سائنسی مشاہدات آج ہمیں بتاتے ہیں کہ ماسوائےچند مخصوص جانوروں کی نسلوں کے، کم و بیش تمام جانوروں کی افزائش کے لیے ان میں نر اور مادہ کا ملاپ ہونا ضروری ہے۔ نر اور مادہ کے اس ملاپ کے ارتقاء میں کئی فائدے ہیں۔ مثال کے طور پر نر اور مادہ سے آئے مختلف جینز (Genes) کی انفرادیت اس بات کو ممکن بناتی ہے کہ کم سے کم خراب جینز اگلی نسل تک منتقل ہوں۔ فرض کیجئے اگر ایک جانور اپنی کاپیاں بنانا شروع کر دے تو اگلی چند نسلوں میں اس کے جینز میں ہونے والی خرابیوں کے باعث اس میں متعدد بیماریاں پیدا ہو جائیں گی جو اسکی بقا کے لیے نقصان دہ ثابت ہونگی۔ “جین پول” یعنی جینز کا ذخیرہ جانوروں میں اپنے سے دور کے خاندانوں میں افزائش کرنے سے بڑھتا ہے۔جینز کا یہ ذخیرہ جس قدر منفرد ہو گا اس قدر اس جانور میں صحت مند خصوصیات کے آنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اسی لئے آج سائنس بھی کزن میرج یا کزنوں کی آپس میں شادی کی حوصلہ شکنی کرتی ہے کہ ایک ہی خاندان میں بار بار افزائش سے آنے والی نسلوں میں بیماریاں بڑھنے کا اور معذور بچے ہیدا ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
ہمارے ہاں البتہ گنگا ہی اُلٹی بہتی ہے۔ کزن میریج کو بالکل معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ ٹی وی ڈراموں سے لیکر پاپ کلچر تک سب میں کزنوں کے پیار کے قصے ختم ہونے کو ہی نہیں آتے۔ رقیہ خالہ کی بیٹی شبنم، محمود چچا کے بیٹے اسلم کو پسند کرتی ہے اور محمود چچا کا بیٹا اسلم، زینب پھوپھو کی بیٹی سلمہ سے پیار کی پینگیں بڑھاتا ہے۔ یوں پورے ڈرامے کی 23 قسطیں کزنز کے عشق و محبت میں ہی گزر جاتی ہیں اور دیکھنے والوں کی ہمدردیاں شبنم اور سلمہ کی حمایت کے بیچ پینڈولم کیطرح جھولتی رہتی ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگ یہ سوال ہی نہیں اٹھاتے کہ معاشرے میں اس طرح کے رویوں کو کیوں مقبولِ عام سمجھا جاتا ہے جبکہ یہ دراصل ہماری آنے والی نسلوں کی بقا کے لیے نقصان دہ ہے۔ کیا سائنس سے لاعلمی رکھ کر ہم اپنی آنے والی نسلوں کیساتھ تو نہیں کھیل رہے؟ اسکا جواب آپ خود سوچیں۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...