برائے تبصرہ "
کہانی ۔۔۔ دان
سنتی ہو کچھ خبر ہے" ہماری اب خیر نہیں۔۔۔
کیوں کیا ہوا۔۔۔
شیریں بتا رہی تھی کہ ایک گروہ آیا ہے۔۔۔جنہوں نے لمبے لمبے بال رکھے ہوئے ہیں۔۔ شلواروں کے پائنچے ٹخنوں سے اوپر ہیں۔۔پیٹ کھا کھا کر باہر نکلے ہوئے ہیں۔۔ ماتھے پہ سیاہ محرابوں کے نشانات ہیں اور دانتوں کی چمک اور سفیدی کو بھی مات دیئے جاتی ہے ۔۔
یہاں آنے سے پہلے وہ گروہ زمین پہ خوب عبادت کا اہتمام کیا کرتا ۔۔صوم و صلات صدقہ و زکات اور قرآن مجید کی قرات کے پکے پابند تھے۔۔۔
یہ تو اچھی بات ہے ۔۔
نہیں ناں " پوری بات تو سن لو ۔۔
جب سے وہ گروہ آیا ہے۔۔۔ افرا تفری کا عالم ہے۔ ڈر خوف وحشت کا حال یہاں بھی آ پہنچا ہے ۔۔ بلکل ویسے ہی جیسے زمینی انسانوں کے حالات ہیں ۔۔
یہ انسان نما گروہ کے گروہ "یہاں کھلے عام دندناتے پھرتے ہیں۔۔ ہم انکی مرضی کے تابع ہیں ۔۔ ہم محکوم ہو چکیں ۔۔ ان میں سے کوئی بھی کہیں سے بھی ہم میں سے کسی کو مال غنیمت سے حاصل شدہ لونڈیوں کی طرح ملیکت سمجھتے ہوئے نفس کی بھوک مٹا لیتا ہے پھر کہتا ہے ابھی ایک ہوئی انہتر باقی ۔۔۔
سامان انکے ایسے جو دنیا میں کبھی نہ بھرے اور پھر یہاں تو بھرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔۔
شیریں نے یہ بھی بتایا کہ دنیا میں انہوں نے کسی کو نہیں چھوڑا کیا بکری خچری گھوڑی گائے بھینس ۔۔ مزید بڑھ کر ایک دوسرے کیساتھ ۔۔۔
جب ایک کی ٹینکی فل ہو جاتی تو وہ کسی دوسرے کی ٹینکی فل کر دیتا۔۔۔ ایک وقت آیا انکی جنسی لطافتوں کا انتظام ہونا محال ہو گیا اور انہیں ہر راہ سے گزرنا معمول لگتا ۔۔ اسی لیے انہیں جنسی رہے سہے ذائقے بھی بلکل پھیکے لگنے لگے۔۔۔۔ یوں سمجھو کہ دلچسبی کے سامان میں راحت نہ رہی ۔۔
انکی ٹانگوں کی نلیوں میں موجود پانی کے چند قطروں کا ابال ایسا تھا کہ جیسے کسی پہاڑ کے نیچے موجود گرم لاوا" کہ جہاں کہیں سے بھی گزرے سب کچھ جلا دے۔۔۔ بری خبر یہ ہے کہ وہ لاوہ ہمارے لیے جوش مارتا رہا ۔۔
ہمارے لیے ؟ ۔ ۔ ہمیں تو وہ جانتے ہی نہیں ۔۔
یہی تو اصل مسئلہ رہا انکے ساتھ کہ ہم سے شناسائی نہ ہونے کے باوجود بھی انہوں نے اپنے اطمینان و تسلی کی خاطر اپنے طور پر ہماری ایک شناخت قائم کی ۔ پھر اس پہ سب لوگوں کا اجماع ہوا۔۔۔۔
جانتی ہو ہماری اہمیت شناخت اور ضرورت کیا ہے انکے نزدیک ؟
نہیں ؟
ہم ان کی نظر میں ایسی ہیں " جیسے زمین پہ بسنے والیوں میں سے کسی کوٹھے پہ بیٹھی رنڈیاں یا ننگی فلموں میں کام کرنے والی عورتیں جو کبھی نہیں بھرتیں۔۔۔چاہے طرح طرح کے طریقوں اور نسخوں سے آزمائی کیوں نہ جائیں ۔۔ بتاؤ تم ہی حور " کیا ہم پروفیشنل ہیں ۔۔ یا پھر محض اسی واسطے پیدا کی گئی ہیں کہ آؤ اور کثرت جماع کرو ۔۔
اسی سوچ میں یہ گروہ جلدی جلدی دوسرے انسانوں کو مٹانے میں لگ گئے تا کہ ہم زیادہ سے زیادہ انکے حصے میں آ سکیں۔۔۔۔اپنی ٹینکیوں اور بہتے نلوں کو ہماری کھیتیوں میں بہا سکیں۔۔۔
میں ابھی شیریں کی حالت دیکھ کر آئی ہوں۔۔ اس پہ بہت ظلم ہوا ۔۔
اسکے آقا نے اسکی حفاظت نہیں کی ؟
وہ بیچارا حفاظت کیا کرتا وہ تو خود انہی کے ہاتھوں قتل ہوا تھا۔۔۔ یہ زمین والی سب اخبار اسی نے شیریں کو پہنچائی ۔۔ اور اب شیریں کا آقا مارے ڈر کے اپنے ہی محل میں سہم کر چھپے بیٹھا ہے ۔۔
بار بار کہتا ہے کہ زمین پہ زندگی بھر خوف و ڈر کا شکار رہا وہاں بیگناہ قتل کیا گیا۔۔ اب یہاں سے نکالا نہ جاؤں قتل نہ کر دیا جاؤں۔۔
حور شیریں کے چہرے کی تازگی اور شگفتگی چھن چکی ۔۔ اسکا بدن جو شیشے اور ریشم کی طرح صاف شفاف تھا. نرم تھا ۔۔۔۔ ایسا داغدار بدبودار ہوا ہے کہ جیسے دوزخ میں پیپ کا دریاء ۔۔۔
آہ ۔۔ میرا سینہ پھٹنے کو ہے ۔۔۔ بیچاری کے سر سے پاؤں تک بدبودار مادے بہہ رہے ہیں ۔۔۔۔ رو رہی تھی بلک رہی تھی ظلم کی داستان ہوس کی کہانی بیان کر رہی تھی ۔۔۔
یہی نہیں انگوروں کی بیلیں ۔۔اناروں کے درخت سبھی پھل یوں غائب ہو چکے۔ جیسے اونٹ کسی پیندے نما برتن کا پانی جھٹ سے غڑپ کر جائے۔۔۔
دودھ کی نہریں گدلی ہو چکیں ۔ وہ شراب طہور کی نہر پہ یوں پڑا رہتا ہے"جیسے زمین پہ"پرانی وائن اور وسکی کے نئے برانڈ کے ٹھیکے اور پینے کو لوگ مرے جاتے ہیں ۔۔۔ یاقوت زرقون زمرد موتی مشک و عنبر سب چوری کر کے ایک ہی جگہہ ڈھیر لگا دیئے ہیں۔۔ جیسے کسی اور کا حق ہی نہیں۔۔
کہہ رہی تھی ہم بھی مخلوق ہیں ہمارے بھی حقوق ہیں۔۔۔ کوئی مسیحا کوئی فریاد سننے والا کاش آ جائے۔۔۔
کیا تم نے دیکھا انکو" نہیں
اور خدا نہ کرے کہ اس خوبصورت جگہہ میں میرا ان جنگلیوں وحشیوں سے سامنا ہو۔۔۔میں ہرگز نہیں چاہتی کہ میرے ساتھ سفاکیت ظلم و بربریت کا کھیل کھیلا جائے۔۔۔اس مقدس اور پاک جگہہ پہ ۔۔
مگر یہ گروہ یہاں تک پہنچا کیسے حور ؟
شائد عزازیل نے انکو بھی سانپ کے منہ میں ڈال کر بھجوا دیا ۔۔۔جیسے کبھی خود آن پہنچا تھا ۔۔۔ یاد ہے اسوقت بھی تو ایسے ہی خوف و ڈر کی فضا سی قائم تھی ۔۔۔
عزازیل اور اس گروہ میں کافی کچھ مشترک ہے وہ بھی تو اس وقت کا سب سے زیادہ پرہیزگار متقی اور زاہد تھا کہ اس جیسی ایک بھی مثال نہ ملتی تھی ۔۔انکا حال بھی بلکل ویسا ہے ۔۔ مطلب پکے موحد ۔۔ عالم ۔ فاضل ۔۔ عبادت گزار مگر پھر ورغلانے اور بہکانے والے اپنے دبدبے اور ظاہری حالت سے۔۔
شکر خدا کا اس وقت عزازیل کو جلد ہی یہاں سےنکال دیا دیا گیا۔۔۔ ویسے بھی آگ یہاں ٹہھر نہیں سکتی اور عزازیل آگ تھا ۔۔۔ مگر یہ موئے مٹی کے ہیں ۔۔ انہیں زبردستی نکالا بھی تو نہیں جا سکتا۔۔ پھر یہ جگہہ خاص بنائی ہی مٹی کے لیے گئی ہے ۔۔یہاں کی فضاء میں مٹی کی خوشبو ہمیشہ سے رچی بسی ہوئی ہے۔۔۔۔ لیکن یہ مٹی وہ نہیں ۔۔۔ جسے جس حالت میں ڈھالو تو ڈھل جائے ۔۔۔ طہارت بن جائے حرم بن جائے ۔۔ علم عرفان کی روشنی سے ایسے چمکے جیسے آسمان میں بھرپور چاند۔۔۔
آج لاکھوں سال بعد رونا آیا ہے مجھے ۔۔۔ کیا کریں کدھر جائیں۔۔ ظالم جھنڈ قابض ہوئے جاتا ہے۔۔۔ کوئی تو راہ ہاں راہ ۔۔۔۔
قربانی دینا ہو گی مجھے" سب ڈرتے ہیں۔۔ ستائے ہیں ۔۔ تھکے ہارے چھپ کے بیٹھے ہیں۔۔ڈر کے سہم کے ۔۔۔ زمین پہ بھی ڈر خوف و ہراس کا شکار بن کے مظلوم رہے اور یہاں آکر بھی وہی سب کچھ ۔۔۔ہمارے گھرانوں کے خوبصورت خوشبودار مہمانوں کی مظلومیت نہیں دیکھی جاتی اب ۔۔۔ ان قابضوں سے نجات دلاؤں گی سب کو ۔۔نہیں ہاروں گی میں ۔۔یہ جگہہ ویران نہیں ہونے دینی۔۔ شان و شوکت اور زیبائش کیونکر کم ہو یہاں کی ۔۔
تو پھر کیا سوچا تم نے ہمارے آقا و مہمانوں اور شیریں کی مدد کے لیے ۔۔۔ مجھے دنیا میں جانا ہو گا۔۔۔
کیوں ۔۔۔؟
دیکھوں گی کہ انہی کے گروہ میں سے کوئی تو ابھی تک وہاں موجود ہی ہو گا ۔۔۔
تو پھر ۔۔۔۔۔
وہاں اسے اپنا سب کچھ دان کر کے " یہاں خود کش بمبار لے کر آؤں گی ۔۔۔۔
یہ افسانہ فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔
“