دبستان ِلکھنئو سے عوامی اردو تک
( شوکت صدیقی کے یوم وفات 18 دسمبر 2006 ء پر ایک نوٹ )
شوکت صدیقی 20 مارچ 1923ء کو لکھنئو میں پیدا ہوا ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب آل انڈیا کانگریس بن چکی تھی اور ربع صدی سے زیادہ عرصے سے برصغیر پاک و ہند میں کام کر رہی تھی ۔ آل انڈیا مسلم لیگ بھی بن چکی تھی وہ بھی لگ بھگ سترہ سال سے سیاسی کام میں مشغول تھی ۔ رولٹ ایکٹ آ چکا تھا ۔ جلیانوالہ والا باغ کا خونین واقع ہو چکا تھا ۔ پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد انگریز قدرے کمزور پڑ چکے تھے اور برصغیر میں آزادی کی لہر آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی ۔ روس میں سوشلسٹ انقلاب آ چکا تھا اور اس کے اثرات بھی ہندوستانی سیاست پر پڑنا شروع ہوچکے تھے ۔ یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ سیاست ، معیشت اور علم و فن کی دنیا میں انقلاب آ رہا تھا جہاں جہاں نوآبادیاتی نظام تھا وہاں آزادی کی تحریکیں یا تو زور پکڑرہی تھیں یا شروع ہو رہی تھیں ۔ زندگی کا قدیم ڈھانچا ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا ۔ شوکت صدیقی کی شخصیت کی نشوونما میں ایک طرف تو بین الاقوامی حالات میں تبدیلی ، برصغیر کی اصلاحی و سیاسی اور انقلابی تحریکوں کا ہاتھ نظر آتا ہے تو دوسری طرف لکھنئو کے ادبی اورعلمی ماحول کا اثر بھی دکھائی دیتا ہے ۔
ترقی پسند تحریک میں شامل ہونے تک وہ نہ صرف اردو کی قدیم داستانوں کا مطالعہ کرچکا تھا بلکہ ہم عصر ادب پڑھ کر انگریزی کے علاوہ روسی ، فرانسیسی اور بنگالی ادب سے بھی استفادہ حاصل کرچکا تھا ۔ شوکت صدیقی نے ایک مختصر مدت کے لئے (جنوری 1942ء تا نومبر 1943ء ) فوج میں بطور سکینڈ لیفٹینٹ کی حیثیت سے آرمی کے سگنل کور میں ملازمت بھی کی ۔ یہ وہ وقت تھا جب برصغیر ہند کے ' ترقی پسند ' روس کی اس یورپی جنگ میں شمولیت کے بعد سے ، اسے قومی جنگ قرار دے چکے تھے اور ہندوستانی فوج میں بھرتی کے دروازے ان پر کھل گئے تھے ۔ اس نے دوسری ملازمت بطور لبیر ویلفیئر آفیسر کی ۔ اس ملازمت کے دوران اسے بھوپال میں جنگی قیدیوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ۔ اس تجربے کے نتیجے میں اس کا افسانہ ' مردہ گھر ' سامنے آیا جو اس کے افسانوں کے مجموعے ' اندھیرا اور اندھیرا ' میں شامل ہے ۔ یہ ملازمت بھی چند ماہ رہی ۔ وہ والدین کے اصرار پر ملازمت ترک کر کے لکھنئو واپس آ گیا اور بڑے بھائی کے ساتھ کاروبار میں ہاتھ بٹانے لگا ۔ ”مردہ گھر“ سے بہت پہلے اس کی افسانہ نگاری کا آغاز 1940ء میں ہوچکا تھا اور اس کے افسانے مختلف ادبی رسائل میں شائع ہوتے رہے تھے ۔ اس کا پہلا افسانہ ' کون کسی کا ' 1940ء میں ہفت روزہ ”خیام“ لاہور میں شائع ہوا تھا جس کے بعد اس کے افسانے اور کہانیاں تواتر سے ”خیام“ ، ”عالمگیر“ اور ”شاعر“ آگرہ میں شائع ہوتی رہیں ۔ اُس کے اِس دور کے افسانے رومانی تحریک کا اثر رکھتے ہیں یا پھر جنگ عظیم دوم کے پس منظر میں رومانی و معاشرتی موضوعات پر لکھے گئے ہیں ۔ وہ انجمن ترقی پسند مصنفین کی ادبی نشستوں میں باقاعدگی سے شریک ہوتا اور اپنی کہانیاں تنقید کے لئے پیش کرتا ۔ اس کے افسانے” مہکتی وادیوں میں “ اور ” غم دل اگر نہ ہوتا “ کو انجمن کی نشستوں میں خاصا سراہا گیا ۔ شوکت صدیقی نے ڈاکٹر عبدالعلیم اور سید احتشام حسین کی قربت کی وجہ سے مارکسی نظریے کا مطالعہ کیا ۔ یوں افراد ، سماج اور سماجی عوامل کو دیکھنے پر کھنے اور اسے کہانیوں میں پیش کرنے کا ڈھنگ بدل گیا ۔ اس کی کہانیوں کے کردار جو پہلے بھی حقیقی ہی تھے اب افراد کی بجائے ' ٹائپ ' میں بدل گئے ۔ مارکسی نظریہ اپنانے کے بعد شوکت صدیقی نے خود کو ذہنی طور پر محنت کش طبقے سے قریب کیا ۔ برصغیر کی تقسیم سے پہلے وہ افسانوں کے علاوہ ڈرامے بھی تحریر کرتا رہا اور کچھ ریڈیائی ڈرامے پاکستان آنے کے بعد بھی تحریر کئے ۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ شوکت صدیقی نے بٹوارے کے وقت جو قتل و غارت اور انسانی قدروں کی پامالی ہوئی ، اس پر بہت کم لکھا ہے لیکن جب 1950ء میں وہ لکھنئو چھوڑ کر پہلے لاہور اور پھر کراچی جا بستا ہے تو اطمینان کی جمی جمائی زندگی کو چھوڑ کر پاکستان میں اسے بھی دیگر عام مہاجروں کی طرح مصائب اور آزمائشوں سے گزرنا پڑا ۔ جب وہ اس تجربے سے گزر رہا تھا تو اسے کچھ عرصہ ' جیکب لائن ' کے ایک کوارٹر میں بدقماش اور جرائم پیشہ لوگوں کے ساتھ رہنا پڑا ۔ شوکت صدیقی کا جیکب لائن کے اس کوارٹر میں گزارا وقت ان کے مشہور افسانے ” تیسرا آدمی“ میں صاف دکھائی دیتا ہے ۔ کراچی آنے کے بعد شوکت صدیقی نے صحافت کو ذریعہ معاش بنایا ۔ 1952ء تا 1954ء وہ ' پاکستان اسٹینڈرڈ ' کا سب ایڈیٹر رہا ۔ 1954ء تا 1960 ء روزنامہ ٹائمز آف کراچی ، 1960ء تا 1963ء روزنامہ ' مورننگ نیوز ' کراچی میں بطورسنیئر سب ایڈیٹر وابستہ رہا ۔ 1963ء تا 1969ء بطور چیف ایڈیٹر اردو روزنامہ ' انجام ' کے ساتھ کام کیا ۔ 1969ء تا 1973ء ہفت روزہ ”الفتح“ کے نگران اعلیٰ کی حیثیت سے کام کیا ۔ اخبار ”مساوات“ کا اجراء ہوا تو وہ اس کا 1973ء تا 1976ء ایڈیٹر اور بعد میں چیف ایڈیٹر رہا ۔ وہ 1976ء میں ”مساوات“ سے استعفیٰ دینے کے بعد 1980ء تک باقاعدہ کالم نگاری کرتا رہا ۔ ضیاء کی آمریت کے دور میں جب سنسر کچھ لکھنے نہ دیتا تھا تو 1984ء میں شوکت صدیقی نے صحافت کو خیرباد کہہ دیا ۔ ماضی میں جنوری 1959ء میں جب رائٹر ز گلڈ قائم ہوئی تھی تو شوکت صدیقی اس سرکاری ادارے میں متحرک ہوا تھا اور کئی بار مجلس عاملہ کے رکن بھی منتخب ہوا لیکن جب 1973ء میں ' مساوات ' کی ایڈیٹرشپ سنبھالی تووہ گلڈ سے علیٰحدہ ہوگیا تھا ۔ 9 مارچ 1976ء کو انجمن ترقی پسند مصنفین کی گولڈن جوبلی کا انعقاد کراچی میں ہوا ۔ اس میں ہندوستان کے ترقی پسند ادیب بھی شریک ہوئے ۔ شوکت صدیقی کنویسنگ کمیٹی کا چیئرمین اور مجلس استقبالیہ کا صدر منتخب ہوا ۔ اس میں پاکستان میں بولی جانے والی ' ماں بولیوں ' کے ادیبوں نے بھی شرکت کی ۔ شوکت صدیقی نے خطبہ استقبالیہ میں کہا؛
'' ۔ ۔ ۔ ترقی پسند تحریک کسی اتفاقی واقعے یا حادثے کی پیداوار نہیں ہے وہ انسانی تاریخ کے جدلیاتی عمل کے نتیجے میں ابھر کر سامنے آئی ہے۔ اس کا ایک روشن مستقبل ہے اور تابناک ماضی بھی ، اسے ورثے میں روشن خیالی کی اعلیٰ صحت مند روایات ملیں جس نے پاپائیت اور جاگیرداری کے خلاف مورچہ لگایا ۔ جس نے نئے خیالات اور افکار سے لیس ہوکر فرسودہ اخلاقیات ، کہنہ رسم ورواج ، استحصالی سیاست ، معیشت ، ثقافت اور طرز حیات کو بدلنے کے لئے جدوجہد کی، آزادی عمل اور مساوات کا نعرہ لگایا ۔ ۔ ۔ ''
شوکت صدیقی تمام زندگی ترقی پسند تحریک سے پرامید رہا ۔ اس کا کہنا تھا؛
'' ۔ ۔ ۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ تحریک ختم ہو گئی ، کچھ اسے سیاسی تحر یک کہتے ہیں کہ یہ ایک نعرہ کے بل پر زندہ رہنے والی تحریک ہے ۔ میں اس سے متفق نہیں ہوں ، اسے کسی ایک زمانے تک محدود نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ معاشرے کی بہتری اورارتقاء کا عمل ہے جو ہمیشہ جاری رہے گا ۔ ۔ ۔“
ترقی پسندی اور حقیقت نگاری کا رنگ لیے ہوئے شوکت صدیقی کے افسانوں کا دوسرا دور 19433ء سے شروع ہوتا ہے جب اس نے ترقی پسند تحریک میں شمولیت اختیار کرلی تھی ۔ شوکت صدیقی کے افسانوں کے پانچ مجموعے ہیں ۔ ” تیسرا آدمی ( گیارہ افسانے )“ ، ” اندھیرا اور اندھیرا ( نو افسانے )“ ، ”راتوں کا شہر ( گیارہ افسانے )“ ، ”رات کی آنکھیں“ ، ” کیمیا گر ( چھ افسانے ) “۔
شوکت صدیقی نے جہاں افسانے لکھے وہاں ناول نگاری کو بھی خاص توجہ دی ۔ اس کا پہلا ناول ”خدا کی بستی“ 1958ء میں پہلی بار ' مکتبہ نیا راہی ' کراچی نے شائع کیا ۔ اسے 1960ء میں آدم جی انعام دیا گیا ۔ اس ناول کا دنیا کی پچیس سے زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے ۔ انگریزی زبان میں اس کا ترجمہ ڈیوڈ میتھوز نے God's own Land کے عنوان سے کیا اور یونیسکو کے تعاون سے چھپا ۔ ” خدا کی بستی“ کے 2001ء تک 47 ایڈیشن شائع ہوچکے تھے ۔ اس کی ڈرامائی تشکیل پاکستان ٹی وی سے دوبار ہوئی اوریہ اب تک سات با ر نشر ہو چکی ہے ۔ ”خدا کی بستی“ آج بھی پی ٹی وی کی ایک مقبول ترین سیریل مانی جاتی ہے ۔
”جانگلوس“ شوکت صدیقی کا دوسرا ضخیم ناول ہے ۔ یہ تین جلدوں پر مشتمل ہے ۔ پہلی دو جلدیں جون 1977ء سے ' سب رنگ ' ڈائجسٹ میں قسط وار چھپتی رہیں جبکہ جلد سوم کا کچھ حصہ (صفحہ 258 تا 329) سب رنگ ڈائجسٹ میں ہی چھپا تھا ۔ جانگلوس کی پہلی جلد 1987ء اور تیسری جلد 1994ء میں شائع ہوئی ۔ اس ناول کے بھی کئی ایڈیشن اب تک چھپ چکے ہیں ۔
ان کا ناول ” کوکا بیلی “ 19622ء میں ادارہ ادبیات لاہور نے شائع کیا تھا ۔ اس ناول میں شوکت صدیقی کی بچپن کی یادیں ہیں ۔ اس میں لکھنئو کے انحطاط پذیر جاگیردارانہ معاشرے کی گھٹن ، عورتوں کی جہالت ، فرسودہ عقائد اور رسوم کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ شوکت صدیقی نے اس کا دوسرا ایڈیشن رکوا دیا تھا ۔ بعد میں اسے ازسرنو تحریر کیا اور ”چار دیواری“ کے نام سے ' حجاب ' ڈائجسٹ کراچی سے پہلے قسط وار شائع کیا اور پھر کتابی شکل میں 1990ء میں ”رکتاب پبلی کیشنز کراچی سے شائع کروایا ۔ اس کا ناولٹ ' کمین گاہ ' 1957ء میں بک لینڈ لاہور نے شائع کیا تھا لیکن شوکت صدیقی نے اسے بھی نامکمل سمجھتے ہوئے دوبارہ نہ چھپنے دیا ، نظر ثانی کے بعد یہ دوبارہ 1997ء میں شائع ہوا ۔
ان کے علاوہ شوکت صدیقی کے کالموں کا مجموعہ ”طبقاتی جدوجہد اور بنیاد پرستی“ 19888 ء میں رکتاب پبلی کیشنز نے کراچی سے شائع کیا ۔ اس میں اُس کے وہ کالم شامل ہیں جو اس نے 1972ء سے 1978ء کے درمیان روزنامہ مشرق اور روزنامہ مساوات میں لکھے تھے ۔ ان کالموں کو تین حصوں میں بانٹا جا سکتا ہے ؛ بھٹو دور کی اصلاحات پر لکھے گئے کالم ، بھٹو حکومت کے مخالفوں بارے لکھے کالم اور پاکستانی معاشرے میں رشوت ستانی ، استحصال ، نوکر شاہی اور نظام تعلیم کی خرابیوں پر لکھے کالم ۔ شوکت صدیقی نے کئی کتابوں کے دیباچے بھی تحریر کئے جن کی تعداد دس سے یقیناً زیادہ ہے ۔ تین کتابوں کے فلیپ پر رائے کا اظہار بھی کیا ۔ یہ تینوں نعیم آروی ، احمد زین الدین اور خلیل اللہ شبلی کے افسانوی مجموعے تھے ۔ اس کے لکھے دیباچے اور فلیپ پر اظہار رائے اپنی جگہ ادبی اہمیت رکھتے ہیں ۔
شوکت صدیقی کی تحریروں کا حقیقت نگاری کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس کے افسانوی ادب میں ان کی حقیقت نگاری مجموعی زندگی کا احاطہ تو کرتی ہی ہے ساتھ ہی اس کا ترقی پسند تصور حیات اور سماجی نقطہ نظر بھی بہت واضع طور پر نظر آتا ہے ۔ شوکت صدیقی کی تحریروں میں اس کا طبقاتی شعور اور انسان دوستی پوری طرح منعکس ہوتی ہے ۔ خدا کی بستی اس کی ایک واضع مثال ہے ۔ بعض اوقات اس کی حقیقت نگاری اتنی سفاک ہوجاتی ہے کہ ماحول کی ناسازگاری اور انسان کی بدبختی ایک دوسرے میں ڈھل جاتے ہیں ۔ جانگلوس اس کی مثال ہے ۔ جانگلوس میں اندوہناک انجام واضع طور پر ثابت کرتا ہے کہ شوکت صدیقی ظالمانہ نظام کے خلاف قاری کو اس حد تک ہلا دیتا ہے کہ اس کے دل میں سوائے نفرت اور احتجاج کے جذبے کے اور کچھ بھی نہیں باقی بچتا ۔ جانگلوس ناول بھی ہے اور سرشار کے ' فسانہ آزاد ' کی طرح داستان بھی ۔ اس ناول میں انہوں نے جرائم کو ان کے صحیح تناظر میں پیش کیا ہے اور ساتھ ہی ان عوامل کی بھی نشان دہی کی ہے جو جرائم کو پھیلانے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں ۔ شوکت صدیقی کا کہنا ہے ؛
”۔ ۔ ۔ جرم کو میں نے اس مفہوم میں نہیں دیکھا جیسا کہ عام طور پر دیکھا جاتا ہے ۔ میرا فلسفہ حیات یہ ہے کہ جرم اور چوری بنیادی طور پر محنت کی چوری ہے ۔ چوری کرنے والا کسی کی جائیداد چوری کرے گا یا کسی کا سامان لے جائے گا تو وہ چیز اس کی محنت کی تبدیل شدہ شکل ہے۔ کسی کے حق پر ڈاکہ ڈالنا بھی چوری ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ “
شوکت صدیقی ایک اور جگہ کہتا ہے ؛
” ۔ ۔ ۔ ہمارے چاروں طرف زندگی ہی زندگی ہے ۔ ایک حساس ادیب ان کا مشاہدہ کرتا ہے ان حقیقتوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے اور وہی حقیقیتں بعد میں فن اور تخلیق کا روپ دھار کر ادب کے سانچوں میں ڈھل جاتی ہیں ۔ میرے نزدیک یہی حقیقت نگاری ہے ۔ ۔ ۔ “
اس کے افسانے” تیسرا آدمی“، ” ڈھپالی“ ، ” مہکتی وادیوں میں“ ، ” تانیتا “ ، ” کیمیا گر“ سماجی زندگی کے متعدد پہلوﺅں کا صرف اظہار ہی نہیں کرتے بلکہ یہ آپ کے ذہن میں ان کے ذریعے ہونے والے استحصال ، سماجی نابرابری ، جبر اور مظلومی و محروی کے نقش بھی قائم کرتے ہیں ۔ حقیقت نگاری کی جو نئی جہت شوکت صدیقی کے ہاں نظر آتی ہے وہ ایک طرف پریم چند اور ترقی پسند تحریک کی حقیقت نگاری کی پاسداری کرتی ہے تو دوسری طرف آج کے دور کی زندگی اور سماجی تصورات سے جڑی ہوئی ہے ۔
شوکت صدیقی کے افسانوی ادب میں کرداروں کی تشکیل جامد نہیں ہے ۔ ان کے تمام کردار متحرک اور مکمل کردار ہیں ۔ ناول کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ناول کے کردار گوشت پوست کے انسانوں کی طرح زندہ اور متحرک ہونے چاہیں ۔ جس طرح انسان ارتقاء کرتا ہے ناول کے کرداروں کو بھی اسی انداز میں ارتقاء کرنا چاہیے ۔ اس زاویے سے دیکھا جائے تو شوکت صدیقی کے تمام افسانوی کردار اپنے طبقے کی تمام تر خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ جیتے جاگتے دکھائی دیتے ہیں ۔ اس کے تمام کردار کسی نہ کسی طرح معاشرے کا آئینہ قاری کو دکھاتے ہیں ۔ شوکت صدیقی کے افسانوی ادب میں کرداروں کی بھرمار نظر آتی ہے لیکن کرداروں کی یہ بہتات بے معنی نہیں ، یہ بہت مہارت سے پلاٹ میں اپنی اپنی جگہ جمائے گئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ شوکت صدیقی کے تمام کردار عوام میں انتہائی مقبول ہیں ۔ خداکی بستی کا ڈاکٹر موٹو ، نوشا ، سلطانہ ، راجہ ، نوشا کی ماں ، نیاز آج بھی لوگوں کے ذہنوں پر نقش ہیں اسی طرح لالی اور رحیم دار کے کردار بھی مقبول عام ہیں ۔ شوکت صدیقی کے تخلیق کردہ تمام کردار پاکستان کے مستقل شہری دکھائی دیتے ہیں اور وہ آج بھی پرانے نہیں ہوئے ۔ شوکت صدیقی کے ناولوں کی طرح اس کے افسانوں کے کردار بھی اپنی اپنی دنیا کے باسی ہیں ، اپنے طور پر زندہ رہتے ہیں ، اپنے طبقے کی سوچ کا اظہار کرتے ہیں اور اسی طرح مرتے ہیں جیسے انسان زندگی گزار کر موت کا راہی ہو جاتا ہے ۔ شوکت صدیقی کے افسانوی ادب میں حقائق کی سماجی بنیادیں بہت مضبوط ہیں اس کی بنیادی وجہ زندگی کے بارے میں اس کا معروضی نقطہ نظر ہے جو سماجی حالات کو اپنی گرفت میں لے کر قلم اٹھاتا ہے ۔ وہ بہت گہرائی سے حقائق کی سماجی بنیادوں کی کھوج کرتے ہوئے خانقاہوں اور روحانیت کے مرکزوں تک جا پہنچتا ہے جو اصل میں جرائم کے اڈوں کا کام کرتی ہیں ۔ قانون کے محافظوں کے اشتراک سے ان جگہوں پر جو دھندے چلتے ہیں اور ' اللہ ہو ' کے کلمے کے تلے جو برائیاں پلتی ہیں شوکت صدیقی ان کا پردہ بہت سفاکی سے چاک کرتا ہے اور معاشرے کے کھوکھلے پن کو بغیر کسی لگی پلٹی کے قاری کے سامنے رکھ دیتا ہے ۔
شوکت صدیقی کے افسانوی ادب کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ وہ لکھنئو کے دبستان سے تعلق رکھتے ہوئے بھی اس کا حصہ نہیں ہے ۔ اس کے افسانوی ادب میں زبان نے بھی ارتقاء کیا ہے ۔ خدا کی بستی کی زبان سہل اردو ہے ۔ جانگلوس کی زبان میں تو پاکستان میں بولی اور سمجھی جانے والی بہت سی زبانوں کے الفاظ اور محاورے آ گئے ہیں جن کا استعمال اردو دانوں کے لئے گناہ کبیرہ ہے ۔ اردو دان بھلا کہاں اردو میں ایسے الفاظ اور محاوروں کو گھسنے دیں ؛ ” پوستی نہ بن اٹھ ، اٹھا پھواڑا “ ، ” سردی تو دیر میں پڑتا ہے آج کل ، وہ تو وہاں برف گرتی ہے“ ، ” تو میری گالہہ کا مطبل نہیں سمجھ سکا “ ، ”سیئں سدا جیوے ، سکھی صحت ہووے ، رب راضی ہووے“ ، ”محنت کی ہے اس کی چگائی لوں گی ، کھیرات نہیں لیتی “ ۔
جانگلوس کی تینوں جلدوں کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو سندھی ، پنجابی ، بلوچی اور پشتو کے بے شمار الفاظ شوکت صدیقی نے اس ناول میں استعمال کئے ہیں ۔ یوں اردو کو اتنا عوامی کر دیا ہے کہ جب جانگلوس ”سب رنگ ڈائجسٹ “ میں قسط وار چھپتا تھا تو عام لوگ نئے شمارے کے آنے کا انتظار کرتے تھے ۔ جانگلوس کی وجہ سے سب رنگ ڈائجسٹ کی سرکولیشن ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ تک جا پہنچی تھی ۔
ہمارے ہاں اردو دانوں کا المیہ یہ رہا ہے کہ وہ ابھی تک خود کو اردو معلیٰ سے باہر نکال نہیں پائے ۔ شوکت صدیقی نے اردو داں ہوتے ہوئے یہ بیڑی کاٹی اور اردو زبان کو پاکستان کے تمام خطوں میں بولی جانے والی زبانوں کے نزدیک کر دیا ۔ جن دنوں ”جانگلوس“ سب رنگ ڈائجسٹ میں قسط وار چھپ رہا تھا ان دنوں مجھے پاکستان کے مختلف حصوں میں جانا پڑتا تھا کبھی پنجاب ، سرحد ، سندھ اور بلوچستان ، مجھے ہر جگہ سب رنگ ڈائجسٹ کی مانگ نظر آئی اور وہ ا س لئے کہ اس میں ”جانگلوس“ چھپ رہا تھا ۔ میں نے جانگلوس کی پہلی پڑھائی سب رنگ ڈائجسٹ کے ذریعے ہی کی تھی ۔ میں جس شہر سے بھی سب رنگ ڈائجسٹ خریدتا تو بک سٹال والے سے پوچھتا کہ یہ کیوں بکتا ہے ، جواب ملتا جانگلوس کی وجہ سے ۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ ' ادبی ڈیروں ' پر جانگلوس اور شوکت صدیقی منفی تنقید کا نشانہ بنے رہے تھے ۔
شوکت صدیقی کی تحریروں کی خصوصیات کا جائزہ لیں تو یہ بات صاف عیاں ہو کر سامنے آتی ہے کہ وہ بنیادی طور پر ایک کہانی کار ہے اور ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنی کہانی میں دلچسپی کے عناصر کا خصوصی خیال رکھتا ہے اور اس پر طُرح یہ کہ روانی کو ٹوٹنے نہیں دیتا ۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ بے لاگ حقیقت نگاری کرتا ہے ۔ وہ نہ تو اشارے کنایوں میں بات کرتا ہے اور نہ ہی علامتوں کا سہارا لیتا ہے ۔ اس کی تحریروں میں رمنریت اور رومانیت کے عناصر خال خال ہی نظر آتے ہیں ۔ وہ اپنے قاری کو اپنے ساتھ لے کر چلتا ہے ، کسی مبلغ کی طرح منبر پر بیٹھ کر قاری سے خطاب نہیں کرتا ۔ اس کی تحریروں میں زندگی کی جتنی امیر رنگا رنگی ہے وہ شاید اور کسی ادیب کے ہاں نہیں ۔ جانگلوس اور خدا کی بستی داستانوں کی سی ضخامت رکھتے ہیں ، ان میں تحیّرخیزی اور پراسراریت بھی ہے لیکن انداز تحریر الف لیلوٰی داستانوں کی طرح مقفع و مسّج نہیں بلکہ انتہائی سادہ ہے ۔ شوکت صدیقی زیریں دنیا ( انڈر ورلڈ ) کے حوالے سے جب کردار کشی کرتا ہے تو ان کی مخصوص اصطلاحات کا بخوبی استعمال کرتا ہے اور یوں لگتا ہے کہ وہ انڈر ورلڈ کے ہی آدمی ہے ۔
بہت سے ناقدین کو اعتراض ہے کہ شوکت صدیقی نے بازاری زبان کو اردو میں داخل کردیا ہے ”سالے“، ”حرام زادے“، ”حرام کے تخم“ جیسی گالیوں کو ناولوں کی زنیت بنا کر ادبی اردو کے ساتھ زیادتی کی ہے لیکن شاید ایسا نہیں ۔ اگر شوکت صدیقی کے کردار اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ وہ اسی طرح کی زبان بولیں تو شوکت صدیقی نے پورا انصاف کیا ہے اور ادبی اردو کو خراب نہیں بلکہ زرخیز کیا ہے ۔ شوکت صدیقی کی صحافتی تحریریں بھی زبان کے اُس چٹخارے سے خالی ہیں جو عام طور پر کالم نویس استعمال کرتے ہیں ۔ وہ گرم موضوعات کو اپنے کالموں کا موضوع بھی نہیں بناتے لہذا ان کے صحافتی کالم شاید عام قاری کے لئے اتنے دلچسپ نہیں البتہ ان کالموں میں سنجیدہ مسائل پر طویل گفتگو ضرور موجود ہے ۔ جن مسائل پر انہوں نے اپنے وقت میں قلم اٹھایا وہ آج بھی اتنے ہی سنجیدہ ہیں بلکہ ان کی کیفیت مزید گھمبیر ہوگئی ہے ۔ یوں یہ صحافتی تحریریں سنجیدہ قارئین کے لئے معلومات کے ایک اہم خزانے کا درجہ رکھتی ہیں ۔
شوکت صدیقی کی وفات 18 دسمبر 20066 ء کو ہوئی ۔ اس کو جو خراج عقیدت ملنا چاہیے تھا وہ اسے نہیں ملا شاید اس کی بڑی وجہ اردو دانوں کی ناپسندیدگی تھی کہ وہ ان کے دبستان سے نکل کر عوام کے ساتھ جا کھڑا ہوا تھا ۔ اس نے ادبی رسائل کے لئے لکھنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ڈائجسٹوں کے ذریعے اپنے وسیع قاری پیدا کئے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ضیاء کے مارشل لاء دور میں کچھ شخصیات ایسی ہیں جنہوں نے سخت سنسرشپ اور فنون لطیفہ کی نفی کے باوجود عوام کے دلوں میں جگہ بنائی ۔ ان میں شوکت صدیقی ”جانگلوس“ کے حوالے سے اور صوفی لوک گائیکی کے حوالے سے عابدہ پروین شامل ہیں ۔
میں تو صرف یہ کہوں گا شوکت صدیقی صاحب لکھنئو کی اردو کو چھوڑ کر عوام کی اردو اپنا کر آپ نے اردو قاری پر بہت بڑا احسان کیا ۔ #
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ مضمون شوکت صدیقی کی وفات پر جنوری 20077 ء میں لکھا گیا تھا اور یہ جریدے ' عاومی جمہوری فورم ' کے 35 ویں شمارے میں شائع ہوا تھا ۔
https://www.facebook.com/qaisar.khawar/posts/10153909039756895