داچے کا دورہ
ماہ اگست پھولوں، سبزیوں اور پھلوں کے پک کر اتار لیے جانے کا مہینہ ہوتا ہے۔ مجھے دیہاتی ماحول سے رغبت نہیں مگر سال میں ایک دو روز نیرنگی فطرت کا نظارہ کرنے کی خاطر چارو ناچار داچے یعنی دیہاتی گھر میں آ دھمکتا ہوں جو ماسکو شہر کے ایک کمرے پر مشتمل اپارٹمنٹ سے کل 90 کلومیٹر دور ہے۔ اپنی کار ہو تو فاصلہ محض ڈیڑھ گھنٹے میں طے ہو جائے چونکہ اپنی سواری نہیں ہے اس لیے گھر سے بس سٹاپ تک جہاں سے الیکٹرک بس جسے روسی ترولی بوس کہتے ہیں میں سوار ہو کر پانچویں سٹاپ پر اتر کے، ماسکو شہر میں گرداگرد زمین سے اونچائی پر چلنے والی جدید ترین ایئرکنڈیشنڈ ٹرین میں بیٹھ کر کوئی بارہویں سٹیشن پر اتر کر سٹیشن سے ہی لیننسکی پراسپیکت نام کے زیرزمین سٹیشن میں داخل ہو کر زیرزمین ریل گاڑی میں بیٹھ کر تیوپلستان نام کے سٹیشن سے باہر نکل کر پبلک ٹرانسپورٹ بس پکڑ کر 35ویں کلومیٹر نام کے بس سٹاپ پر اترنا ہوتا ہے۔ اس میں کوئی اڑھائی تین گھنٹے صرف ہو جاتے ہیں۔ تھکاوٹ اور اکتاہٹ علیحدہ۔ یہاں تک ہم پنشنر میاں بیوی کو سفر کی ساری سہولت مفت میسر ہے۔
اس بار میں اگست کے آخر میں پہلی بار آیا ہوں۔ اس ایک سال میں یہاں تک رہائشی عمارتوں کا جنگل آگ چکا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ یہ علاقہ نئے ماسکو کے نام سے ماسکو شہر کی حدود میں شامل کیا جا چکا ہے۔ سڑک عبور کرنے کا جو نیا اوور ہیڈ برج بنا ہے اس کی چھت نیلے آسمانی اور اطراف میں وقفے چھوڑ کر نارنجی، زرد اور سبز تین رنگوں کے مشترک فائیبرگلاس سے بنی ہے۔ دھوپ سے پل کے پیدل راستے پر رنگوں کی پیٹوں سے بنے سایوں نے مجھے مبہوت کر دیا۔ عوامی سفر کی ساری کوفت اور تھکاوٹ رفع ہو گئی۔ موڑ پر پہنچتے ہی نئی سیاہ کار بطور ٹیکسی میسر آ گئی اور ہم فراٹے بھرتے سات کلومیٹر کا سفر دس منٹ میں طے کرکے نئے ماسکو کی بستی یاوسی ایوو کے اپنے " کنٹری ہاوس" کے باہر پہنچ گئے۔
اہلیہ کسی رشتے دار کے بیاہ میں شرکت کرکے علاقہ یورال کے ایک قصبے سے چار روز بعد لوٹی تھیں۔ مجھے معلوم تھا کہ اس بار سیبوں کے درخت بہت لدے پھندے ہیں کیونکہ ایک برس فضل کم ہوتی ہے اور ایک برس بھرپور چنانچہ درختوں تلے گھاس پر سیب بکھرے ہونگے یوں اچھی تصویر بنائی جا سکے گی۔
ایسا ہی ہوا دروازہ کھولتے ہی ہر جانب سیب بکھرے ملے۔ کچھ کچھ جگہ سیاہ و زرد آلوچے بھی گرے ہوئے تھے۔ تصاویر بنا، ایک آدھ پھل چکھ تھوک کے انڈے اور تازہ سلاد کے ساتھ پیٹ بھرا پھر میں انٹا غفیل ہو گیا۔ کوئی ساڑھے پانچ بجے جاگا۔
خاتون کے آئی فون کی وائی فائی سے انٹرنیٹ مستعار لے کر سب تصاویر فیس بک پر ڈال دیں۔ نصرت جاوید کا آدھا پروگرام سنا۔ ایک دو پوسٹس لکھیں۔ عصر اور پھر تھوڑی ہی دیر بعد مغرب پڑھ کے لگے ہاتھوں " آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ بھی دیکھ لیا۔ بیوی چلاتی رہی کہ تم میرے بائٹس خرچ کرکے چلے جاو گے اور میں بنا انٹرنیٹ کے ٹانک ٹوئیے مارتی رہوں گی۔ مگر میں کہاں باز آنے والا۔ آتے ہی کہا تھا کہ کچھ آرام کر لوں تو گرے سیب چننے میں معاونت کروں گا مگر سو گیا، جب اٹھا تو وہ سارے سیب چن چکی تھی۔ اب اس نے لذیذ کھانا بھی تیار کر دیا تھا۔ بھنا ہوا مٹن، مکھن ملے ابلے آلو اور زیتون کے تیل میں گندھا تازہ سلاد۔ کھایا، ٹی وی دیکھا اور پھر سے انٹرنیٹ لگوا لیا۔ کہیں بارہ بجے ایک امریکی ناول " The Shack" پڑھنا شروع کیا۔ پچیس صفحے پڑھ لیے مگر بہت بیکار لگا۔ روشنی گل کر دی مگر دن میں سونے کی وجہ سے نیند بہت خراب رہی۔ خاتون تو کام کرنے کی دیوانی ہے۔ چھ بجے سے بیدار تھی۔ اسے سہیلی کے ہمراہ کوئی ڈیڑھ کلومیٹر دور واقع چشمے سے پانی بھرنے جانا تھا۔ سونے سے پہلے ساتھ جانے کا عندیہ دیا تھا مگر نیند اچاٹ ہونے کے سبب جانے کو جی نہ چاہا اور انکار کر دیا۔ البتہ جب وہ تیار ہو گئی تو سوچا چلا ہی جاتا ہوں۔ صبح کی سیر ہی سہی۔
مجھے ناشتہ کروا کے وہ ابھی تک صحن میں سیب دھونے، کاٹ کے اچھے برے حصے جدا کرکے رس نکالنے کے کام میں مصروف ہے اور میں نندیایا ہوا مگر رات پھر بے خوابی سے بچنے کو سونے سے گریزاں، برآمدے میں بچھے دیوان پر دراز دیواری گھڑی کی ٹک ٹک سنتے داچے کے دورے بارے آپ کو آگاہ کرنے کا کام کرنے لگا۔
شام ہو جائے گی، پھر صبح اور کہیں سہ پہر کو میں ماسکو کے لیے نکل جاوں گا۔ گھر بھی بی بی کا، داچا بھی اس کا اور اس کے بچوں کا اور فقیر بس خدمت کروانے کا شوقین، اپنے بچپن میں قید تین تین بہنوں کے پیار اور لاڈ کا بگڑا بھائی فقرو مستی میں گم۔ ہر جگہ فقیر کی خدمت کرنے کو کوئی نہ کوئی دوست، عزیز مل ہی جاتا ہے۔ نہ گھر ہے نہ ٹھکانہ، بس یونہی چلتے جانا ہے اور ایک روز فقیر اتنی دور نکل جائے گا کہ لوٹ کر نہیں آ سکے گا۔ وہاں بھی اللہ کوئی اپارٹمنٹ یا کم از کم کوئی داچا دے ہی دے گا مگر وائی فائی کی سہولت یقینا" نہیں دے گا۔ تب بہت بوریت ہوگی نا؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“