کراس بارڈر ٹیررازم
سیکڑوں ریاستوں پر مشتمل برصغیر کو انگریزوں نے متحدہ ہندوستان کی صورت دی اور اس پر فخر کرتے رہے۔ جب مسلمانان ہند نے ایک طویل سیاسی جدوجہد کے بعد اپنا الگ وطن حاصل کیا تب بھی ہندوستان میں ساڑھے پانچ سو دیسی ریاستیں موجود تھیں۔
نہرو، لیڈی ایڈوینا اور ماؤنٹ بیٹن کی ملی بھگت سے گورداسپور اور پٹھانکوٹ کے مسلم اکثریتی اضلاع بھارت کو دے کر کشمیر تک راستہ فراہم کیا گیا تو یہ “انصاف” تھا۔
پاکستان کے جاری اخراجات نواب بہاولپور اور نظام حیدرآباد کے عطیات سے چل رہے تھے کیونکہ پاکستان کے اثاثے “انصاف” کے تقاضوں کے تحت بھارت دبائے بیٹھا تھا۔
فوجی سازوسامان کا بیشتر حصہ کبھی پاکستان پہنچا ہی نہیں کیونکہ انگریز حکمران “انصاف” کے ہاتھوں مجبور تھے۔
کشمیر میں بھارتی افواج نہرو کی خواہش اور ماؤنٹ بیٹن کے حکم پر داخل ہوئیں کیونکہ یہ بھی “انصاف” کا تقاضا تھا۔
البتہ ۔۔۔۔
جس ملک کے ساتھ اس قدر “انصاف”کیا گیا ہو، وہ اپنی فوج کی نہایت قلیل تعداد کے باعث قبائلی لشکری فوج کے ساتھ اس علاقے میں استعمال کر لے جہاں آج بھی بین الاقوامی سرحد نہیں، بلکہ متنازعہ کنٹرول لائن ہے تو اسے “کراس بارڈر ٹیررازم” کہنے کا حوصلہ صرف ن لیگی مالشیے دانشور ہی کر سکتے ہیں۔
یہ حوصلے ایویں نئیں آتے ۔۔۔ تیل کی وڈی شیشی لگتی ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔