سیاحت کے شعبے نے عالمی معیشت میں 7۔6$ ٹرلین ڈالرز کی شراکت داری کی جو عالمی جی ڈی پی کا10۔2% بنتی ہے۔ اس شعبے نے چند سال پہلے292ملین نوکریاں پیداکیں۔شمالی علاقہ جات میں سیاحت تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔پاکستان ٹورازم ڈیپارٹمنٹ کے مطابق50ملین مقامی سیاح متوقع ہیں۔سیاحوں کی اتنی بڑی تعدادی اس بات کا ثبوت ہے کہ سیاحت کا شعبہ ہمارے اندازوں سے کہیں زیادہ استعداد رکھتا ہے۔ ورلڈ ٹورازم کونسل کے مطابق سیاحت کے شعبے نے 2019کے دوران قومی جی ڈی پی میں 5۔9%اضافہ کر تے ہوئے3۔9ملین نوکریاں تخلیق کیں۔ اگر ہم اپنی سیاحت کو چین کی سطح تک لے آئیں تو قومی جی ڈی پی میں اس کی شراکت5۔1%سے بڑھ کر 11%ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ سیاحت کا شعبہ2۔37ملین اضافی نوکریاں بھی تخلیق کرے گا۔ سی پیک اپنے دیگر فوائد کے ساتھ خطے میں سیاحت کے فروغ کے لیے ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہوگا۔ ماضی میں دوستانہ تعلقات کے باوجود جنوبی ایشیاء میں پاکستان بین الاقوامی سیاحوں کی بڑی تعداد کو لانے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکا۔ سی پیک نے اس صورتحال کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ سی پیک کی بدولت پاکستان میں بین الاقوامی سیاحوں کی ویزا درخواستوں میں 37%اضافہ ہوا ہے۔ شمالی علاقہ جات اپنی خوبصورتی اور دلکشی میں بے مثال ہیں۔ کشمیر ارضی جنت کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔کشمیر کی خوبصورتی کو دنیا کی کوئی زبان بیان کرنے سے قاصر ہے۔ شمالی علاقہ جات سیاحت کا مرکز ہیں۔منفرد ارضی خوبصورتی اور دنیا کی مشہور پہاڑی چوٹیاں اس خطے کا اعزاز ہیں۔ ہمالیہ، قراقرم، ہندوکش، دنیا کی دوسری بڑی چوٹی کے ٹو بھی اسی خطے کا امتیاز ہے۔ 8000میڑ سے بلند 5 چوٹیاں، 101سے زیادہ 7000میڑ بلند چوٹیاں، 5100گلیشئرز بھی شمالی علاقوں میں سیاحت کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔2200سکؤر کلومیڑ برف پوش علاقے اور 119سے زیادہ جھلیں بھی ان علاقوں کی خوبصورتی کو دوبالا کرتی ہیں۔بلندوبالا پہاڑی جنگلات، 4قومی پارکس،کھیلوں کے 9میدان، جنگلی حیات کے تین مسکن، پرندوں کی230سے زیادہ اقسام، میملز کی 54سے زیادہ اقسام، تازہ پانی کی مچھلی کی 20سے زیادہ اقسام، رینگنے والے جانوروں کی 23سے زیادہ اقسام، خشکی اور تری میں رہنے والے جانوروں کی 6اقسام، 6592 سکوئر کلومیڑ سے زیادہ جنگلات بھی شمالی علاقہ جات کی انفرادیت کو بے مثال بناتے ہیں۔اس خطے میں 5سے زیادہ لسانی گروہ ہیں جو 36سے زیادہ مقامی زبانیں بولتے ہیں۔اس خطے میں ایشیاء پیسیفک کے ثقافتی ورثہ کے 7مقامات موجود ہیں۔یونیسکو اور برطانوی ائیرویز کے ایوارڈ یافتہ تاریخی مقامات، 23سے زیادہ تاریخی قلعے اور 75پولو گراونڈ بھی اس خطے کی انفرادیت ہے۔65سے زیادہ آثار قدیمہ کے مقامات، 39000سے زیادہ نقش و نگاری کی ہوئی شلالیھ بھی دنیا بھر کے سیاحوں کی منتظر ہیں۔ گلگت بلتستان میں سال بھر جاری رہنے والے تہوار، سودیشی موسیقی، صدیوں پرانی مہمانی نوازی کی روایات دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے کسی طلسم سے کم نہیں۔سالانہ 1۔5ملین سے زیادہ سیاح آزادکشمیر کی سیر کر تے ہیں۔ آزادکشمیر میں 100سے زیادہ ثقافتی ورثہ اور آثار قدیمہ کے مقامات موجود ہیں جن میں سکھ، بدھ مت،ڈوگرہ اور مغل دور کے تاریخی مقامات شامل ہیں۔ اگر ہم نقل و حمل اور رسل و رسائل کے مسائل کو حل کر لیں تو مذہبی سیاحت کو فروغ دے سکتے ہیں۔ حکومت آزادکشمیر نے سیاحوں کی آسانی کے لیے آزاد سیاحتی ایپ اور سیاحتی سمارٹ کارڈبھی متعارف کروا دیا ہے۔ مظفرآباد اور میر پور میں دو عجائب گھروں پر کام جاری ہے۔ سی پیک کشمیر اور گلگت بلتستان کو دیگر دنیا سے ملانے کا سنہری موقعہ ہے۔آزادکشمیر کے لیے سی پیک کے تحت 5بڑے منصوبے منظور کیے گئے ہیں جن میں سب سے اہم میرپور صنعتی زون اور M4 ہیں۔ سی پیک کے منصوبوں کے زریعے آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں ترقی اور سرمایہ کاری کی نئی راہیں کھلیں گی۔ گوادر کوزنگ جیانگ سے ملانی والی شاہرہ پاکستان کے چاروں صوبوں سمیت آزادکشمیر اور گلگت بلتستان سے گزرے گی۔وسطی پنجاب سے سی پیک کے لیے یہ سب سے مختصر راستہ ہے۔ یہ شاہرہ موجودہ فاصلے کو 50کلو میڑ کم کرنے کے ساتھ ساتھ سفر کے دورانیے کو بھی4سے6گھنٹے کم کر دے گی۔ سی پیک کے تحت سیاحت شمالی علاقہ جات میں صنعتی ترقی کو ترویج دیتے ہوئے قومی معیشت کو مضبوط کرے گی۔ شمالی علاقہ جات میں غیر معیاری راستوں اور سڑکوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے سیاحت کے شعبے کو ترویج دینے میں کامیابی نہیں ملی۔ سی پیک کی بدولت آزادکشمیر اور گلگت بلتستان ملکی، مقامی اور بین الاقوامی تجارت کو فروغ دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ مقامی صنعتوں، معدنیات، لکڑی کی صنعت، مقامی روائیتی کھانوں، پھلوں، جڑی بوٹیوں،دستکاری، کوہ پیمائی اور دیگر صنعتوں کو فروغ ملے گا۔سی پیک کے تحت دینہ، جہلم اور میر پور کے درمیان ریلوے کی پٹڑی بچھانے کا منصوبہ زیر غور ہے۔ اگر یہ منصوبہ کامیابی سے مکمل ہو جاتا ہے تو میر پور سے ملحقہ اضلاح اور وادیوں میں سیاحت کو فروغ ملے گا۔ خنجراب کے راستے نکلنے والی نئی شاہرہ موجودہ راستے کی طوالت کو350کلومیٹر کم کر دے گی۔ یہ شاہرہ شیگار، سکردو، استور سے ہوتی ہوئی آزادکشمیر کے دارلخلافہ سے ملے گی۔ اسی راستے کو نیلم ویلی کے شونٹھر پاس سے بھی ملایا جا سکتا ہے۔سی پیک کے تحت مظفرآباد کے لیے صنعتی زون کے قیام کی بات چیت جاری ہے۔اگر یہ منصوبہ منظور ہو جاتاہے تو مظفرآباد سے ملحقہ اضلاع او ر وادیاں سی پیک کے تحت سیاحت میں تیزی سے ترقی کریں گی۔ سی پیک کے تحت، شونٹھر ٹنل کے زریعے وادی نیلم کو گلگت بلتستان سے ملانے کا قدرتی اور قدیم راستہ ہے۔ وادی نیلم وادی کاغان کے متوازی سمت میں موجود ہے۔ دونوں وادیوں کو سی پیک کے تحت مختلف مقامی راستوں کے زریعے ملا کر سیاحت کو دوبالا کیا جا سکتا ہے۔نانگا پربت کی ایک چوٹی سر والی چوٹی جو کہ 6326میٹر بلند ہے وہ بھی وادی نیلم میں موجود ہے اسے آزادکشمیر کی بلند ترین چوٹی سمجھا جاتا ہے۔اگر ہم خچر ٹریک بنا لیں تو ہم بابون سر کو پتلیاں جھیل کے زریعے رتی گلی جھیل کے ساتھ ملا سکتے ہیں۔ اس سے نہ صرف فاصلہ کم ہو گا بلکہ مقامی افراد کو روزگار بھی ملے گا۔ رتی گلی جھیل سے ہم وادی نیلم وادی ناراں اور کاغان سے ملا ئیں اور وادی نیلم ہی کو سونٹھر ٹنل کے زریعے گلگت بلتستان سے ملا کر سیاحوں کو ایک سیاحتی سفر میں تین سیاحتی پیکچ دے سکتے ہیں۔ناراں کاغان کا سفر کرتے ہوئے سیاح رتی گلی جھیل کے راستے وادی نیلم میں داخل ہوں اور پوری وادی گھومنے کے بعد شونٹھر ٹنل کے زریعے گلگت بلتستان کی سیر کرتے ہوئے واپسی کی راہ لیں۔ گلگت بلتستان سے شونٹھر ٹنل کے زریعے براستہ نیلم ویلی پنڈی اسلام آباد کاراستہ دیگر تمام راستوں سے بہت کم ہے۔سیاحت کے علاوہ یہ راستہ تجارت اور دفاع کے لیے بھی استعمال ہو گا۔ شاردہ کے مقام پر موجود قدیم یونیورسٹی کی بحالی سے سیاحت کو فروغ ملے گا۔ شاردہ کے مخالف سمت میں سرگن نالہ کے ساتھ بھی ایک راستہ وادی کاغان کی طرف جاتا ہے۔اسے بھی سیاحت کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔کیل کوہ پیمائی کے لیے بیس کمیپ کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اڑنگ کیل سیاحتی لحاظ سے بے مثال اور پرکشش جگہ ہے۔سر والی چوٹی اور 25کلو میٹر تک پھیلے گلیشئرسے سیاح لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ گریس ویلی برزل پاس کے بالکل ساتھ واقع ہے۔ برزل وادی نیلم کو استور کے زریعے گلگت بلتستان سے ملاتا ہے۔ اس راستے کو بھی سیاحتی، تجارت اور دفاعی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مظفرآباد صنعتی زون کے قیام سے چکار، زلزال جھیل، وادی نیلم، جہلم اور لیپہ میں سیاحت کو فروغ ملے گا۔ کوٹلی M4کے زریعے میرپور سے جڑی ہوئی ہے، ضلع پونچھ کی پیرل وادی سی پیک کے تحت آزاد پتن پاور پراجیکٹ سے منسلک ہے،راولکوٹ کی بنجوسہ جھیل اور تولی پیر کو بھی آزاد پتن پاورپراجیکٹ کے تحت آپس میں ملاکر سیاحت کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ منگلہ جھیل، رام کوٹ کا قلعہ اور ملحقہ اضلاع اور وادیاں بلواسطہ طور پرسی پیک کے تحت میرپورصنعتی زون کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔