آج میں آپ کو سندھ کی مادر تعلیم دادی لیلاوتی کی کہانی سناتا ہوں ۔وہ صرف سندھ کی ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کی محسنہ تھیں ۔کچھ روز قبل یعنی 12 ستمبر کو دادی لیلاوتی کا انتقال ہو گیا تھا ۔کچھ نیوز چینلز پر دادی لیلاوتی کی موت کی خبر دیکھائی اور سنائی دی ۔لیکن کسی بھی نیوز چینل یا اخبار میں دادی لیلا وتی کو شاندار انداز میں خراج عقیدت پیش نہیں کیا گیا ۔اس کی شاید وجہ یہ تھی کی ٹی وی چینلز پر سیاست کا بول بالا تھا ،راستے میں NA120کے الیکشن کا بھی ایشو تھا ،تو شاید اس لئے دادی لیلاوتی کی موت اور ان کے کام کو ٹی وی اسکرین پر لانا ضروری نہیں سمجھا گیا ۔دادی لیلاوتی کا 102سال کی عمر میں انتقال ہوا ۔وہ 1916 میں سندھ کے شہر حیدر آباد میں پیدا ہوئیں ۔1940 میں انہیں سندھ میں ٹریننگ اسکول فار وومن میں میوزک ٹیچر کی نوکری ملی ۔اس وقت کے وزیر تعلیم جی ایم سید اور اسپیکر سندھ اسمبلی میراں محمد شاہ نے ان کا انٹرویو کیا تھا ۔تب انہیں میوزک ٹیچر کے لئے سلیکٹ کیا گیا تھا ۔سات سال کے بعد ہندوستان تقسیم ہو گیا ،دو ملک بن گئے پاکستان اور انڈیا ۔دادی لیلاوتی کے دونوں بھائی ہجرت کرکے بھارت چلے گئے ۔دادی لیلا وتی اور ان کے روحانی گرو سادھو ٹی ایل واسوانی پاکستان میں ہی رہ گئے ۔گرو کو بانی پاکستان جناح صاحب سے محبت تھی ،وہ جناح صاحب کی بہت عزت کرتے تھے ۔جناح صاحب کا جب 1948 میں انتقال ہو گیا تو تب گرو واسوانی نے گیتا کی تلاوت کی تھی اور ان کے لئے دعائیں کرائی ،وہ جناح صاحب کی موت پر بہت روئے تھے ۔کہتے تھے جناح عظیم انسان تھا ۔جناح صاحب کے انتقال کے بعد گرو واسوانی کو سندھ میں بہت تنگ کیا گیا ،ان سے تعصب اور نفرت کا اظہار کیا گیا ،وہ بھی پھر بھارت ہجرت کر گئے ۔لیکن جاتے جاتے کہہ گئے کہ انہیں پاکستان سے محبت ہے اور یہ پاکستان ہی ان کا حقیقی وطن ہے ۔لیکن دادی لیلاوتی نے مشکلات کے باوجود پاکستان نہیں چھوڑا ۔دادی لیلا وتی مرتے دم تک پاکستان میں رہیں ۔1952 میں دادی لیلا وتی نے بی ٹیک کیا ۔اس کے بعد گرلز ہائی اسکول میر پور خاص کی ہیڈ مسٹریس ہو گئیں۔اس زمانے میں اسکول میں مسلمان لڑکیوں کی نسبت ہندو لڑکیاں زیادہ تھی ،اس کی وجہ یہ تھی کہ سندھ کے وڈیرہ کلچر میں مسلمانوں بچیوں پر تعلیم حرام قرار دی گئی تھی ۔سندھ میں جاگیرداری اور پسماندگی کا آپس میں گہرا تعلق ہے ۔ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ سندھ کے شہری علاقوں میں ہندو زیادہ تھے اور دیہی علاقوں میں مسلمان زیادہ تھے ۔دادی لیلا وتی کو یہ جنون تھا کہ وہ سندھ کی تمام لڑکیوں کی تعلیم کے لئے کچھ کر جائیں ۔دادی سندھ میں گاوں گاوں گئیں ۔وڈیروں اور پسماندہ علاقوں کے لوگوں کو قائل کیا کہ وہ بچیوں کی تعلیم دلائیں ،انہیں اسکول بھیجیں ۔دادی لیلا وتی نے سندھی میں ایک نظم بھی لکھی تھی ،اس نظم کا ایک شعر اردو میں کچھ یوں ہے کہ ،سندھ کی بیٹیوں تم اتنی ان پڑھ اور بے خبر کیوں ہو ،تعلیم حاصل کرکے جہالت کا جن کیوں نہیں بھگاتی ،اس نظم کو لکھنے کی بھی ایک کہانی ہے ،وہ کچھ یوں ہے کہ سندھ کے ایک گاوں میں وہ خواتین کو درس دے رہی تھی کہ وہ اپنی بچیوں کو اسکول بھیجیں ،اسی دوران آسمان پر سے جہاز گزرا تو جہاز کی آواز سے ایک خاتون ڈر گئیں اور کہنے لگی ،یہ جن بھوت کی آواز ہے ،اسی تناظر میں دادی لیلاوتی نے کہا تھا کہ سندھ کی بچیوں تعلیم حاصل کرکے جہالت کے جن کو کیوں نہیں بھگاتیں ۔ایک اور واقعہ ہے کہ سندھ کے علاقے ٹندو آدم ریلوے اسٹیشن پر دادی ٹرین کا انتظار کررہی تھی ،اس وقت وہ محکمہ تعلیم میں اعلی آفیسر تھی ،سندھ کی ایک خاتون نے کھڑکی میں سے ٹکٹ لیا ،وہ خاتون سیدھا دادی لیلا وتی کے پاس گئی اور کہا ٹکٹ دیکھو اس پر کتنے پیسے لکھے ہیں ،دادی نے ٹکٹ پر لکھی اسے اصل قیمت بتائی تو عورت نے کہا ٹکٹ کلرک نے تو اس سے زیادہ پیسے لے لئے ہیں ۔جس پر دادی لیلاوتی خاتون کے ساتھ ٹکٹ والے کے پا سگئی اور کہا کہ وہ اس پر پولیس میں مقدمہ کریں گی ،کیوں اس نے زیادہ پیسے اس خاتون سے لئے ہیں ،جس پر ٹکٹ کاٹنے والے نے معافی مانگی اور پیسے وآپس کردیئے ۔پھر دادی نے اس عورت کو کہا آج توں پڑھی لکھی ہوتی تو تیرے ساتھ ایسا نہ ہوتا ،اس کے بعد وہ خاتون دادی کو لیکر اپنے گاوں گئیں اور اپنی بچیوں کو دادی کے اسکول میں داخل کرایا ۔جب دادی لیلا وتی نے میر پور خاص گرلز ہائی اسکول چھوڑا تھا تو اس وقت 500 بچیاں اسکول میں پڑھ رہی تھی ،جن میں سے 70 فیصد مسلمان بچیاں تھیں ۔اس کے بعد دادی لیلا وتی سندھ میں انسپکٹر آف گرلز اسکول کے عہدے پر تعینات رہیں ۔اسی زمانے میں ایک وڈیرا مسلح افراد کے ساتھ دادی لیلا وتی پر حملہ کرنے آیا ،دادی کو ڈرایا کہ وہ ان کے علاقے میں اسکول تعمیر نہیں کرسکتی ،ورنہ اچھا نہین ہوگا ۔دادی نے وڈیرے کو پانی پلایا ،اس کے بعد کھانا کھلایا اور چائے پلائی ۔پھر سمجھایا کہ یہ بچیاں قوم کی بیٹیاں ہیں ،میری بھی بیٹیاں ہیں ،کیا یہ اچھا نہیں کہ انہیں تعلیم دی جائے تاکہ یہ اپنی حفاظت خود کرسکیں ۔کہا جاتا ہے کہ ودیڑہ دادی کے اخلاص اور محبت سے متاثر ہوا اور کہا دادی آپ اسکول کھولیں اور پھر وہ چلا گیا ۔دادی لیلا وتی آخری عمر تک گرلز گائیڈ تحریک کی رہنمائی کرتی رہیں ۔دادی لیلا وتی 1976 میں سندھ میں ڈپٹی ڈائرکٹر ایجوکیشن کے عہدے سے ریٹا ئڑڈ ہوئی۔لیکن چین سے نہ بیٹھیں ،اس کے بعد سندھ میں کمیونٹی سنٹرز بنائے ،وومن انڈسٹریل ہوم کی بنیاد رکھی ،خواتین کے لئے ایک تحریک کی بنیاد ڈالی گئی تھی جس کا نام ناڑی سبھا تھا ،وہ اس کی متحرک رکن رہیں ۔دادی آخری دم تک ہارمونیم پر شاہ لطیف بھٹائی کا کلام گاتیں رہیں ،انہوں نے ریڈیو پاکستان میں بھی کام کیا ۔وہ انڈیا بھی جاتیں رہیں اور پھر وآپس آجاتیں تھی ،آخر میں انہوں نے انڈیا جانا چھوڑ دیا تھا ،کہتیں تھی وہ بیمار رہتی ہیں ،کہیں ایسا نہ ہو انڈیا میں ہی وہ مر جائیں ،وہ پاکستان اپنی زمین پر مرنا چاہتی ہیں ،اس لئے اب انڈیا نہین جاتیں ۔دادی لیلاوتی نے مرتے دم تک اپنا گھر نہیں بنایا ،والدہ کے گھر میں رہتی تھی ،پاکستان کے تعلیمی نظام سے بیزار تھی ،آخری عمر میں کہتی تھی سندھ کے وڈیروں نے اپنے لئے محلاات بنا ڈالے ،تعلیم اور سندھ کے غریب عوام کے لئے کچھ نہ کیا ،انہیں جاہل اور ان پڑھ رکھا ۔1985 میں سندھ اسمبلی کی ایم پی ائے بھی ہوئی ۔ان پر چارج یہ لگا کہ ملازمتوں کے کوٹے میں سے وہ ہندو بچوں کو کم ملازمتیں دیتی ہیں اور مسلمان بچوں کو ملازمتیں زیادہ دیتی ہیں ۔اس پر وہ کہتی تھی کہ جب ننگے پاوں خواتین بھاگتی بھاگتی ان کے پاس آتیں ہیں ،بچوں کے ملازمتیں مانگتیں ہیں ،تو وہ اس پر کیسے انکار کرسکتی ہیں ۔یہ تھی دادی لیلاوتی ۔جن کی موت پر میڈیا میں نیوز پیکجز تک نہیں چلا ،جنہیں شاندار انداز میں خراج عقیدت پیش نہیں کیا گیا ،جن کے لئے اخبارات اور میگزین میں بات تک نہیں کی گئی ،کیسے احسان فراموش ہیں ہم لوگ جو این ائے ایک سو بیس کے انتخابات کی خاطر دادی لیلا وتی کو بھی بھول گئے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔