اس انگریزی لفظ کواب ہم ایک ہی معنی میں استعمال کر رہے ہیں جب کہ ناجایؑز مالی فواید کا حصول جب کہ MISAPPROPRIATION کیلےؑغبن کا لفظ استعمال ہوتا تھا۔کرپشن کیلےؑ بدعنوانی کا۔۔ ایک حالیہ مثال سپریم کورٹ کے محترم جج کا استعفےؑ ہے جو خلاف قانون اسلام اباد ہاییؑ کورٹ سے ہٹاےؑ گے 71 افراد کی تقرری کے ذمے دار سمجھے گےؑ۔اب موجودہ چیف جسٹس محترم انور کانسی کے خلاف اسی الزام کے تحت ریرفنس دایؑر کیا گیا ہے۔ان دونوں مقتدرو مؑعزز شخصیات پر ایک پیسہ ناجایؑز ذرایع سے حاصل کرنے کا کویؑ الزام نہیں۔۔جو الزامات اخباری بیانات سے سپریم کورٹ تک سیاستداں ایک دوسرے پر عاید کر رہے ہیں وہ چوری اور غبن کے ہیں جس سے کروروں اربوں جمع کرکے انہوں نے ملک سے باہر رکھے۔کاروبار اور پراپرٹی میں انوسٹ کےؑ
بدعنوانی کی ایک مثال ملکی تاریخ کے روز اول سے دیتا ہوں۔۔قایؑد اعظم کی دیانت داری اور اصول پرستی کے دشمن بھی معترف تھے اور ہیں۔ان کو بمبیؑ کی ملابار ہل اور دہلی کی کوٹھی کے بدلے پاکستاں میں اسی مالیت کی دو کوٹھیاں لینے کا قانونی حق حاصل
عام ادمی کی طرح حاصل تھا۔لیکن ان کی امد سے پہلے حکومت کے چند اعلیٰ حکام نے کراچی میں موہاتا پیلس کو اس کے قانونی مالک سے چھینا اور اس کو ملک بدر ہونا پڑا ۔یہ بات چند سال قبل اسمبلی کے فلور بھی کہی گیؑ۔۔ اصل مالک نے انڈیا میں بیان دیا کہ وہ قایؑد اعظم کیلےؑ درکار تھی تو مجھے بتاتے ۔میں ان کو تحفہ پیش کرتا۔۔۔۔۔۔ یہ بد عنوانی تھی جس کے مرتکب قایؑد نہیں ہوےؑ
یہ محض بد عنوانی کا الزام تھا جس کے تحت 1958 تک خواجہ ناظم الدین۔۔چوھدری محمد علی۔۔ ھسین شہید سہروردی۔۔ فیروز خاں نون اور ایؑ ایؑ چندریگر کی حکومتوں کو بر طرف کیا جاتا رہا۔وہ بد عنوانی جس کا کہیں کویؑ ثبوت نہیں دیا گیا،ان وزراےؑ اعظم یا ان کی کسی کابینہ کے رکن نے ایک پیسے کا غبن نہیں کیا نہ بنک لون معاف کراےؑ نہ پیسہ جمع کیا یا باہر بھیجا،نہ کویؑ پراپرٹی بنایؑ اور چھوڑی۔یہ صرف مارشل لا کی راہ ہموار کرنے اور عوام کو سیاست دانوں سے بدظن کرنے کی مہم تھی اس وقت کا صدر اسکندر مرزا جلا وطنی میں لندن کے ایک ہوٹل میں مینیجر کی نوکری کرتا رہا۔بالکل ہیی مہم بھٹوحکومت کے خلاف چلایؑ گیؑ جس کا انجام اپ جانتے ہیں۔۔ اس کو بے گناۃ قرار دینے والے تین میں سے ایک جج صفدر کو راتوں رات گدھے پر بیٹھ کے افغانستان کے راستے فرار ہونا پڑا تھااس مہم کی لپیٹ میں مشرقی پاکستان کے سیاستدان بھی اےؑ جن میں ؓبھاشانی جیسا لنگی پوش تھا۔۔شیر بنگال کہلانے والا اور قرار داد مْقاصد پیش کرنے والا مولوی فضل حق تھا۔شیخ مجیب تھا ۔غفار خان اور سندھ کارسول بخش پلیجو تھا فیض احمد فیض تھا۔یہ سب جمہوریت کی بات کرتے تھے
دولت سمیٹنے اور غبن کرنے کی سیاست کو ضیاالحق نے فروغ دیا جو خود بدعنوان نہیں تھا لیکن وہ عوام کے ووٹ سے نہیں اسکتا تھا۔حلفیہ نوے دن میں انتخاب کا وعدہ کیسےپورا کرتا چنانچہ اس نے تاجروں زمینداروں اور پیروں کو جمع کیا اور ان کو اقتدار میں وہ سب سکھایا جو اج کرپشن کہلاتا ہے اوراب ایسا کویؑ نہیں جو اس میں ملوث نہہیں۔اپ انیس سو اسی تک کا کوی نامم بتاییؑں جس پر وہ الزام ہو جو اج سب پرہے خواہ وہ سویلین ہو یا فوجی یا ادارہ اور محکمہ۔ ۔میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ جب پاکستان بنا تو کسی گاوں جیسا تھا ۔جیسا وہ اج ہے وہ کیا جنات نے بنایا؟ انہی حکومتوں نے تعمیر کیا جن پر کرپٹ ہونے کا لیبل لگایا گیا،،ہم پہلے بھی اتحاد ثلاثہ کے نام سے ایران اور ترکی کے ساتھ تھے ۔اج پھر ہیں
روس اور چین سے دوستی کب شروع ہوییؑ تھی؟ اسٹیل مل اور ہیوی کمپلکس کب بنے تھے؟
پاکستاں کی پہلی نصف تاریخ اور دوسری نصف میں سیہ و سفید کا فرق صاف نظر اتا ہے۔۔ اور اج عوام کی واضح اکثریت اس کو سمجھ نہیں پاتی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو اپنی ہی تاریخ سے بے خبر رکھا جاتا ہے ۔ان کو خبر سے اور کتاب سے دور کر دیا گیا ہے اوران میں فکری لسانی سیاسی مذہبی انتشار کو فروغ دے کر معاش اور ذاتی بقا کےمعاملات میں الجھادیا گیا ہے اور باقی وقت ناچ گانے فیشن پاپ میوزک اور لچر ڈراموں اسٹیج شو اوربکاو چینلوں کی جعلی خبروں کے دروازے وا کر دےؑ گےؑ ہیں۔ حادثات ۔خودکشی۔قتل ۔ابرو ریزی۔بریکنگ نیوز ہے جو موسیقی اور گانون سے سجایؑ جاتی ہے۔مڈل ایسٹ میں شام یمن اور لیبیا میں جاری بمباری ہزارون مسلمانوں کی ہلاکت اور لاکھوں کا بے گھر ہوکے فرار کویؑ خبر ہی نہیں۔کبھی بی بی سی یا سی این این کی خبریں دیکھےؑ کہ جو عالمی معیار تھا وہ ہے۔۔۔۔ لیکن ؎ درد کا حد سے گذرنا ہے دوا ہوجانا۔۔وہ ہونے لگا ہے
https://www.facebook.com/ahmed.iqbal.7737/posts/1164542680294415