دبستانِ اقبالؔ شناسی اور پروفیسر بشیر احمد نحوی
جموں و کشمیر میں ’’اقبالیات ‘‘ کے فروغ (۱۹۵۰ء کے بعد) کے سلسلے میں جن مشاہیر علم وفن کے کارنامے ‘علمی و ادبی اعتبار سے تاریخی حقیقت کا روپ لیے ہوئے ہیں اور اقبالؔ شناسی کے دبستان میں ‘جن کی فکری و فنی اور علمی و ادبی ریاضت گوہر سفتہ کے مثل ہے‘ ان میں پروفیسر آلِ احمد سرورؔ ‘پروفیسر جگن ناتھ آزاد ؔ پروفیسر محمد امین اندرابی کے ساتھ ساتھ پروفیسر بشیر احمد نحوی کی فعاّل شخصیت بھی شامل ہیں ۔ اقبالیات کے میدان میں ان شخصیات کے علمی و ادبی اور فکر و فنی خدمات کا اعتراف عالمی سطح پر ہورہا ہے ۔پروفیسر آل احمد سرورؔ اور جگن ناتھ آزادؔ کی خدمات بڑی اہمیت کی حامل رہی ہیں ‘چونکہ ان دو بزرگ اقبالؔ شناسوں کی کاوشوں کا ہی یہ ثمرہ ہے کہ جموں و کشمیر میں اقبالؔ شناسی اور اقبالؔ فہمی کا شعور منظّم اور مربوط انداز سے ایک تحریک کی صورت اختیار کر گیا ۔ ڈاکٹر محمد اسداللہ وانی اس مناسبت سے اپنے ایک مضمون بغوان ’’جموں و کشمیر میں اقبالیات کا جائزہ میں رقمطراز میں :
’’ ریاست جموں و کشمیر میں اقبالؔ شناسی اور اقبالؔ فہمی کی تحریک باقاعدہ طور پر آزادی کے بعد شروع ہوئی ۔ پروفیسر آل احمد سرورؔ اور پروفیسر جگن ناتھ آزادؔ نےاس تحریک کو کافی تقویت پہنچائی۔ ان دونوں ماہرین اقبالیات کی بدولت ریاست کے تعلیم یافتہ طبقے میں اقبال ؔ سے دلچسپی رکھنے والوں میں ایک نیا شعور بیدارہونے کے ساتھ ساتھ ایک نیا رجحان پیدا ہوا ‘‘ ۔
علامہ اقبالؔ کے فکر وفن اور شخصیت کے مختلف گوشوں کو اُجاگر کرتے ہوئے جن شاعروں ، مفکروں ، دانشوروں ، محققوں اور ناقدین نے جموں و کشمیر میں اقبالؔ شناسی کی اس تحریک کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ان میں پروفیسر حامدی کاشمیری ، پروفیسر محمد امین اندرابی‘ؔ پروفیسر اکبر حیدری ، پروفیسر مرغوب بانہالی‘پروفیسر تسکینہ فاضل وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔
کسی بھی تحریک یا مشن کو کامیابی سے ہمکنار کرانے میں ہر دور میں ایک با صلاحیت شخصیت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس حقیقت کے تناظر میں دیکھیں تو جموں و کشمیر میں اقبالؔ شناسی اور اقبالؔ فہمی کی اس منظّم اور مربوط تحریک کو ارتقا کی جانب لے جانے میں وادی کشمیر سے تعلق رکھنے والے ممتازاقبالؔ شناس پروفیسر بشیر احمد نحوی کا فعاّل کردار بڑی اہمیت کا حامل ہے ‘کیونکہ پروفیسر بشیر احمد نحوی کو نہ صرف علامہ اقبالؔ کا بیشتر کلام حِفظ ہے جس کی وجہ سے موصوف ’’حافظِ اقبالؔ ‘‘ کے لقب سے مشہور ہیں ، بلکہ کلام اقبالؔ کی تفہیم و تعبیر کے ضمن میں ماہرین اقبالیات نے جن لوازمات کو ضروری قرار دیا ہے اور جن علوم کی نشان دہی کی ہے ان علوم پر بھی پروفیسر صاحب کو کا مل عبور ر حاصل ہے ۔ یہ سچائی اس وقت حقیقت کے پیکرمیں ڈھل جاتی ہے جب فاضل معلم کی علمی و ادبی اور درسی مجالس میں فیض اٹھانے کا موقع نصیب میں آتاہے۔
پروفیسربشیراحمدنحوی ، اپنے فکر و دانش اورریاضت ونظامت کے بل پر اقبالیاتی ادب میں ممتازمقام پرنظرآرہے ہیں ۔ کیونکہ اقبالیاتی ادب میں آپ کی بیش بہا خدمات کا اعتراف ماہرین اقبالیات وقتاً فوقتاًکرتے آئے ہیں ۔ انسانی شخصیت کے کئی پہلو ہوتے ہیں جن میں کردارکو اولیت حاصل ہے ۔ اس حیثیت سے دیکھیں تو موصوف ، خوش اخلاق ، خوش گفتارہونے کے ساتھ ساتھ قول و فعل میں یکسانیت کے مالک ہیں بقول شاعر
اس دور میں اُس شہرپرہم کیوں نہ کریں نہ کریں ناز
جس شہر میں ایک صاحب کردا ر نظر آئے
اقبالؔ انسٹی ٹیوٹ کشمیر یونیورسٹی کے علمی وادبی خدمات سے شائقین اقبالؔ بخوبی واقف ہیں۔پروفیسر بشیر احمد نحوی کئی برسوں تک اقبال انسٹی ٹیوٹ کشمیر یونیورسٹی میں ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز رہے ۔اس دوران ادارے کی اطمیہنان بخش علمی و ادبی اور تحقیقی و تصنیفی کا ر کردگی کے ہیز نظر یونیورسٹی کے ارباب اقتدار نے ‘اس ادارے کے کام میں وسعت پیدا کرنے کے لئے‘ اس کے نام میں بھی توسیع کردی اور اس کا نام اقبالؔ انسٹی ٹیوٹ آف کلچر اینڈ فلاسفی رکھا ۔ پروفیسر بشیر احمد نحوی صاحب کی نظامت کے دوران اس ادارے نے اقبالیات کے تعلق سے بیسیوں سیمنار ، توسیعی خطبات اور مذاکرے منعقد کرائے جن میں ہند پاک کے علاوہ دوسرے ملکوں کی کئی نامور ہستیوں نے شرکت فرمائی ، علاوہ ازیں اس دوران متعدد کتابیں اور رسائل بھی شائع ہوئے ۔ یہ پروگرام آج بھی باضابط جاری ہے۔ اس ادارے کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کے کتب خانے میں تقریباً وہ تمام اہم کتابیں اور رسائل دستیاب ہیں جو اقبالیات سے متعلق دنیا کے گوشے گوشے میں تحریر ہوئے ہیں اور جن سے نہ صرف ادارے کے اسکالرس فیض اٹھاتے رہتے ہیں بلکہ دوسری یونیورسٹیوں میں اقبالیات میں تحقیق کرنے والے اسکالرس بھی وقتاً فوقتاً انسٹی ٹیوٹ میں آکر تشفی بخش مواد حاصل کرتے ہیں ۔
پروفیسر بشیر احمد نحوی کی تحریروتصانیف کا جائزہ لیں تو موصوف کی تصانیف میں اقبالؔ ۔ احوال و افکار ، وحدت الوجوداوراقبالؔ ، مسائل تصوّف اور اقبال‘اقبال…ؔ عرفان کی آواز جیسی فکر انگیز کتابیں شامل ہیں ۔ علاوہ ازیں ان کے متعدد مضامین معیاری رسائل میں شائع ہو چکے ہیں ، جن میں اقبالؔ شناسی اور جگن ناتھ آزادؔ اقبالؔ کا کارنامہ ، اقبال اور توحید وجودی ، علامہ اقبالؔ اپنے بیانات اور تقاریر کی روشنی میں ، اقبالؔ دشمنی یا دریدہ دہنی ۔ اقبال ایک تجزیہ، اقبالؔ دانش نورانی وغیرہ جیسے بصیرت افروز مضامین شامل ہیں۔
پروفیسر بشیر احمد نحوی جب کلام اقبالؔ کا جائزہ لیتے ہیں تو صفحہ قر طاس پر اپنی مفکرانہ رائے کا برمحل اظہار کرنے سے نہیں کتراتے ہیں ۔ مثال کے طور پر اپنے ایک مضمون ’’ اقبال کا کارنامہ‘‘ میں کلام اقبالؔ کے پاکیزہ اقدار پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
’’ …… جہاں تک اُردو شعراء کا تعلق ہے تو مجھے اقبالؔ وہ واحد شاعر نظر آرہا ہے جس کی عظیم شاعری میں زندگی کی رنگینی ، اخلاق کی رعنائی ،
فن کی گہرائی اور اقدار عالیہ کا کارفرمائی نظر آتی ہے ۔ اقبالؔ کی شاعری میں گل و بلبل ، خال وخط ، پرویزو کو ہکن اور لیلٰی و مجنون کی تلمیحات و
تشبیہات سے ہوا و ہوس اپنی شاعری میں پیش کیا ، اس کا تعلق ایمان بااللہ اور ایمان بالرسالت سے ہے ۔‘‘
’’ مسائل تصوّف اور اقبالؔ ‘‘ پروفیسر بشیر احمد نحوی کی ایک اہم تصنیف ہے ۔ یہ تصنیف نہ صرف اقبالیاتی ادب بلکہ اسلامی تصوّف پر تحریر شدہ کتابوں میں بھی ایک مخصوص مقام کی حامل ہے ۔ آسان اسلوب میں تحریر کردہ یہ کتاب نہ صرف تصوّف کے بنیادی مسائل سے واقفیت فراہم کرتی ہے بلکہ جدید علوم سے وابستہ افراد کوبھی اسلامی تصوّف کے خدوخال سے آگاہی فراہم کرتی ہے ۔ اس کتاب میں مصنف نے علمی اور تحقیقی لوازمات کے ساتھ تصوّف کے ماخذ، حقیقت ، روایت اور مقصدیت پر بصیرت افروز روشنی ڈالی ہے اور تصوّف سے متعلق غلط فہمیوں اور من گھڑت تصورات کا مفکرانہ اور محققانہ جائزہ لیتے ہوئے صوفیائے کرام کے تاثرات اور تفکرات کا بھی احاطہ کیا ہے ۔ علامہ اقبالؔ کے متصوفانہ خیالات کا جائزہ لیتے ہوئے پروفیسر موصوف لکھتے ہیں :
’’اقبالؔ زندگی کے شاعر ہیں ۔ ان کا نظریہ حرکت و حرارت جہدوعمل اور طاقت و توانائی کے عالمگیر اصولوں پر مبنی ہے اور وہ ساری عمر اپنے فکر و فن سے انہی
اصولوں کی نگہبانی اور ترجمانی کرتے رہے ۔ تصوّف ان کے ہاں یقیناًایک روحانی تحریک تھی …. انھوں نے اپنے خیالات (تصوّف کے متعلق)
سائنٹفک انداز میں پیش کئے ‘‘۔
علامہ اقبالؔ آفاقی شاعر کی حیثیت سے بھی یاد کئے جاتے ہیں ۔ اصل بات یہ ہے کہ آفاقی فن کار کی سانسیں اس کے فن میں ہمیشہ دوڑتی رہتی ہیں اور اس کی بلند نگاہی کی وجہ سے اس کے کلام کی معنویت ہر دور میں برقرار رہتی ہے ۔ ’’ نئی صدی میں شاعر مشرق کی معنویت ‘‘ کے عنوان کے تحت تحریر شدہ مضمون میں پروفیسر بشیر احمد نحوی شاعر مشرق کے کلام کو عصری تقاضوں کے قالب میں ڈھال کر اس کی دائمی معنویت پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
’’ بیسویں صدی میں ابھرنے والی اقبالؔ کی متحرک ، توانااور تابندہ فکری شخصیت اکیسویں صدی کے پُر آشوب عالمی مناظر نامے میں زبردست
معنویت رکھتی ہے ، یہ شخصیت اور فکری وجود موجودہ صدی کو سیاسی ، سماجی ، معاشی اور معاشرتی بالادستی اور اقوام عالم پر ظلم و تعدی ، حق تلفی اور
ناانصافی کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہوئے انسانی اخوت ، احترام آدمیت متوازن تقسیم دولت ، تزکیہ قلب و ذہن اور ارتفاعِ اقدار کے عظیم
اصولوں کی ترجمانی کا خوشگوار فریضہ انجام دیتا ہے ۔ ان کا فکر محکوم و مظلوم بالخصوص محنت کش طبقہ سے وابستہ لوگوں کو جھنجوڑتا ہے اور انھیں ساحرالموط
کے دئیے ہوئے برگِ حشیش کو ترک کرکے اپنی خودی کی شناخت اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی ترغیب دیتا ہے ۔‘‘
بہرحال پروفیسر موصوف کی پہلودار شخصیت کابھرپور احاطہ اس مختصر مضمون میں نہیں ہوسکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کامیاب استاد ، وہی استاد کہلانے کا مستحق ہے جس کے شاگرد بھی کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ سکیں ۔ اس میں استاد کی رہنمائی کا بھی حصّہ ہوتا ہے اور خلوص بھی شامل رہتا ہے ۔ اقبالؔ انسٹی ٹیوٹ آف کلچر اینڈ فلاسفی سے فارغ شدہ ایم فل اور پی ایچ ڈی ، اسکالرس جو پروفیسر موصوف کی نظامت کے دوران فارغ الخصیل ہوئے ان میں اکثر اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز ہیں ۔ اس کی ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ جو بھی اسکالر اس انسٹی ٹیوٹ میں داخلہ لیتا ہے تو اُسے ریسرچ کے دوران ذہنی نشونما کا مکمل علمی و ادبی ماحول میسرآتاہے اور پروفیسر موصوف درس و تدریس کے ساتھ ساتھ ان کے حوصلوں کو بھی نکھارنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اور ہمیشہ اس بات کے فکر مند ہوتے ہیں کہ بقول شاعر
ہواؤں میں اڑیں ، پیڑوں پہ چہکیں
پرندوں کو سدا آزاد رکھنا
***
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔