صحیح سلامت اولاد کے لئے کزن میرج فقط پچاس سال تک ہی کامیاب چل سکتی ہے بعد میں خاندان بیماریوں کا گڑھ بن جاتا ہے اور لوگ اسے جادو ٹونے کا نام دے دیتے ہیں حالانکہ یہ سب بیماریاں کزن میرج کا نتیجہ ہوتی ہیں۔
فرسٹ کزن میرج جو کہ حقیقی طور پہ کزن میرج کہلوائی جا سکتی ہے وہ زیادہ سے زیادہ تین یا چار جنریشنز تک درست چل سکتی ہے۔ اس سے زیادہ میں بہت سی جینیاتی بیماریاں آ جاتی ہیں۔جن میں نفسیاتی مسائل جیسا کہ “جن چمٹ جانا” یا سکزو فرینیا سے لیکر بے اولادی تک سب ہیں۔
جیسا کہ اس وقت انگلینڈ میں مسلمان آبادی بس 5% ہے لیکن وہیں انگلینڈ کے ٹوٹل جینیاتی کیسز کا سب سے بڑا حصہ یہ آبادی رکھتی ہے جو کہ 30% ہیں۔ مطلب مسلمان آبادی کا بڑا حصہ کزن میرج کی وجہ سے جینیاتی بیماریوں کا شکار ہو چکا ہے۔
اس وقت پاکستان میں 29 ملین لوگ جنیٹک بیماریوں کا شکار ہیں جو کہ کزن میرج کا ہی نتیجہ ہیں۔ بیس کڑوڑ آبادی میں سے تین کڑوڑ جنیٹک ڈس آرڈر ایک بہت بڑا نمبر ہیں
اسی طرح سپین کے شاہی خاندان میں ایسی رسم تھی جس میں خون کو “پاک رکھنے” کی خاطر انٹربریڈنگ کی بجائے ان بریڈنگ کی جاتی تھی۔ پانچ جنریشن بعد پرنس چارلس پیدا ہوا جسکے سر کا سائز بہت چھوٹا، ٹانگیں پینسل جیسی اور وہ خوراک تک با آسانی نہیں نگل سکتے تھے۔ یہ خاندان چارلس دوئم کے بعد ختم ہو گیا تھا۔ کیونکہ چارلس بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا۔
اس سب کو ہم بائیولوجی میں Inbreeding coefficient سے جانتے ہیں۔ کزن میرج میں یہ coefficient 0.06 تک ہوتا ہے جبکہ پانچ جنریشنز کے بعد یہی کوایفشنٹ چارلس دوئم میں 0.2+ کی خطرناک ویلیو پہ چلا گیا تھا اسکا مطلب یہ تھا کہ ان میں جینیاتی تغیر بہت کم اور بیماریوں کے امکانات بہت زیادہ ہو چکے تھے۔
نیچے چارلس دوئم اور انکے والد کی تصویر موجود ہے۔ ایسی شادیوں کے نتیجے میں لموترا چہرہ، تنگ تھوڑی بہت کامن ہے۔
اسی وجہ سے امریکہ کی زیادہ تر ریاستوں میں فرسٹ، سیکنڈ غرضیکہ ہر طرح کی کزن میرج پہ پابندی لگی ہوئی ہے جبکہ باقی کی مہذب دنیا بھی یہ جان چکی ہے۔
اگر ہم سادہ الفاظ میں بات کریں تو صحیح سلامت اولاد کے لئے کزن میرج فقط پچاس سال تک ہی کامیاب چل سکتی ہے بعد میں خاندان بیماریوں کا گڑھ بن جاتا ہے اور لوگ اسے جادو ٹونے کا نام دے دیتے ہیں حالانکہ یہ کزن میرج کا نتیجہ ہوتی ہیں۔
کزن میرج کے نتیجے میں درج ذیل بیماریاں ہوتی ہیں اپنے گرد دیکھ کر تصدیق بھی کر سکتے ہیں
پیدائش کے بعد جلد ہی بچے کی موت،
بے اولادی،
پری ٹرم یا ست ماہی پیدائش،
بچے کا مختلف جینیاتی بیماریوں کیساتھ پیدا ہونا،
تھیلیسیمیا،
مرگی،
ڈمب نیس (جو کہ بہت کامن ہے) ،
پڑھنے میں مشکلات کا سامنا (یہ بھی کامن ہے)
بہرہ پن،
ابارشن،
نظام انہضام کی بیماریاں
سکزوفرینیا یا پھر جن چمٹ جانا
بائی پولر ڈس آرڈر
اینڈ سو آن آپ اپنے گرد ان بیماریوں کو بہت زیادہ دیکھ سکتے ہیں۔
اسی طرح ذیابطیس کی اقسام بھی جینیاتی ہیں اور بہت سی فیملیز میں اسی وجہ سے یہ چل رہی ہیں کیونکہ وہاں کزن میرجز حد سے زیادہ ہیں۔
اس معاشرتی رویے کو ہم روک تو نہیں سکتے لیکن اپنے طور پہ اس رویے کی مخالفت ضرور کرنی چاہیے۔ اور شعور پھیلانے کی مکمل کوشش کرنی چاہیے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...