1985 کی جنوری کی سردیوں کی ایک صبح کی بات ہے۔ ہم بیوی بچوں سمیت لاہور میں میکلوڈ روڈ پر ڈِنگا سِنگھ بلڈنگ کی دو تین منزلہ حویلی نما عمارت میں ہماری عزیز دوست ثوبیہ کے گھر ملنے گئے۔ کھڑکی سے سَردیوں کےسُورج کی اُمنڈتی کِرنوں سے مُنور مُستقل مسکراہٹ سے کِھلتا نُورانی چہرہ لئے تہجد گزار دادا جان اپنی چارپائی پر بیٹھے تھے۔ ڈَیڈی کسی سفر کے لئے تیاری کر رہے تھے۔
میَں نے پُوچھا ’’ڈَیڈی کہاں جا رہے ہیں؟‘‘
’’میرے پِیر صاحب کا عُرس ہے۔ کوٹ نجیب اﷲجا رہا ہوں‘‘ ڈَیڈی نے اپنا بستر بند باندھتے جواب دیا۔
لڑکپن کے زمانے سے صوفی اِزم میں میری دِلچسپی کی وجہ سے میَں چُپ رہ نہیں سکا۔ پُوچھا
’’کو ن سے پیر صاحب؟‘‘
’’حافظ حمیدالدین‘‘، ڈَیڈی کا جواب مِلا۔
میرے لئے یہ بالکل ہی غیر معروف سانام تھا۔’’آپ اُن کو کیسے جانتے ہیں؟‘‘ میَں نے پُوچھا۔
ڈَیڈی اپنی تیاری ختم کر کے چارپائی پر بیٹھ گئے اور اپنا ِقصّہ بتانا شروع ہو گئے۔
’’پاکستان بننے سے پہلے کی بات ہے۔ میں سولہ سترہ سال کا تھا۔ میرے دوست احباب صوفی اِزم میں میرا شَغف دیکھ کر مجھے کہا کرتے تھے ’’تمہارا کوئی پِیر ہونا چاہیئے‘‘۔ نوجوانی کے سب کُچھ جاننے کے گُھمنڈ میں میَں ہمیشہ ایک ہی جواب دیتا تھا، ’’میَں توپہلے اپنے پِیر کو آزماؤں گا!‘‘
ایک دن میَں ریل گاڑی میں سفر کر رہا تھا۔ اُسی کمپارٹمنٹ میں میری سِیٹ کے سامنے والی لمبی سِیٹ پر ایک ہِندو فیملی بھی اپنے گیارہ بارہ سالہ بیٹے کے ساتھ براجمان تھی۔ اُنہوں نے اپنا سامان جس میں ایک لوہے کا ٹرنک بھی تھا اپنے اوپر والی سیٹ پر رکھ دیا ہوا تھا۔ جالندھر کے ریلوے اسٹیشن پر گاڑی رُکی تو ایک صُوفی منش با رِیش صاحب اپنے دو نوجوان شاگردوں کے ساتھ گاڑی پر چڑھ کر ہمارے کمپارٹمنٹ میں آ گئے۔ بیٹھنے کی جگہ تلاش کرتے ایک شاگردکو میَں نے کہتے سُنا، ’’پیِر صاحب! آپ اِدھر سیٹ پر بیٹھیں‘‘۔ پِیر صاحب کا القاب سُنا تو میری توجہ اُدھر ہُوئی۔ حسبِ معمول میَں نے دِل میں سوچا، ’’پِیر ہو گا تو اپنے گھر میں ہو گا، میَں تو آزماؤں گا!‘‘ اُسی لمحے میری نگاہیں پِیر صاحب سے دوچار ہوئیں۔ اُنہوں نے میری طرف اپنی نگاہ چند لمحات مرُتکز رکھی جیسے میری آنکھوں سے میرے دِل کا جائزہ لے رہے ہوں پھر دائیں طرف کھڑکی کے قریب اکیلی سیٹ پر بیٹھ گئے۔
گاڑی چلنے لگی،ایک دم سے زور کا ایک جھٹکا لگا تو اوپر کی سیٹ سے لوہے کا ٹرنک نیچے گِرا، اُسکا کونا ہِندو لڑکے کی آنکھ پر لگا اور خون نکلنا شروع ہو گیا۔ بچے کے ماں باپ پریشان ہو گئے۔ پیِر صاحب تیزی سے اپنی سِیٹ سے اُٹھے اور بچے کے والدین کو کہا، ’ٹھہرو ٹھہرو!‘ میری طرف پِیر صاحب کی پُشت تھی لیکن میَں نے اِتنا دیکھا کہ اُنہوں نے ایک رُومال کو جلدی جلدی اپنے سانس سے گرم کر کےبچے کی زخمی آنکھ پر رکھ کر رُومال پر ایک ہاتھ رکھا ، زیرِ لب کُچھ پڑھتے رہے اور جب رُومال ہٹایا تو خون بند اور آنکھ ٹھیک!! پِھر میری طرف اپنا چہرہ موڑ کر مُسکرا کر مجھے دیکھ کر فرمایا،
’’بیٹا! ہمیں آزمانے چلے تھے؟‘‘
اِس حادثے کے بعد میری اُن سے عقیدت ہو گئی ، جب کبھی مجھے موقعہ ملتا تھا میں جا کر اُن کی نیک صُحبت میں بیٹھتا تھا۔ پاکستان بن گیا تو پیر صاحب بھی ہجرت کر کے آگئے اور ہری پور ہزارہ کے شہر کوٹ نجیب اﷲ میں رہائش اِختیار کر لی۔ ۱۹۵۳ میں اُن کی رحلت ہو گئی۔ تب سے ہر سال اُن کے مزار پر عُرس منعقد ہوتا ہے۔ پچھلے تیس سالوں سے میَں بھی شِرکت کے لئے جاتا ہوں اور دو تین دِن رہ کر آتا ہوں۔‘‘
ڈَیڈی کوٹ نجیب ا ﷲ کےسفر پر چلے گئے۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ میَں بھی بُھول گیا۔ ۱۹۸۵ کے آخر میں ہم آسٹریلیا چلے گئے۔
جون ۱۹۹۰ میں واپس پاکستان آ کراسلام آباد میں میَں نے اپنی کمپنی شروع کر دی۔ ۱۹۹۵ میں ہم پر قیامت ٹُوٹ پڑی۔ جوڈیشل ریمانڈ پر اَڈیالہ جیل میں تین مہینے کالی دال اور ڈیزل نما سالن کے ساتھ مُکمل اِنصاف کرنے کے بعد ضمانت پر میَں باہر آیا۔ لاہور جانے کا موقعہ ملا تو ڈَیڈی کو بھی ملنے گیا۔ باتوں باتوں میں ڈَیڈی نے بتایا۔
’’ڈاکٹر صاحب آپ جب اڈیالہ میں تھے ، ثوبیہ بیٹی لاہور آئیں، مجھے سب حالات بتانے کے بعد کہا، ’’ڈَیڈی ڈاکٹر صاحب بے قصور ہیں ،اُن کے لئے دُعا کریں‘‘۔اُسی رات کو عِشا کے بعد نوافل میں آپ کے لئے دُعا کرنے کے بعد میَں سو گیا۔ خواب میں میرے پِیر صاحب کی زیارت ہوئی۔ مَیں نے آپکے بارے میں بتایا اور مدد کی درخواست کی۔
’’پیِر صاحب ڈاکٹر مبشر میرے بیٹوں جیسا ہے اسکے لئے دُعا کریں‘‘
پِیر صاحب جواب میں کہتے ہیں ، ’’ہاں! ہاں! ہمیں معلوم ہے ! یہ دیکھو!‘‘
پِیر صاحب اپنے ہاتھوں میں تھامے بڑے سائز کی تین چار انچ موٹی کتاب جیسی ایک فائل مجھے دِکھاتے ہیں، اور پھر کہتے ہیں،
’’دیکھو ! ڈاکٹر صاحب پر اُنہوں نےکتنی موٹی فائل تیار کی ہے لیکن۔۔‘‘ ؛
پِیر صاحب اِس فائل یا کتاب کے سب صفحے پلٹتے ہیں اور میں دیکھتا ہوں وہ سب صفحے سفید اور خالی ہیں۔ اُن پر کچھ نہیں لکھا ہوا۔ پھر پِیر صاحب مجھے کہتے ہیں، ’’دیکھا؟ اِس فائل میں کُچھ بھی نہیں! فِکر کرنے کی ضرورت نہیں‘‘۔
اُس کے بعد میری آنکھ کُھل گئی اور میرے دِل کو تسلی ہو گئی۔ بیٹا ! فِکر نہ کرنا‘‘
میَں نے ڈَیڈی کا شکریہ ادا کیا اور واپس اسلام آباد آ گیا۔ کٹھن حالات تھے۔ بہت چاہنے کے باوجود کوٹ نجیب اﷲجانے کی توفیق نہیں ملی۔
اکتوبر ۱۹۹۸ میں میَں پاکستان سے ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا جاؤں گا۔ ڈَیڈی کے خواب کے پچیس سال بعد میَں اپنی زیرِ تحریر کتاب کی ریسرچ کے سلسلے میں پاکستان آؤں گا ، اتفاق سے کہیں لکھا احمد فراز کا یہ شعر دیکھونگا۔
کل اِک فقیر نے کِس سادگی سےمجھ سے کہا ۔۔۔ تری جبیں کو بھی ترسیں گے آستانے جا
مجھے اپنی کاہلی اور بے ڈھنگی مصروفیت پرسخت شرم آئے گی اور دِل دُکھے گا۔ میَں اپنے ایک بہت ہی عزیز دوست زاہد بشیر مرزا (زی بی ایم) کو راولپنڈی میں ملوں گا اورسارا قِصہ سناؤں گا۔ نوے کی دہائی میں جب میں اسلام آباد میں اپنی کمپنی چلا رہا تھا زی بی ایم میرے آفس کی اوپر والی منزل پر ایپل کمپیوٹر کے آفس کے مینجر ہوتے تھے اورتب سے مجھے اچھی طرح جانتے تھے۔ یکم دسمبر ۲۰۱۹ اتوار کے دِن زی بی ایم کمال مہربانی سے اپنی کار میں ڈرائیور کے ساتھ مجھے کوٹ نجیب اﷲ لے جائیں گے۔ گُوگل کے نقشے سے مدد لے کر ، سڑک کے کنارے دکانوں کےسامنے چارپائیوں پر بیٹھے بابوں سے رستہ پُوچھتے ، شہر کی گلیوں سے گُزرتے ، آبادی سے باہرسرسبز کھیتوں کی کچی سڑک پر آ کر ، بے ترتیب جھاڑیوں سے گِھرے ایک قدیم قبرستان میں واقع آٹھ فُٹ اُونچی ایک دیوار میں لگے آہنی گیٹ سے کُزر کر، اندر کے پُر سکون احاطے میں ہم حافظ جی کا مزار ڈھونڈ لیں گے۔
پہلی دفعہ مَیں ڈَیڈی کے پیر صاحب کےرنگ برنگ شیشوں کے پُھول بُوٹوں سے مزیّن محرابوں اور دیواروں سے گِھرے خُوبصورت مزارِ مبارک پر فاتحہ پڑھوں گا۔ اُنکی چھوٹی سی جاذبِ نظر مسجد کے صاف شفاف صحن میں زی بی ایم کے ساتھ کھڑے ہو کر شکرانے کے دو نفل ادا کروں گا اور بطورِ ایک سائنس دان، قدرت کے پُر اسراررازوں کے بارے میں سوچوں گا کہ کیسے یہاں کسی اجنبی کی بے ترتیب قسمت کا دائرہ مکمل ہو گیا۔ جو لوگ اِس دُنیا سے چلے جاتے ہیں وہ کائنات کی کِس جہت میں اور کِن معنوں میں ابھی زندہ ہیں اور ہمارے ساتھ اُن کا کیا تعلق کیسے باقی رہتا ہے؟
“