سونے، چاندی اور کاغذ کے دور کے بعد پیسے کی تاریخ اب الیکٹرانز کی حرکت کی طرف رخ کر رہی ہے۔ پلاسٹک سے بنے کریڈٹ کارڈ امریکہ میں ۱۹۵۸ میں ایجاد ہوئے۔ بینک کی طرف سے جاری کئے گئے اس کارڈ کی لوگوں اور کاروبارں میں قبولیت کی وجہ اس کی سہولت تھی۔ اس کی وجہ سے بینک کا قرضہ صرف امیروں تک محدود نہیں رہا تھا۔ ساتھ ہی اس نے کئی اخلاقی سوالات کو جنم دیا۔
کریڈٹ کارڈ خود تو پیسے نہیں ہے۔ یہ ایک فزیکل آبجیکٹ ہے جو پیسے خرچ کرنے، اس کی ایک جگہ سے دوسری جگہ لے کر جانے اور دوسروں سے وعدہ کرنے کا ایک آلہ ہے۔ پیسے سکوں اور نوٹوں سے نکل کر اعداد اور ہندسوں میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ پیسہ اپنی میٹیرئیل شکل پہلے بھی کھو چکا تھا۔ اس کی رفتار اس ایجاد سے بڑھ گئی۔
اس کو دنیا میں قومی سرحدوں کی پرواہ کئے بغیر کہیں پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس سے پہلے پیسے کے پیچھے کسی بادشاہ یا کسی ملک کا نشان ہوتا تھا۔ پلاسٹک کارڈ کسی حکمران یا قوم کی پہچان نہیں کرتا۔ اس کی حد بس اس کی ایکسپائری کی تاریخ ہے۔ روایتی پیسے کی گونج اس میں موجود ہے۔ جو صدیوں پرانا مسئلہ یہ کارڈ حل کرتا ہے جو کسی لین دین میں ادائیگی کی گارنٹی ہے۔
آئیں، اب ساتھ تصویر میں لگے کارڈ کا جائزہ ذرا تفصیل سے لیں۔ یہ گولڈ کارڈ لندن کے HSBC بینک کی طرف سے جاری ہوا جو ہانگ کانگ اینڈ شنگھائی بینکنگ کارپوریشن ہے۔ اس کے پیچھے امریکہ سے تعلق رکھنے والی کریڈیٹ ایسوی ایشن ویزہ کی گارنٹی ہے۔ اس کے پیچھے عربی میں متن لکھا گیا ہے کیونکہ یہ متحدہ عرب امارات سے ایشو کیا گیا۔ یہ ایک جڑے ہوئے عالمی مالیاتی نظام کی علامت ہے۔ اس کے پیچھے انتہائی پیچیدہ برقیاتی انفراسٹرکچر موجود ہے جس کی طرف ہمارا دھیان کم ہی جاتا ہے۔ ہر مالیاتی لین دین ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ کب، کس جگہ، کس سے، کتنا؟ یہ ریکارڈ اپنی پوری تفصیل کے ساتھ بنتا جاتا ہے۔ ہماری آپ بیتی کا ایک حصہ اس کے پیچھے کے ریکاڑز میں محفوظ ہے۔ جدید بینکاری کا نظام اب سرحدوں کی قید میں نہیں۔ یہ کارڈ اس کی علامت ہے۔
دنیا بھر میں تمام کارڈ ایک ہی متفقہ اور شکل کے بنتے ہیں تا کہ وہ ان کو پراسس کئے جانے والے سوراخوں کے اندر فٹ ہو سکیں۔ اس کی دونوں سائیڈز پر اہم معلومات ہوتی ہے۔ اگر اس کو الٹائیں تو اس کے پیچھے مقناطیسی پٹی برقیاتی مالیاتی نظام کا حصہ ہے جس کی وجہ سے پیسے محفوظ طریقے سے حرکت کر سکتے ہیں، فوری رابطہ ہو سکتا ہے اور فوری لین دین۔ بہت سے نئے کارڈ اب الیکٹرانکس کی ایک جدید ایجاد سے لیس ہوتے ہیں جو مائیکرو چپ ہے۔ مائیکروٹیکنالوجی ایک عظیم عالمی ایجاد ہے جو پچھلی ایک نسل میں ہوئی۔ اس کی وجہ سے عالمی لین دین بھی محفوظ اور آسان ہو گیا۔ اس کے پیچھے کی کالی مقناطیسی پٹی کہانی کی ہیرو ہے یا ولن۔ یہ دیکھنے والے کا نقطہ نظر ہے لیکن ساٹھ سال پرانی اس ایجاد نے دنیا پر بہت اثر ڈالا ہے۔
کریڈٹ کارڈ ایک اور کام کرتے ہیں جو زیادہ تر لوگوں کے لئے ممکن نہیں تھا۔ یہ روایتی بنیے یا کڑی شرائط پر قرضہ دینے والوں سے عام فرد کو آزاد کرتے ہیں۔ اس کی دوسری سائیڈ یہ ہے کہ اس آسانی سے کفایت شعاری کی روایتی قدر متاثر ہوتی ہے۔ کیونکہ خرچ سے پہلے پیسے بچانے کی ضرورت ختم ہو جاتی ہے۔ “آج خریدیں اور کل ادا کریں” انفرادی مالیاتی ڈسپلن کو متاثر کرتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ پلاسٹک کا یہ ٹکڑا زیادہ خرچ کرنے کا باعث بنا ہے اور اس نے اخلاقی مباحث کو بھی جنم دیا ہے۔
اس کارڈ میں ایک اور چیز اس کے درمیان میں بنا ڈیزائن ہے۔ سرخ کھوکھلے ستاروں پر مشتمل اس ڈیزائن کا تعلق روایتی سوڈانی آرٹ ورک سے ہے۔ سوڈان کے شمال میں ہونے والے اس کام کے اس کارڈ پر ہونے کی وجہ ایک وقت میں متحدہ عرب امارات کی اور سوڈان کا ایک پرانا مشترکہ سیاسی پس منظر ہے۔
اس پر ایک اور دلچسپ چیز یہ ہے کہ اس پر “امانہ” لکھا ہوا ہے۔ یہ لندن اور چین سے تعلق رکھنے والے اس بینک کا اسلامی بینکاری کا ونگ ہے۔ اس کارڈ کی مارکٹنگ کا ایک پہلو شریعہ اصولوں کے تحت ہونا ہے۔ مذاہب کا مالیاتی معاملات کی اخلاقیات پر نقطہ نظر ہے۔ نوے کی دہائی میں مالیاتی نظام اور مذہبی قواعد کی آپس میں صلح کروانے کے لئے اس کا آغاز ہوا۔ یہ دنیا کے فائننشل سسٹم کی سب سے تیزی سے بڑھتی شاخ ہے اور صرف بیس سال میں ساٹھ سے زیادہ ممالک میں اس کا حصہ تین ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔
فرانسیسی انقلاب کے بعد کئی دانشور، بشمول کارل مارکس پیش گوئی کرتے رہیں ہیں کہ پیسے کی جنگ مذہب کو پس منظر میں لے جائے گی۔ لیکن اس کارڈ میں پیسہ اور مذہب ہاتھ پکڑے نظر آتے ہیں۔
یہ گولڈ کارڈ عالمی اقتصادی اور سیاسی نظام کا ایک چھوٹا سا حصہ لیکن ان میں ہوتی تبدیلیوں کی ایک تصویر ہے۔