اچھی خبر ۔ نہیں، نہیں۔ یہ وبا دنیا کو ختم نہیں کرے گی۔ اس کے جانی نقصان کا تاریخ کی بڑی وباوٗں کی قریب قریب پہنچے کا امکان بھی بہت ہی کم ہے۔
بری خبر ۔ کیا آپ خبریں نہیں دیکھ رہے؟
کووڈ 19 نے پچھلے چند ہفتوں میں دنیا کو بدل دیا ہے۔ اس پر انفارمیشن روز اپڈیٹ ہو رہی ہے۔ یہ بہت اہم موضوع ہے اور اس پر لکھنے یا معلومات شئیر کرنے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ اگر بلیک ہول کی فزکس کے بارے میں غلطی کر دیتے ہیں تو ایسا کرنا اچھی بات نہیں لیکن اس کا اثر براہِ راست کسی کی زندگی پر نہیں پڑتا۔ جبکہ صحت سے متعلق معاملات کا اثر ہماری زندگی اور رہن سہن کی طریقے پر بھی ہوتا ہے۔ اس وبا کے بارے میں تفصیلات روز بروز مل رہی ہیں اور ہم ابھی کئی چیزیں ٹھیک نہیں جانتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وائرس زندگی کے درخت کے گرد چڑھی ہوئی بیل ہیں۔ ہر قسم کے جاندار، خواہ پودے ہوں، پرندے، کیڑے، ممالیہ یا بیکٹیریا، یہ اس خلیاتی زندگی کو اپنے بڑھنے کے مقصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ تیزرفتاری سے بڑھنے کی وجہ سے ارتقا کی رفتار بہت تیز ہے۔ انہیں روز اربوں مواقع ملتے ہیں کہ کچھ بدل جائے اور اکثر اوقات ایسی تبدیلیوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ صرف یہ کہ چند بار پڑ بھی جاتا ہے۔
پرندوں کی وبائیں پرندوں کو مار دیتی ہیں۔ بہت قریب قریب رہنے والے پرندوں کے گروپ، جیسا کہ پولٹری فارم، اجڑ جاتے ہیں۔ لیکن ایسی وبا انسانوں کے لئے مضر نہیں ہوتیں۔ کبھی کبھار اس کے وائرس میوٹیٹ ہو کر انسان میں بھی آ جاتے ہیں۔ اس عمل کو زونوسس کہتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا رہتا ہے۔ پولٹری فارم کے قریب رہنے والے ایسے وائرس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس کی میوٹیشن کی وجہ سے یہ پرندے سے انسان میں آ تو جاتا ہے لیکن آگے نہیں پھیلتا کیونکہ انسان سے انسان میں جانے کے لئے نئی میوٹیشن کی ضرورت ہے۔ لیکن پھر ۔۔ یہ عمل بار بار ہونے کی وجہ سے کبھی یہ والی میوٹیشن بھی آ جاتی ہے اور کئی وبائیں اس وجہ سے شروع ہوئی ہیں۔ H5N1 فلو جو ہانگ کانگ میں 1997 میں آیا۔ امریکہ میں 2003 میں اور کینیڈا میں 2014 میں۔ خوش قسمتی سے یہ انسان سے انسان میں آسانی سے منتقل نہیں ہو سکتا تھا۔ اس وائرس کا شکار ہو جانے کے بعد کسی کے فوت ہو جانے کا امکان ساٹھ فیصد ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کووڈ ۱۹ پرندوں سے نہیں آیا لیکن زونوسس کے عمل سے ہی آیا ہے۔ اس کا آغاز چمگادڑ سے ہوا ہے۔ چمگادڑ کو ہم reservoir host کہتے ہیں۔ یہ وائرس چمگادڑ میں اپنی کالونی بناتے ہیں اور ان کے لئے عام طور پر مضر نہیں۔ وائرس اپنے ریزروائر میزبان سے براہِ راست انسانوں میں نہیں پھلانگتے۔ ان کو درمیان میں ایک اور نوع کی ضرورت ہے جس کو amplifier host کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چمگادڑ سے یہ وائرس دو سے چار درجن لوگوں تک منتقل نہیں ہو سکتا جو اس وائرس کو اپنے پیر جمانے کے لئے چاہیے۔ اس کا زیادہ امکان یہی ہے کہ یہ کسی دوسرے جانور میں گیا۔ وہاں رہائش اختیار کی۔ ایسے جانور سے جس سے انسانوں کا میل ملاپ زیادہ ہے۔ یہ جانور ایمپلی فائر میزبان کہلاتا ہے۔ ابھی ہمیں معلوم نہیں کہ کووڈ ۱۹ میں ایسا میزبان کونسا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چمگادڑ اچھا ریزروائر ہوسٹ کیوں ہیں؟ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ چمگادڑ کی اقسام بہت سی ہیں۔ ممالیہ کی ایک چوتھائی انواع چمگادڑ ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ان میں وائرس زیادہ پائے جاتے ہیں۔ ان کی عمر اپنے سائز کے حساب سے زیادہ ہے۔ چوہے کے سائز کی چمگادڑ بیس سال زندہ رہتی ہے۔ اس دوران یہ بہت سی دوسری چمگادڑوں کے بہت قریب رہتی ہیں۔ غار کی چھت پر جیسے ان کا قالین بچھا ہو اور جراثیم کا تبادلہ جاری رہتا ہے۔ ان کا مدافعتی نظام بھی بیرونی ڈی این اے کو برداشت کر لیتا ہے۔ اس کی ممکنہ وجہ یہ ہے کہ چمگاڈر واحد اڑنے والا ممالیہ ہے۔ اڑنے کی صلاحیت میٹابولزم پر سٹریس ڈالتی ہے جس کی وجہ سے خلیوں کا ڈی این اے آزاد ہو سکتا ہے۔ ہماری طرح کا زیادہ فعال دفاعی نظام ان کو آٹو امیون سسٹم کی بیماریوں میں مبتلا کر دے گا۔ (یاد رہے کہ یہ سب چمگادڑوں کا اچھا ہوسٹ ہونے کی ممکنہ وجوہات ہیں، نہ کہ حتمی جواب)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے پہلے آنے والا وبائی کرونا وائرس سارس 2003 میں چین میں شروع ہوا۔ اس سے آٹھ ہزار لوگ انفیکٹ ہوئے اور سترہ ممالک سے تعلق رکھنے والے 774 افراد کی اموات ہوئیں۔ شرحِ اموات 9 فیصد تھی۔ آنے والی اگلی وبا مرس تھی جو سعودی عرب سے 2012 میں شروع ہوئی۔ اس کے بعد 2015 اور 2017 میں بھی آیا۔ اس کی وجہ سے ہونے والی انفیکشن کی کل تعداد 2500 تھی اور 862 افراد وفات پا گئے۔ اس کی شرحِ اموات 34 فیصد تھی۔
موجودہ آنے والا نیا وائرس سارس کا نیا سٹرین ہے۔ اس وجہ سے اس کا نام سارس کرونا وائرس 2 ہے۔ اس سے ہونے والی بیماری کا نام کووڈ 19 ہے۔ اس کی فیملی کرونا وائرس کی ہے۔
کرونا وائرس کا جینیاتی میٹیریل آر این اے ہے۔ ان کا ڈی این اے نہیں۔ اس وجہ سے اس کا ارتقا تیزرفتار ہے۔ اس کا نشانہ پھیپھڑے ہیں۔ اس میں شرحِ اموات سارس اور مرس کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ لیکن اس کا خطرہ یہ نہیں۔ اس کے لئے کامیابی اس کے تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت ہے۔ اور یہ وہ وجہ ہے جس باعث یہ صرف ساڑھے تین ماہ میں اس سے زیادہ افراد مار چکا ہے جتنے سارس اور مرس کی وباوٗں میں کل ملا کر سترہ سال میں انفیکٹ ہوئے ہیں!! اس کا آر نمبر زیادہ ہے۔ یہ وہ تعداد ہے کہ ایک شخص اوسطاً آگے کتنے لوگوں کو انفیکٹ کرتا ہے۔ اگر یہ عدد ایک سے زیادہ ہو تو اس کا مطلب یہ کہ بیماری تیزی سے پھیلے گی اور اس نئے وائرس کے لئے یہ نمبر دو سے تین کے درمیان ہے! یہ اس وائرس کا اصل اور بڑا مسئلہ ہے۔ اگر آر کی ویلیو ایک سے کم ہو جائے تو پھر وائرس آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گا۔
اس وقت دنیا بھر میں ہونئے والے لاک ڈاوٗن، اکٹھے نہ ہونے کے احکامات، فاصلہ رکھنے کی ہدایات، خرابی صحت ہونے پر الگ تھلگ ہو جانے کی ہدایت، کھانسنے اور چھینکنے کے آداب اور ہاتھ دھونے کا کہا جانا ۔۔۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان مل کر یہ آر نمبر کم کر سکتے ہیں اور اس کی وبا کو روکنے کا اس کے سوا کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔ یہ رکاوٹ ملکر کی جانے والی کوشش سے ہی ڈالی جا سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کا یہ عدد زیادہ ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس کی علامات ہر شخص میں ایک جیسی نہیں۔ کچھ لوگ اس میں کچھ محسوس ہی نہیں کرتے۔ کچھ کے لئے نمونیا، کچھ کے لئے فلو، کچھ کے لئے جسم درد اور تھکن۔ اور کئی دن تک اپنی کوئی علامت نہیں دکھاتا۔ یہ خاموشی سے بغیر بآوازِ بلند اعلان کئے کام کر جاتا ہے۔ آگے منتقل ہو جاتا ہے۔ یہ خاموشی کتنی خطرناک ہے؟ اس کے لئے ایچ آئی وی کی مثال۔ یہ آسانی سے منتقل نہیں ہوتا۔ صرف خون یا جنسی تعلق کی وجہ سے پھیلتا ہے۔ یہ کسی کے جسم میں داخل ہو کر برسوں تک علامات کے اظہار کے بغیر رہ سکتا ہے۔ اور اس کا حامل شخص انجانے میں اسے آگے منتقل کر رہا ہوتا ہے۔
اپنی طویل خاموشی کی وجہ سے یہ ساڑھے تین کروڑ لوگوں کی موت کا باعث بن چکا ہے۔ ایڈز سست رفتار اور انتہائی مہلک وبا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب ہر انسانی آبادی میں یہ نیا وائرس پھیل چکا ہے جس کا ہمارے پاس کوئی علاج نہیں، آسانی سے پھیلتا ہے اور خاموش انکوبیشن دور رکھتا ہے اور زیادہ آر ویلیو ہے۔ یہ اس کے بارے میں ہونے والی تشویش کی وجہ ہے۔ اس سے ہونے والے جانی نقصان کے اعداد دوسری بیماریوں کے مقابلے میں ابھی بہت کم ہیں لیکن یہ بہت جلد بہت بڑا نقصان کرنے کی خاصیت رکھتا ہے۔
اس وقت ایسے لوگوں کی تعداد کم نہیں جو اسے سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔ خاص طور پر نوجوان۔ لیکن نوجوانوں کو اسے سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔
اگر کسی کا خیال ہے کہ یہ صرف معمر افراد کے لئے خطرناک ہے تو نہیں، ایسا نہیں ہے۔ اگرچہ شرحِ اموات کم ہے لیکن ہسپتال پہنچ جانے والوں کی شرح کم نہیں۔ دوسرا یہ ہمیں معلوم نہیں کہ یہ کس طرح کے لوگوں کو کس طرح متاثر کرتا ہے۔ اس سے سنجیدہ حالت کا شکار ہونے والوں میں نوجوان اور صحت مند لوگ بھی شامل ہیں جنہیں کوئی میڈیکل مسئلہ نہیں تھا۔ تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ یہ وائرس میوٹیٹ کر رہا ہے۔ جتنا پھیلے گا، اتنی زیادہ اقسام بنیں گی۔ اس وقت تک یہ کم از کم دو اقسام میں تقسیم ہو چکا ہے۔ L جو زیادہ جارحانہ ہے اور S جو سست رفتاری سے متاثر کرتی ہے۔ اس کی اگلی میوٹیشن کس طرح کام کرے؟ معلوم نہیں۔ اور اگر پھر بھی آپ کا خیال ہے کہ یہ آپ کو نہیں ہو گا، دوسروں کو ہو گا تو شاید آپ ٹھیک ہوں گے لیکن پھر آپ کے لئے اونچی آواز سے ۔۔۔ “آپ کو دوسروں کی پرواہ کرنی چاہیے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آگے کیا ہو گا؟ اگرچہ بری خبر ہے، لیکن یہ ابتدا ہے۔ جراثیم کا خوف، دوسروں سے فاصلہ، اکٹھے نہ ہونا، دوسروں سے ملاقات کے نئے طریقے ۔۔۔ یہ معاملہ جلد ختم والا نہیں۔ یہ نیا نارمل ہے۔ ابھی وقت لگے گا۔ اس کی ویکسین بنانے کی کوشش چالیس الگ جگہوں پر کی جا رہی ہے کسی بھی کمرشل ویکسین میں کم از کم ایک سال کا عرصہ درکار ہے (اور اس کی کامیابی کی گارنٹی نہیں)۔ یہ ممکن ہے کہ گرمیوں میں اس کا زور ٹوٹ جائے۔ وائرس موسم کے ساتھ ایسا کرتے ہیں۔ لیکن اگر 1918 کی وبا کی مثال دیکھی جائے تو اس میں اگرچہ گرمیوں میں وبا کا زور ٹوٹ گیا تھا البتہ خزاں میں لہر پہلے سے زیادہ طاقتور ہو کر آئی تھی۔ ایک بڑا فرق البتہ یہ ہے کہ 1918 میں معلوم نہیں تھا کہ اس کے لئے کیا اقدامات لئے جا سکتے ہیں۔
بدترین منظرنامہ کیا ہے؟ کووڈ 19 جلد جانے والا نہیں۔ بہت سے بزنس بھاری نقصان اٹھائیں گے۔ بہت سے لوگ ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ معیشت خرابی کا شکار ہو گی۔ شاید ایک سال یا اس سے بھی زیادہ۔ بہت سی نئی پالیسیوں کی کوشش کی جائے گی۔ بہت سے الزامات لگائے جائیں گے۔ ایسا کیوں کیا؟ ویسا کیوں نہیں کیا؟ اور ہاں، بہت سے لوگ اس کی وجہ سے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ اور اس کا امکان ہے کہ کوئی ایسا شخص، جسے آپ جانتے ہوں گے، وہ اس سال اس بیمای سے فوت ہو جائے گا۔ یہ خوفزدہ کریں لیکن یہ امکانات سے باہر کی باتیں نہیں ہیں۔ ابھی ہم اس کے بارے میں جو گفتگو کرتے ہیں، یہ ٹی وی سکرین کی باتیں لگتی ہیں۔ امکان ہے کہ اگلے کچھ مہینوں میں یہ سب کچھ بہت پرسنل ہو جائے گا۔۔۔ ہم سب کے لئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بالآخر، یہ بھی ختم ہو جائے گا۔ ہم امید کر سکتے ہیں کہ ہم صحت کے اس بحران سے زیادہ دانا ہو کر باہر نکلیں گے۔ مصائب انسانوں کا بدترین پہلو بھی سامنے لا سکتے ہیں اور بہترین بھی۔ لوگوں میں ہمدردی اور خداترسی کے جذبات ابھرتے ہیں۔ ایک دوسرے سے تعاون کو تحریک ملتی ہے۔ زندگی کی، اس میں حاصل شدہ نعمتوں کی قدر ہوتی ہے۔ مشکلات میں گھرے لوگوں کی مدد کی جاتی ہے۔ مشکل وقت ہی اخلاقی اقدار کا اصل امتحان ہوتا ہے۔ بہت سے ہیرو بنتے ہیں۔
ایسے ایک ہیرو ووہان سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر لی وین یانگ ہیں جنہوں نے اس بیماری کے بارے میں سب سے پہلے 30 دسمبر 2019 کو آگاہ کیا۔ سوشل میڈیا پر اس بارے میں بتایا اور عوام کو گھبراہٹ میں مبتلا کرنے والی افواہ پھیلانے کا الزام سر پر لیا۔ اس بیماری کا شکار ہوئے اور اسی وجہ سے 7 فروری انتقال کر گئے۔ ان کی عمر صرف 33 سال تھی۔ اگر اتنی جلدی دنیا کو آگاہ نہ کیا جاتا تو اس کا پھیلاوٗ اس سے کہیں زیادہ ہو سکتا تھا۔
میڈیکل میں کام کرنے والے لوگ اس کی فرنٹ لائن پر ہیں۔ اس جنگ کے ہیرو ہیں۔ خود خطرے کی زد میں ہیں۔
ٹرک چلانے والے، دکانوں تک اشیاء دینے والے ۔۔ جن کے بغیر روز کا نظام نہیں چل سکتا۔ خوراک کچن تک نہیں آ سکتی۔ بجلی، توانائی، انٹرنیٹ اور دیگر سہولیات کو پہنچانے کرنے والے، قانون نافذ کرنے والے اور دوسرے کئی پیشے جن کے لئے یہ ممکن نہیں کہ گھر بیٹھ سکیں۔ جبکہ بہت سے پیشے اس وقت مشکلات کا شکار ہیں۔ سیاحت، خدمات، ایونٹ کی صنعت والے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس مضمون کا عنوان "ابتدائی دنوں میں" ہے کیونکہ یہ وبا آخری نہیں ہے۔ وائرس پہلے بھی آتے رہے ہیں اور آئندہ بھی آئیں گے۔ جس طریقے سے ہم زمین پر رہ رہے ہیں، یہ اس کا نتیجہ ہے۔ فیکٹری فارمنگ، جنگلی جانوروں کے لئے جگہوں کا خاتمہ اور ہمارا دنیا میں نئی جگہوں پر پھیلتے جانا، موسمیاتی تبدیلی، بین الاقوامی سفر۔ یہ نئی وباوٗں کے بننے کی ترکیب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرونا وائرس ہمیں یاد کرواتا ہے کہ اس دنیا کی تجربہ گاہ میں ہم سب اکٹھے ہیں۔ وہی جراثیم جو جنگلی جانوروں اور ہمارے پالتو جانوروں کو متاثر کرتے ہیں، وہی ہمیں بھی۔ انسان ہونے کی وجہ سے ہمیں باقی جانداروں کے مقابلے میں بائیولوجیکل دنیا میں کوئی استثنا نہیں۔ اور خود ہم، خواہ ہم جس بھی طبقے، نسل، قومیت، رنگت سے ہوں، اس سے وائرس کو ذرا بھی فرق نہیں پڑتا۔
اس کو روکنے کا طریقہ ہمیں معلوم ہے۔ گروپ میں کی گئی پوسٹ، حکومت کی طرف سے جاری کردہ ہدایات اس کو بار بار بتا رہے ہیں۔
جب ہم انسانوں سے فاصلہ رکھ رہے ہیں تو ہمارا انسانوں سے محبت کا اظہار ہے اور باقی سب کا خیال کرنے کا ہمارا طریقہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساتھ لگی تصویر ڈاکٹر لی وین لیانگ کی جنہوں نے 30 دسمبر 2019 کو شام پانچ بج کر تینتالیس منٹ پر WeChat گروپ میں بتایا تھا کہ سارس کے سات کیس کنفرم ہوئے ہیں اور ان کو ہسپتال کے ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ میں الگ کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے ساتھ تشخیصی رپورٹ اور سی ٹی سکین کے نتائج کی رپورٹ لگائی۔ ایک گھنٹے بعد انہوں نے کنفرم کیا یہ کہ کرونا وائرس ہے اور اس کی ٹھیک قسم کی شناخت کی جا رہی ہے۔
اس کا مواد اس ویڈیو سے