بھارت کے جھاڑ جھنکار‘‘ کے عنوان سے چند روز پیشتر جو کالم لکھا اس کا ردعمل دلچسپ تھا اور متنوع بھی۔ اختلاف کرنے والوں کا انداز یلغار کا تھا۔ سوشل میڈیا پر اچھی خاصی بحث ہوئی۔ لکھنے والے میں تعصبات’’ دریافت‘‘ کیے گئے۔ تجارت میں سیلز مین شپ کا اولین اصول ہے کہ ’’گاہک ہمیشہ درست کہتا ہے‘‘ تو کیا اب لکھنے والے بھی یہ کہیں کہ قارئین ہی درست ہوتے ہیں؟ نہیں! اس لیے کہ یہ تجارت کا میدان نہیں۔ حوالوں اور دلائل کی دنیا ہے۔
بحث کا مرکزی نکتہ کالم کا یہ فقرہ تھا کہ ’’عملی طور پر بھارت تھیو کریسی کی تحویل میں ہے‘‘۔
پس منظر اس فقرے کا جھاڑکھنڈ کے وزیراعلیٰ رگھوبار داس کا یہ حالیہ بیان تھا کہ ہندوستانی قومیت کی بنیاد ہندوتوا ہے اور آر ایس ایس ہندوتوا کی سچی پیروکار ہے۔ رگھوبارداس صرف ایک ریاست کا وزیراعلیٰ نہیں‘ آر ایس ایس کی قومی یعنی مرکزی کمیٹی کا نائب صدر بھی ہے۔
اختلاف کرنے والوں کا یہ سوال بہرطور منطقی تھا اور وزنی تھا کہ بھارت میں آخر کتنے لوگ ہندوتوا کے علم بردار ہیں؟ اور کیا واقعی غیر ہندوئوں کو ختم کیا جا رہاہے؟ تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ اس وقت برسراقتدار جماعت بی جے پی‘ آر ایس ایس کا سیاسی چہرہ ہے اور آر ایس ایس ہندوتوا نظریات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے عزمِ صمیم رکھتی ہے!
یہ تو ہے معاملے کی مرکزی نوعیت‘ اب بحث جن دھاروں‘ پگڈنڈیوں‘ رَووں اور شاخچوں میں منقسم ہوئی‘ ان میں سے کچھ بہت اہم ہیں۔ پاکستان میں بھارت پر بحث کی جائے تو عمومی طور پر تین قسم کے گروہوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ اوّل‘ وہ گروہ جو توازن کھو بیٹھتا ہے۔ پاکستان کی ہر مشکل کا ذمہ دار بھارت کو قرار دیتا ہے۔ بھارت کے خلاف جنگی جذبات کو ابھارتا ہے۔ بھارت کو پارہ پارہ کرنے سے لے کر لال قلعہ پر سبز پرچم لہرانے کا تذکرہ کرتا ہے۔ یہ گروہ اپنے جوہر میں وہی خصوصیات رکھتا ہے جو سرحد پار بھارتی انتہا پسندوں میں پائی جاتی ہیں۔ دوسرا گروہ ایک اور انتہا پر ہے۔ یہ بھارت کے بارے میں تعریف و توصیف کے علاوہ کچھ نہیں سننا چاہتا۔ اس کا نظریہ یہ ہے کہ بھارت آئیڈیل ہونے کی حد تک قابل تقلید ہے۔ وہاں سیکولرازم کا دور دورہ ہے (یہاں ہم سیکولرازم کو اس کے اصل اور درست مفہوم میں لے رہے ہیں‘ یعنی وہ نظام جس میں تمام مذاہب سے رواداری کا سلوک کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں عمومی طور پر سیکولرازم سے مراد اسلام دشمنی لی جاتی ہے۔ یہ معنی درست نہیں)۔ تیسرا گروہ وہ ہے جو اعتدال پر ہے۔ وہ تعریف کرتے وقت توصیف کا حق ادا کرتا ہے مگر منفی پہلوئوں کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔ یہ اعتدال پسند گروہ اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے کہ بھارت بہت سے میدانوں میں ہم سے سبقت لے چکا ہے مگر وہاں کے کچھ پہلو قابل مذمت بھی ہیں۔
بھارت کو ’’عملاً‘‘ تھیوکریسی کہنے پر جس گروہ نے یلغار کی وہ ان تین میں سے دوسرا ہے۔ یعنی وہ حضرات جو بھارت کے بارے میں کچھ بھی کہنے سننے کے روادار نہیں۔ بھارت کی کامیابیوں کے ہم بھی مداح ہیں۔ ادارے وہاں مضبوط تر ہیں۔ جمہوریت کا تسلسل ہے۔ عوام کی امنگوں کے سامنے طاقت نے سرتسلیم خم کیا اور نئی ریاستیں وجود میں لائی گئیں۔ الیکشن کمیشن واقعی الیکشن کمیشن ہے۔ آئی ٹی کو ملک کی ترقی کے لیے خوب خوب استعمال کیا گیا‘ بیرون ملک سے اعلیٰ تعلیم یافتہ تارکین وطن کا رُخ وطن کی طرف ہو چکا ہے۔ میڈیکل ٹورازم سے ڈھیروں زرمبادلہ کمایا جا رہا ہے۔ وزارتِ دفاع حفظِ مراتب کے اعتبار سے وزارت دفاع ہی ہے‘ محض ذیلی ادارہ بن کر نہیں رہ گئی۔ سب بجا مگر ناچتے مور کے پیروں پر بھی تو نظر ڈالیے۔ ذات پات کے حوالے سے ہندو مائنڈ سیٹ کا دفاع کس طرح کیا جا سکتا ہے؟ دلت کے ساتھ کیا کیا جا رہا ہے؟ آئی ٹی میں ترقی ہوئی مگر قصبوں اور قریوں کو تو چھوڑیے‘ شہروں میں بھی شودر اور برہمن کی تفریق اسی طرح ہے جیسے کبھی تھی! اور یہ تو چند ہفتے پہلے کی بات ہے۔ پورا انٹرنیشنل میڈیا خبر دے چکا ہے کہ بھارت میں سرکاری سطح پر‘ گائے کے ذبیحہ پر پابندی لگانے کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔ دیکھتی آنکھوں مکھی کیسے نگلی جا سکتی ہے؟ مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ نے حال ہی میں ایک عجیب و غریب منطق پیش کی ہے جو ہمارے دوسرے گروپ سے تعلق رکھنے والے دوستوں کے لیے توشۂ خاص ہے! وزیراعلیٰ کہتا ہے کہ گائے ذبح کرنے پر جو پابندی لگائی جا رہی ہے اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں! کوئی جان کی امان پائے تو عرض کرے کہ وہ سائنسی وجہ بھی تو بتایئے جس کی بنیاد پر آپ یہ پابندی لگا رہے ہیں۔ اس سائنسی وجہ سے لگے ہاتھوں یورپ‘ امریکہ‘ جاپان اور آسٹریلیا کو بھی آگاہ کر دیجیے۔
بھارت کی ہزار تعریفیں کر کے ایک معاملے پر بھی تنقید کی جائے تو ایک گھسا پٹا فقرہ ضرور سننے میں آتا ہے۔ ’’یہ چیزیں اردو پریس ہی میں چھپتی ہیں‘‘۔ کسی زمانے میں ایسا ہوتا ہوگا‘ اب نہیں۔ اس قلم کار سمیت بہت سے اردو پریس میں لکھنے والے انگریزی پریس میں لکھتے رہے ہیں اور اب بھی لکھتے ہیں۔ سینئرز کو چھوڑ بھی دیجیے‘ تو نوجوان لکھاریوں کی ایک کہکشاں ہے جو مکمل غیر جذباتی اسلوب سے حقائق اور دلیل کی بنیاد پر لکھ رہی ہے۔ انگریزی پریس میں اس معیار کے مضامین کم ہی شائع ہو رہے ہیں۔ خورشید ندیم‘ عامر خاکوانی‘ یاسر پیرزادہ‘ سلیم صافی اور وجاہت مسعود جیسے قلم کاروں پر جذباتیت یا تعصب کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔ ہاں ایک نعمت سے اردو پریس ضرور محروم ہے اور اس کا سبب غالباً یہ ہے کہ اردو میڈیا چلانے والے اور اس میں لکھنے والے احساس کمتری کا شکار نہیں۔ مغرب کی کسی تھرڈ کلاس یونیورسٹی میں زیر تعلیم کوئی مبتدی بھی چند صفحے سیاہ کردے تو انگریزی پریس اس کی نیم پختہ تحریر شائع کر کے نیچے فخر سے اعلان کرتا ہے کہ ’’مصنف‘‘ فلاں یونیورسٹی میں ’’ریسرچ‘‘ کر رہا ہے۔ اس ریسرچ کی حقیقت بقول غالب اس کے سوا کچھ نہیں کہ ؎
لیتا ہوں مکتبِ غمِ دل سے سبق ہنوز
لیکن یہی کہ رفت گیا اور بود تھا
انگریزی پریس کو انجمن ہائے ستائشِ باہمی کا ایک طویل و عریض نیٹ ورک ڈھانپے ہوئے ہے‘ ورنہ ’’ریسرچ‘‘ اور یونیورسٹیوں کی ثقاہت کا پردہ چاک ہو جائے ؎
بھرم کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا
اگر اس طرۂ پُر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے
سارے اردو پریس کو مطعون کرنا اس لیے بھی ناروا ہے کہ صرف ایک آدھ اخبار اس حوالے سے ’’امتیازی‘‘ حیثیت رکھتا ہے‘ وہ بھی اس لیے کہ منڈی میں اس کی طلب اسی خصوصیت کی بنا پر قائم ہے۔ ایسے ایک آدھ اخبار کی وجہ سے پورے اردو پریس کو ایک خاص رنگ کا طعنہ دینا مناسب نہیں۔ اس اخبار کی حالت بھی اب یہ ہے کہ ؎
شکستہ پا راہ میں کھڑا ہوں‘ گئے دنوں کو بھلا رہا ہوں
جو قافلہ میرا ہم سفر تھا‘ مثالِ گردِ سفر گیا وہ
ہم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ پاکستان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں اور یہاں غیر مسلموں کو مثالی ماحول میسر ہے۔ اس موضوع پر اردو پریس میں تفصیل سے لکھا جا رہا ہے۔ گزارش دست بستہ صرف یہ ہے کہ اگر بھارت کے کسی پہلو کو موضوع بنایا جائے تو اُس وقت پاکستان کے مسائل کو درمیان میں لے آنا خلطِ مبحث کے سوا کچھ نہیں‘ بھارت مثالی حیثیت رکھتا ہے نہ پاکستان۔ اس لیے دونوں کا ایک دوسرے سے موازنہ کرنا ایسے ہی ہے جیسے اندھے سے راستہ پوچھا جائے اور گونگے سے سوال کیا جائے۔ دونوں کا رُخ ترکستان کی طرف ہے۔ یہی لیل و نہار رہے تو اعرابی کعبہ کیسے پہنچے گا؟
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔