داغ دہلوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک انتخابی نوٹ
داغ کے بارے میں یہ غلط تاثر عام ہے کہ وہ فقط زبان و بیان یا معاملہ بندی کے عظیم شاعر ہیں ۔۔۔اگر داغ کا غور سے مطالعہ کیا جائے تو یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ زندگی کے اکثر و بیشتر فکری اور عملی پہلوؤں پر بھی اُن کی نظر کتنی شفاف ہے۔۔ایک بچہ جس کے باپ کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا ہو اور پھر اس کی جوانی تک کی عمر اُس قلعہ معلیٰ میں گزری ہو۔جو ایک مکمل تہذیب کی بنیاد ہی نہیں بلکہ اُس کا محافظ تھا۔ ۔جس کی تباہی وبربادی کے خون آلود مناظر اُس نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہوں ۔اُس کے پاس نفسیاتی سطح پر زندہ رہنے کے لیےاس کے علاوہ اور کیا حیلہ رہ جاتا ہے کہ یا تو وہ ترک دنیا کر کے تصوف کی طرف مائل ہو جائے یا زندگی کی بے ثباتی کو دیکھتے ہوئے بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست کا چلن اختیار کر لے ۔داغ نے یہ دوسرا راستہ اختیار کیا۔اسی لیے اُس کی شاعری کا غالب حصہ ایسے ہی مضامین پر مشتمل ہے ۔لیکن یہاں یہ مت بھولیے کہ داغ ایک مکمل آدمی تھا ۔فکری سطح پر وہ اُن جذبات و احساسات کو نظر انداز نہیں کر سکتا تھا جن سے آپ اور ہم روزمرہ کی سطح پر دو چار ہوتے ہیں ۔داغ کی معاملہ بند شاعری کو بنیاد بنا کر اُس کے کلام کی دوسری جہات کو نظر انداز کردینا کوئی مستحسن عمل ہے نہ داغ کے شاعرانہ جوہرکو سمجھنے میں انصاف کر سکتا ہے۔
زبان و بیان کے حوالے سے بھی داغ کو لغت تک محدود کر دیا گیا ہے ۔آج تک کسی نے یہ نہیں بتایا کہ محاورہ بندی میں داغ اور اس کے استاد ذوق کے درمیان کیا فرق ہے؟صنائع بدائع کا وہ کیسا استعمال ہے ۔جس سے داغ کا شعر چمک اٹھتا ہے؟زبان و بیان میں داغ کے کئی معاصرین مثلا امیر مینائی،جلال ،ریاض خیر آبادی بھی اُس کے ہم پلہ تھے پھر داغ میں ایسی کیا بات تھی کہ اُسے اتنا اہم گردانا گیا ؟داغ کی شاعری پڑھتے ہوئے ایسے کئی سوال سر اٹھاتے ہیں ۔نیز یہ نکتہ بھی سامنے آتا ہے کہ داغ نے اگرمتقدمین سے اپنے رنگ میں استفادہ کیا ہے تو اُس کے بعد آنے والوں نے بھی اُس کے مضامین کو جلا دی یا اُنہیں اپنے رنگ میں پیش کیا ۔
میری یہ کوشش رہےگی کہ انتخاب کے ساتھ ساتھ ان سوالات کے جوابات بھی تلاش کیے جائیں اور ایک طرح سے داغ کو ایک نئی سطح پر دریافت ہی نہیں بلکہ بازیاب کیا جائے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“