ڈائنوسارز اور پرندے ,ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے دو جانور
ہماری اس زمین پر جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ زندگی بہت متحرک ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ زمین کی پیدائش کے قریبا ایک ارب سال بعد پہلا وہ سالمہ وجود میں آیا، جس میں زندگی کی خصوصیات واضح تھیں۔ اب ساڑھے تین ارب سال پہلے اس دنیا کے پہلے جاندار کی کیا صورت تھی، کس طرح کی وہ خصوصیات رکھتا تھا، آج کل کے موجودہ جانداروں سے وہ کتنا ملتا جلتا تھا، اسکے بارے میں کوئی بات حتمی نہیں کہی جاسکتی۔ لیکن ایک بات تو طے ہے، وہ یہ کہ اس جاندار کو ہی یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ ہی آج تمام زندہ جانداروں کا جد تھا اور تمام کی تمام زندگیاں اس ایک جاندار سے نکلی جو آج سے ساڑھے تین ارب سال پہلے سمندووں کی گہرائی میں وجود میں آیا۔ پھر ارتقاء کے میکانزم کے عمل سے اس جاندار نے اپنی زندگی کو بڑھوتری دی اور آج ہم زمین کے چپے چپے بلکہ خلاء کے مہیب گہرائیوں میں اب تک کی سر توڑ معلومات کی روشنی میں یہ بات جانتے ہیں کہ اس اکلوتے اور واحد سیارے پر زمین پر ہی زندگی اپنے مختلف رنگ و روپ پر موجود ہے۔
آج سے ستر ملین سال پہلے ہمیں پتہ ہے کہ زمین پر ڈائنوسارز جیسے عظیم الشان اور ھیبت ناک مخلوق کا راج تھا۔ ان ڈائنوسارز میں سے بہت سے ایسے بھی نکلے جو آج کل کہ بہت سارے جانداروں کے اجداد تھے، جن سے ہمیں گہری واقفیت حاصل ہے اور ہمیں وہ بہت اچھے بھی لگتے ہیں۔ ان ماڈرن جانداروں میں پرندوں کی ایک الگ ہی دنیا ہے۔ بعض پرندے انسانوں کے لیے بہت فائدہ مند بھی ہیں، بعض پرندے، انسان کی غذائی ضرورت بھی پوری کرتے ہیں۔ بعض پرندے ہمارے ایکو سسٹم کا ایک لازمی حصہ ہیں۔ اور بعض پرندے ایسے بھی ہیں جن سے ہمارے ماحول میں رونق لگی رہتی ہے۔ لیکن اس بات پر حیرت کیا آپکو نہیں ہوتی کہ یہی دل کو لبھا لینے والے پرندے، خوبصورت اور مدھر آوازوں والے، کبھی ہیبت ناک، ڈراونے، اور خونخوار ڈائنوسارز جیسے ہوا کرتے تھے۔ سائنس نے اس راز سے بھی ہمیں آشکار کردیا ہے۔ اور آئے دن کوئی نہ کوئی ایسا مظبوط تعلق ان پرندوں اور ڈائنوسارز کا آپس میں بنتا چلا جاتا ہے کہ کسی کے لیے بھی اس حقیقت کو جھٹلانا ، ناممکن ہوگیا ہے کہ پرندے بھی کبھی ڈائنوسارز تھے۔ بلکہ بعض محقیقین کا تو یہی ماننا ہے کہ ڈائنو سارز کی تمام نسلیں فنا ہوگئی، سوائے پرندوں کے اور یہی پرندے، دراصل بچ جانے والے ڈائنوسارز ہیں۔ زیل میں ایک ایسی ہی پرندے کے کے بارے میں ایک تفضیلی آرٹیکل کا ترجمہ و تلخیص دیا ہوا ہے، جس میں ایک ایسی درمیانی کڑی کے بارے میں بتایا گیا ہے جو پرندے اور ڈائنوسار کو آپس میں جوڑتی ہے۔
—————————————————————————–
ایک کریٹیشن Cretaceous عہد کے ملنے والے ایک قدیم پرندہ کی نوع "اینان ٹیورنیتھیان Enantiornithine کی ایک اچھی حالت میں ملنے والی محفوظ کھوپڑی جوکہ شمال مشرقی چین میں دریافت ہوا، ماہرین رکازیات Paleontologists نے اسکو دیکھتے ہوئے یہ رائے دی
یہ نو دریافت شدہ پرندے کی نوع جو آج سے قریبا 120 ملین سال پہلے ، موجودہ چین کے لائینینگ Liaoning صوبے میں ابتدائی کرٹیشیس عہد میں رہتی تھی۔
یہ قدیم مخلوق ایک 2cm (0.8 inch) لمبی ایک کھوپٹری رکھتی تھی جو ڈائنوسارز اور پرندہ دونوں کے مشترکہ خواص رکھتی تھی۔ یہ قدیم مخلوق ابتدائی پرندوں کی ایک ابتدائی نوع اینان ٹیورنیتھیان Enantiornithine (لاطینی زبان میں اینان ٹیورنیتھیان کا مطلب "پرندہ مخالف") سے تعلق رکھتی تھی جو دانت رکھنے والے کری تیشیس عہد کے پرندوں میں شمار ہوتے تھے اور ایشیا (خصوصا چین ) سے دریافت ہونے والے بکثرت ڈائنوسارز کے فاسلز سے تعلق رکھتے تھے۔
چائنیز اکیڈمی آف سائنس CAS کے ڈیپارٹمنٹ " Institute of Vertebrate Paleontology and Paleoanthropology" اور CAS کے سنٹر آف ایکسیلنس ان لائف اینڈ Paleoenvironment کے ایک پروفیسر ، من وانگ Min Wang نے کہا کہ " اینان ٹیورنیتھیان دراصل قدیم پرندوں کا ایک بہت وسیع گروپ سمجھا جاتاہے جو کریٹیشس عہد کے ڈائنو سارز سے تعلق رکھتا ہے اور اسکی انواع اب ساری دنیا میں فوسلائزڈ شکل میں ملتی ہیں"۔
آج کل کے زندہ پرندوں کی کھوپڑی میں ایک سب سے متحرک ہڈی پائی جاتی ہے جسکو کوارڈیٹ quadrate کہا جاتا ہے ۔ اس ہڈی کی وجہ سے ان پرندوں کی کھوپڑی کو "متحرک کھوپڑی" کا نام دیا گیا جسکی وجہ سے آج پرندے اپنے اوپری جبڑے کو اپنے دماغ اور نچلے جبڑے سے آذادانہ حرکت دے پاتے ہیں۔
آج کے موجودہ پرندوں کے برخلاف ملنے والی نئی "پرندہ مخالف" کی کھوپڑی اور اسکے ساتھ ساتھ ڈائنوسارز جیسے ٹی ریکس (Tyrannosaurus rex) ڈائنوسارز اور ان کے قریبی رشتہ دار پرندے (مثلا ٹرووڈونو ٹیڈس Troodontids اور ڈرومیوسارز Dromaeosaurs ) کی کھوپڑی متحرک نہیں ہوتی تھی۔ انکی کھوپڑی کی ہڈیاں ایک طرفہ "لاکڈ" ہوتی تھیں جو ہل بھی نہی سکتی تھیں۔ سادہ الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ڈائنوسارز اور قدیم پرندے، اپنے جبڑے کے صرف نچلے حصے کو ہی حرکت دے پاتے تھے، کیونکہ انکے جبڑے کی اوپری ہڈی، انکی کھوپڑی سے جڑی ہوتی تھی۔
اس ملنے والے قدیم پرندے کی کھوپڑی کا اگلا حصہ Temporal regions آج کل کے موجود پرندوں سے بہت حد تک مختلف تھا۔
اس نئے دریافت شدہ اینان ٹیورنیتھیان پرندے کے جبڑا کے مسلز، دو محرابی شکل والی ہڈی سے جڑے ہوتے ہیں جیسا آج کل کے موجودہ ریپٹائلز مثلا چھپکلی، مگر مچھ اور قدیم ریپٹائلز جیسے ڈائنوسارز میں پایا جاتا ہے، جس میں کھوپڑی کا پچھلا حصہ سخت ، جامد اور حرکت کے خلاف رکاوٹ پیدا کرتا تھا۔
پروفیسر وانگ نے بتایا "جب ہم نے ایک ھائی ریزولوشن سی ٹی اسکین کی مدد سے اس فاسل کی تمام ہڈیوں کو دوبارہ سے جوڑنا چاہا تو ہمیں دشواری کا سامنا کرنا پڑا، خصوصا ایک ہڈی کے بارے میں جو اس مخلوق کے نچلے جبڑے میں پائی جاتی تھی"۔ محقیقن نے اس قدیمی پرندے کے سی ٹی اسکین کو اندرون منگولیا، چائنا سے دریافت شدہ ایک اور مشہور پرندہ –ڈائنوسارز "ڈرومیوسارز Linheraptor سے مقابلہ کروایا جو اس دریافت شدہ نوع کے ایک قریبی رشتہ دار سمجھا جاتا ہے۔
اس تقابلی جائزے سے محقیقن پر یہ عقدہ کھلا کہ اس پرندے کی کھوپڑی کے پچھلے حصے کی بہت ساری خصوصیات ڈرومیوسارز کی کھوپڑیوں سے ملتی جلتی ہیں، ایک کھوپڑی کی ہڈی کی شکل جسکو basisphenoid کہا جاتا ہے اور اسکا کھوپڑی کی دیگر ہڈیوں سے جو تعلق بنتا ہے، موجودہ پرندوں کے بالعکس بالکل ڈائنوسارز کی ہڈیوں کے مماثل نکلا۔
چائنیز اکیڈمی آف سائنس اور Institute of Vertebrate Paleontology and Paleoanthropology کے ایک اور پروفیسر ڈاکٹر تھومس سٹڈ ہم Dr Thomas Sidham نے یہ مزید انکشاف کیا کہ " یہ فوسلائزڈ پرندہ نما ڈائنوسارز اسکے علاوہ ایک اور ساخت کی کمی رکھتا تھا جو آج کل کے ماڈرن پرندوں میں دیکھی جاتی ہے اور وہ یہ کہ ماڈرن پرندوں کی متحرک کھوپڑی اور انکے جبڑوں کے ملانے والی ایک اور ہڈی جسکو pterygoid جو کواڈریٹ quadrate ہڈی کے ساتھ مل رہی ہوتی ہے، اسکو بھی اس فاسلائزڈ ڈائنو پرندے میں نہیں دیکھا گیا"۔ یہ کمی بتارہی ہے کہ یہ پرندہ (خصوصا اسکی کھوپڑی) پرندوں سے زیادہ ڈائنوسارز سے مشابہت رکھتا تھا۔ لیکن باقی جسم کی ساخت اور اسکی بناوٹ بہت حد ماڈرن پرندوں جیسی ہی تھی۔
ابتدائی پرندوں میں اس متحرک پن کے غائب ہونے کی یہی وجہ سامنے آتی ہے کہ جس میں ان ٹمپورل ہڈیوں کا "لاکڈ- اپ Locked Up" ہوجانا ہے جو کھوپڑی کے تالو کو جوڑے ہوئے ہوتی ہیں۔ یہ ابتدائی پرندے چونکہ ڈائنوسارز/ریپاٹائلز سے مماثل ہوا کرتے تھے، اس لیے ان میں یہ خصوصیات تھیں۔ ماڈرن پرندوں کے ارتقاء میں آہستہ آہستہ ، ایک ایک کرکے پرندے کے دونوں چبڑوں کی ہڈیاں کھوپڑی کے تالو سے علیحدہ ہونا شروع ہوگئی اور یوں دونوں آج پرندوں کے دونوں جبڑے ہلتے ہوئے اور متحرک دیکھ سکتے ہیں۔
پروفیسر وانگ نے مزید کہا کہ "ایک ڈائنوسارکی کھوپڑی کو ایک پرندے کے سر پر دیکھنے کے باوجود یہ ملنے والا قدیم پرندہ؟ اینان ٹیورنیتھیان " کرٹیشیس عہد کے ملنے والے تمام پرندوں سے زیادہ کامیاب رہا اور بہت عمدگی سے اپنی نسل و نوع کو آگے بڑھاتا رہا جسکا واضح ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ اسکے تمام دنیا سے فاسلز مل رہے ہیں اور اسکی نوع تمام دنیا میں یکساں پھلی اور پھولیؒ ۔ پھر لاکھوں سال کے عرصے کےبعد ان ہی قدیمی پرندے سے آج ملنے والے تمام پرندوں کے اجداد نے جنم لیا اور ان ارتقائی مراحل کے بعد ہم آج پرندوں کی شکل میں یہ شاندار مخلوق دیکھ پاتے ہیں۔
وضاحت: تصویر میں الٹے ہاتھ پر اس فوسلائزڈ پرندے کے اصلی ڈھانچے کی تصویر اور سیدھے ہاتھ پر اس کے ڈھانچے کی ایک ڈیجیٹل تصویر دی ہوئی ہے، جس میں اس قدیم ڈائنو پرندے کی ہڈیوں/حصوں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ اس ڈیجیٹل امیج سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس حد یہ پرندہ، ایک ڈائنو سار سے ارتقاء پاکر موجودہ پرندوں کی ساخت میں ڈھلتا جارہا تھا۔ ان کے نام کچھ اسطرح ہیں۔
The Early Cretaceous enantiornithine bird from Liaoning province, China: (a) photograph; (b) digital reconstruction. Abbreviations: at – atlas, ca – caudal vertebrae, ce – cervical vertebrae, dt – distal tarsals, lfe – left femur, lil – left ilium, lis – left ischium, lpu – left pubis, mt II-IV – metatarsals II to IV, pd II-IV – pedal digits II to IV, ph – proximal phalanx of hallux, pt – proximal tarsals, py – pygostyle, rb – rib, rfe – right femur, rfi – right fibula, ril – right ilium, ris – right ischium, rpu – right pubis, rti – right tibia, sk – skull, sv – sacral vertebra, tv – thoracic vertebrae. Scale bars – 10 mm. Image credit: Wang et al., doi:
The findings were published in the journal Nature Communications.
سورس آرٹیکل کا لنک
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...