کلچر اور ہراسمنٹ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جینیؔ قریبی مارکیٹ سے شاپنگ کر کے ہاسٹل کے کچن میں داخل ہوئی تو اسکا چہرہ سرخ ہورہا تھا۔ پہلے میں سمجھا کہ دھوپ کی وجہ سے یورپین کی سفید جلد جو تڑکا کھا جاتی ہے اسکی وجہ سے وہ ٹماٹر ہورہی ہے، مگر جب اس نے شاپرز میز پر پٹخے اور نتھنوں سے خراٹے نکالتے ہوئے کسی انجانے راہگیر کی سات نسلوں کی گنتی شروع کی تو مجھے معاملہ خراب لگا۔
کیا ہوا؟ میں نے پوچھا
وہ حرامزادہ، سارا راستہ سیٹی بجاتا آیا میرے پیچھے، اسکی آواز کچن سے باہر کاریڈور تک گونج گئی۔
میں خاموش رہا، پانی کے پہلے ریلے سے اندازہ لگا لیا کہ پیچھے سیلاب آ رہا ہے۔
وہ پھر بولنے لگی،
میں یونیورسٹی سے سیدھا کچھ سبزیاں اور بریڈ لینے مارکیٹ چلی گئی، وہیں راستے میں میں نے اس کو دیکھا۔ میری طرف دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ میں سمجھی کہ یونیورسٹی فیلو ہے کوئی، اس لیے مسکرا کر آگے گذر گئی۔ کچھ دور جا کر اندازہ ہوا کہ یہ پیچھے آ رہا ہے، میں نے سوچا کہ شائد یہ بھی گروسری لینے جا رہا ہے۔
میں جب مارکیٹ سے واپس مڑی تو یہ کمینہ راستے میں کھڑا پھر مسکرا رہا تھا۔ مجھے عجیب لگا۔ اس بار میں نے جواباً کوئی تاثر نہیں دیا اور اپنے راستے پر چل پڑی۔ پھر یہ ذلیل انسان میرے پیچھے پیچھے آتے ہوئے سیٹی بجانے لگا۔ میرے ہاتھ میں وزنی شاپر تھے، پھر بھی میں تیز تیز چلتے ہوئے ہاسٹل پہنچی کہ کہیں یہ لعنتی بدمعاش کوئی اور حرکت نہ کردے میرے ساتھ۔ ہاسٹل کے موڑ تک آیا مگر شائد آگے آنے کا حوصلہ نہیں ہوا اسکا۔
میں پھر خاموش رہا، مگر ہمدردی سے سر ہلاتا رہا۔ وہ تھوڑا شانت ہو کر اپنی گروسری نکال کر فریج میں سیٹ کرنے لگی۔
جینی! کچھ دیر بعد میں نے اسے پکارا۔
ہوں، وہ فریج کے اندر گردن ڈالے وہیں سے بولی۔
میرا خیال تھا کہ مرد صرف ہمارے جیسے ملکوں میں عورتوں کو تنگ کرتے ہیں جہاں شائد انکو ویسی آزادی سے عورت کا ساتھ میسر نہیں جو یہاں ہے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ یہاں بھی مرد ایسے کرتے ہیں۔
ہی ہی ہی، جینی کی ہنسی فریج سے سنائی دی۔ وہ اپنا آخری شاپر خالی کر کے سنک کی طرف مڑی، اور ایک گلاس میں اپنے لیے پانی بھر کر میرے سامنے والی کرسی پر آ کر بیٹھ گئی۔ اسکے چہرے کا رنگ سرخ سے واپس گلابی ہو چکا تھا۔
تم بھی تو ایک ایسے ہی ملک سے ہو، وہ مسکرا کر بولی، تم تو ایسے نہیں ہو۔ میرے خیال میں اس کا تعلق کسی جغرافیے یا ماحول سے نہیں ہے، بلکہ انسانی فطرت سے ہے۔ میں تمہیں یونان کے مردوں کے قصے سناؤں تو تم کانوں کو ہاتھ لگاتے پھرو۔ جبکہ انکو ہر طرح کی کمپنی دستیاب ہے۔
جینی کا موڈ قدرے بحال ہو چکا تھا اس لیے میں نے زرا تلخ سوال جو بچا رکھا تھا، زبان پر لانے کی ہمت کی۔
جینی! پھر تو تمہیں اس سے مسئلہ نہیں ہونا چاہیے کہ تم ایک یورپین لڑکی ہو۔ ہر روز کسی نئے مرد سے بات، ملاقات یہ تو عام بات ہونا چاہیے تمہارے لیے؟
میں نے دیکھا کہ جینیؔ کے چہرے میں ایک رنگ آ کر گذر گیا، مگر دوسرے لمحے وہ پھر سے مسکرانے لگی۔
ٹھیک کہا تم نے، یورپ میں مرد و عورت کو بہت آزادی حاصل ہے۔ عورت کو تحفظ بھی بہت ہے قانون اور ریاست کی طرف سے۔ اور ہمیں اپنی آزادی بہت پیاری ہے، اسکی وجہ سے ہم بہت کچھ برداشت بھی کرتے ہیں۔ مگر آزادی کا مطلب اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ یورپ کی ہر آزاد لڑکی روزانہ اپنے زیر جامہ کے ساتھ اپنا بوائے فرینڈ بھی بدل لیتی ہے تو تم غلطی پر ہو۔ میں پھر انسانی فطرت کی بات کرونگی۔ کیا تمہارے ہاں تمام عورتیں ہمیشہ صرف ایک مرد کے ساتھ زندگی گذار دیتی ہیں؟ کیا ان میں سے کوئی ایک بھی اپنے مرد سے بے وفائی نہیں کرتی؟ اپنی پسند سے مرد چننے کا مطلب ہر ہفتے مرد چننا نہیں ہے۔ تمہیں اندازہ بھی نہیں کہ ایک بریک اپ ہمیں اندر سے کس بری طرح توڑ پھوڑ دیتا ہے۔ عورت ہو یا مرد اس کو ایک جسمانی تعلق کے ساتھ ایک جذباتی ساتھ بھی چاہیے ہوتا ہے، ایسے تعلق کو بنانا مشکل ہوتا ہے تو ختم کرنا اس سے بھی مشکل تر ہوتا ہے۔
مگر پھر بھی، مجھے واقعی یہ سمجھ نہیں آیا کہ تم ایک راہ چلتے کی سیٹی پر اتنی اپ سیٹ کیوں ہوگئی، جبکہ اس دن کلب میں ناچتے ہوئے کئی مردوں نے تم سے ڈانس کرنے کی درخواست کی، جن کو تم مسکرا مسکرا کر انکار کرتی رہیں، مگر تم نے انکی درخواست کا برا نہیں مانا۔ شائد میں تمہارے کلچر کو سمجھنے سے قاصر ہوں۔ میں نے اپنی بات کندھے اچکاتے ہوئے ختم کی۔
ہی ہی ہی، پوور بوائے، وہ ایک مشفقانہ مسکراہٹ سے میری طرف دیکھ رہی تھی، جیسے پرائمری کے بچے کو ٹیبلز یاد کروا رہی ہو۔
شائد تم ہراسمنٹ اور رومانس میں فرق نہیں کر سکتے اس لیے کنفیوز ہو رہے ہو۔ دیکھو میں سمجھاتی ہوں۔ عورت دنیا میں کہیں کی بھی ہو، اس کو اسکی مرضی سے اپنے طرف مائل کرنے کا نام رومانس ہے، اور بجائے مائل کرنے کے اسکو اپنی جنسی حرکات سے حملہ کرنے کا نام ہراسمنٹ ہے۔ وہ جو سڑک پر سیٹیاں بجا رہا تھا، گندے اشارے کر رہا تھا، جملے کس رہا تھا، وہ رومانس نہیں ہراسمنٹ تھی، اس لیے مجھے غصہ آ رہا تھا۔ جبکہ جو ڈانس فلور پر مرد مجھے رقص کی آفر کررہے تھے وہ ہمارے کلچر کے مطابق ایک شریفانہ طریقے سے میری توجہ اپنی جانب کر رہے تھے، جس پر میں شکریہ کے ساتھ انکار کر رہی تھی، کیونکہ ڈانس فلور پر میری موجودگی انکو مجھے ڈانس کے لیے پوچھنے کا حق دیتی ہے۔ اس پر میرا غصہ کرنا یا اسکو ہراسمنٹ سمجھنا عقل کی بات نہیں ہے۔
جینی نے اپنی بات مکمل کی تو مجھے شدت سے احساس ہوا کہ ہمارے ہاں شائد لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے ایسی تربیت کی کمی ہے کہ وہ ہراسمنٹ اور تہذیبی طور پر قابل قبول اقدام میں فرق کر سکیں۔ جینی کو اچھی طرح معلوم تھا کہ جب وہ ڈانس فلور پر موجود ہو تو کوئی بھی مرد اس سے رقص کی درخواست کر سکتا ہے، اسکو قبول کرنا نہ کرنا اسکے اختیار میں ہے۔ جبکہ جب وہ سڑک پر جا رہی ہو تو خواہ مخواہ کی توجہ بھی ہراسمنٹ بن سکتی ہے۔
یہ واقعہ کئی سال پرانا ہے، مگر مجھے لگتا ہے آج بھی ہمارے ہاں "ڈانس فلور" پر موجود لڑکیاں ہراسمنٹ کا شکوہ کر رہی ہیں، جبکہ سڑکوں پر اپنے کام جاتی لڑکیاں خاموشی سے ہراسمنٹ کو "کلچر" سمجھ کر برداشت کر رہی ہیں۔ توازن تربیت اور آگاہی ہی سے آئے گا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“