عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)
تحریر: ڈی ایچ لارنس (برطانیہ)
اردو قالب: قیصر نذیر خاورؔ (لاہور، پاکستان)
یہ ایک خوبصورت عورت کی کہانی ہے جسے زندگی میں آگے بڑھنے کے مواقع تو بہت ملے لیکن اس کی قسمت اچھی نہ تھی۔ اس نے محبت کی چاہت میں شادی کی لیکن محبت ریت کا محل ثابت ہوئی۔ اس کے بچے خوبصورت اور لوگوں کے دل کو بھاتے تھے لیکن اسے لگتا تھا جیسے وہ اس پر تھوپے گئے ہوں، اسے ان سے پیار نہ تھا ۔ وہ اسے ایسی سرد مہری سے دیکھتے تھے جیسے اس میں عیب تلاش کر رہے ہوں۔ وہ جلدی سے اس کوشش میں لگ جاتی کہ اپنے عیبوں کو چھپا لے لیکن کیا چھپائے؟ یہ تو اسے معلوم ہی نہ تھا ۔ بچوں کی موجودگی میں اس کا دل پتھر ہو جاتا ۔ اسے اس بات سے تکلیف ہوتی کیونکہ فطری طور پر تو وہ انہیں پیار کرنا چاہتی تھی اور اس کی کوشش ہوتی کہ وہ ان سے زیادہ نرمی سے پیش آئے اور ظاہر کرے کہ وہ ان سے بہت محبت کرتی ہے البتہ اسے پتا تھا کہ اس کے دل کی گہرائیاں پتھریلی ہیں اور ان سے محبت نہیں پھوٹتی ۔ دوسرا ہر کوئی اس کے بارے میں کہتا تھا ؛
” وہ ایک اچھی ماں ہے ۔ وہ اپنے بچوں سے بہت محبت کرتی ہے ۔”
اس کے برعکس خود اسے اور اس کے بچوں کو یہ معلوم تھا کہ ایسا نہیں ہے ۔ایسا وہ ایک دوسرے کی آنکھوں میں ہی دیکھ لیتے تھے ۔
لڑکا اور اس کی دو ننھی بہنیں ایک دلکش باغیچے والے گھر میں رہتے تھے جہاں ان سب کے کاموں کے لئے الگ الگ نوکر تھے۔ یہ تینوں اس علاقے میں خود کو دیگر سب سے برتر سمجھتے تھے ۔
ان کی زندگی ، گو ، آسائش سے گزر رہی تھی لیکن انہیں ہر وقت گھر میں ایک بےچینی سی محسوس ہوتی تھی ۔ گھر میں پیسوں کی قلت رہتی تھی ۔ ان کے ماں اور باپ کی آمدن تو تھی لیکن اتنی نہ تھی کہ وہ اس سماجی حیثیت کو برقرار رکھ سکتی جو انہوں نے اختیار کر رکھی تھی ۔ ان کا باپ شہر کے کسی دفتر میں کام کرتا تھا اور اس کے روشن مستقبل کے امکانات بھی تھے لیکن یہ کبھی حقیقت نہ بن سکے ۔ گھر کے درودیوار میں پیسوں کی کمی کی رگڑ ہر وقت محسوس ہوتی تھی لیکن طرز زندگی کا معیار ہمیشہ برقرار رکھا جا رہا تھا ۔
” میں دیکھتی ہوں کہ میں کیا کر سکتی ہوں ۔“ بالآخر ماں نے کہا ۔ لیکن اسے یہ معلوم ہی نہ تھا کہ وہ کہاں سے شروعات کرے ۔ اس نے بہت دماغ لڑایا ، ایک طریقہ سوچا پھر دوسرا پراسے کسی طرح بھی کامیابی نہ ہوئی ۔ ناکامی اس کے چہرے پر جھریوں کی شکل میں نمودار ہونے لگی ۔ اس کے بچے بڑے ہو رہے تھے اور انہوں نے جلد ہی سکول میں داخل بھی ہونا تھا ۔ مزید آمدن کا کوئی نہ کوئی ذریعہ ہونا چاہئے ۔ مزید پیسوں کی کوئی اور راہ نکلنی چاہئے ۔ باپ ، جو ہر وقت بنا ٹھنا رہتا تھا اور جس کے شوق مہنگے تھے، بھی اس معاملے میں بے بس نظر آتا تھا اور ماں ، جس کے شوق خاوند سے بھی بڑھ کر تھے اور اسے خود پر اعتماد بھی بہت تھا ، بھی کسی طور کامیاب نہ ہو پائی ۔
ایسے میں گھر ہر وقت اس اَن کہے جملے سے گونجتا رہتا ؛ مزید دولت ہونی چاہئے ۔ ۔ ۔ ۔ مزید دولت ہونی چاہئے ۔ بچے بھی اس کو سنتے گو یہ جملہ کسی نے کبھی اونچی آواز میں کہا نہ تھا ۔ کرسمس آئی اور جب گھر میں بچوں کے کھیلنے کا کمرہ مہنگے اور شاندار کھلونوں سے بھر گیا تو یہ سرگوشی انہیں ، کاٹھ کے گھوڑے کے پیچھے سے ، گڑیا گھر کی پشت سے ، کچھ زیادہ ہی سنائی دینے لگی ۔ ”مزید دولت ہونی چاہئے،“ کی سرگوشی کچھ دیر کے لئے ان کی کھیل کود بند کرا دیتی ۔ وہ ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھنے لگتے جیسے جاننا چاہتے ہوں کہ یہ سب نے سنی ہے یا نہیں ۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں دیکھنے سے انہیں پتہ چل جاتا کہ سب نے اس جملے کو سنا ہے ۔
یہ سرگوشی ہچکولے کھاتے کاٹھ کے گھوڑے کے سپرنگوں سے اس طرح نکلتی کہ خود گھوڑا اپنی لکڑی کی گردن جھکائے اسے سنتا ۔ اپنی نئی پرام میں بیٹھی گلابی بڑی سی گڑیا بھی اسے سنتی اور اس کی بناوٹی مسکراہٹ اور زیادہ کھلی نظر آنے لگتی ۔ نادان کتورا ، بھی ، جس نے ٹیڈی ۔ بیئر کی جگہ لے لی تھی ، مزید ہونق لگنے لگتا جیسے شرمندہ ہو کہ اس نے یہ آواز کیوں سنی ؛ ” مزید دولت ہونی چاہئے ۔“
سرگوشی ، گو ، ہر طرف پھیلی ہوئی تھی لیکن کسی نے اسے با آواز بلند نہیں کہا تھا ، اسی لئے کوئی اس پر بات نہیں کرتا تھا ۔ یہ ایسے ہی تھا جیسے کوئی بھی یہ نہیں کہتا ؛ ” ہم سانس لے رہے ہیں ۔ “ حالانکہ سانس تو ہر لمحہ اندر باہر آ جا رہا ہوتا ہے ۔
” ماں!“ ، ایک دن لڑکے پال نے کہا ، ” ہمارے پاس اپنی کار کیوں نہیں ہے ؟ ہمیں ہمیشہ ماموں کی گاڑی استعمال کرنی پڑتی ہے یا پھر ٹیکسی لینی پڑتی ہے ؟ “
” کیونکہ ہم اپنے خاندان کا ایک غریب گھرانہ ہیں ۔“ ، ماں نے جواب دیا ۔
” لیکن کیوں ، ماں ، ہم ایسے کیوں ہیں ؟ “
” میرا خیال ہے ،“ ماں نے تلخی سے الفاظ چباتے ہوئے کہا ، ” ایسا اس لئے ہے کہ تمہارے باپ کی قسمت اچھی نہیں ہے ۔“
بیٹا کچھ دیر خاموش رہا پھر اس نے جھجھکتے ہوئے پوچھا ؛ ” کیا دولت خوش قسمتی ہے ، ماں؟ “
” نہیں ، ایسا نہیں ہے ، پال ۔ خوش قسمتی تو دولت کا کارن بنتی ہے ۔“
” اوہ اچھا! “ ، پال نے بے یقینی سے کہا ، ” جب ماموں آسکر نے ’ غلیظ خوش قسمت‘ کہا تھا تو میں یہ سمجھا تھا کہ وہ دولت کی بات کر رہے ہیں ۔ “
”انہوں نے غلیظ* دولت مند کہا تھا ، *خوش قسمت نہیں ۔“
”اوہ ! “ ، لڑکے نے کہا ، ” تو پھر خوش قسمتی کیا ہوتی ہے ، ماں ؟ “
” یہ پیسے کی وجہ بنتی ہے۔ اگر آپ خوش قسمت ہو تو آپ کے پاس دولت ہو گی ۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ بندے کو خوش قسمت پیدا ہونا چاہئے بجائے اس کے وہ دولت مند گھرانے میں پیدا ہو ۔ اگر آپ امیر ہو تو دولت گنوا بھی سکتے ہو لیکن اگر خوش قسمت ہو تو ہمیشہ اور دولت حاصل کر سکتے ہو ۔ “
” اوہ! ، تومیرے والد خوش قسمت نہیں ہیں ؟ “
” میں تو کہوں گی ، بہت بدقسمت ۔“ ، ماں تلخی سے بولی ۔
بیٹا شک بھری نظروں سے ماں کو دیکھتا رہا ، پھراس نے پوچھا ؛” کیوں ؟ “
” مجھے نہیں معلوم ، کوئی بھی نہیں جانتا کہ ایک خوش قسمت کیوں ہوتا ہے جبکہ دوسرا بندہ بدقسمت ۔ “
” واقعی انہیں نہیں پتہ ؟ کوئی نہیں جانتا ؟ کوئی تو ہو گا جو جانتا ہو گا ؟ “
” شاید خدا ، لیکن وہ کبھی بتاتا نہیں ہے ۔“
” اسے بتانا چاہئے ، اور ماں ، کیا آپ خوش قسمت نہیں ہیں ؟ “
” میں خوش قسمت کیسے ہو سکتی ہوں جبکہ میں ایک بد قسمت آدمی کی بیاہتا ہوں ۔“
” لیکن اپنے آپ میں تو آپ خوش قسمت ہو سکتیں ہیں یا نہیں ؟ “
” شادی سے پہلے میں ایسا سوچا کرتی تھی کہ میں خوش قسمت ہوں لیکن اب میں سمجھتی ہوں کہ اصل میں بدقسمت تو میں ہی ہوں ۔“
” کیوں ؟ “
” خیر ، چھوڑو اس قصے کو ، شاید میں بدقسمت نہیں ہوں ۔“ ، ماں نے جواب دیا ۔
بیٹے نے ماں کو ایسے دیکھا جیسے جاننا چاہتا ہو کہ وہ جو کہہ رہی ہے وہ اسے مانتی بھی ہے یا نہیں ۔ اور اس نے اپنی ماں کے منہ پر پڑے بلوں سے یہ اندازہ کر لیا کہ وہ اس سے کچھ چھپا رہی ہے ۔
” ٹھیک ہے ، بہرحال “ ، اس نے مضبوط لہجے میں کہا ، ” میں تو خوش قسمت ہوں ۔“
” کیسے ؟ “ ماں نے یہ سن کر ہنستے ہوئے کہا ۔
بچہ ماں کو گھورنے لگا ۔ اسے تو یہ معلوم ہی نہ تھا کہ اس نے کہا کیا ہے ۔
” مجھے خدا نے بتایا ہے ۔ “ اس نے بےباکی سے پُرزور انداز سے کہا ۔
” پیارے ، مجھے امید ہے کہ اس نے کہا ہو گا ۔ “ ، وہ پھر سے ہنستے ہوئے بولی لیکن اب اس کی ہنسی میں تلخی تھی ۔
” ماں ! اس نے واقعی ایسا کہا تھا ۔ “
” پھر تو یہ شاندار بات ہے“ ، اس کی ماں نے اپنے خاوند کی طرح پرجوش انداز میں کہا ۔
لڑکے نے دیکھا کہ اس کی ماں کو اس کے کہے پر یقین نہیں آیا تھا ؛ یا پھر شاید اس نے اس کے مضبوط لہجے پر غور ہی نہیں کیا تھا ۔ اس کے اندر کہیں غصہ جاگا کہ اس کی ماں اس کی بات کو سنجیدہ کیوں نہیں لے رہی ۔
وہ ، شک بھرے بچگانہ انداز میں خوش قسمتی کا کھوج لگانے کے لئے وہاں سے اٹھ گیا ۔ لوگوں کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ اپنے آپ میں گم ہوتا گیا اور من ہی من میں خوش قسمتی کا سراغ لگانے لگا ۔ اسے خوش قسمتی درکار تھی ، وہ خوش قسمت بننا چاہتا تھا ، خوش قسمتی اس کی چاہ بن گئی تھی ۔ جب اس کی بہنیں کھیلنے والے کمرے میں گڑیوں سے کھیل رہی ہوتیں تو وہ کاٹھ کے گھوڑے پر بیٹھا اس پر جھول رہا ہوتا ۔ اس کی آنکھیں فضا میں گھور رہی ہوتیں اور اس پر ایسی جنونی کیفیت طاری ہوتی کہ اس کی بہنوں کو اس سے خوف آنے لگتا ۔ وہ اک وحشت سے اس پر سواری کرتا ، اس کے گہرے گھنگھریالے بال ہوا میں لہراتے اور اس کی آنکھیں ایک خاص چمک سے روشن ہو جاتیں ۔ یہ دیکھ کر اس کی ننھی بہنوں کی گھگی بند جاتی اور انہیں اس سے بات کرنے کی ہمت نہ ہوتی ۔
جب وہ اپنے اس چھوٹے سے جنونی سفر کے اختتام پر پہنچتا تو وہ چھلانگ مار کر کاٹھ کے گھوڑے سے اترتا ، اس کے سامنے جا کر کھڑا ہوتا اور اس کے جھکے ہوئے چہرے کی طرف دیکھنا شروع کر دیتا جس پر اس کا لال منہ تھوڑا سا کھلا ہوتا اور اس کی بڑی چمکیلی آنکھیں پوری کھلی ہوتیں ۔
” اب! “ وہ خاموشی سے اس نتھنے پھلائے گھوڑے سے کہتا ، ” اب مجھے وہاں لے چلو جہاں خوش قسمتی ہے ! اب مجھے وہاں لے چلو جہاں خوش قسمتی ہے ! “
پھر وہ گھوڑے کی گردن پر اپنا چھوٹا سا چھانٹا مارتا جو اس نے اپنے ماموں آسکر سے منگوایا تھا ۔ اسے معلوم تھا کہ اس کے مجبور کرنے پر ہی گھوڑا اسے وہاں لے جائے گا جہاں خوش قسمتی ہو گی ۔ وہ پھر سے اس امید کے ساتھ اس پر چڑھ کر پھر سے وحشیانہ سواری شروع کر دیتا کہ گھوڑا اسے خوش قسمتی تک لے جائے گا ۔
” پال ، تم اپنے گھوڑے کو توڑ ڈالو گے ۔“ آیا اسے کہتی ۔
” وہ اس پر اسی طرح سواری کرتا ہے ۔ میری خواہش ہے کہ وہ ایسا کرنا ترک کر دے ۔“ ، بہنوں میں سے بڑی والی جون جواب دیتی ۔
یہ سن کر وہ کچھ نہ بولتا بس خاموشی سے انہیں گھورتا ۔ آیا اُس کے اِس طور سے تنگ آ چکی تھی ۔ وہ اسے سدھار نہیں پا رہی تھی ۔ ویسے بھی اب وہ بڑا ہو گیا تھا اور اس کے قابو میں نہیں رہا تھا ۔
ایک روز اس کی ماں اور ماموں کھیلنے کے کمرے میں اس دوران آ گئے جب وہ گھوڑے پر بیٹھا جنونی طریقے سے سواری کر رہا تھا ۔ اس نے ان سے کوئی بات نہ کی ۔
” ہیلو، نوجوان گھڑ سوار ! کیا تم ایک جیتنے والے گھوڑے پر سواری کر رہے ہو؟ “ اس کے ماموں نے پوچھا ۔
” کیا تم اب اس کاٹھ کے گھوڑے کے لئے کچھ زیادہ بڑے نہیں ہو گئے؟ تمہیں معلوم ہے کہ اب تم ایک چھوٹے بچے نہیں رہے۔“ ، اس کی ماں بولی ۔
لیکن پال نے کوئی جواب نہ دیا ، صرف اپنی بڑی بڑی نیم بند نیلی غصہ بھری آنکھوں سے دیکھا ۔ جب وہ سواری کے جنون میں ہوتا تو وہ کسی سے بات نہیں کرتا تھا ۔ اس کی ماں اسے فکر مندی سے دیکھتی رہی ۔
آخر اس نے میکانکی انداز میں گھوڑے کو روکا اور نیچے اتر آیا ۔
” میں آخر کار وہاں پہنچ ہی گیا !“ وہ اپنی مضبوط ٹانگیں وا کئے تیز مگر زوردار لہجے میں بولا، اس کی آنکھوں سے ابھی بھی آگ نکل رہی تھی ۔
” تم کہاں جا پہنچے تھے ؟ “ اس کی ماں نے سوال کیا ۔
”وہیں جہاں میں جانا چاہتا تھا ۔ “ اس نے غصیلی آواز میں جواب دیا ۔
” یہ ٹھیک ہے ،بیٹا ! “ ماموں آسکر نے کہا ، ” ظاہر ہے تم نے تو منزل پر پہنچ کر ہی رکنا تھا ۔ تمہارے گھوڑے کا نام کیا ہے ؟ “
” اس کا کوئی ایک نام نہیں ہے ،“ ، لڑکے نے جواب دیا ۔
” چلو ٹھیک ہے ، بِنا نام کے بھی چلے گا ۔“ ماموں نے کہا ۔
” خیر ایسا بھی نہیں ہے ، اس کے مختلف نام ہیں ۔ پچھلے ہفتے اس کا نام ’ سانسووینو‘ تھا ۔“
” ارے ، سانسووینو ؟ اس نے تو’ ایسکوٹ ‘ گھڑ دوڑ جیتی تھی ۔ تمہیں اس کا نام کیسے پتہ چلا ؟ “
” یہ ہمیشہ بیست سے ریس میں ڈورنے والے گھوڑوں کے بارے میں بات کرتا رہتا ہے ۔“ جون بولی ۔
ماموں یہ سن کر خوش ہوا کہ اس کا ننھا بھانجا گھڑ دوڑ کے بارے میں ساری معلومات رکھتا ہے۔ بیست اس گھر کا مالی تھا ۔ وہ جنگ میں اپنے بائیں پاﺅں کے زخمی ہونے کے بعد آسکر کریسویل کے ذریعے اس نوکری پر لگا تھا جس کا وہ پہلے خادم تھا ۔ وہ ایک اچھا گھسیارا تھا ۔ وہ گھڑ دوڑوں کا رسیا بھی تھا اور پال نے اس سے دوستی کر رکھی تھی ۔
آسکرکریسویل کو بیست سے یہ معلوم ہوا ؛
” ماسٹر پال میرے پاس آتے ہیں اور پوچھتے ہیں ۔ میں انہیں انکار نہیں کر سکتا ، مجھے انہیں گھڑ دوڑوں کے بارے میں بتانا پڑتا ہے ۔“ بیست نے کہا ۔ اس کے چہرے پر ایسی سنجیدگی تھی جیسے وہ کسی مذہبی معاملے پر بات کر رہا ہو ۔
” تو کیا اس نے کسی ایسے گھوڑے پر کچھ لگایا جس کے بارے میں اس کا خیال تھا کہ وہ جیت جائے گا ؟ “
” دیکھیں جناب ، میں اس بارے میں کچھ کہنا نہیں چاہتا ۔ وہ ایک نوجوان ہے اور گھڑدوڑ کا شوقین ہے اور ایک اچھا شوقین ۔ اگر آپ بُرا نہ منائیں تو بہتر ہو گا کہ آپ خود اس سے پوچھیں ۔ وہ ایسے معاملات میں خوشی سے حصہ لیتا ہے ۔ اگر میں نے اس بارے میں آپ کو کچھ بتایا تو اسے ٹھیس پہنچے گی ، میری بات کا بُرا نہ منائیں جناب ۔“ بیست کی سنجیدگی گرجا گھر کی طرح اٹل تھی ۔
آسکر اپنے بھانجے کے پاس واپس گیا ، اسے گاڑی کی سیر کرانے کے بہانے گاڑی میں بٹھایا اور گھر سے نکل گیا ۔
” ہاں تو پال ، کیا تم نے کبھی کسی گھوڑے پر کچھ لگایا ؟ “ اس نے پوچھا ۔
پال نے پہلے تو نظر بھر کر اپنے ماموں کو دیکھا اور پھر سیدھا جواب دینے کی بجائے الٹا سوال داغ دیا ؛ ” کیوں ، آپ کا کیا خیال ہے کہ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئے ؟ “
نہیں ، بالکل بھی نہیں! بلکہ میں نے تو سوچا تھا کہ تم مجھے ’ لنکن ‘ گھڑ دوڑ کے بارے میں کوئی اشارہ دے سکو گے ۔ “
کار مضافات میں سے ہوتی ہیمپشائر میں ماموں آسکر کے گھر کی طرف بڑھتی جا رہی تھی ۔
” آپ کو اپنی عز ت کی قسم ہے ؟ “
”ہاں ، عزت کی قسم ، بیٹا ! “ ماموں نے کہا ۔
” اگر ایسا ہے تو پھر ’ ڈیفوڈل ‘ ۔“
” ڈیفوڈل! میں اس بارے میں مشکوک ہوں ، بچے ، ’ مرزا‘ کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ “
” مجھے صرف جیتنے والے گھوڑے کا پتہ ہوتا ہے،“ ، لڑکے نے کہا ، ” اور وہ ڈیفوڈل ہے ۔“
” ڈیفوڈل ، شاید نہیں ۔“
کچھ دیر خاموشی رہی ۔ ڈیفوڈل ایک پِٹا ہوا نام تھا ۔
” ماموں !“
” جی ، بیٹا ؟ “
” آپ اس بات کو آگے تو نہیں پھیلائیں گے ، یا ۔۔۔؟ میں نے بیست سے وعدہ کیا تھا ۔ “
” بیست کی بات چھوڑو ، بچے ، اس کا اس بات سے کیا لینا دینا ؟ “
” ہم شراکت دار ہیں ۔ ہم پہلے دن سے ہی ایک دوسرے کے ساتھی ہیں ۔ ماموں ، اس نے مجھے گھوڑے پر لگانے کے لئے پہلے ’ پانچ شلنگ‘ دئیے تھے جو میں ہار گیا تھا ۔ پھر جب آپ نے مجھے دس شلنگ کا نوٹ دیا تھا تو میں نے جیتنا شروع کیا ۔ مجھے لگا تھا کہ آپ خوش قسمت ہیں ۔ آپ کو اپنی عزت کی قسم** لیکن ماموں آپ یہ بات کسی اور کو نہیں بتائیں گے ، یا آپ ایسا کریں گے ؟ “
یہ کہہ کر پال نے اپنی بڑی بڑی نیلی چمکتی آنکھوں کو بھینچ کر اپنے ماموں کو گھورنا شروع کر دیا ۔ ماموں نے جھرجھری لی اور تامل سے ہنستے ہوئے کہا ؛
” ٹھیک ہے ، بیٹا ، میں اس ساری بات چیت کو اپنے تک ہی محدود رکھوں گا ۔ تم ڈیفوڈل پر کتنے پیسے لگا رہے ہو ؟ “
” بیس پاﺅنڈز کے علاوہ سب کچھ ۔ “ ، لڑکا بولا ، ” میں بیس پاﺅنڈ برے وقت کے لئے محفوظ رکھتا ہوں ۔“
ماموں نے اسے مذاق جانا ۔
” اگر تم بیس پاﺅنڈ محفوظ رکھ رہے ہو تو ، خیالوں کی دنیا میں رہنے والے اے میرے پیارے نوجوان؟ تم شرط کتنے کی لگا رہے ہو ؟ “
”میں تین سو کی شرط لگا رہا ہوں۔ “ ، لڑکے نے تیقن سے کہا ، ” لیکن یہ بات میرے اور آپ کے بیچ ہی رہنی چاہئے ، ماموں آسکر! آپ کو اپنی عزت کی قسم ؟ “
ٹھیک ہے ، یہ سب میرے اور تمہارے بیچ ہی رہے گا ، لیکن میرے پیارے نوجوان ’نیٹ گولڈ‘** ، “ وہ ہنستے ہوئے بولا ، ” تمہارے تین سو پاﺅنڈ ہیں کہاں ؟ “
” یہ بیست کے پاس ہیں ۔ ہم شراکت دار ہیں ۔“
” تم ہو ، کیا واقعی ! اور بیست ڈیفوڈل پر کیا لگا رہا ہے ؟ “
” وہ مجھ سے بڑھ کر تو نہیں لگا سکتا ، میرا خیال ہے کہ وہ ایک سو پچاس لگائے گا ۔ “
” کیا تم پینیز *کی بات کر رہے ہو ؟ “ ماموں ہنسا ۔
” پاﺅنڈز ،“ ، بچہ بولا اور اس نے حیرانی سے ماموں کی طرف دیکھا ۔ ” بیست مجھ سے بھی زیادہ پیسے محفوظ رکھتا ہے ۔“
حیران اور محظوظ ہوتے ہوئے ماموں آسکر چپ ہو گیا ۔ اس نے اس معاملے پر مزید کوئی بات نہ کی لیکن دل میں یہ طے کر لیا کہ وہ اپنے بھانجے کو ’ لنکن ‘ گھڑ دوڑ میں ضرور ساتھ لے کر جائے گا ۔
” ہاں تو بیٹا ، اس نے کہا ، ” میں ’ مرزا‘ پر بیس باﺅنڈ لگا رہا ہوں اور پانچ پاﺅنڈ اس گھوڑے پر لگاﺅں گا جس پر تمہارا دل ہو گا ۔
” ڈیفوڈل ، ماموں ۔“
” نہیں ، ڈیفوڈل پر پانچ پاﺅنڈ تو نہیں لگائے جا سکتے! “
” اگر یہ پانچ میرے اپنے ہوتے تو میں ضرور لگاتا ۔“ بچے نے جواب دیا ۔
اچھا ، اچھا ، چلو ٹھیک ہے ! پانچ میری طرف سے اور پانچ تمہاری طرف سے ڈیفوڈل پر لگا دیتے ہیں ۔“
پال نے پہلے کبھی گھڑ دوڑ نہیں دیکھی تھی ۔ اس کی نیلی آنکھیں آگ کی طرح چمک رہی تھیں ۔ وہ منہ بھینچے وہاں موجود لوگوں کو دیکھ رہا تھا ۔ اس کے سامنے کھڑے ایک فرانسیسی نے اپنی رقم ’ لانس لوٹ ‘ پر لگائی تھی ۔ جوش میں آئے پال نے اس کے بازو کو زور سے ہلایا اور فرانسیسی لہجے میں چلایا ۔ ” لانس لوٹ ۔ ۔ ۔ لانس لوٹ ! “
’ ڈیفوڈل‘ پہلے نمبر پر ، ’لانس لوٹ ‘ دوسرے جبکہ ’ مرزا ‘ تیسرے نمبر پر آئے ۔ پال کا چہرہ خوشی سے سرخ ہو گیا اور اس کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی جس میں ایک پراسرار قسم کی شفافیت تھی ۔ ایک چار کی شرط تھی ، اس کا ماموں اس کے لئے پانچ پانچ پاﺅنڈ کے چار نوٹ لایا اور اس کی آنکھوں کے سامنے لہرا کر چلایا ؛
” میں اب ان کا کیا کروں ؟ “
” میرا خیال ہے کہ ہمیں بیست سے بات کرنی چاہئے ۔ لڑکے نے کہا ، ” اب میرے پاس پندرہ سو ، محفوظ کئے بیس اور یہ والے بیس پاﺅنڈ ہیں ۔“
اس کے ماموں نے کچھ دیر اسے غور سے دیکھا اور پھر بولا؛
” دیکھو بچے ! تم بیست اور پندرہ سو پاﺅنڈ کے بارے میں سنجیدہ تو نہیں ہو نا ! یا کہ ہو ؟ “
” ہاں ، میں سنجیدہ ہوں ۔ لیکن ماموں یہ بات ہمارے بیچ ہی رہنی چاہئے۔ آپ کو اپنی عزت کی قسم ؟ “
” ٹھیک ہے بیٹا ، میں اپنی عزت کی قسم دیتا ہوں ، لیکن مجھے بیست سے بات کرنا ہو گی ۔“
”ماموں! اگر آپ چاہیں تو بیست اور میرے ساتھ شراکت دار بن سکتے ہیں لیکن اس کے لئے شرط یہی ہے کہ آپ کو وعدہ کرنا ہو گا کہ ہمارے بیچ کی بات ہمارے درمیان ہی رہے گی۔ بیست اور میں خوش قسمت ہیں ، اور آپ تو ہیں ہی ، آپ ہی کے دس شلنگ سے تو میں نے جیتنا شروع کیا تھا ۔ ۔ ۔ “
آسکر ایک دوپہر بیست اور پال کو رچمنڈ پارک میں لے گیا اور انہوں نے وہاں آپس میں بات کی ۔
” دیکھیں جناب ! یہ سلسلہ کچھ ایسے شروع ہوا تھا ، “ ، بیست نے کہا ، ” ماسٹر پال اس وقت مجھ سے گھڑ دوڑوں کے بارے میں پوچھ تاچھ کرتا تھا جب میں سوت بٹ رہا ہوتا تھا اور آپ کو پتہ ہے ، وہ مجھ سے یہ ضرور پوچھتا تھا کہ میں جیتا کہ ہارا ہوں ۔ سال پہلے کی بات ہے ، میں نے ’ لالی سحر‘ نامی گھوڑے پر اس کی طرف سے پانچ شلنگ لگائے تھے اور ہم ہار گئے تھے۔ پھر ان دس شلنگز سے قسمت پلٹ گئی تھی جو آپ نے اسے دئیے تھے؛ جنہیں ہم نے ’ سنغیلیز‘ پر لگایا تھا ۔ تب سے اب تک چیزیں بہت مستقل مزاجی سے ہمارے حق میں جا رہی ہیں ۔ کیوں ایسا ہی ہے نا ، ماسٹر پال ؟ “
” ہمارے ساتھ سب ٹھیک رہتا ہے جب ہمیں پختہ یقین ہوتا ہے ۔“ ، پال بولا، ” البتہ جب ہمیں یقین نہیں ہوتا ہم ہار جاتے ہیں ۔“
” جی ، اور پھر ہم محتاط ہو جاتے ہیں ۔“ بیست نے لقمہ دیا ۔
” لیکن آپ دونوں کوپختہ یقین کب ہوتا ہے ؟ “ آسکر نے مسکراتے ہوئے پوچھا ۔
” جناب یہ کمال ماسٹر پال کا ہے ، “ ، بیست نے مذہبی تیقن کے ساتھ سرگوشی کی ۔ ” یہ ایسے ہی ہے جیسے اسے کوئی جنتی آواز بتا دیتی ہے ۔ جیسے ابھی لنکن گھڑ دوڑ میں ڈیفوڈل جیتا ہے ۔ یہ ایسے ہی یقینی تھا جیسے مرغی کے دئیے ہوئے انڈے ۔“
” کیا تم نے بھی ڈیفوڈل پر کچھ لگایا تھا ؟ “ ، آسکر کریسویل نے پوچھا ۔
جی جناب ، میں نے رقم لگائی تھی ۔ “
اور میرے بھانجے نے ؟ “
بیست یہ سن کر خاموش ہو گیا اور پال کی طرف دیکھنے لگا ۔
” میں نے بارہ سو جیتے ہیں ، بیست ، ایسا نہیں ہے کیا ؟ میں نے ماموں کو بتایا تھا کہ میں نے ڈیفوڈل پر تین سو لگائے تھے ۔“
” یہ صحیح ہے۔“ بیست نے سر ہلاتے ہوئے کہا ۔
”لیکن پیسے کہاں ہیں ؟ “ ، ماموں نے پوچھا ۔
” جناب ، میں نے انہیں حفاظت سے صندوقچی میں رکھا ہوا ہے ۔ ماسٹر پال جس لمحے یہ لینا چاہیں وہ لے سکتے ہیں ۔“
” کیا ؟ پندرہ سو پاﺅنڈز ؟ “
” اور بیس ! اور چالیس ، ایسے ہی ہے ، اب بیس کے ساتھ جو اس نے آپ کے ساتھ بنائے تھے ۔ “
”یہ تو حیران کن بات ہے ۔“ ماموں نے کہا ۔
” اگر ماسٹر پال نے آپ کو شراکت داری کی پیش کش کی ہے تو ، اگر آپ برا نہ منائیں ، میں آپ کی جگہ ہوتا تو میں فوراً قبول کر لیتا ۔ “ ، بیست نے کہا ۔
آسکر نے کچھ دیر سوچا اور پھر بولا؛ ” میں رقم دیکھنا چاہوں گا ۔“
وہ گھر واپس لوٹے اور بیست نے صندوقچی لا کر پندرہ سو پاﺅنڈ کے نوٹ آسکر کو دکھائے اور بتایا کہ بیس پاﺅنڈ ’ ٹرف کمیشن ڈیپازٹ ‘ کے مسٹر’ جوگلی ‘ کے پاس محفوظ پڑے ہیں ۔
” ماموں ، آپ نے دیکھا ، جب مجھے یقین ہوتا ہے تب ہم مزید مالدار ہو جاتے ہیں جس کے ہم حقدار ہیں ۔ ہے نا بیست ؟ “
” ہمارے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے، ماسٹر پال ۔“
” اور تمہیں پکا یقین کب ہوتا ہے ؟ “ ماموں نے ہنستے ہوئے پال سے پوچھا ۔
” او ، ماموں ، بعض اوقات مجھے سو فیصد یقین ہوتا ہے ، جیسے ڈیفوڈل کے بارے میں تھا ، “ پال نے جواب دیا ، ” بعض اوقات مجھے صرف خیال ہوتا ہے اور بعض اوقات وہ بھی نہیں ، ایسا ہی ہے نا بیست ؟ پختہ یقین نہ ہونے کی صورت میں ہم محتاط ہو جاتے ہیں کیونکہ ایسے میں ہم اکثر ہار جاتے ہیں ۔“
” لیکن ، بچے ، تمہیں پختہ یقین کیسے ہوتا ہے ، جیسے ڈیفوڈل کی دفعہ ہوا تھا ؟ “
” اوہو ، میں کیا کہوں ، مجھے خود نہیں پتہ ، “ ، لڑکے نے گھبراہٹ سے کہا ۔ ” ماموں میرا خیال ہے کہ یہ آپ کو بھی پتہ ہے ۔ میں اس سے زیادہ اور کیا کہہ سکتا ہوں ۔“
” جناب ، یہ کچھ ایسے ہی ہے جیسے ماسٹر پال کو کوئی جنتی آواز آگاہ کرتی ہے ۔“ بیست نے اپنا کہا پھر سے دوہرایا ۔
” ہاں ، شاید ایسا ہی ہو ۔ میں کیا کہہ سکتا ہوں ۔“ ، ماموں نے جواب دیا ۔
لیکن آسکر بھی اس شراکت داری میں شامل ہو گیا اور جب پال پر یقین بھرا نزول ہوا کہ ’ بھڑکتا شعلہ‘ نامی گھوڑا ، جو کسی کھاتے میں ہی نہ تھا ، جیتے گا تو لڑکے نے اس پر ہزار پاﺅنڈ لگائے ، بیست نے پانچ سو جبکہ آسکر کریسویل نے دوسو پر ہی اکتفا کیا ۔ ’ بھڑکتا شعلہ‘ اول رہا ، شرط ایک پر دس کی تھی ، یوں پال نے دس ہزار پاﺅنڈ جیتے ۔
” آپ نے دیکھا “ ، اس نے کہا ، ” مجھے اس بار پختہ یقین تھا کہ یہی گھوڑا جیتے گا ۔ “
آسکر کریسویل نے بھی دوہزار جیتے تھے ۔ وہ بولا ؛ ” دیکھو بیٹا، یہ سب مجھے بےچین کر رہا ہے ۔“
” ماموں ! پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ، میں شاید اب ایک لمبے عرصے تک اس یقین سے جیتنے والے گھوڑے کے بارے میں بتا نہ پاﺅں ۔“
” لیکن تم اپنے پیسوں سے کیا کرنا چاہتے ہو؟ “ ماموں نے پوچھا ۔
” مجھے معلوم ہے ،“ ، لڑکے نے کہا، ” میں نے یہ اپنی ماں کے لئے شروع کیا تھا ۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ خوش قسمت نہیں ہیں کیونکہ میرے والد بد قسمت ہیں ، میں نے سوچا کہ اگر میں خوش قسمت بن جاﺅں تو شاید گھر میں گردش کرنے والی سرگوشی ختم ہو جائے ۔ “
” کون سرگوشی کرنا بند کر دے ؟ “
” ہمارا گھر ۔ مجھے اس سرگوشی کرنے والے گھر سے نفرت ہے ۔ “
” یہ کیا سرگوشی کرتا ہے ؟ “
” کیوں ، کیوں “ ، لڑکا بےقرار ہو گیا ، ” کیوں ، مجھے معلوم نہیں لیکن ، ماموں ، گھر میں ہمیشہ پیسوں کی کمی رہتی ہے ۔ آپ تو جانتے ہیں ۔“
”مجھے معلوم ہے ، بیٹا ، مجھے معلوم ہے ۔“
” آپ کو پتہ ہے کہ لوگ ماں کو عدالتی احکام بھیجتے ہی رہتے ہیں ، ایسا نہیں ہے کیا ، ماموں ! “
” ہاں ایسا ہی ہے ۔“ ماموں نے جواب دیا ۔
”اور پھر گھر سرگوشیاں کرتا ہے جیسے لوگ آپ کی پیٹھ پیچھے ٹھٹھہ کرتے ہیں ۔ یہ ہولناک ہے ، اسی لئے ، میں نے سوچا کہ اگر میں خوش قسمت ہوں ۔ ۔ ۔ “
” تمہیں اب یہ بند کر دینا چاہئے ۔ “ ماموں بولا ۔
لڑکے نے اپنی نیلی آنکھیں ایک بار پھر آسکر پر گاڑ دیں لیکن اس بار اس کی آنکھوں کی آگ پراسرار طور پر سرد تھی ۔ وہ کچھ نہ بولا۔
” اچھا ، تو ، اب ہم کیا کرنے والے ہیں؟ “ آسکر نے کہا ۔
” میں یہ نہیں چاہوں گا کہ ماں کو پتہ چلے کہ میں خوش قسمت ہوں ۔“ ، لڑکے نے کہا ۔
” کیوں نہیں ، بیٹا ؟ “
” وہ مجھے روک دے گی ۔“
”مجھے نہیں لگتا کہ وہ ایسا کرے گی ۔ “
” پھر بھی “ ، لڑکا عجیب سے انداز میں تلملایا ، ” ماموں ، میں نہیں چاہتا کہ انہیں پتہ چلے ۔ “
” ٹھیک ہے ، بچہ ، ہم اسے بِنا بتائے ہی کچھ بندوبست کر لیں گے ۔ “
انہوں نے اس کا آسانی سے حل نکال بھی لیا ۔ پال نے پانچ ہزار پاﺅنڈ اپنے ماموں کے حوالے کئے جس نے انہیں خاندانی وکیل کے پاس جمع کرا دیا ۔ وکیل نے بعد میں پال کی ماں کو بتانا تھا کہ اس کا ایک دور پار کا رشتہ دار مرتے وقت اس کے پاس یہ رقم چھوڑ گیا تھا اور ہدایت کی تھی کہ یہ اگلے پانچ سال تک اس کی سالگرہ والے دن ایک ایک ہزار پاﺅنڈ کی قسط میں اسے ملتی رہے ۔
” یوں تمہاری ماں کو سالگرہ کے تحفے کے طور پر پانچ سالوں تک ایک ہزار پاﺅنڈ ملتے رہیں گے اور اس کی زندگی بعد میں بھی سہل رہے گی ۔ “ آسکر نے اپنے بھانجے کو بتایا ۔
پال کی ماں کی سالگرہ نومبر میں ہوتی تھی ۔ گھر کی سرگوشیاں زیادہ ہونے لگیں ۔ پال کی خوش قسمتی کا جادو بھی اس کا کچھ نہ کر سکا ۔ پال سے یہ برداشت نہیں ہو رہا تھا اور وہ منتظر تھا کہ اس کی ماں کو سالگرہ پر ہزار پاﺅنڈ کی خوشخبری والا خط ملے اور اس کا اثر سامنے آئے ۔
جب مہمان نہ ہوتے تو پال اب اپنے والدین کے ساتھ کھانا کھاتا تھا کیونکہ اب وہ آیا کے ضابطے سے نکل چکا تھا ۔ اس کی ماں ہر روز شہر جاتی تھی ۔ اس نے ایک مصروفیت ڈھونڈ لی تھی ۔ اسے کبھی کپڑے اور دوشالے ڈیزائن کرنے کا فن آتا تھا چنانچہ اس نے اپنی ایک دوست کے سٹوڈیو میں کام کرنا شروع کر دیا تھا جو ایک نامور درزی کی چیف ڈیزائنر تھی ۔ پال کی ماں اس کے لئے فر اور ریشم میں لپٹی عورتوں کی تصویریں بناتی جو اخباروں میں چھپتیں ۔ یہ ڈیزائنر سال کے ہزاروں پاﺅنڈ کماتی تھی جبکہ پال کی ماں کو چند سو ہی مل پاتے تھے۔ اس کام نے بھی اسے مایوس کیا تھا ، وہ تو کسی ایک میدان میں پہلے نمبر پر آنا چاہتی تھی لیکن کبھی کامیاب نہ ہو پائی ، خاکے بنانے کے اس کام میں بھی نہیں ۔
سالگرہ والے دن وہ ناشتے کے لئے نیچے آئی ۔ پال نے اس کے چہرے کو اس وقت پڑھنے کی کوشش کی جب وہ وکیل کا خط پڑھ رہی تھی ۔ اسے وکیل کے خط کا پتہ تھا ۔ جیسے جیسے وہ خط پڑھتی گئی اس کے چہرے پر سختی آتی گئی اور چہرے کے تاثرات غائب ہونے لگے ۔ پھر اس کے چہرے پر ثابت قدم لیکن سرد تاثر جم گیا ۔ اس نے وکیل کے خط کو دوسرے خطوں کے نیچے چھپا دیا اور اس کے بارے میں ایک لفظ بھی نہ بولا۔
” ماں ! سالگرہ کے حوالے سے خط میں سب اچھا تھا نا ؟ پال نے پوچھا ۔
” ہاں عمومی طور پر سب اچھا تھا ۔ “ اس نے ایسے کہا جیسے اس کا دماغ کہیں اور ہو ، اس کی آواز سخت اور سرد تھی ۔ پھر وہ مزید کچھ کہے ، اٹھی اور شہر روانہ ہو گئی ۔
بعد از دوپہر البتہ ماموں آسکر آیا ۔ اس نے پال کی ماں کو بتایا کہ وہ وکیل سے ایک طویل ملاقات کرکے آ یا تھا تاکہ اسے قائل کر سکے کہ پورے پانچ ہزار پاﺅنڈ اکٹھے مل جائیں کیونکہ وہ مقروض تھی ۔
” ماموں ! آپ کا کیا خیال ہے ؟ “
” بیٹا ، اس کا انحصار تم پر ہے ۔“
” تو، ٹھیک ہے ، انہیں یہ پیسے اکٹھے ہی لینے دو ، ہم جیت کر اور حاصل کر لیں گے ۔ “ ، لڑکے نے کہا ۔
” بچے ! ہاتھ میں پکڑا ایک پرندہ جھاڑی میں بیٹھے دو سے کہیں بہتر ہے ۔“ ماموں آسکر نے جواب دیا ۔
” لیکن مجھے یقین ہے کہ’ گرینڈ نیشنل ‘ یا ’ لنکن شائر‘ یا پھر کوئی اور’ ڈربی‘۔ مجھے ان میں سے کسی ایک بارے میں تو یقینی پتہ چل ہی جائے گا ۔ “ ، پال نے کہا ۔
اس پر ماموں آسکر نے وکیل کو ہدایت دے دی ، یوں پال کی ماں کو یکمشت پانچ ہزار پاﺅنڈ مل گئے ۔ ساتھ ہی گھر میں عجیب بات ہوئی ، سرگوشیاں پاگل ہو گئیں جیسے موسم بہار کی کسی شام کو بہت سے مینڈک کورس میں ٹرا رہے ہوں ۔ گھر میں نیا فرنیچر آیا اور پال کے لئے ایک استاد بھی رکھ لیا گیا تاکہ وہ آنے والے موسم خزاں میں ، اسے ، ایٹن میں ، اس کے باپ کے سکول میں داخل ہونے کے لئے تیاری کروا سکے۔ سردیوں میں گھر پھولوں سے بھرا رہا اور امارت بھی ہر طرف چھائی نظر آنے لگی تھی جو پال کی ماں کی چاہت تھی لیکن آوازیں تھیں کہ بڑھتی جا رہی تھیں ؛ آسٹریلوی سدا بہار اوربادام کے پودوں کے پیچھے سے ، جھلملاتی گدیوں کے نیچے سے لزرتی آوازیں اورگھٹی چیخوں کی صورت میں سنائیں دیتیں ؛ ” مزید دولت درکار ہے! اوہو۔و ۔و ؛ اور دولت ضرور چاہئے ۔ اوہو ، ابھی ۔ بھی ، ابھی ۔ بھی ۔ بھی ! مزید پیسے لازمی ہونے چاہئیں ! پہلے سے بھی زیادہ ! ۔ ۔ ۔ پہلے سے بھی زیادہ ! “
ان آوازوں نے پال کو بری طرح ڈرا دیا تھا ۔ وہ اپنے استاد کے پاس لاطینی اور یونانی پڑھنے جاتا لیکن اس کا زیادہ وقت بیست کے پاس ہی گزرتا ۔ گرینڈ نیشنل گزر چکی تھی ؛ اسے جیتنے والے گھوڑے بارے معلوم نہ ہو سکا تھا اور اس نے سو پاﺅنڈ گنوا بھی دئیے تھے۔ موسم گرما کی آمد آمد تھی۔ اب اسے’ لنکن شائر‘ کی فکر تھی ۔ اس کی آنکھیں جنگلیوں کی مانند عجیب اور کچھ ایسے پھیل گئی تھیں جیسے پھٹ جائیں گی ۔
” دفعہ کرو ، زیادہ پریشان مت ہو ، جانے دو اسے ۔“ماموں آسکر نے اس سے کہا لیکن ایسا لگتا تھا جیسے اس نے ماموں کی بات سنی ہی نہ تھی ۔
”مجھے اس گھڑ دوڑ بارے جاننا ہی ہو گا ! ۔۔۔مجھے اس گھڑ دوڑ بارے جاننا ہی ہو گا ! “ ، بچہ دوہراتا رہا ، اس کی چمکتی آنکھوں میں اک پاگل پن امڈ آیا تھا ۔
اس کی ماں نے بھی محسوس کیا کہ اس کا بیٹا پریشان خیال اور مخبوط الحواس ہو گیا ہے ۔
” تمہیں کچھ عرصے کے لئے ساحل سمندر پر چلے جانا چاہئے ۔ کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ تم یہاں رہنے کی بجائے سمندر کنارے چلے جاﺅ ؟ میرا خیال ہے ہوا بدلی تمہارے لئے بہتر ثابت ہو گی ۔ اس نے پال کو تشویش سے دیکھتے ہوئے انجانی وجہ سے ہوئے بھاری دل کے ساتھ کہا ۔
لیکن بچے نے اپنی اسرار بھری نیلی آنکھیں اوپر اٹھائیں ۔
”ماں! یہ ممکن نہیں ہے کہ میں لنکن شائر گھڑدوڑ سے پہلے یہاں سے جا سکوں ۔ “ اس نے کہا ، ” ایسا ممکن ہی نہیں ہے ۔“
” کیوں نہیں ؟ “ ، ماں بولی ، اس کی آواز اس وقت بھاری ہو جاتی تھی جب کوئی اس کی مخالفت کرتا تھا ۔ ” کیوں نہیں ؟ اگر تمہاری ڈربی دیکھنے کی خواہش اتنی شدید ہے تو تم اپنے ماموں آسکر کے ساتھ ساحل سمندر سے بھی اسے دیکھنے جا سکتے ہو ۔ یہاں رہ کر انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ویسے بھی تم ان دوڑوں کے کچھ زیادہ ہی شوقین ہوتے جا رہے ہو ۔ یہ کوئی اچھی علامت نہیں ہے۔ میرا خاندان جُوا کھیلنے میں مشہور رہا ہے اور تمہیں پتہ ہی نہیں کہ تمہارے ہوش سنبھالنے تک جُوا بازی نے اسے کتنا نقصان پہنچا دیا تھا ۔ مجھے بیست کو نوکری سے نکالنا پڑے گا اور آسکر سے بھی کہنا پڑے گا کہ وہ تم سے گھڑ دوڑوں کی باتیں نہ کیا کرے تاوقتیکہ تم اس بارے میں ذمہ دارانہ رویے کا وعدہ نہیں کرتے ؛ گھڑ دوڑ کو بھول جاﺅ اور ساحل سمندر جانے کے لئے تیار ہو جاﺅ ۔ تم تو میرے ذہن پر سوار ہو گئے ہو ۔ “
”ماں ! میں آپ کی ہر بات مانوں گا ، جیسا چاہیں گی ویسا ہی کروں گا ، بس مجھے گھڑ دوڑ سے پہلے یہاں سے جانے کے لئے مت کہیں ۔“ پال گڑگڑایا ۔
” کہاں سے دور بھیجنے کی بات کر رہے ہو ؟ صرف اس گھر سے دور ؟ “
”جی ۔“ ، پال نے اپنی ماں کو گھورتے ہوئے کہا ۔
” کیوں ، تم بھی عجیب بچے ہو ، تمہیں اس گھر کی ایک دم سے فکر کیوں ہونے لگی ۔ مجھے تو معلوم ہی نہ تھا کہ تمہیں اس گھر سے محبت ہے ۔“
” وہ بِنا بولے ماں کو گھورتا رہا ۔ اس کے راز میں بھی ایک راز تھا ، ایسا جسے اس نے نہ تو بیست کو بتایا تھا اور نہ ہی ماموں آسکر کو اس کی بھنک پڑنے دی تھی ۔
اس کی ماں کچھ دیر تو تذبذب میں کھڑی رہی پھر روکھے منہ سے بولی ؛ ” چلو ٹھیک ہے، اگر تم نہیں چاہتے توڈربی تک ساحل سمندر پر مت جاﺅ لیکن تمہیں وعدہ کرنا ہو گا کہ تم گھڑ دوڑوں اور ڈربی جیسے واقعات بارے نہیں سوچو گے ۔“
” ٹھیک ہے ماں “ ، پال نے لاپراوہی سے کہا ، ” میں ان سب کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں سوچوں گ ۔ آپ فکر نہ کریں ماں ۔ آپ پریشان نہ ہوں ۔ اگر میں آپ کی جگہ ہوتا تومیں بالکل پریشان نہ ہوتا ۔ “
” اگر تم میں ہوتے اور میں تم “ ، اس کی ماں نے کہا ، ” تو پتہ نہیں کیا ہو جاتا ۔ “
” لیکن ماں ، آپ کو پریشان نہیں ہونا چاہئے ۔ “ ، لڑکے نے دوبارہ کہا ۔
” مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی ہے ۔ “ اس کی ماں نے افسردگی سے کہا ۔
” اوہ ، آپ خوش ہو سکتی ہیں ، میرا مطلب بھی یہی تھا کہ آپ جان لیں اور پریشان ہونا چھوڑ دیں ۔“ ، اس نے پھر اصرار کیا ۔
” ایسا بھی کیا ؟ ٹھیک ہے میں دیکھتی ہوں ۔“ ماں نے جواب دیا ۔
پال کے راز میں چھپا راز اس کا کاٹھ کا گھوڑا تھا ۔ وہ جس کا کوئی نام نہ تھا ۔ جب سے وہ آیا کے ضابطے سے آزاد ہوا تھا اس نے بچوں کے کھیلنے والے کمرے سے اپنا گھوڑا اوپرلی منزل پر اپنے سونے والے کمرے میں رکھوا لیا تھا اور جب وہ ایسا کر رہا تھا تو اس کی ماں نے اسے سرزنش کرتے ہوئے کہا تھا ؛ ” اب تم بڑے ہو گئے ہو اوراب تمہارے کاٹھ کے گھوڑے سے کھیلنے کے دن نہیں ہیں ۔ “
” وہ تو ٹھیک ہے ماں ! لیکن جب تک مجھے ایک اصلی گھوڑا نہیں مل جاتا میں اپنے کمرے میں اسے رکھنا چاہوں گا ۔“ ، پال نے اپنی منطق جتائی ۔
اس کی ماں یہ سن کر ہنس پڑی اور بولی ؛ ” اب یہ تمہارادل بھلا کیا بہلائے گا ۔ “
” پر ماں ! یہ بہت اچھا ہے ، میں جب بھی اس کے پاس ہوتا ہوں یہ میرا دل بہلاتا ہے ۔“ پال بولا ۔
چنانچہ کاٹھ کا گھوڑا ، جو اب پرانا ہو چکا تھا پال کے کمرے میں منتقل کر دیا گیا تھا جو اب وہاں ایسے اکڑا کھڑا تھا جیسے لڑکے کی قید میں ہو ۔
جیسے جیسے ڈربی نزدیک آرہی تھی ، لڑکے کی پریشانی بھی بڑھتی جا رہی تھی ۔ اب وہ خود سے کی گئی باتوں پر کم ہی دھیان دیتا تھا ۔ وہ لاغر ہو گیا تھا اور اس کی آنکھوں میں پراسراریت پہلے سے کہیں زیادہ ہو گئی تھی ۔ اس کی ماں یہ حالت دیکھ کر بے چین رہنے لگی ۔ بعض اوقات تو وہ کچھ دیر کے لئے اتنی پریشان اور ذہنی کوفت میں مبتلا ہو جاتی کہ اس کا دل کرتا کہ وہ بھاگ کر جائے اور اسے دیکھے کہ وہ ٹھیک ٹھاک ہے بھی یا نہیں ۔
ڈربی سے دو راتیں قبل وہ شہر میں ایک پارٹی میں گئی ہوئی تھی جہاں اسے ایسی ہی بےچینی کا احساس ہوا ، اپنے پہلوٹھی کے بچے کے لئے یہ احساس اتنا شدید تھا کہ اس کے منہ سے الفاظ بھی نہ نکل پا رہے تھے ۔ وہ اپنے آپ میں اس بے چینی سے لڑنے لگی ، لیکن دل کسی کروٹ چین ہی نہیں لے رہا تھا ۔ اس نے رقص کا کمرہ چھوڑا اور نیچے جا کر گھر فون کیا ۔ بچوں کی آیا درمیان ِ شب فون کی گھنٹی کی آواز سن کر متعجب ہوئی ۔
”مسز وِلموٹ ! بچے ٹھیک ہیں کیا ؟ “
” جی ہاں مالکن ! وہ ٹھیک ٹھاک ہیں ۔“
”اور ماسٹر پال؟ کیا وہ بھی ٹھیک ہے ؟ “
” وہ تو سونے کے لئے وقت پر ہی اپنے کمرے میں چلا گیا تھا ۔ مالکن! کیا میں اوپر جاﺅں اور اس پر ایک نظر ڈال آﺅں؟ “
” نہیں “ ، پال کی ماں نے تذبذب کے عالم میں کہا ، ” نہیں ! یہ تکلیف اٹھانے کی ضرورت نہیں ۔ ٹھیک ہے آپ بھی جا کر سو جائیں ۔ ہم بس گھر کے لئے نکل ہی رہیں ہیں ۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ آیا اس کے بیٹے کی خلوت میں مداخلت کرے ۔
” ٹھیک ہے ، مالکن ۔“ آیا نے جواب دیا ۔
پال کے والدین رات ایک بجے گھر واپس آئے ۔ ہر طرف سکوت طاری تھا ۔ پال کی ماں اپنے کمرے میں گئی اور اس نے سفید فر کا اپنا لبادہ اتارا ۔ اس نے اپنی ملازمہ کو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ وہ جا کر سو جائے اوراس کے آنے کے انتظار میں نہ بیٹھی رہے۔ اسے نیچے سے اپنے خاوند کی وہسکی اور سوڈا ملا نے کی آواز آ رہی تھی ۔
اس کے دل پر چھائی بے چینی ، جو ابھی موجود تھی ، کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ دبے پاﺅں اپنے بیٹے کے کمرے کی طرف بڑھی ۔ اسے لگا کہ کمرے سے ایک مدہم آواز ابھری تھی ۔ یہ کیسی آواز تھی ؟
وہ جامد جسم کے ساتھ کمرے کے باہر کھڑی تھی اور آوازسن رہی تھی جو بھاری تو تھی لیکن زیادہ اونچی نہ تھی ۔ اسے لگا جیسے اس کے دل نے دھڑکنا بند کر دیا ہے ۔ بے آواز شور تھا کہ تیز سے تیز تر اور گہرا ہوتا جا رہا تھا ۔ جیسے کوئی بڑی شے بے قابو ہو کر لیکن تال میں حرکت کر رہی ہو ۔ یہ کیسی آواز تھی ؟ یا خدایا ! یہ کیا ہو رہا ہے؟ وہ جاننا چاہتی تھی ۔ اسے محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ اس آواز کو پہچانتی ہے ۔ اسے جانتی ہے لیکن یہ کیا ہے وہ سمجھ نہ پائی ۔ آواز آتی رہی اور جنونی حد پار کرنے لگی ۔
خوف وبے چینی سے جکڑی پال کی ماں نے دروازے کے دستے کو آہستگی سے گھمایا ۔
کمرے میں اندھیرا تھا پھر بھی اس نے کھڑکی کے نزدیک کسی شے تو آگے پیچھے ہوتے دیکھ اور اس سے پیدا ہونے والی آواز کو سن لیا تھا ۔ وہ خوف اور حیرانی سے ٹکٹکی باندھے اسے دیکھتی رہی ۔
پھر اس نے ایک دم کمرے کے بلب کا بٹن دبا دیا ۔ اس نے دیکھا کہ اس کا بیٹا اپنے سبزسونے کے کپڑوں میں مجذوبی کیفیت میں کاٹھ کے گھوڑے پر آگے پیچھے لہرا رہا تھا ۔ بلب کی روشنی نے اسے اچانک اس حالت میں آشکار کر دیا تھا جب وہ کاٹھ کے گھوڑے کو اور تیز ہلنے کے لئے زور لگا رہا تھا ۔ روشنی نے ماں کو بھی نہلا دیا تھا جو اپنے بھورے ، سبز اور چمکیلے رات کے لباس میں دروازے میں کھڑی تھی ۔
” پال!“ ، وہ چلائی ، ” تم یہ کیا کیا کر رہے ہو ؟ “
” یہ ‘ مالا بار’ ہے ! “ وہ طاقتور لیکن عجیب آواز میں چیخا ، ” یہ ’ مالا بار‘ ہے ۔“
اس نے شعلہ آنکھوں کے ساتھ ایک لمحے کے لئے ماں کو دیکھا اور کاٹھ کے گھوڑے سے زور آزمائی بند کر دی ۔ پھر وہ دھم سے زمین پر گر گیا ۔ اس کی ماں مادرانہ شفقت کا جذبہ لئے تیزی سے آگے بڑھی کہ اسے اٹھا سکے ۔
لیکن وہ بے ہوش تھا اور سرسام کی وجہ سے بیہوش ہی رہا ۔ وہ بڑبڑا رہا تھا جبکہ اس کی ماں اس کے پاس پتھر ہوئی بیٹھی تھی ۔
” مالابار! یہ مالابار ہے! ، بیست ، بیست ، مجھے معلوم ہے ! یہ مالابار ہے! “
پھر اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اور اس نے بےہوشی کے عالم میں ہی اٹھنے کی کوشش کی اور کاٹھ کے گھوڑے کی طرف بڑھنا چاہا جس نے اسے مالا بار کا عندیہ دیا تھا ۔
” مالا بار سے اس کا کیا مطلب ہے ؟“ ماں نے پوچھا ، جس کا دل صدمے سے بھاری تھا ۔
” مجھے معلوم نہیں ہے ۔“ باپ نے پتھریلی آواز میں جواب دیا ۔
” مالابار سے اس کا کیا مطلب ہے ؟“ ماں نے اپنے بھائی آسکر سے پوچھا ۔
” یہ ڈربی میں دوڑنے والے ایک گھوڑے کا نام ہے ۔“ آسکر نے جواب دیا ۔
آسکر کریسویل نے مالابار کا نام بیست کو بھی بتایا اور ان دونوں نے اس گھوڑے پر ایک ایک ہزار پاﺅنڈ لگا دیئے ۔ مالا بار پر ایک ، چودہ کی شرط تھی ۔
پال کی بیماری کا تیسرا دن کڑا تھا : وہ اس کی حالت میں تبدیلی کی توقع کر رہے تھے ۔ پال اپنے گھنگریالے بالوں والے سر کو بار بار تکیے پر پٹخ رہا تھا ۔ نہ وہ ہوش میں آیا اور نہ ہی سکون سے سوپایا ۔ اس کی نیلی آنکھیں پتھرا گئی تھیں ۔ پاس بیٹھی ماں کو لگا جیسے اس کے دل کی دھڑکن گم ہو گئی ہے اور اس کا جسم پتھرا گیا ہے ۔
اس شام آسکر نہ آیا البتہ بیست کا پیغام آیا کہ وہ اوپر آ کر ماسٹر پال کو ایک منٹ کے لئے دیکھنا چاہتا ہے، صرف ایک منٹ کے لئے ۔ پال کی ماں کو بیست کی اس مداخلت پر پہلے تو غصہ آیا لیکن پھر اس نے، یہ سوچ کر کہ شاید بیست کو دیکھ کر اس کا بیٹا ہوش میں آ جائے، اسے اوپر آنے کی اجازت دے دی ۔
چھوٹے قد ، بھوری مونچھوں اور چُنی بھوری آنکھوں والا مالی لنگڑاتا ہوا کمرے میں داخل ہوا ۔ وہ پال کی ماں کے سامنے تعظیم سے چھکا ، پھر پال کے بستر کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا اور اپنی چُنی روشن آنکھوں سے تکیے پر سر پٹختے اور مرتے ہوئے بچے کو دیکھنے لگا ۔
” ماسٹر پال ! “ ، اس نے سرگوشی کی ، ” ماسٹر پال ! مالابار پہلے نمبر ہر رہا ، یہ ایک واضع جیت تھی ۔ میں نے ویسے ہی کیا جیسا آپ نے کہا تھا ۔ آپ کو ستر ہزار سے زائد کی جیت ہوئی ہے۔ اب آپ کے پاس اسی ہزار پاﺅنڈز سے زیادہ کی رقم ہے۔ مالابار کے بارے میں آپ کا کہا سچ ثابت ہوا ہے ، ماسٹر پال ۔ “
” مالابار! مالابار! کیا میں نے مالابار کہا تھا ، ماں ؟ کیا میں نے مالابار کہا تھا ؟ آپ کا کیا خیال ہے ماں ؟ کیا میں خوش قسمت نہیں ہوں ؟ مجھے مالابار کے بارے میں معلوم تھا ، کیا ایسا نہیں تھا ؟ اسی ہزار سے زیادہ پاﺅنڈز ! میں تو اسے خوش قسمتی کہتا ہوں ، آپ کیا کہتی ہیں ، ماں؟ اسی ہزار سے زیادہ پاﺅنڈز ! مجھے معلوم تھا ، کیا ایسا نہیں تھا ؟ مجھے معلوم تھا ؟ مالابار نے دوڑ جیت ہی لینی تھی ۔ میں اگر اپنے گھوڑے پر اس وقت تک سواری کرتا رہتا ہوں جب تک مجھے یقین نہیں ہو جاتا ۔ میں تب تمہیں گھوڑے کا نام بتاتا ہوں ، بیست ، اور پھر تم اتنا اونچا جا سکتے ہو جتنا تم چاہتے ہو ۔ کیا تم نے مالابار پر سارا پیسہ لگایا ، بیست ؟ “
” میں نے اس پر ایک ہزار لگائے تھے ، ماسٹر پال ۔“
” ماں ! میں نے آپ کو کبھی نہیں بتایا کہ جب میں اپنے کاٹھ کے گھوڑے پر سوار ہو تا ہوں تو اس وقت تک سوار رہتا ہوں جب تک مجھے پختہ یقین نہ ہو جائے ۔ اوہ ، کامل یقین ، ماں ! کیا میں نے آپ کو کبھی بتایا ؟ میں خوش قسمت ہوں ! “
” نہیں بیٹا ، تم نے کبھی ایسا نہیں کہا “ ، اس کی ماں نے جواب دیا ۔
اس رات پال مر گیا ۔
اور جب وہ بستر پر مرا پڑا تھا تو اس کی ماں کو اپنے بھائی کی آواز آ رہی تھی ؛
” اُف میرے خدا ، ہیسٹر ، اب تم اسی ہزار پاﺅنڈز کی مالک ہو جبکہ بیچارا ’ شیطان کا بچہ‘ رُل گیا ، یہاں تک کہ وہ اس جہان سے بھی گیا ، ایک دوسرے جہان میں جہاں وہ کاٹھ کے گھوڑے پر بیٹھا کسی اور جیتنے والے گھوڑے کا متلاشی ہے ۔ #
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
* ڈی ایچ لارنس نے الفاظ Lucker اور Lucre استعمال کئے ہیں جن کی ادائیگی ایک جیسی ہے۔
* * ’ نیٹ گولڈ ‘ ( Nathaniel Gould) = برطانوی ناول نگار ( 1857ء تا 1919ء) جو ایک کامیاب ادیب بننے سے پہلے ایک اچھا گھڑ سوار بھی تھا ۔ اس نے 130 کے لگ بھگ ناول لکھے تھے جن میں سے اکثر بیسٹ سیلر رہے تھے ۔ ان ناولوں کی مرکزی تھیم ’ گھڑ دوڑیں ‘ ہوا کرتی تھیں ۔
* پینیز= Pennies
** آپ کو اپنی عزت کی قسم = Honour Bright
—————-
نوٹ: اس افسانے پر 1949ء میں ایک ہالی ووڈ فلم بھی بن چکی ہے۔ اس فلم کو دیکھنے کے لیے اس لنک پر کلک کیجئے۔
——–
Original Title: The Rocking-Horse winner
Written:
D. H. Lawrence (11 September 1885 – 2 March 1930) was an English novelist, poet, playwright, essayist, literary critic and painter.