میرے دادا بریلی شہر کے بکرے کے چمڑے کے بڑے کاروباری تھے یو پی میں اور بریلی میں دادا کی بڑی عزت تھی دادا کا کاروبار دہلی مدراس اگرہ اور لکھنئو میں پھیلا ہوا تھا اس وقت بکرے کی کھال کا دام دس سے بارہ روپئے تک ہوتا تھا ہر ہفتے تقریبا دس ہزار کھال دہلی لکھنوء یا مدراس جایا کرتی تھی ہمارا بڑا سا گودام تھا جو ہمارے بڑے سے گھر کے ساتھ ہی تھا ہمارے شہر بریلی میں بکرے کی کھال کے تین ہی بڑے کاروباری تھے ایک میرے دادا حاجی حشمت اللہ صاحب دوسرے حبیب اللہ صاحب تیسرے بابو گل حسین کے بیٹے اشفاق حسین تینوں صبح کے وقت مصبح خانہ چمڑے کی خریداری کرنے جاتے تھے بہت سے آس پاس کے علاقے لوگ بھی چمڑا لیکر ایا کرتے تھے
انھین میں بریلی کے پاس ایک قصبہ کے بیوپاری بابو بھائ تھے بابو بھائ بہت ہی سیدھے ادمی تھے اتنے سیدھے کہ پاوءں میں دو رنگ کے جوتے پہنتے ہم پوچھتے چچا یہ پیروں میں کالا اور کتھئ جوتا کیوں پہنتے ہیں جواب دیتے للا وہ نہ میجد میں نماز پڑھنے جاتے ہیں تو۔ کوئ چور الگ الگ رنگ کے جوتے دیکھ کر چراتو نہیں ہئے اور یہ کہہ کر ہنستے انکا ایک بیٹا صدیق تھا بڑا بد دماغ قران وغیرہ پڑھا ہوا تھا اور بریلوی مسلک کا تھا بے انتہا بک بک کرنے اور غصے والا اکثر بابو چچا کے ساتھ ہمارے گودام میں دادا کے پاس کھال بیچنے آتا بابو چچا کھالوں کی لاٹ لگاتے ان کو غصے سے ہٹا دیتا ان سے غصہ میں بڑے تمیز سے جھڑکتا " ہٹئے اپ اس طرح لاٹ لگاتے ہیں " بابو چچا ہنستے ہوئے ہٹ جاتے دادا سامنےکرسی پر بیٹھے اسے دیکھتے رہتے کچھ کہتے نہیں جب یہ لاٹ لگانے بیٹھتا تو کھال پر پیر رکھ پورا زور لگا کر کھینچ کھانچ کر بڑا کرنے کی کوشش کرتا دادا کہتے کرلے لمبائ بڑی کر لے سائز بڑا ہونے سے کیا ہوگاچوڑائ کہاں سے ائے گی وہ اس قدر منھ زور تھا دادا سے برابر ترکی بترکی کرتا رہتا "اجی حاجی صاحب اپ تو بس اپنے مطلب کی کہتے ہیں" دادا کو کبھی غصہ اجاتا تو غصہ میں کہہ دیتے "چل لے جا اپنا مال بہت اچھا ہئے دوسری جگہ بیچ آ "بابو چچا اس کو بہت کہتے"ابے سری مان جا " لیکن وہ بابو چچا کو ڈانٹ دیتا "اپ مت بولئے یہ تو ایسے ہی اپنے مطلب کی کہتے رہیں گے کوئ ہماری کھال سائز میں کم ہئے گٹھری میں سکڑ گئ ہئے اس کو تو ہی سہدھا کر رہا ہوں " بابو چچا بہت زور سے ہنستے اور دادا سے کہتےحاجی جی ہمارا لڑکو سودا ہئے سمجھتا نا ہیے بددماگ کھینچا تانی سو سائز بڑھ جاوءگا کیا" اور پھر زور سے ہنستے وہ غصہ میں پلٹ کر کہتا" اپ خود سری ادمی ہیں ان کے پاس بیٹھ کر ہنس رہے ہیں۔ یہ اونے پونے میں اپکا مال خریدینگے " غصہ میں وہ نتھنے پھلا کر باپ سے کہتا بابو چچا زور سے ہنستے اور کہتے " ابے تو پگلا ہئے " غرض اس طرح کے ڈرامے گودام میں روز ہوتے ہم لوگ ان سب باتوں سے لطف اندوز ہوتے
اسی طرح جب بقرعید اتی تو وہ ہمارے پورے خاندان کے لئے بہت اہمیت کی حامل ہوتی تھی وجہ یہ تھی کہ ہمارے یہان بکرے کے چمڑے کی خریداری تین دن بہت زور شور سے ہوتی تھی اسکے علاوہ پورے مہینے بھر باہر سے مال اتا رہتا تھا اس خریداری میں مدارس سے چمڑے کی خرید ہوتی دادا مدارس کا خاص خیال رکھتے اور ان کی قربانی کی کھال جو دام ہوتے اس سے ایک روپیہ بڑھتی خریدتے تھے جتنی بار بھی ان سے پوچھا گیا کہ وہ ایسا کیون کرتے ہیں وہ ہمیشہ کہتے میں مدرسوں سے خریداری منافع کے لئے نہیں کرتا نفع تو اللہ تعالی مجھے کسی بھی مال میں دےدیگا میں تو یہ خریداری مدرسے کے ان یتیم غریب بچوں کے لئے کرتا ہوں کہ اس پیسے سے انکو اچھا کھانہ پہننا نصیب ہوجائے
بریلی میں امام احمد رضا خاں صاحب کا بہت بڑا مدرسہ بہاری پور کا ڈھال محلے مین تھا ان کے تقریبا چار پانچ ہزار چمڑا اکٹھا ہوتا تھا کیون کے شہر اور اطراف میں ان کے مردین چمڑا ان کے یہاں بھجواتے تھے وہاں چمڑے کے خریداروں کی بولی ہوتی تھی دادا نے سارے مدرسوں میں یہ کہہ رکھا تھا جو سب سے زیادہ بولی ہوگی اس سے ایک روپیہ بڑھتی میری بولی ہوگی نتیجہ یہ ہوتا کہ کبھی کبھی مال بہت مہنگا پڑ جاتا لیکن دادا کبھی گھبراتے نہیں تھے کہتے مدرسوں کا مال مہنگا ہئے لیکن برکت والا ہئے اللہ خیر و برکت دےگا
صدیق چونکہ بڑے مولوی صاحب کا مرید تھا یہ احمد رضا صاحب کے نواسے نوری میاں کی خدمت رہتا تھا انکو حسد میں چڑھاتا رہتا تھا کہ حضرت یہ آپ کے مدرسے کی کھال اونے پونے دام خریدتے ہیں اپ کا مال میں اونچے داموں میں بکواوءں گا وہ اس کو ڈانٹ دیتے یہ خاموش ہوجاتا تھا اس کا کوئ داوءں نہیں چلتا تھا
ایک بار کی بقرعید پر اس کی چال کامیاب ہوگئ نوری میاں کی طبعیت خراب تھی مدرسہ کے منتظم سب دیکھ بھال کر رہے تھے اس نے انکے کان بھر دئے کہ حضرت یہ دیوبندی لوگ ہیں اپ کا مال اونے پونے میں لیتے ہیں اور مدرسہ کو جان بوجھ کر اس لئے نقصاں پہنچاتے ہیں کہ یہ بریلوی حضرات کا ہئے وہ اس کی باتوں میں اگئے
م
دادا نے میرے بڑے چچازاد ندیم بھائ کو مدرسہ بھیجا وہاں صدیق موجود تھا اس بھائ کو دیکھتے ہی کہا حضرت یہ سیٹھ جی کے پوتے اگئے ان سے بھی بولی کی پرچی لے لیجیے ان کو معلوم نہین تھا کہ صدیق نے کچھ لوگوں کو تیار کر لیا تھاکہ وہ زیادہ بولی دیں انھوں نے ندیم بھائ سے پرچی پر بولی دینے کے لئے کہا اور رات مین گیارہ بجے پرچیاں کھلنے کی بات کہی ندیم بھائ پرچی دیکر واپس اگئے
رات میں گیارہ بجے ہم مدرسے گئے اتفاق سے نوری میاں بھی آگئے تھے صدیق سب کو چائے دے رہا تھا اس نے ندیم کو چائے نہیں دی تو نوری میان نے اس کو ڈانٹ کر ندیم بھائ کو چائے دینے کو کہا اور اپنے پاس ہم لوگوں کو بٹھایا پرچی کھلی پرچی کسی دوسرے کے نام کی کھلی ندیم بھائ اور ہم لوگ واپس اگئے دادا نے پوچھا کہ مدرسہ کی کھالوں کا کیا ہوا ندیم بھائ نے ساری بات بتا دی دادا کو صدیق پر بڑا غصہ آیا اور مدرسہ کا مال نہ ملنے کا افسوس ہوا ادھر مدرسہ میں وہ لوگ جنکی زیادہ بولی تھی وہ مال اٹھانے ائے نہیں مدرسہ والوں نے صدیق کو ان لوگون کو تلاش کر بلاکر لانے کے لئے کہا لیکن ان لوگوں کو نا انا تھا نہ ائے انھوں نے دادا کے حسد میں زیادہ بولی دی تھی کہ ان کو کسی طرح سے نقصان پہنچائیں بہرحال برے مولوی صاحب کے یہاں سے نوری میاں نے ادمی کو دادا کے پاس بھیجا اور دادا سے بہت شرمندگی اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مدرسے کی کھالیں خریدنے کے لئے حالانکہ بہت مال سڑ گیا تھا لیکن دادا نے جو دام ندیم بھائ کہہ کر ائے تھے انھیں دامون پر مال خریدا جو نقصان کا سودا تھا لیکن دادا کے پیش نظر مدرسے کی مددوفلاح اور یتیم بچوں کی تعلیم تھی نوری میان نے صدیق کو نکال باہر کیا جب انکو معلوم ہوا کہ یہ سارا انتشار اس کا پھیلایا ہوا تھا بہت دن تک صدیق ہمارے گودام میں نہیں آیا ایک دن بابو چچا ائے انھوں نے صدیق کو بہت برا بھلا کہا کہ سیٹھ جی ہمارا لڑکا نالائق ہئے ہمیں اس کی غلطی کے لئے معاف کردیجئے دادا نیک ادمی تھے انھوں نے صدیق کو معاف کر دیا اس کا دوبارہ ہمارے یہاں انا شروع ہوگیا لیکن اب صدیق بہت شرمندہ شرمندہ رہنے لگا تھا یہ میرے دادا کی نیکی کی ایک اور کہانی ہئے
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...