چند ماه پہلے مُجھے ایک غیر ملکی کرسچین خاتون کرسٹینا کی فرینڈ ریکویسٹ آئی ۔ میں نے وه قبول کی ۔ فوراً ہی خاتون کی طرف سے میسجنگ شروع ہو گئی ۔ بی بی مُجھے میسج کر دیتی ، میں جواب میں ہوں ہاں کر کہ ٹال دیتا۔
اِسی طرح چلتے چلتے اقساط میں ہمارا آپسی تعارف هو گیا۔ خاتون نے بن مانگے ہی اپنے پندره بیس فوٹو مُجھے بھیج دیئے ۔ اچھی خاصی معقول صورت اور پڑہی لکھی پچپن سالہ بیوه خاتون تھیں۔
ایک دن اُس نے میرے سے فوٹو مانگا ۔ میں نے کہا پروفائل فوٹو دیکھ لو ۔ اصلی ہے۔ وه بولی کہ پروفائل دیکھ کر ہی تو فرینڈ ریکوئیسٹ بھیجی تھی لیکن مُجھے اب اور اسی وقت اپنا تازه ترین فوٹو بھیجو۔ میں نے ایک زور دار کَلک ماری اور اپنا فوٹو بھیج دیا۔
چند منٹ بعد جواب آیا کہ آپ کی ٹھوڑی کا ڈِمپل بہت پیارا ہے۔ میں نے کہا تُمہارے چہرے کا پمپل بہت پیارا ہے ۔ وه بولی تم مُجھے نا ملے تو میں مر جاؤں گی میں نے کہا تم مُجھے نا ملی تو مُجھے کچھ بھی نہیں ہو گا ۔ زبانِ یار مَن ترکی کہ مَن ترکی نمی دانم۔
پھر اُس نے کہا کہ آپ بڑے هینڈ سم ہو لیکن ابھی اسی وقت ایک فوٹو اور بھیجو ۔ تا کہ میں تسلی سے تمہارا معائنہ کر سکوں۔
پتا نہیں مجھے اتنا تنقیدی نظر سے کیوں دیکھنا چاہتی تھی حالانکہ خود میری ہی عمر کی تھی ۔ ایک دن میں نے دیکھا کہ وڈیو کال کے دوران باتیں کرتے کرتے خود اُس کی اپنی بتیسی مُونہہ سے چھلانگ لگا کر نیچے گر گئی تھی۔
شیشے سامنے گیا ، اچھی طرح غور کیا کہ میرے میں ایسا کیا فالٹ آ گیا کہ یہ حسینہ مُجھے هینڈ سم بھی کہہ رہی اور فوٹو بھی دوباره مانگ رہی ہے۔
عینک لگا کر دیکھا تو ایک بڑا سا سفید بال رائٹ اور ایک بڑا سا سفید بال لیفٹ والی بھنوؤں میں نظر آیا ۔ یہ دونوں کمبخت سفید بال ہزاروں کالے بالوں میں ایسے علیحدہ سے کھڑے تھے جیسے آٹھ بازاروں میں گھنٹہ گھر کھڑا ہو۔ سمجھ آ گئی کہ خاتون چیک کرنا چاہتی ہے کہ یہ بال حقیقت میں سفید ہیں یا لائٹ کی ریفلیکشن تھی۔
سوچا اب کیا کروں۔ یہ بال کیسے کالے ہوں۔
۔ بہت مشکل سے سِکے والی پنسل ڈهونڈی۔ مونہہ میں ڈال کر اُسکا سِکا گیلا کیا اور بھنوؤں پر لگایا لیکن اثر نا هوا۔
بچپن کی ایک کاریگری یاد آئی ۔ سامنے دیوار پر کلاک لٹکا تھا۔ وه اُتار کر سیل نکالا ۔ اُسکا کاربن فرش پر رگڑا، اُوپر چند قطر ے پانی ڈالا اور انگلی سے وه پیسٹ بھنوؤں پر لگایا لیکن یہ سائنسدانی بھی کام نا آئی۔
پریشانی ہی بن گئی کہ وه فورا فوٹو مانگ رہی ہے۔ بھنوؤں کی سفیدی چُھپا کر فوٹو کیسے بناؤں۔ سوچا صرف دو تو بال ہیں قینچی سے کاٹ دیتا ہوں لیکن مجال ہے کہ گھر میں کوئی چیز اپنی جگہ پر مل جائے۔ قینچی بھی نا ملی۔
آخر یاد آیا کہ مارکر یہ کام بخوبی کریگا۔ قریبی دکان پر جا کر کالا مارکر خریدا۔ گھر آ کر وه دو بال کالے کئے۔ فوٹو بنایا اور فورا ہی کرسٹینا کو بھیج دیا۔ جواب میں اُس نے لکھا۔ آئی لوو یو مائی سُپر مین۔ یہ پڑھ کر میں دائیں بائیں دیکھنے لگ گیا کہ یہاں کرسٹینا کا،، مائی،، کون ہے اور،، سپر مین،، کون ہے۔
اِس یکطرفہ عشق کی آخری صورت حال یہ ہے کہ اُن محترمہ نے شلوار قمیض پہن اور گوٹا کناری والا دوپٹہ اوڑھ کر اپنے آپ کو مکمل مسلم پاکستانی خاتون کا روپ دے دیا ہے۔ اب وه گاڈ نہیں بولتی ، اللّہ اللّہ کرتی ہے۔
اُسے انتظار ہے کہ پانچ بچوں کا نانا فیصل آبادی لڑکا برات لیکر آئے اور تین بچوں کی دادی اور چھ بچوں کی نانی کو ڈولی میں بٹھا کر اپنے گھر پاکستان لے جائے۔