سفر کو وسیلہِ ظفر کہا گیا ہے۔ مجھے سفر کرنے سے لگاؤ ہے اور اگر سفر پرسکون اور آرام دہ ہو تو سونے پر سہاگہ ہے۔ کسی زمانے میں ریل گاڑی ذرائع آمدورفت میں سب سے زیادہ آرام دہ، پر سکون، سستا اور بروقت ذریعہ جانا جاتا تھا۔ لیکن پھر ایک پراسرار وبا پھیلی اور ریل گاڑیاں اور انجن فولاد خور کیڑوں کی زد میں آگئے۔ جلد ہی ملک بھر میں پھیلی ہوئی ریل کی پٹڑیاں غریب کی ہتھیلی سے قسمت کی لکیر کی مانند نظروں سے اوجھل ہونے لگیں۔ ریلوے سٹیشنوں سے ریل گاڑیاں اور ریل گاڑیوں سے مسافر غائب ہونے لگے۔ اس سے پیشتر کہ بڑے شہروں کے درمیان اونٹ گھوڑا اور خچّر سروس شروع ہو جاتی، جنوبی کوریا کی ایک کمپنی نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر لاہور اور راوپنڈی کے درمیان پر آسائش بس سروس شروع کردی۔ انتہائی آرام دہ صوفہ نما سیٹوں سے مزیّن ائیرکنڈ یشنڈ بسوں میں بھارتی اور انگریزی فلموں کا اہتمام کیا گیا۔ دوران سفر مشروبات اور لنچ بکس بھی فراہم کیا جاتا۔ مسلمان اکثریتی معاشرے کو سفر کی دعا سکھانے کے لئے ایک استانی بھی ہمسفر رہتی۔ ابتدا میں ان بسوں میں صرف لاہور اور راولپنڈی کے اوپری درمیانے درجے کے وہ دانشور افراد سفر کرنے لگے جو بادامی باغ اور پیرودھائی کے لاری اڈّوں کے قریب دیکھے جانے کو اپنی اخلاقی توہین جانتے تھے۔ اپنی اعلیٰ تعلیم و تربیت کی بنا پر ہوائی جہاز پر سفر کو عوامیت پسندی کے خلاف اور اشرافیہ کے تسلط کے مترادف مانتے ہیں۔ میں چونکہ نہ متموّل تین میں ہوں اور نہ محروم تیرہ میں اس لئے جلد ہی میں بھی ڈائیوو کے پکّے گاہکوں کی طویل صف میں شامل ہو گیا۔
ڈائیوو کمپنی والوں نے مسافروں کی سہولت اور اطمینان کو مدّ نظر رکھتے ہوئے سفر سے متعلق چند قواعد و ضوابط نافذ کئے لیکن ایک غیرت مند اور اصول پسند قوم کے فرد ہونے کے ناطے میں نے ان اصولوں اور قواعد کے درمیان اوپر نیچے اور دائیں بائیں چھوٹی چھوٹی راہیں اور سرنگیں بنا ڈالیں۔
مثلاً کمپنی کا کہنا ہے کہ مسافروں کو ٹیلی فون پر ایڈوانس بکنگ کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔ اس صورت میں گاڑی کی روانگی سے آدھ گھنٹہ قبل ٹکٹ خریدا جا سکتا ہے۔ بصورتِ دیگر موقع پر موجود کسی اور مسافر کو دے دیا جائے گا۔ جس دن میں نے سفر کرنا ہو، میں اس دن یکے بعد دیگرے تین چار بسوں پر بکنگ کروا لیتا ہوں۔ کبھی آنکھ لگ جاتی ہے، کبھی دوستوں یاروں میں گپ شپ، دیر سویر ہونے کی کوئی ایک وجہ ہوتی ہے۔
بسیں انتہائی جدید اور متعدد سہولیات سے آراستہ ہیں۔ ہر سیٹ کے اوپر بریف کیس قسم کا سامان رکھنے کے لئے خانے بنے ہیں۔ بڑے سامان کے لئے نیچے وسیع و عریض جگہ دستیاب ہے۔ لیکن چونکہ وہاں سامان رکھوانے اور نکلوانے کے لئے نیچ طبقے کے مسافروں کے ساتھ قطار بنانی پڑتی ہے اس لئے میری حتیٰ المقدور کوشش ہوتی ہے کہ اپنا سامان بس میں ہی رکھوں۔ یوں میں ایک صحت مند بکرے کے حجم کے برابر اپنا بیگ سیٹ کے اوپر والے کھانے میں پندرہ منٹ کی دھکم پیل کے بعد پھنسانے میں کامیاب ہو ہی جاتا ہوں۔ اس دوران باقی مسافر سیٹوں کے درمیان انتظار میں کھڑے رہتے ہیں اور میری کامیابی پر شادماں ہوتے ہیں۔ جیسے ہی بس روانہ ہوتی ہے میں متعدد مرتبہ کھڑا ہوتا ہوں اور بیگ سے مختلف چیزیں نکالتا یا واپس رکھتا ہوں۔ ۔ ۔ مثلاً لیپ ٹاپ یا پاؤلو کوئیلو یا ایلیف شفک کی کتابیں جو میں نے محض ڈائیوو کے سفر کے لئے خرید کر اپنے بیگ میں رکھ چھوڑی ہیں۔ امید ہے اگلے دوچار سال میں ختم کر ہی لوں گا۔ فی الحال کتاب کھول کر باہر کے مناظرسے لطف اندوز ہونے اور وقفے وقفے سے ورق پلٹنے کا اپنا ہی مزا ہے۔ یہ لطف اس وقت دوبالا ہوتا ہے جب مجھے احساس ہوتا ہے کہ کوئی ساتھی مسافر سر موڑ کر کتاب کا عنوان پڑھنے کی کوشش کررہا ہے۔
ہر ذی فہم اور ذمّہ دار مسافر کا فرض ہے وہ اپنے ہم سفروں کی سلامتی اور خیروعافیت میں دلچسپی رکھے۔ اس لئے جب تک بس روانہ نہیں ہوتی میں اپنے ارد گرد بیٹھے مسافروں کا جائزہ لیتا ہوں۔ خصوصاً تنہا سفر کرنے والی نوجوان اور قدرے کم نوجوان خواتین میری تحّفظانہ توجّہ کا مرکز بنتی ہیں۔ کیا معلوم بھیرہ یا سکھیکی انٹرچینج تک کوئی حسین کہانی رقم ہوجائے ؟ مجھے خوب یاد ہے کہ بہت سال ہوئے ایک ایسے ہی پُرفسوں سفر کے دوران انتہائی جدید تراش خراش کے لباس میں ملبوس میری نشست کے بائیں جانب بیٹھی دلکش خاتون سے نگاہیں چار ہوئیں۔ موٹروے ٹول پلازے تک پہنچنے سے پہلے ہی نگاہیں چار سے آٹھ اور آٹھ سے بارہ اور پھر سولہ ہوگئیں۔ بھیرہ پہنچے تو وہ خاتون اپنی نشست سے اٹھیں۔ میں نے بھی اپنی کتاب بند کی اور منتظر ہوا کہ وہ اتریں تو میں بھی بس سے اتروں اور دیکھوں کہ اس داستانِ عشق کے اگلے باب میں کیا درج ہے۔ وہ میری جانب مڑیں اور دلفریب انداز میں مسکرائیں، "پہائین، ذرا میرے شاپردا دھیان رکھنا، میں ھُنے واپس آئی۔ ۔ ۔ " یہ شادی سے پہلے کا واقع ہے۔ مجھے یاد ہے کہ اسی سفر کے اختتام پر میں نے اپنی امّاں کو کہا تھا کہ جو اُن کی مرضی وہی میری مرضی۔ خیر ہم موضوع سے ہٹ رہے ہیں۔ اس لئے واپس ڈائیوو کے سفر کی جانب آتے ہیں۔
بس میں مسافر پورے ہونے کو ہیں۔ لا محالہ ایک نہ ایک مسافر ایسا ضرور ہوتا ہے جو میری نشست کے قریب آن کھڑا ہوتا ہے اور نخّوت سے مجھے کہتا ہے کہ میں اس کی نشست پر بیٹھا ہوں۔ میں فوراً اپنی ٹکٹ دیکھتا ہوں جس پردرج نمبر درست ہے۔ وہ تلملا کر میزبان خاتون کو بلاتا ہے۔ وہ اس کی ٹکٹ کا جائزہ لیتی ہے اور ٹکٹ سیدھے رخ کر کے اسے واپس دیتی ہے اور اسے بتاتی ہے کہ اس کی سیٹ کا نمبر 6 ہے 9 نہیں۔ وہ منہ ہی منہ میں ٹکٹ کی غیر معیاری چھپائی کے بارے میں بڑبڑاتا اپنی نشست کی جانب چلا جاتا ہے۔
میری کھڑکی کے سامنے باہر نیچے ایک صاحب کھڑے ہیں جو اپنی نئی نویلی دلہن کو الوداع کرنے آئے ہیں۔ ان کی دلہن مجھ سے اگلی نشست پر کھڑکی سے ماتھا ٹیکے بیٹھی ہیں۔ دونوں کے چہروں پر ہجر کے کرب کے سائے لہرا رہے ہیں۔ شائد شادی کے بعد ان کی دلہن پہلی مرتبہ اکیلی سفر کر رہی ہیں۔ ان کی ازدواجی زندگی کے مختصر دورانئے کا اندازہ مجھے اس امر سے ہوتا ہے کہ وہ دونوں اب بھی دنیا و مافیہا سے بے خبر ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے موبائل پر سرگوشیاں کر رہے ہیں۔ دولہا کی بھڑکیلی لال ٹائی اور دلہن کا گوٹہ کناری والا سوٹ بھی کچھ ایسے ہی اشارے دے رہے تھے۔
پھر ڈائیوو کمپنی کا ایک ملازم ایک ویڈیو کیمرہ تھامے بس میں سوار ہوتا ہے۔ حفاظتی اقدامات کے طور پر بس میں سوار ہر مسافر کی ویڈیو بنائی جاتی ہے۔ ویڈیو کیمرے والا پھرتی سی نشستوں کے درمیان چلتا ہے اور دونوں جانب بیٹھے مسافروں کے چہروں کے سامنے تیزی سے کیمرہ یوں ہلاتا جاتا ہے جیسے تازہ تازہ قبر پر عرقِ گلاب چھڑک رہا ہو۔ البتہ باریش مردوں اور حسین بے پردہ عورتوں کے سامنے پہنچ کر اس کے کیمرے کی حرکت میں قدرے آہستگی نمایاں ہوتی ہے۔
بس روانہ ہوتی ہے۔ اگلی سیٹ سے نئی دلہن کی ایک اندوہناک سسکی بلند ہوتی ہے۔ میں مڑ کر باہر دیکھتا ہوں۔ نئے شادی شدہ صاحب فون بند کر کے تیزی سے پارکنگ کی جانب جاتے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن اب ان کے چہرے پر ایک عجب شادمانی اور ان کے قدموں میں ایک عجب ولولہ نمایاں تھا۔ اتنی دیر میں دلہن کسی اور کو فون ملاتی ہے اور اگلے دو تین گھنٹے کسی سے گپ شپ لگاتی ہے۔ میں سُن گُن لینے کا عادی تو نہیں ہوں لیکن ہر چند منٹوں کے بعد دلہن ایک جملہ متواتر دہرائے جا رہی تھی، "وہ سب تو ٹھیک ہے امّاں، بہت اچھے ہیں لیکن اتنے چپکوُ۔ ۔ ۔ "
بس ابھی ٹرمینل سے باہر نکلی ہی ہے کہ پیاس سے میرا حلق خشک ہونے لگتا ہے۔ میں اوپر لگا گھنٹی کا بٹن دباتا ہوں۔ میزبان خاتون، جس نے سفر کی دعا سنا کر مائیک واپس رکھا ہی تھا، مڑ کر پیچھے دیکھتی ہے۔ میری نشست سے اس کا فاصلہ کافی ہے اس لئے میں اس کی آنکھوں میں چھلکتا ہوا خدمت کا ولولہ اور جذبہ دیکھ نہیں پاتا۔ وہ میرے پاس پہنچتی ہے۔ میں اس سے ڈائیٹ کوک یا پیپسی کا مطالبہ کرتا ہوں۔ وہ مجھے بتاتی ہے کہ ساڑھے بارہ سو روپے کے عوض پلاسٹک کے گلاس میں صرف پانی ملتا ہے۔ سادہ کوک یا پیپسی اپنے وقت پر ہی ملے گی۔
بس میں مفت وائی فائی کی سہولت میّسر ہے۔ تعلیم یافتہ اور جدّت پسند مسافر اپنے اپنے سمارٹ فون، لیپ ٹاپ اور ٹیبلیٹ نکالتے اور دنیا سے بھوک افلاس جنگ اور تشدّد کے خاتمے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ جلد ہی ہر دوسری نشست سے "وائی فائی بہت سلو ہے۔ ۔ ۔ بھلا بارہ سو روپے کاہے کو لئے ؟" جیسے جملے سنائی دینے لگتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو روزانہ شام کو والک کے بہانے اپنا فون آسمان کی جانب بلند کئے گلیوں میں گھومتے رہتے ہیں کہ شائد کوئی پاس ورڈ کے بغیر وائی فائی کنکشن مل جائے۔ یہی لوگ ڈائیوو کی بس میں توقع کرتے ہیں کہ وائی فائی کی کم از کم رفتار اتنی ہو کہ آدھ گھنٹے میں "گیم آف گرونز" یا "کریِکنگ بیڈ" کا سارا سیزن ڈاؤن لوڈ کر لیں۔ میں بھی اپنا نوکیا نکالتا ہوں اور تھوڑی دیر سانپ والی گیم سے لطف اندوز ہوتا ہوں۔
راستے میں میزبان خاتون ایک مرتبہ پھر اٹھتی ہے اور ہر مسافر کے پاس جاکر پلاسٹک کے گلاسوں کا گز بھر طویل ایک ڈنڈا بڑھاتی ہے۔ گلاس ایک دوسرے کے ساتھ یوں مضبوطی کے ساتھ جڑے ہیں کہ میں سب سے نچلے گلاس کو کھینچتا ہوں تو درجن بھر گلاس ہاتھ میں آجاتے ہیں۔ کافی تگ ودو کے بعد میں اپنے حصّے کا ایک گلاس علیٰحدہ کر پاتا ہوں۔ چند لمحوں بعد ایک گتّے کا ڈبہ بھی لایا جاتا ہے۔ اسے کھولتا ہوں تو اس میں پلاسٹک میں لپٹا ایک سینڈوچ، دو بسکٹوں پر مشتمل ایک پیکٹ، ایک کپ کیک، گوجرانوالہ کی خاتون کی مانند خوفناک حد پھٹنے کے قریب آلو کے چِپس کا ایک پیکٹ، چوسنے والی دو گولیاں اور دو عدد منہ ہاتھ صاف کرنے کے لئے ٹِشو پیپر۔ ۔ ۔ میں ابھی اشیائے خودونوش کے اس عظیم مظاہرے کی قیمت کا تعین کرنے میں مصروف ہوں کہ پوری بس میں چاروں جانب پلاسٹک کے لفافوں کے چڑچڑانے کی آوازیں بلند ہوتی ہیں۔ پچاس کے قریب مسافروں نے آلو کے چِپس والے لفافے پھاڑے تاکہ دیکھ سکیں کہ پیکٹ میں ہوا اور چِپس کا تناسب کیا ہے۔ میں جانتا ہوں اس لئے میں پیکٹ کھولے بغیر اسے ہوا بھرے تکیے کے طور پر استعمال کرتا ہوں۔
میرے ساتھ بیٹھے حضرت اس سائنسی دریافت سے نا آشنا ہیں اس لئے بس چلنے کے پندرہ بیس منٹ بعد ہی نجانے کس بات پر اثبات میں متواتر ہلتا ہوا ان کا سر ساری بس میں میرے کاندھے کو ہی آخری سہارا سمجھتے ہوئے اس پر آن ٹکتا ہے۔ یوں تو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن جب اونگھتے ہوئے ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیلنے لگتی ہے اور وہ زیرِلب سرگوشی کے انداز میں منمنانے لگتے ہیں تو میں حفظِ ماتقدم کےطور پر کاندھے کو زور سے اوپر کی جانب جھٹکتا ہوں۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھتے ہیں تو میں انہیں بتاتا ہوں کہ موٹر وے کی تعمیر میں ناقص سیمنٹ وغیرہ استعمال کیا گیا ہے۔ دیکھیں تو ذرا، ابھی سے گڑھے پڑ گئے۔
لیجئے بھیرہ انٹر چینج آ گیا۔ میزبان خاتون نے اعلان کیا کہ یہاں ہمارا قیام پندرہ منٹ کا ہے۔ بس کے مسافروں میں یکایک ایک بھگدڑ سی مچتی ہے۔ بس سے اتر کر سبھی دوڑ لگاتے ہیں۔ میں بھی ان کے پیچھے اترتا ہوں تو کیا دیکھتا ہوں کہ سارے مسافر گرتے پڑتے ایک ہی جانب سرپٹ بھاگے جا رہے ہیں۔ میں ایک ڈھابے سے گرم مائع نما کسی شے کا ایک گلاس لیتا ہوں جسے ڈھابے والا کافی کہنے پر مصر تھا۔ میرے لئے پہلی ہی چسکی کافی تھی۔میں باقی گلاس ایک کچرہ دان میں پھینکتا ہوں اور غسلخانے کی جانب بڑھتا ہوں۔ اندر داخل ہوتے ہی چاروں جانب شناسا شناسا چہرے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ سب میری ہی بس کے مسافر ہیں۔ کچھ بیقراری کے عالم میں ادھر ادھر ٹہل رہے ہیں۔ جو باہر جا رہے ہیں ان کے چہروں پر راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ اپنی باری آنے پر میں ایک غسلخانے میں داخل ہوتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ نوجوانانِ ملّت کی اکثریت کا نشانہ خطا گیا ہے۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ نئی نسل میں ڈرائینگ کی اُپچ بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ آنکھیں بند کر کے فرائضِ فطری سے سبکدوشی کی کوشش کرتا ہوں۔ اپنے کئے پر کسی نے بھی پانی نہیں بہایا کہ شائد یہاں اس کی روایت نہیں۔ چاہتے ہوئے بھی میں اس صدقہِ جاریہ میں حصّہ بقدرِ جثّہ نہ ڈال پایا۔ اللہ توّکل پر واپس بس میں آن بیٹھتا ہوں۔
لیجئے بس ہارن بجانے لگی۔ میزبان خاتون نے مسافروں کی گنتی کی تو معلوم ہوا کہ تین مسافر کم ہیں۔ اب ڈرائیور دھمکی آمیز انداز میں لگاتار ہارن بجاتے ہوئے بس کو دھیرے دھیرے آگے بڑھانا شروع کرتا ہے۔ ترکیب کامیاب ہوتی ہے۔ ریستوران کا دروازہ کھلتا ہے اور تینوں مسافر لپک کر باہر نکلتے ہیں۔ وہ تینوں ہولے ہولے رینگتی بس کے پیچھے بھاگتے ہیں لیکن اب تک اڑھائی کلو مٹن کڑاہی اور ایک درجن روغنی نان اپنا کام دکھا چکے ہیں۔ بہرحال ڈرائیور بھلا مانس شخص ہے۔ وہ تینوں بھینسوں کی مانند ہانپتے کانپتے بس میں سوار ہوتے ہیں۔ میزبان خاتون ان کی سرزنش کرنے کی اپنی سی کوشش کرتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان سے مذاق کر رہی ہے۔ وہ سب کھسیانی ہنسی ہنستے ہیں۔ باقی مسافر خونخوار نگاہوں سے انہیں دیکھتے ہیں۔ ریسٹوران کا ویٹر دور تک چیختا چلّاتا بس کے پیچھے بھاگتا ہے۔
بس کے دوبارہ چلنے کے پندرہ منٹ بعد ہی مجھے غسلخانے سے بروقت اور مناسب استفادہ نہ کرنے کی غلطی کا سنگین احساس ہونے لگتا ہے۔ لیکن کیا کیجئے، ہنوز پنڈی بہت دور است۔ تھوڑی دیر بعد میرے ساتھ بیٹھے صاحب کی گردن پھر اثبات میں ہلنے لگتی ہے۔ میں ان کے کان کے قریب منہ لیجاتا ہوں اور پوری قوّت سے کھانستا ہوں جیسے کہہ رہا ہوں، "سوچنا بھی مت۔" وہ اچھلتے ہیں ۔ ایک رومال سے اپنا کا ن پونچھتے ہیں ۔ میں باہر ہرے بھرے لہلہاتے کھیتوں کے نظاروں سے لطف اندوز ہوتا ہوں۔
اب بس میں قدرے سکون ہے۔ اکثر مسافر کانوں پر ہیڈ فون لگائے ٹی وی پر چلنے والی بھارتی فلم میں مگن ہیں۔ میرے عقب میں سیٹ پر ایک خاتون ایک ننھے بچے کے ساتھ سفر کر رہی ہیں۔ بچے کو سکون اور خاموشی پسند نہیں آتی تو وہ گلا پھاڑ پھاڑ کر چیخنا اور چلّانا شروع کرتا ہے۔ کانوں پر ہیڈ فون لگائے فلم میں منہمک ماں کو اس وقت احساس ہوتا ہے جب دیگر مسافروں کے احتجاج پر میزبان خاتون نے آکر اس ماں کو جھنجھوڑتی ہے۔ وہ بچے کے منہ میں دودھ والی بوتل ٹھونستی ہے۔ لیکن جب بچے کی بیقراری میں چنداں کمی نہیں آتی تو وہ بچے کے دوسرے سرے کا جائزہ لیتی ہے۔ وہی ہوتا ہے جس کا ڈر تھا۔ چند ہی لمحوں میں بس میں وہ بھینی بھینی خوشبو پھیل جاتی ہے جس سے تمام ماں باپ بخوبی آشنا ہوتے ہیں۔ میزبان خاتون ایک ائیر فریشنر لاتی ہے اور ساری بس میں اس وقت تک سپرے کرتی ہے جب تک مسافر مطمئن ہو کرکھانسنا شروع نہیں کردیتے۔
اب بس راولپنڈی ٹول پلازہ کے پاس پہنچتی ہے اور اس کی رفتار سُست ہو جاتی ہے۔ ابھی آدھ گھنٹے کا سفر باقی ہے۔ لیکن کچھ مسافر ابھی سے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور اوپری خانوں سے اپنا سامان نکالنے لگتے ہیں جیسے ابھی چلتی بس سے کھڑکیوں کے راستے باہر چھلانگ لگا دیں گے۔ جیسے سینما میں فلم شروع ہونے سے پہلے قومی ترانے کے احترام میں کھڑا ہونا لازم ہے اسی طرح ڈائیوو بس میں سفر کے قوائد و ضوابط کے مطابق تمام مسافروں پرلازم ہے کہ بس کے ٹول پلازہ پر پہنچتے ہی اپنے پیاروں کو موبائل فون پر اس امر کی اطلاع فراہم کریں بصورتِ دیگر انہیں ٹول پلازہ پار کرنے کی اجازت نہ ہو گی۔ اس فون کال کے دوران یہ پوچھنا بھی ناگزیر ہے کہ گاڑی بھیج دی گئی ہے یا اڈّے پر انہیں لینے کون آ رہا ہے۔
بس جیسے ہی راولپنڈی ٹرمینل کے قریب پہنچتی ہےتو مجھے احسا س ہوتا ہے جیسے کوئی بلوہ فساد ہونے کو ہے۔ غیض و غضب سے بپھرے لاتعداد افراد مسافروں کی جانب اشارے کرتے ہوئے دیوانہ وار بس کی جانب لپکتے ہیں۔ میں خوف و ہراس کے عالم میں ادھر ادھر دیکھتا ہوں۔ سب لوگ سکون سے ہیں۔ بعد ازاں معلوم ہوتا ہے کہ یہ ٹیکسی ڈرائیور ہیں اور بس کے رکنے سے پہلے ہی اپنی اپنی سواریاں تاک رہے ہیں۔
سب لوگ اترتے ہیں اور ایک ہجوم کی صورت میں بس کے پہلو میں جمع ہو جاتے ہیں جہاں سے سامان برآمد ہوتا ہے۔ تعلیم و تہذیب کی پابندیوں سے ماورا ،صنفی مساوات کا مظاہرہ کرتے ہوئے عورتیں مرد ایک دوسرے کو دھکّے مارتے ہیں تاکہ پانچ گھنٹے کے سفر کے بعد پانچ منٹ انتظار نہ کرنا پڑے۔ میں شریفوں کی طرح سب سے آخر میں اترتا ہوں۔ اب تک تمام خواتین بس سے اتر گئی ہیں۔
باہر نکل کر میں لاابالی انداز میں اپنا فون نکالتا ہوں اور اپنے بیٹے کو فون ملاتا ہوں۔ اس سے پوچھتا ہوں کہ وہ کہاں ہے۔ میرا فون پرانا ہے لیکن آواز کا معیار ناقابلِ یقین حد تک بہترین ہے ۔ یوں جانو، جیسے دوسرا شخص عین آپ کے پہلو میں کھڑا ہے۔ میرا بیٹا میرے کاندھے پر تھپکی دیتا ہے ۔ وہ میرے پیچھے کھڑا ہے۔ میں اپنا بیگ اسے تھماتا ہوں اور اسے کہتا ہوں کہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں۔ اب سفر سے تھکاوٹ ہونے لگی ہے۔