ہے‘ جس ملک کے عوامی نمائندے چند ہزار روپوں کی دیہاڑی کیلئے تحریری جھوٹ بولیں، جعل سازی کریں اور پھر اُس پر شرم کرنا بھی مناسب نہ سمجھیں اور جس ملک میں دیانتداری سے کام کرنے کا حلف اٹھانے والے وزیر اقربا پروری، سفارش اور میرٹ کے قتل کو جائز قرار دیں اُس ملک کے لوگ پائوں زمین پر نہیں بلکہ گرد و غبار پر رکھتے ہیں، اُس ملک کی باگ ڈور غیر ملکی سفیروں کے ہاتھ میں آ جاتی ہے، اُس ملک کے رہنے والے دوسرے ملکوں میں جائیں تو ہوائی اڈوں پر انہیں برہنہ کیا جاتا ہے اور اُس ملک کا ہر شہری ملک سے بھاگنا چاہتا ہے۔
تلواریں سونت لی گئی ہیں۔ تلواریں سونتنے والوں میں قلمکار بھی شامل ہیں۔ وہ اپنی اپنی پارٹیوں کیلئے مختص ہو چکے ہیں۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کہاں ہے۔ سیاہ کون سا ہے اور سفید کون سا ہے۔ انہیں تو اس سے غرض ہے کہ جو کچھ میری پارٹی نے کہا ہے اور کیا ہے اور کر رہی ہے، میری ساری قدرتِ کلام اور سارا زورِ قلم اُسکی مدح میں صرف ہو اور میرے ریکارڈ میں کوئی تحریر ایسی نہ ہو جس میں میری پارٹی کے قائدین پر تنقید کی گئی ہو۔ الفاظ کی بھرمار، لفاظی کے امڈتے بادل، محاوروں کا زور، تحریر کی چاشنی جس سے ہونٹ جُڑنے لگیں لیکن یہ ممکن نہیں کہ سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید کہا جائے۔ سچ وہ ہے جو میری پارٹی کا لیڈر کہتا ہے۔
قبیلے، زبانیں، عقیدے، پارٹیاں‘
زمینیں پیروں کے نیچے سے سرکتی ہوئیں، دن بدن کم ہوتی ہوئیں!
چلو کہ دفترِ اعمال کھلنے والا ہے
اُٹھو کہ صبحِ مکافات ہونے والی ہے