A brief history of Critical Thinking, Socrates to John Dewey and in between:
کریٹیکل تھنکنگ کی تعریف اور اس سے وابستہ تعلیمی کام کی سرگرمیاں پچھلے تقریبا 40 برسوں سے بہت زور و شور سے جاری ہیں۔ کریٹیکل تھنکنگ کا بنیادی عنصر منطقی سوال کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا ہے جس کے نتیجے میں دستیاب معلومات پر غور کرنا، مفروضوں کو جانچنا انکی تشریح کرنا، منطقی انداز سے انکا کا تجزیہ کرنا ہے جن کے بارے میں شکوک وشبہات پائے جاتے ہیں یا جن کے حق میں یا خلاف کمزور دلائل پائے جاتے ہیں۔
دنیا بھر میں عموماً اور ترقی یافتہ ممالک میں خصوصاً تنقیدی سوچ (Critical Thinking) تعلیمی نظام، درس وتدریس اور تحقیق کے لئے جزء لاینفک ہے۔ تنقیدی سوچ کی مروجہ فکری جڑیں انتہائی قدیم ہیں جن کا سلسلہ ہمیں اج سے ڈھائی ہزار ںرس پہلے سقراط کی تعلیمات تک لے جاتا ہے, ہو سکتا ہے کہ سقراط سے قبل بھی تنقیدی سوچ کے حامل افراد یا دانشور رہے ہوں گے مگر سقراط نے تنقیدی سوچ کی فکر کے ضابطے بنا کر اسے ایک مکمل طریقہ کار کی شکل میں تبدیل کر دیا۔
سقراط کی تنقیدی سوچ کی دریافت سے قبل تعلیم یافتہ افراد بھی کسی بھی علم کے بارے میں اپنے پر اعتماد دعووں کو عموماً عقلی طور پر ثابت نہیں کر سکتے تھے، اظہار خیال تحریری یا زبانی میں شدید تضاد اور الجھے ہوئے معنی ہوتے تھے نیز اکتر علمی مباحث بھی ناکافی ثبوت اور سطحی قسم کے سنے سنائے غیر حقیقی دعووں کی گردان سے بھرپور ہوتے تھے۔ سقراط نے نا صرف گہرے سوالات کی اہمیت کو اجاگر کیا اور اس کے ساتھ ہی کسی قسم کے دعوے، عقائد یا نظریات کو ماننے سے پہلے انہیں عقلی، منطقی اور ناقابل تردید ثبوتوں کی کسوٹی پر پرکھنے کا درس دیا۔
سقراط نے ثبوت تلاش کرنے کے استدلال اور مفروضوں کا باریک بینی سے جائزہ لینے، بنیادی تصورات کا تجزیہ کرنے کی اہمیت اور انکے مضمرات کا پتہ لگانے پر بہت زور دیا، اسی وجہ سے اس قسم کے سوالات “سقراطی سوال” (Socrates Questioning) کہلاتے ہیں۔
سقراط تنقیدی سوچ کی روایت کے لیے ایک ایجنڈا بھی ترتیب دیا یعنی عام عقائد اور وضاحتوں پر غور سے سوال کرنا معقول اور منطقی خیالات وعقائد کو احتیاط سے الگ کرنا، ایسے تمام خیالات، عقائد یا نظریات خواہ وہ آپ کی آنا کی تسکین کے لئے کتنے ہی دلکش کیوں نہ ہوں اگر وہ عقلیت اور منطق کی کسوٹی پر پورے نا اتریں تو ان پر نظر ثانی کرنا لازم ہے۔
سقراط کی منطقی سوچ کی فلاسفی کو بعد میں افلاطون نے آگے بڑھایا افلاطون نے نا صرف سقراط کی سوچ کو قلم بند کیا بلکہ اس کی پیروی بھی کی، افلاطون نے اس بات پر زور دیا کہ اکثر چیزیں ان تمام سطحی معاملات سے قدرے مختلف ہوتی ہیں جو ہمیں بظاہر نظرآاتی ہیں لہذا تنقیدی سوچ کی مدد سے ایسا تربیت یافتہ ذہن تیار ہو سکتا ہے جو زیر سطح زندگی کی گہری حقیقتوں کا جامع ادراک کر سکتا ہے، کیونکہ کسی نظریہ پر جامع سوالات، اور معقول اعتراضات کا جواب صرف تنقیدی سوچ سے ہی پایا جا سکتا ہے۔
ابنِ سینا اور فرابی ایسی شخصیات ہیں جن کا ماننا تھا کریٹیکل تھنکنگ کے توسط سے مذہب, سائنس سمیت ہر نظریہ پر Rational Questioning علم میں اضافےکا سبب بنتا ہے.ابنِ سینا طبیعات,فلکیات اور ماڈرن طب کا باپ سمجھاجاتا ہے ابن رشد نے اپنے علم اور تجربے کی بنیاد پر تبصرہ کیا کہ دینی, سائنسی اور کائنات کے اسرار صرف اور صرف Rational Thought سے ہی ممکن ہیں۔
قرون وسطی(Middle Ages)میں تنقیدی سوچ کی روایات یا طریقہ کار ہمیں تھامس ایکیناس(Tham Aquinas)جیسے مفکرین کی تحریروں اور تعلیمات سے ملتا ہے۔ تھامس ایکیناس نے اس بات کو یقینی بنانے کے طریقہ کار پر زور دیا کہ کسی قسم کی سوچ و فکر، تنقیدی سوچ کے افکار سے لازمی مطابقت رکھتی ہو نیز استدلال کی ممکنہ تنقید کا منطقی جوابات دینے کی اہلیت بہت اہم ہے جو کہ خیالات کی ترقی میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ علم اور منطق کی کسوٹی پر صرف وہی عقائد ٹھہر سکتے ہیں جو معقول بنیادوں پر استوار ہوں۔
نشاط ثانیہ (Renaissance) کے زمانے میں 15ویں اور 16ویں صدی میں یورپ میں کولٹ (Colet)، ایراسمس (Erasmus) اور مور (Moore) جیسے مفکرین اور اسکالرز کا ایک سیلاب امڈ ایا جنہوں نے مذاہب، فنون، معاشرت، انسانی فطرت، انسانی حقوق، قانون، آزادی سمیت ہر نظریے کو تنقیدی سوچ کی کسوٹی سے پرکھا ان کا ماننا تھا کہ کوئی بھی عقیدہ یا نظریہ، تنقید یا نقطہ چینی سے مبرا قرار نہیں دیا جاسکتا۔
پندرھویں کے انگلینڈ کے فلاسفر فرانسس بیکن (Francis Bacon) نے جا بجا اس خدشے کا اظہار کیا کہ انسان اپنی معلومات بڑھانے کے لیے اپنے دماغ کا غلط استعمال کرتا ہے۔ بیکن کے مطابق معلومات کے حصول کو فطری رجحانات پر نہیں چھوڑا جا سکتا بلکہ حصول علم کے لیے دنیا کا تجرباتی طور پر مطالعہ کرنے پر بحث کی۔ بیکن اپنی کتاب (The Advancement of Learning) میں اس بات پر زور دیتا ہے کہ دنیاوی علوم کا تجرباتی طور پر مطالعہ بہت اہم ہے۔ بیکن اپنی کتاب میں معلومات اکھٹا (Data gathering) کی اہمیت پر زور دیتا ہے، بیکن کے اسی تدریسی کام کی وجہ سے جدید سائنسی تحقیقات کے لیے معلومات (Information gathering process) اکھٹا کرنے کے طریقہ کار کی بنیاد پڑی۔
بیکن نے اپنی کتاب میں اس طرف بھی توجہ دلائی کہ اگر انسانوں کو ان کے خیالات پر ہی چھوڑ دیا جائے تو تنقیدی سوچ کی غیر موجودگی میں وہ روایتوں اور عقیدوں پر اپنے دماغوں میں بہت سے بت بنا لیتے ہیں جو انہیں حقیقتوں سے گمراہ کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ بیکن کی کتاب دی ایڈوانسمنٹ آف لرننگ تنقیدی سوچ (critical thinking) پر ابتدائی تحریروں میں سے ایک ہے۔
بیکن کی کتاب (The Advancement of Learning) کے تقریباً پچاس برس بعد فرانسیسی دانشور رینے ڈسکارٹس (René Descartes) نے کریٹیکل تھنکنگ پر دوسری اہم کتاب “دماغ کی سمت کے لیے اصول” (Rules for the Direction of the Mind) لکھی۔ ڈیکارٹس نے اپنی کتاب میں ذہنی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو ایک خاص منظم اور مربوط طریقہ کار کی ضرورت پر بحث کی جس سے سوچ میں وضاحت اور درستگی کی ضرورت کو بیان کیا گیا۔ ڈیکارٹس نے کریٹیکل تھنکنگ کے لیے ایک طریقہ کار وضع کیا جس کا اصول منظم شکوک (Systematic Doubt) پر تھا. جس کے اصول پر کسی بھی نظریے پر سب سے پہلے شک کرنا پھر سوال کرنا اور اس کے بعد اسے جانچ کر صحیح یا غلط نتیجے کی صورت میں دیکھنا تھا۔
تقریبا اسی زمانے یعنی 15 ویں صدی میں ہی سر تھامس مور (Sir Thomas Moore) نے ایک نئے سماجی نظام یوٹیوبیا (Utopia) کا ماڈل تیار کیا جس میں موجودہ دنیا کے ہر شعبے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ تھامس کے مطابق دنیا کے تمام سماجی نظام بنیادی تجزیہ اور تنقید کے محتاج ہیں جس کے بغیر ان میں کوئی بہتری نہیں آسکتی۔ انہی نشاط ثانیہ اور بعد از نشاط ثانیہ(Renaissance and after Renaissance)کے مفکرین کی کریٹیکل تھنکنگ کے سبب موجودہ سائنس کا ظہور، جمہوریت، انسانی حقوق اور ازادی فکر کا اغاز ہوا۔
اطالوی نشاط ثانیہ میں نکول میکاولی (Niccolo Machiavelli) جس کی شہرہ افاق کتاب دی پرنس ہے، میکاولی اس وقت کی اطالوی سیاست کا بہت تنقیدی جائزہ لیا اور جدید تنقیدی سیاسی فکر کی بنیاد رکھی۔ اس نے یہ ماننے سے انکار کر دیا کہ حکومت میں رہنے والے ویسا ہی کام کرتے ہیں جیسا وہ کہتے ہیں۔ میکاولی نے اس وقت کے سیاست دانوں، حکمرانوں کے حقیقی ایجنڈے کا تنقیدی تجزیہ کیا جو ان کے دعووں کے برعکس انتہائی ظالمانہ، سخت اور تضادات سے بھرپور تھا۔
سولویں اور سترویں صدی میں انگلستان کے مفکرین تھامس ہابس اور جان لاک (Thomas Hobbes and John Locke) کی کریٹیکل تھنکنگ کا معیار جو ہمیں میکاولی کے کام میں ملتا ہے، ان مفکرین نے بھی اپنے زمانے میں رائج ان تمام ان روایتی تصورات پر مبنی نظریات کو رد کر دیا جو عقلی طور پر قابل قبول نہ تھے۔ ہابس اور جان لاک نے کریٹیکل تھنکنگ کو بروئے کار لاتے ہوئے علم سیکھنے کے نئے راستے کھولے، ہابس نے دنیا کے بارے میں ہر چیز کو ثبوت اور استدال سے ثابت اور بیان کیا جبکہ لاک نے روز مرہ کی زندگی اور سوچ کے عام فہم تجزیہ کو فروغ دیا،ان دونوں مفکرین نے بنیادی انسانی حقوق اور حکومتوں کی تمام ذمہ داریوں کے بارے میں کریٹیکل تھنکنگ کی بنیاد رکھی جس سے شہریوں میں حکومتوں پر جائز تنقید کرنے کا شعور اجاگر ہوا۔
فکری ازادی اور تنقیدی سوچ (intellectual freedom and free thinking) کے نتیجے میں سترویں صدی میں رابرٹ بوائل (Robert Boyle) اور سترویں اور اٹھارویں صدی میں سر ائزک نیوٹن (Sir Issac Newton) نے اس کیمیائی نظریے پر شدید تنقید کی جو اس سے پہلے روایتی طور پر تسلیم شدہ تھا۔ نیوٹن نے فکری ترقی کا ایک دوررس فریم ورک تیار کیا اور ان تمام نظریات اور عقائد پر بے تحاشہ تنقید کی جو اس سے پہلے دنیا کے بارے میں روایتوں پر مبنی تھے۔ بوائل اور نیوٹن جیسے دانشوروں نے کریٹیکل تھنکنگ کی فکر کو مزید اگے بڑھایا لہذا ان دانشوروں کی تنقیدی سوچ نے عام لوگوں میں بھی اس فکر اجاگر کیا کہ احتیاط سے جمع شدہ مواد کی مدد سے کسی فکر کو ثابت کیا جاسکتا ہے اور غیر معقول سوچ چاہے کتنی ہی دل فریب کیوں نا ہو اس کو چھوڑ دینا بہتر ہے۔ رابرٹ بوائل اور نیوٹن کی کاوشوں نے ان کے زمانوں سے پہلے کے دانشوروں، سائنسدانوں اور محققین جن میں کیپرینیکس (Copernicus), گیلیلیو (Galileo) اور کیپلر (Kepler) شامل ہیں کی تنقیدی سوچ کی فکر کو مذید آگے بڑھایا۔
فرانسیسی روشن خیال (French Enlightenment) مفکرین نے بھی کریٹیکل تھنکنگ میں بہت بڑا کردار ادا کیا جن میں مونٹیسکی (Montesquieu) بائل (Boale)، والٹیئر (Voltaire) اور ڈیڈروٹ (Diderit) سر فہرست ہیں. ان تمام مفکرین کا محور اس بنیاد پر تھا کہ انسانی ذہن جب تنقیدی سوچ کا استعمال کرتے ہوئے منطق کے مطابق کام کرتا ہے تو سماجی اور سیاسی طور پر دنیا میں جاری نظامات کی نوعیت کا تجزیہ بہتر انداز میں کر سکتا ہے۔ مزید برآں ان مفکرین نے اس بات پر بھی بہت زور دیا کہ انسان اپنی سوچوں کی کمزوریوں اور قوتوں کا تعین کرے جسے وہ عقل وشعور کا استعمال کرتے ہوئے اپنے اندر زیادہ بہتر سوچنے کی صلاحیت پیدا کرسکتا ہے۔ اسکے علاوہ ان دانشوروں نے عقلی و منطقی فکری تبادلہ خیال یا باہمی انٹیلیکچول گفت وشنید کو تجزیہ اور تنقید کے مراحل میں سے گزارنے کی اہمیت پر زور دیا، کیونکہ ان کے خیال میں کوئی بھی عقیدہ، قانون، روایت، نظریہ، دعویٰ یا خیال تنقیدی سوالات اور اس سے بڑھ کر انکی جانچ پڑتال سے مبرا نہیں ہونا چاہیے۔
اٹھارویں صدی کے مفکرین نے تنقیدی فکر کو مزید اگے بڑھایا اور انہوں نے انسانوں کے فکری تصور میں زیادہ وسعت پیدا کی تنقیدی فکر کی طاقت کا احساس اجاگر کی اور اس کے استعمال کو فروغ دیا۔ یہ تنقیدی سوچ معاشیات پر بھی لاگو ہوئی جس کے نتیجے میں ایڈم اسمتھ (Adam Smith) کی کتاب ویلتھ آف نیشنز (Wealth of Nations) وجود میں آئی۔ بادشاہوں سے وفاداری کی روایتی فکر پر سوالات کی بوچھاڑ شروع ہوئی ساتھ ہی استدلال پر بھی استدلال کا آغاز ہوا جس کے نتیجے میں جرمن فلاسفر ایمینول کانٹ (Immanuel Kant) نے کریٹیک آف پیور ریسن (Critique of Pure Reason) جیسی کتاب تحریر کی۔
کامٹے، اسپینسر اور کارل مارکس سوشیالوجی کے بانی مانے جاتے ہیں۔ 19 ویں صدی میں کامٹے(Auguste Comte) جو مثبتیت کا بانی (Originator of Positivism) سمجھا جاتا ہے اور اسپینسر (Herbert Spencer) جس نے نظریہ سوشل ڈارون ازم (Doctrine of Social Darwinism) کی بنیاد رکھی اور نیچرل سیلیکشن طریقہ کار کو انسانوں کے سماجی ڈھانچے پر لاگو کیا۔ ان دونوں مفکرین نے تنقیدی فکر کو انسانی سماجی زندگی کے دائرے میں مزید وسعت دی۔ انکے اٹھائے ہوئے نکات پر سماجی نظام تنقیدی فکر مزید اگے بڑھی جو نا صرف سرمایہ داری نظام پر لاگو ہوئی بلکہ کارل مارکس (Karl Marx) کے نظریات اور اسکی کتاب داس کیپیٹل (Da Kapital) کسی آفت کی صورت میں سرمایہ داری نظام پر نازل ہوئی جس نے سرمایہ داری نظام پر مبنی معاشیات کی جڑیں ہلا دیں, کارل مارکس کا مارکسزم، سوشلزم و کیمونزم بلا شبہ تنقیدی سوچ کی ہی دین ہے، جس کے نتیجے میں سرمایاداری اور سوشلزم کا ملا جلا ماڈل اسوقت دنیا میں رائج ہے۔
تنقیدی سوچ پر مبنی 18ویں اور 19ویں صدی میں ہی ہمیں ڈارون کا کام ڈیسنٹ آف مین(Descent of Man) کتابی شکل میں ملتا ہے، جبکہ سیگمنڈ فرائیڈ نے انکونشس اور کونشس دماغی حالتوں کو اپنی تحقیق پر مبنی بے تحاشا تحریروں میں بیان کیا۔
بیسویں صدی تک اتے اتے تنقیدی سوچ کی طاقت اور اس کی نوعیت کے بارے میں انسان کی سمجھ میں تیزی سے اضافہ ہوا اور اس کی واضح شکلیں برامد ہوئیں۔
1906 میں ولیم گراہم سمنر(William Graham Sumner) کی کتاب فوک ویز (Folkways) شائع ہوئی جس کا موضوع سماجیات اور بشریات (Sociology & Anthropology) تھا۔ اس کتاب میں اس نے انسانی ذہن کے سماجی طور پر سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کے رجحان اور اسکولوں کے غیر تنقیدی رویے کو دستاویزی شکل دی۔
اپنی کتاب میں ولیم اس بات پر زور دیتا ہے کہ مروجہ تعلیمی نظام جو کہ روایتی تدریسی نظام ہے جس سے انسانوں کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو ایک پیٹرن (Pattern) پر تیار کیا جاتا ہے جیسے مشین پر بنی ہوئی کوئی خاص مصنوعات جو ایک جیسی شکلوں کی ہوتی ہے۔ سمنر نے تعلیم میں کریٹیکل تھنکنگ کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے لاگو کرنا اہم ترین قرار دیا۔
امریکن فلاسفر اور سائکولوجسٹ جان ڈیوے(John Dewey) سمنر کے کام سے ناصرف متفق تھا بلکہ اسنے سمنر کے کام کو مذید آگے بڑھایا۔ جان کے خیال میں ہر شخص اپنے اردگرد دنیاوی معاملات کو دیکھتے ہوئے بہت کچھ سیکھتے اور سمجھتے ہیں لہذا کریٹیکل تھنکنگ، مشاہدات اور سماجی تجربات کو ان کی حقیقتوں کے ساتھ سمجھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔
خلاصہ: کریٹیکل تھنکنگ کی تاریخ میں سینکڑوں مفکروں نے اپنا حصہ ڈالا، سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں اور معلومات کا تجزیہ کرنے کے طریقہ کار میں بے پناہ اضافہ کیا، یہی وجہ ہے کہ اب تعلیمی نظام میں کریٹیکل تھنکنگ بنیادی حیثیت رکھتی ہے جس کے بغیر تحقیق کے کام بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔
References
Sherrie Wisdom Research on Advancing Critical Thinking in Higher Education.
A Brief History of the Idea of Critical Thinking.
The Critical Thinking Movement.
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...