توپھر تعجب کی بات ہی کیا ہے اگر آسمان سے پتھر برسنے لگیں!
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قواعد و ضوابط نے ملک کے تمام ہوائی اڈوں پر ارکان پارلیمنٹ کیلئے خصوصی کائونٹر بنانے کا مطالبہ کیا ہے!
اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو! تم باقی پاکستانیوں کے ساتھ قطار میں کیوں نہیں کھڑے ہوسکتے؟ کیا تم پیدائش کے حوالے سے برتر ہو؟ کیا پیدا کرنے والے نے تمہاری تخلیق اس طرح کی ہے کہ تم باقی اہل وطن سے دیکھنے میں ممتاز ہو؟ کیا تم جہاز کی نشستوں کیلئے دوسروں سے زیادہ کرایہ دیتے ہو؟
تو پھرکیا تم جہازوں کے اندر بھی الگ رقبہ مانگو گے؟ پھر تم ریلوے سٹیشنوں اور بسوں کے اڈوں پر اپنے کائونٹرالگ بنوائو گے؟ سپرسٹوروں پر، پٹرول پمپوں پر، ڈاکٹروں کے کلینکوں میں ہر جگہ تمہارے کائونٹر الگ ہوں گے؟ تمہارے بچوں اور پوتوں نواسوں کیلئے الگ تعلیم گاہیں بنیں گی؟ یونیورسٹیوں میں ان کیلئے الگ استاد، الگ ٹائم ٹیبل اور الگ کلاس روم ہوں گے؟
کیا دنیا کے کسی مہذب ملک میں جہاں پارلیمنٹ ہے، ارکان پارلیمنٹ کیلئے ایسے الگ کائونٹر بنے ہوئے ہیں؟ کیا ان پر بھی اسلحہ کے قوانین، ٹریفک کے قوانین اور ٹیکس کے قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا؟ کیا تم نے وہ تصویر نہیں دیکھی جس میں برطانیہ کا موجودہ وزیراعظم ٹرین میں نشست نہ ملنے کی وجہ سے کھڑے ہو کر سفر کر رہا ہے۔ جونشستوں پر بیٹھے ہیں وہ بیٹھے ہیں۔ وہ کسی کی طرف دیکھ رہا ہے نہ اسے کوئی دیکھ رہا ہے۔ کیا بھارت سے لیکر ڈنمارک تک، نیوزی لینڈ سے لیکر کینیڈا تک، سنگاپور سے لیکر سوئٹزرلینڈ تک کہیں بھی کسی جگہ ارکان پارلیمنٹ کو باقی شہریوں سے برتر تصور کیا جاتا ہے؟
خدا تمہاری زندگیاں طویل کرے ،اس دنیا میں تم اپنے کائونٹر الگ بنوائو گے، تو پھر کیا اس کے بعد بھی یہ امتیاز باقی رکھو گے؟ کیا منکر نکیر تم سے خصوصی سلوک کریں گے؟ کیا باقی مسلمانوں کی نسبت تم سے سوال جواب الگ کائونٹر پر کیے جائیں گے؟ پھر کیا برزخ کا سارا عرصہ تم بڑائی کے دائرے میں گزارو گے؟ پھر حشر کے دن تمہارے حساب کتاب کیلئے الگ کائونٹر بنیں گے؟
جس وزیراعظم کیلئے تم پارلیمنٹ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے ہو، وہ وزیراعظم کوہستانی شہر میں تشریف لے گئے تو پورا شہر بند کرکے جیسے سربمہر کردیا گیا۔ گھڑیال سے لیکر جھیکاگلی تک، کلڈنہ سے لیکر سنی بینک تک، جنرل بس سٹینڈ سے لیکر جی پی او چوک تک گھنٹوں نہیں، پہروں ٹریفک روکی گئی، بازاروں میں دکانیں بند کرا کر گاہکوں اور تاجروں کو باور کرایا گیا کہ ان کی حیثیت غلاموں سے بڑھ کر نہیں۔ چڑیا پر نہیں مار سکتی تھی، پتہ ہل نہیں سکتا تھا، انسان، جنہیں ان کی مائوں نے آزاد جنا تھا، چل سکتے تھے، نہ بول سکتے تھے۔ تو تم اپنے وزیراعظم سے کہو کہ جہاں پچیس تیس ہزار ایکڑ کا اپنا شہر انہوں نے الگ بسایا ہے، تمہارے محلات بھی وہیں بنوادیں۔ پانچ پانچ سو ایکڑ کا ایک ایک محل۔ ہوائی اڈوں پر الگ الگ کائونٹر بنوانے کے بجائے، ہوائی اڈا ہی الگ کرلو، تمہارے بازار، تمہارا ایئرپورٹ، تمہارے ریلوے سٹیشن ہر شے الگ ہو ؎
الگ بنائیں گے ہم کہیں کائنات اپنی
زمین سے معشوق لیں گے چاند آسماں سے لیں گے
عام پاکستانی کا وہاں گزر ہی نہ ہو۔ پارلیمنٹ بھی وہیں ہواور قائمہ کمیٹیوں سے لیکر استحقاق کمیٹیوں تک…زمین سے لیکر آسمان تک تمہارا استحقاق، تمہارا تفوق، تمہاری برتری، تمہارا تزک و احتشام، تمہاری حکمرانی کا رنگ… جلوہ نمائی کر رہا ہو۔ شام پڑے تو تمہارے شہر سے آسمان تک ایک نوری راستہ جھلمل جھلمل کر رہا ہو۔ ہم عام پاکستانی اپنے اپنے غم خانوں سے،رنگ و نور کا یہ سیلاب دیکھیںاور پھر تمہارے لیے یعنی اپنے حکمرانوں کے لیے زندگی کی طوالت اور اقتدار کے اضافے کی دعائیں کریں اور پھر چونکہ تم تک رسائی نہ ہو، ہم ایک دوسرے ہی کو مبارک بادیں دے کر خوش ہولیں!
سنا ہے تم اس ملک میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ ہو! تم میں سے ہر ایک پوری دنیا سے تازہ ترین شائع شدہ کتابیں منگواکر پڑھتا ہے۔ تم نے یقینا پڑھا ہوگا کہ جو لوگ خلق خدا سے اپنے آپ کو برتر گردانتے ہیں، ان کا انجام کیا ہوتا ہے۔ تم نے امیر عباس ہویدا کا نام سنا ہوگا۔ ایران کا یہ وزیراعظم بادشاہ کے بعد طاقت ورترین شخص تھا۔ کائونٹر تو کیا، اس کی ہر شے الگ تھی اور ممتازتھی۔ اس کے کوٹ کے کالر میں جو پھول اور پتہ لگا ہوا ہوتا تھا، اس کا دوسرا سرا کوٹ کی دوسری طرف سونے کی بنی ہوئی ننھی سی بوتل میں ہوتا تھا جو پانی سے بھری رہتی تھی تاکہ پھول تازہ اور پتہ ہرا رہے۔ جب حالات کے جبر نے اسے وزیراعظم کے منصب سے ہٹا کر وزیر دربار مقرر کیا تو ملکہ فرح دیبا نے اپنی یاد داشتوں میں لکھا کہ یہ تبادلہ شاہی خاندان کے لیے اس قدر تکلیف دہ اور اذیت ناک تھاجیسے بچے کا پیدا ہونا ! بادشاہ اس سے مشورہ کیے بغیر سانس بھی نہیں لیتا تھا۔ پھر وہ دن بھی آیا جب اسے ’’ قصر زنداں‘‘ میں لے جایاگیا۔ قاچار بادشاہ اس قصر کو محل کی ڈیوڑھی کے طورپر استعمال کرتے تھے لیکن 1920ء کے عشرے میں اسے زنداں بنا دیاگیا۔ خصوصی عدالت نے اسے ’’ کرۂ ارض پر کرپشن پھیلانے والا ‘‘ اور ’’ مغرب کی جرائم پیشہ کٹھ پتلی ‘‘ کہہ کر مخاطب کیا۔ پھر اسے جیل کے صحن میں دیوار کے ساتھ کھڑا کیاگیا۔ حجتہ الاسلام ہادی غفاری نے اس کی گردن میں گولی ماری۔ فرش پر وہ تڑپتا تھااور منت زاری کرتا تھا کہ ایک اور گولی مار کر ختم تو کردو۔ اس کی لاش مہینوں تہران کے قبرستان میں پڑی رہی۔ پھر وہ ایک نامعلوم شخص کی طرح دفن ہوا۔ اس کی قیام گاہ کو عوام نے یوں تاراج کیا جیسے مغلوں کے ہاتھی سزائے موت کے قیدیوں کو روندتے تھے!
تم نکولائی سیسیکو(Ceausescu)کی داستان زوال سے بھی یقینا آشنا ہوگے۔ اڑھائی عشروں تک اس کے لیے الگ کائونٹر کیا، اس کی پوری زندگی الگ کائونٹر تھی !! ملک کے طول و عرض میں اس کے ڈیڑھ دو درجن کے لگ بھگ عظیم الشان محلات تھے ۔ کوئی دریا کے کنارے، کوئی جھیل کے دامن میں ، کوئی پہاڑوں کی چوٹیوں پر ، کمرے ریشم سے اور پورس لین سے اور زروسیم کے برتنوں سے اور قسم قسم کے فانوسوں اور نظروں کو خیرہ کردینے والی قالینوں سے اٹے ہوئے تھے۔ جس زمانے میں رومانیہ کے عوام فاقوں سے مررہے تھے ، نکولائی سیسیکو کا پالتو کتا، جس کا نام کاربو تھا، بخارسٹ کے گلی کوچوں میں لیموزین میں پھرتا تھا اور آگے پیچھے گاڑیوں کا قافلہ ہوتا تھا۔ کاربو کا عہدہ رومانیہ کی فوج میں کرنل کا تھا! لندن میں تعینات رومانیہ کے سفیر کو سرکاری حکم دیا گیا تھا کہ وہ شہر کی بہترین دکانوں سے ہر ہفتے کاربو کے لیے بسکٹ خریدے اور سفارتی بیگ کے ذریعے رومانیہ بھیجے ۔
الگ کائونٹر تباہ ہوئے تو نکولائی سیسیکو اور اس کی بیگم علینا ہیلی کاپٹر میں سوار ہوکر بھاگے لیکن پکڑے گئے۔ نئی حکومت نے مقدمہ چلایا۔ مقدمے کے اختتام پر ایک سپاہی کو حکم دیاگیا کہ ایک ایک کرکے باہر لے جائے اور مار دے۔ انہوں نے خواہش کا اظہار کیا کہ اکٹھے مریں گے۔ درخواست مان لی گئی۔ دونوں کے ہاتھ پشت پر باندھے گئے ۔ احتجاج کیا لیکن تقدیر خندہ زن ہورہی تھی! تین اہلکاروں نے گولیاں چلاکر خاتمہ کیا جب کہ ہزاروں رضا کار مارنے کے لیے اپنی خدمات پیش کررہے تھے ۔ ذمہ دار عمال کا کہنا تھا کہ گولی سے نہ مارے جاتے تو لوگوں نے گلیوں میں بوٹیاں کردینی تھیں۔ تاریخ کتنی ستم ظریف ہے کہ اسی رومانیہ میں کچھ عرصہ بعد سزائے موت قانونی طور پر ختم کردی گئی !
اللہ کے بندو ! اللہ سے ڈرو!
اپنے آپ کو خلق خدا سے برترنہ سمجھو ! الگ کائونٹر نہ بنوائو۔ قطاروں میں دوسروں کے ساتھ کھڑے ہونا سیکھو ! کہیں ایسا نہ ہوکہ وقت کی چکی الٹی چلنا شروع ہوتو بپھری ہوئی خلقت الگ کائونٹروں کی طرف بڑھنے لگے۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“