موئسچرائزر جلد کو نم رکھنے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ تمام موئسچرائزر یہ کام ایک ہی جیسا کر دیتے ہیں۔ ویزلین بھی یہی کام کر دیتی ہے۔ کاسمیٹکس میں ابتدا میں ہونے والی تھقیق یہ تھی کہ ویزلین کی چکناہٹ کو کیسے کم کیا جائے۔ اس ٹیکنیکل مسئلے کو چند دہائیوں پہلے حل کر لیا گیا تھا اور ہائیڈروبیس بنا لیا گیا تھا۔ (اسے گھر پر بھی تیار کیا جا سکتا ہے، اس کا طریقہ آخر میں)۔
تو پھر یہ بہت سی طرح کی بہت سے موئسچرائزرز بازار میں کیا کر رہے ہیں؟ ان میں فرق اضافی اجزاء کا ہے۔ بنیادی جزو کے علاوہ ڈالی جانے والی چیزوں کے تین بڑے گروپ ہیں۔
ایک میں طاقتور کیمیکلز جیسا کہ الفاہائیڈروکسی ایسڈ، زیادہ وٹامن سی اور وٹامن اے کی کچھ ویری ایشن ہوتی ہے۔ اس سے واقعی جلد کم عمر لگ سکتی ہے لیکن ان کا نقصان یہ ہے کہ زیادہ مقدار میں استعمال سے جلد پر جلن، سرخی اور خارش شروع ہو سکتے ہیں۔ 1990 کی دہائی کے بعد ان کے زیادہ لیول پر پابندی لگ گئی تھی۔ اب ان کریموں میں ان کی سطح جتنی ہوتی ہے، اس سے کوئی اثر نہیں۔ نہ مثبت اور نہ منفی۔ لیکن کریم کے ڈبے پر یہ اجزاء لکھے ضرور جاتے ہیں۔
مہنگی کریمز میں ایک اور جزو پایا جاتا ہے جو ویجیٹیبل پروٹین کو پکا کر اور میش کر کے ڈالا جاتا ہے۔ اس کا نام “ہائیڈولائزڈ ایکس مائیکروپروٹین نیوٹری کمپلیکس” یا “ٹینسیو پیپٹی ڈیک ویجیٹا” قسم کا مشکل سا رکھا جاتا ہے۔ یہ امینو ایسڈ کے لمبی چین ہے جو کریم میں تیر رہی ہوتی ہے اور کریم جب لگائی جائے تو خشک ہونے کے بعد جب اس کی زنجیر سکڑتی ہے تو جلد کو کھینچ لیتی ہے۔ اس سے کچھ دیر کے لئے احساس پیدا ہوتا ہے کہ جھریاں بہتر ہو گئی ہیں۔
تیسرا یہ کہ ان میں ایک لمبی لسٹ ہوتی ہے جنہیں اس امید کے ساتھ اور دعا کر کے ڈالا جاتا ہے کہ کوئی کام کر جائیں، ان کے ساتھ کچھ دعوے کر دئے جاتے ہیں۔
ان کی ایک مثال: ایک مہنگی کریم کا دعوی ہے کہ اس میں سالمن مچھلی کے انڈوں سے لیا گیا ڈی این اے ہے، جو جلد میں جذب ہو کر جلد کو جوان کر دیتا ہے اور یہ نوجوان ڈی این اے، جلد کو پہنچنے والے ضرر کی مرمت کر دیتا ہے۔ اول تو ہماری جلد کبھی کسی کا ڈی این اے جذب نہیں کرتی ورنہ بکرے کو ہاتھ لگانے سے بکرے کا ڈی این اے ہم میں چلا جایا کرتا۔ اس بارے میں جسم میں بہت حفاظتی انتظامات موجود ہیں۔ واحد جگہ جہاں پر کسی دوسرے کے ڈی این اے کا کوئی فائدہ ہے، وہ ہمارا معدہ ہے، جو اس کو ہضم کر کے اجزاء میں توڑ کر جذب کر لیتا ہے۔ اور دوسرا یہ کہ اگر مچھلی کا ڈی این اے ہمارے اندر پہنچ بھی جاتا تو اس کا ڈیزائن ہمارے ڈیزائن سے بڑا مختلف ہے۔ اس میں مچھلی کے خلیے پیدا کرنے کی ہدایات ہیں۔
ایک اور مثال: ایک کریم کا دعویٰ ہے کہ وہ جلد کو اضافی آکسیجن پہنچائے گی۔ یہ اس میں پائی جانے والی ہائیڈروجن پرآکسائیڈ کی وجہ سے ہو گا۔ اس میں بھی دو مسائل ہیں۔ اول تو یہ کہ اگر آپ بنیادی کیمسٹری سے واقفیت رکھتے ہیں تو یہ علم ہو گا کہ ہائیڈروجن پر آکسائیڈ میں سے آکسیجن نہیں نکلتی لیکن اگر بالفرض یہ ممکن بھی ہوتا اور جذب ہو کر یہ آکسیجن مہیا کر بھی دیتی تو بھی بے کار تھا۔ ہمارے جسم میں ہیوموسٹیسز کا انتہائی زبردست نظام ہے جو مسلسل مانیٹر کر کے دیکھ رہا ہے کہ کہاں کس چیز کی سپلائی کتنی ہے۔ اگر کہیں آکسیجن کم ہو تو وہاں پر اضافی کیپلریز آ جاتی ہیں تاکہ خون کے ذریعے یہ ٹھیک لیول پر رہے۔ اگر یہ کریم کام کرتی تو جسم وہاں پر خود ہی ان کو ختم کر کے اس کا لیول کم کر دیتا۔ نہ صرف دعویٰ بے بنیاد ہے بلکہ بے کار بھی۔ (ہائیڈروجن پرآکسائیڈ ایک ہلکا سا کیمیکل برن دیتی ہے، کچھ لوگوں کو یہ فیلنگ پسند ہو سکتی ہے)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی بھی موائسچرائزنگ کریم جلد کو نم آلود رکھ سکتی ہے۔ مہنگے اور سستے موائسچرائزر میں اجزاء کا فرق ضرور ہو گا۔ ان اجزاء کی وجہ سے ان کے فنکشن پر کوئی اثر نہیں۔
جلد کو نم آلود رکھنے کے لئے مہنگی پراڈکٹس خریدنے کا کیا کوئی فائدہ ہے؟ جی ہاں۔ پراڈکٹ صرف اپنے فنکشن کے لئے ہی نہیں خریدی جاتی، کسی بھی اور چیز کی طرح اس کا ایک اور استعمال سٹیٹس سمبل کے لئے اور ذہنی تسلی کے لئے ہے۔ کاسمیٹکس کی مارکیٹ اس ضرورت کو بھی پورا کرتی ہے۔ ان کی پیکنگ کے ڈئزائن اور مارکٹنگ میں میں اس کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ مہنگے کاسمیٹکس خریدنے کو اس مقصد کے لئے ایک اختیاری ٹیکس کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ ہر ایک کو اپنے ذاتی پیسے اپنی مرضی سے خرچ کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔
کاسمیٹکس انڈسٹری میں اخلاقی مسائل صرف دو جگہوں پر ہیں۔ ایک تو یہ کہ کسی پراڈکٹ کے ساتھ موٹاپا کم کرنے جیسے دعوے کرنا جن کی وجہ سے صارف کرنے والا اصل کام نہ کرے (بہتر طرزِ زندگی اپنانا) اور ان پر بھروسہ رکھے۔ دوسرا یہ کہ اپنی “سائنسی” ڈایاگرامز، سائنسی الفاظ میں بنائے گئے بے بنیاد دعووں کی مدد سے ایسا تاثر دیا جاتا ہے کہ گویا سائنس سمجھنا بڑا ہی مشکل کام ہے۔ سفید لیب کوٹ میں ملبوس محقق (یعنی ماڈل) کا سائنسی اصطلاحات استعال کرکے دعوے کرنا سائنس کہلانے کے لئے کافی نہیں۔
جب آپ کو کیمسٹری کا کچھ پتا لگ جائے تو شاپنگ آسان ہو جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر میں موائچرائزر تیار کرنے کا طریقہ: ناریل کا تیل، زیتون کا تیل، شہد کی مکھی کا موم اور پانی برابر مقدار میں لیں۔ (اگر موم نہیں تو شہد بھی استعمال کیا جا سکتا ہے)۔ کریم کس طرح کی چاہیے، اس حساب سے اجزاء کو ایڈجسٹ کیا جا سکتا ہے۔ اگر موم زیادہ ہو گا تو سخت، اگر تیل زیادہ ہو گا تو نرم، اگر پانی زیادہ ہو گا تو سموتھ لیکن اجزاء کے الگ ہونے کا خطرہ بھی پیدا ہو جائے گا۔ ان اجزاء کو الگ الگ تھوڑا سا گرم کر لیں۔ اب تیل کو موم میں ڈال کر اچھی طرح پھینٹ لیں۔ جب یکجان ہو جائیں تو پانی میں ڈال کر اچھی طرح ہلا دیں۔ اس کو ایک مرتبان میں ڈالیں اور فریج میں رکھ دیں۔ تین مہینے بعد موائسچرائزر تیار ہو گا۔
یہ یہاں سے
The Progenium XY Complex: Ben Goldacre