ڈاکٹر ریاض توحیدی
ڈاکٹر ریاض توحیدی بحیثیت ایک افسانہ نگار اور نقاد جموں و کشمیر میں ہی نہیں بلکہ برصغیر ہندوپاک میں مستحکم شناخت قائم کر چکے ہیں. وہ مسلسل پڑھنے لکھنے میں مصروف عمل نظر آتے ہیں. درس و تدریسی فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ اردو ادب کے ساتھ انھوں نے گہرا رشتہ قائم کیا ہے جو دن بہ دن مضبوط اور توانا ہوتا جارہا ہے. ڈاکٹر ریاض توحیدی کو پی ایچ ڈی کی ڈگری دس سال قبل کشمیر یونیورسٹی کے اقبال انسٹیٹیوٹ سے تفویض ہوئی. توحیدی صاحب کا شمار وادی کے نامور قلم کاروں میں ہوتا ہے. ان کے دو افسانوی مجموعے شائع ہوچکے ہیں جس میں "کالے پیڑوں کا جنگل" اور "کالے دیوؤں کا سایہ" قابل ذکر ہیں. اس کے علاوہ ان کا ایک تحقیقی مقالہ "خلیفہ عبدالحکیم بحیثیت اقبال شناس" اور ایک مضامین کا مجموعہ "جہان اقبال" بھی شائع ہوکر قارئین سے داد تحسین پا چکا ہے. گذشتہ دنوں ان کی فکشن تنقید پر ایک کتاب "معاصر اردو افسانہ:تفہیم و تجزیہ" بھی شائع ہوکر منظر عام پر آچکی ہے.
ڈاکٹر ریاض توحیدی کا تخلیقی امتیاز افسانوں سے نمایاں ہوتا ہے. وہ کشمیر کے حالات کو علامت کے روپ میں انفرادی انداز میں بیان کرتے ہیں جو کہ ان کے افسانوں کا ایک اختصاصی رنگ ہے. جموں و کشمیر کے موجودہ افسانوی منظرنامے پر جتنے بھی افسانہ نگار ایک نئی پیشکش کے ساتھ ابھر کر سامنے آتے ہیں ان میں ریاض توحیدی کا بھی ایک اہم نام ہے. یہاں تک کہ وہ اسی موضوع جسے ان کے معاصر افسانہ نگار روایتی انداز میں یکسانیت کے ساتھ اپناتے ہیں، کو اپنی ہنرمندی سے ایک نئے رنگ ڈھنگ اور تکنیکی زاویے سے قالب میں ڈھال کر ایک نئی جان عطا کرتے ہیں. ان کے معاصرین میں نور شاہ، وحشی سعید دیپک بدکی، دیپک کنول، راجہ یوسف،طارق شبنم، زاہد مختار، ترنم ریاض، واجدہ تبسم گورکو، نیلوفر ناز نحوی، ناصر ضمیر، رافعہ والی، بلقیس مظفر وغیرہ بھی عمدہ افسانے تخلیق کر رہے ہیں. ان میں کچھ تجربہ کار افسانہ نگار ہیں اور کچھ نو آموز تاہم حوصلہ افزا کلمات سے وہ اپنے افسانوں میں جان اور استحکام عطا کرسکتے ہیں.
ڈاکٹر ریاض توحیدی تخلیقی اور تنقیدی ادب کے شہسوار ہیں. ان کے تنقیدی مقالات بھی آئے دن شائع ہوتے رہتے ہیں. ان کا تنقیدی آہنگ بھی بہت حد تک مساویانہ اور اعتدال پسندانہ ہے. تنقید میں وہ فکشن کو اپنا خاص موضوع بنا رہے ہیں. اگر کشمیر میں تحقیق کے حوالے سے بات کی جائے تو ماحول اتنا بھی خوشگوار نہیں ہے جس قدر کام ہونا چاہیے تھا وہ ہونے سے قاصر ہے. ہمارے مضامین خالص تنقیدی ہوتے ہیں جبکہ تحقیقی عنصر کی ان میں حد درجہ کمی محسوس ہوتی ہے. یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طلباء اپنی اسناد کی بازیابی کے بعد تحقیقی و تنقیدی خدمات سے مکمل طور مستعفی ہوجاتے ہیں جو اردو کے لیے خوفناک اندیشہ ہے. جبکہ تحقیقی اور تخلیقی اصناف ہی پر اردو زبان قائم و دائم ہے. اس لیے دونوں کے تئیں ہماری تحفظ اور فروغ کی زمہ داری بنتی ہے. جموں و کشمیر کی موجودہ نسل کے تنقیدی صف میں ڈاکٹر مشتاق حیدر، ڈاکٹر الطاف انجم، ڈاکٹر محی الدین زور کشمیری، ڈاکٹر محمد یاسین گنائی، ڈاکٹر محمد اشرف لون وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں.
15 جولائی 2018 کو ڈاکٹر ریاض توحیدی صاحب کی کتاب #معاصر_اردو_افسانہ_تفہیم_و_تجزیہکی رسم رونمائی انجام دی جائے گی. اس موقع پر ہم ڈاکٹر ریاض توحیدی صاحب کا استقبال کرتے ہیں. ان کی حاضری سے ہمارے سمینار کی اہمیت مزید بڑھ جائے گی.
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“