کرپشن کا مطلب کیا ہے
کرپشن کے لفظی معنی بدعنوانی ہے جس کا مطلب عنوان میں تبدیلی کرنا ہے یا اپنے لحاظ سے عین العنوان سے انحرافات کا شکار ہونا ہے۔ کرپشن لاطینی زبان سے ماخوذ ہے جس کا مطلب تھوڑنا “To Break”کے ہیں ۔کیا کرپشن کو ماپنے کیلیے پیمانہ بنا ہے یا بن پائے گا؟ کرپشن کی گنجائش ہر وقت رہے گی کیونکہ اس سے معاشرے میں تبدیلیاں ممکن ہوتی ہیں
Umbreen Javaid (AP): Corruption defined as misuse of entrusted power for private benefit is unfortunately endemic in Pakistan.
Corruption is the abuse of public office for private gain.
کرپشن کے معنی سماجی، معاشی و معاشرتی انحرافات، فساد، نجاست، بگاڑ، خباثت، خرابی، منافی، گٹھ جوڑنا، مل جانا، گبن کرنا، لوٹنا، نچوڑنا، موکل بازی، شر پسندی ہیں۔ کرپشن کسی بھی صورت میں ہوسکتی ہے اور اس کی درجہ بندی کسی بھی سطح پر فائز ہوسکتی ہے بنیادی طور پر انسان جس چیز کا حقدار نہ ہو اور وہ اسے حاصل کرنے کیلیے مختلف رستے اپنائے۔ اس میں کسی قسم کی سہولت،اقرباپروری، رشوت ستانی، معاشی فیصلے، معاشی تقسیم، اجناس، اشیاء بروئے کار لائے جس کیلیے وہ انسانیت کو ٹھیس پہنچائے یا قانون شکنی کرے یا قانون کو ہاتھ میں لےیا کوئی اور زادِ راہ اپنائے۔ اس کے علاوہ ایسی اشیاء جس کی تکمیلِ پیداوار کے ذمہ ہوتی ہے اس کی قیمت استعمال کنندہ End User یا کسی بھی دوسرے کو ادا کرنی پڑے
کرپشن کی اقسام:
کرپشن بنیادی طور پر دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک جس میں سماج کا فائدہ ہوتا ہے اور دوسری جس میں کسی شخص کو فائدہ ہوتا ہے۔ انسان بنیادی طور پر جگاڑی ہےاپنی بقاء کیلیے بدعنوانی کرتا ہے اپنی بقاء کیلیے کرپشن کوئی جرم نہیں ہوتا لیکن ایسی کرپشن جس سے دوسروں کی بقاء مشکوک ہوجائے ایک سنگین جرم ہے جس کیلیے ہر دور میں وقتاً فوقتاً انتہائی سزائیں متعین کی گئی ہیں ۔انسان کی بقاء کی جنگ اس کے ارتقاء کا سبب بھی بنتی ہے سماج میں ترقی ہوتی ہے۔دوسری طرف جمود چھا جاتا ہے۔ باغی لوگوں کی وجہ سے معاشروں میں ارتقاء ممکن ہوا ہے اسی لیےجدید دور میں کوئی شخص کرپشن نہیں کرتا وہ شخص ذہنی مریض ہوسکتا ہےاتنی فرمانبرداری اور ذہنی تشفی ممکن نہیں ہوسکتی۔ یہاں اس بات کی تصحیح کی ضرورت ہے کہ انسان بنیادی طور پر جگاڑی ہے اور وہ جگاڑوں سے جِدت لانے کی کوشش سے ممکن بناتا ہے ۔بس یہی چھوٹی چھوٹی کرپشن جدید نظم کی طرف جانے کا رستہ ہے
سیاسی طور پر کرپشن اوپر سے نیچے چلتی ہے اسی طرح ایک کام کرانے کیلیے دی گئی رشوت ،ملاوٹ نیچے سے اوپر کی طرف چلتی ہے یہ دوہری کرپشن ترقی کے منازل طے کرتی ہوئی جمود قائم کرتی اور انصاف کئی دور جاکر بیٹھ جاتاہے جو یہاں اشتراکیت یا سرمایہ دارانہ نظام یا جمہوریت یا بادشاہت کو موردِالزام ٹھہراتے ہیں ان کیلیے لمحہ فکریہ ہے
کرپشن(غیر شفافیت) کے مقابل شفافیت کا نظام ہےشفافیت میں انسان کو قدرتی وسائل پر برابر کے حقوق حاصل ہوتے ہیں جبکہ کرپشن والے لوگ غریبوں کی ملکیت اپنے پاس رکھ کر غریبوں کیلیے سپر ہیرو(Hero Worship) ہوتے ہیں وہ بے وقوف اور قابلِ استعمال احمقوں(Useful Idiots) کو بھر پور استعمال کرتے ہیں جیسے فیکٹریوں میں مشین کے ساتھ مشین بن جاتے ہیں ، انہیں سفر کرنے کیلیے اعلیٰ قسم کی سہولیات اور تحفظ مہیا کرتے ہیں۔ جمہوریت نے جاگیرانہ نظام سے زیادہ بہترین قسم کی انسانی کاشت کاری (Human Farming) مہیا کی ہے جس میں عام انسان کی قدر ایک ٹشو پیپر سے زیادہ نہیں ہوتی
ایک انگریزکا مشہور مقولہ ہے کہ انسان کسی کی ملکیت سوناکو مٹی بنا دیتا ہے اور اپنی ملکیت مٹی کو سونا بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسی لیے انسان کے اندر طاقت ور بننے کی خواہش شروع سے ہی بہت زیادہ ہے اُسے قانونی شکل دینے کی کوشش ہر دور میں مختلف ہوتی ہے۔ مندرجہ ذیل طاقت ور بننے کے رستے اور کرپشن میں ہر بندہ کسی نا کسی طرح ملوث ہوتا ہے
مال سے طاقت ور:
مال و زر اکٹھا کرنا۔ چاہے وہ تحفے کی صورت میں ہو یا مالی معاونت کی صورت میں کرپشن میں آتا ہے۔ پالیسی میکر ، وزیر، جج،تاجر، سیاست دان، میڈیا پرسن، پولیس، عسکری قیادت کے لوگ اپنے لحاظ سے قوانین کی منظوری دے کے غریب عوام کو سڑکوں پر سڑنے کیلیے مجبور کردیتے ہیں۔ ایک امیر کا بچہ ڈاکٹر، انجنئیر، وکیل یا کسے شعبے کا ماہر کم عمر میں بن جاتا ہے غریب کا بچہ اول تو بن نہیں سکتا اگر حتیٰ الامکان کوشش کے باوجود بن بھی جاتا ہے تو عمر ضائع کردیتا ہے
اولاد سے طاقت:
زرعی دور میں اولاد ایک بہت بڑی طاقت سمجھی جاتی تھی لڑائی جھگڑے کیلیے مال و اولاد کام آتے تھے۔ صنعتی دور میں اولاد کی پرورش کرنا ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے یہ ذمہ داری والدین سے زیادہ ریاست کی ہےانسانوں کی بہتات اور محدود وسائل میں نہ رہ سکنے سے انسان محفوظ ہونے کیلیے کرپشن کرتا ہے۔ یہ انتظامی امور کی کرپشن میں شامل ہے جو زیادہ تر آفسر شاہی میں کام آتے ہیں۔پاکستان میں ایک گھر میں 7-10 بچوں کی پرورش، تعلیم و تربیت کے بعدمعاشرے میں اپنا مقام حاصل کرنے کی جستجو ناکامی کا سبب بنتی ہے
جمہور یا عوام سے طاقت ور:
کچھ لوگ اپنا چرچا عوامی محافل میں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا مقصد بغیر پیسے کےشہرت حاصل کرنا ہے اور مقا صد کا حصول ہے۔ ایسے لوگ سٹیٹ کے اندر سٹیٹ کا قیام کرلیتے ہیں اور اپنے مقاصد اور شہرت کا حصول ممکن بناتے ہیں۔ ہمارے علماءِ دین، پیر، ولی، مشائخ کی ہرگز یہ کوشش نہیں ہوتی کہ انسان علم وعمل سے یا حق کے ساتھ جڑ جائے بلکہ انکی حتی الامکان کوشش ہوتی ہے کہ میرے ساتھ جُڑا رہے۔ کیا یہ بدعنوانی میں نہیں آتا ؟ غلطی یہاں کرتے ہیں اور معافی اللہ سے یا خانہ کعبہ جا کر مانگتے ہیں۔ ان لوگوں کی علمی میدانوں، عملی میدان، جنگی میدانوں، نظریاتی میدانوں میں کیا خدمات ہیں؟
معاشی و معاشرتی و سیاسی کرپشن:
پاکستان میں طبقاتی نظام کی بات کی جائے تو یہاں بہت زیادہ طبقات پائے جاتے ہیں۔ ایک بہت امیر شخص اور عہدیدار شخص سے ملاقات ہوئی تو وہ فوجیوں کے ملک کا رُونا رُو رہا تھا۔ اُس کے نیچے کام کرنے والے نیب قاصد اس کی سختیوں کا رونا رو رہے تھے اُسے ایسے روتا دیکھ کر کہتے ہیں ہمیں اپنا رُونا بھول گیا۔ تو اندازا ہوتا ہے کہ معاشی و معاشرتی طبقات میں وسعت کی حد ہونی چاہیے۔ نیب قاصد کو تنخواہ 18 ہزار ہو ہائیرنگ 6 ہزار ملتی ہے جبکہ آفسر کو 2-2.5 لاکھ ملتی ہے اور ہائیرنگ 60 ہزار تک ملتی ہے پھر بھی وہ فوجی آفسروں کو یاد کرکے رُوتا ہے۔ اسی طرح وہ ججز جو 18 لاکھ+مراعت، فوجی آفسروں کو ریٹائرمنٹ پر کنالوں پر محیط مربعے ملنا غریب عوام کے ساتھ زیادتی نہیں جو گرمی میں گندم، مکئی، چاول کاٹ کر انہیں کھانے کیلیے دیتے ہیں۔ پاکستان میں نسل در نسل ایسا ہوتا آیا ہے کہ کچھ لوگ استحصال کرتے رہتے ہیں اور ترقی حاصل کرتے رہتے ہیں جبکہ کچھ لوگوں کے استحصال ہوتا رہتا ہے ۔ اس طرح پاکستان میں گوروں کی ٹیکنالوجی سے ترقی افقی (Horizontal) ہوتی ہے جبکہ گوروں میں استحصال ایک نسل میں ہوتا اور دوسری اس کا سدباب کرلیتی ہے جسے تاریخی لحاظ عمودی(Vertical) کہا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں کچھ علاقوں میں سوئی گیس، بجلی، پانی وافر مقدار میں ملتا ہے اور ضائع بھی کرتے ہیں اور کچھ ترستے رہتے ہیں۔یہ احساس اُسی وقت ہوسکتا ہے جب اپنے ہمسائے سے اتنا پیار کرے جتنا اپنے بچوں سے کرتے ہیں ناکہ اپنے ہمسائے کو نیچ یا کمتر ثابت کرنے کی کوشش کرتا رہے۔ حکومت بھتہ خوری یا ٹیکسز لیتی ہے تو دوسرے بھتے خوروں سے بچانے کی ذمہ داری بھی لیتی ہے جبکہ کرپشن عام ہوجائے تو بھتہ خوریاں بھی بڑھ جاتی ہیں۔
صحت کی سہولیات اعلیٰ پائے کی ممکن ہے جب تندرستی کی سہولیات میسر ہو۔ انصاف عام اور سستا ممکن ہے جب طبقاتی تقسیم کم ہوجائے اس میں سٹیٹ بینک اور دوسرے بینکوں نے لوگوں کو قرضے دینے اور پرائز بانڈ پر مرکوز کرکے طبقاتی تقسیم کو ہوا دی ہو۔ اسی طرح تعلیمی معیار سے جمہوریت پھل پھول سکتی ہے۔ پاکستان میں واپڈا،، پولیس،زمینی محکمےو قبضہ مافیہ،تعلیم، ٹیکسز،ریلوے، تعلیم،عدالت،کسٹم وغیرہ سرفہرست ہیں۔ عوام کے ساتھ خیانتی کارکردگی متاثرہوتی ہے جس سے غیرمحفوظ معیشت، دکھلاوا، عارضی پراجیکٹس، چیزوں اور کام بہت زیادہ راہ داری(افراتفری)،اندرونِ اور بیرونِ ملک سے محدود سرمایہ کاری،کاروبار ی قیمت میں اضافہ، غیر محفوظ وسائل ، کم تنخواہیں، غربت میں اضافہ اور مواقع کی تجویزیں پیش کی جاتی ہیں۔ پاکستانی لوگوں کو جدید سماجی شماریات و ممکنات سیکھنی چاہیے یہی کہتے رہتے ہیں کہ اگر میں ایسا نہ کرتا تو ایسا نہ ہوتا یا ایسا کرتا تو ویسا ہوجاتا۔ یہ اور ایسی دوسری تبدیلیاں صحت مندانہ دوطرفہ تعلیم سے ممکن ہے
پاکستان میں 44 فیصد لوگ رشوت دے کرپشن کے کیسز سے عدلیہ سے جان چھرالیتے ہیں اس طرح عدلیہ اور دوسرے احتسابی ادارے بھی کرپشن میں گہرے ملوث ہیں۔ لوگوں کا بھروسہ اٹھ گیا ہے۔پاکستان میں 65 فیصد لوگوں کی پیداوار زراعت سے ہے اس میں بھی اور باقی لوگ کرپشن سے کھا رہے ہیں ٹیکسز، اور قومی پیسہ پر ہر کوئی ہاتھ صاف کرنا چاہتا ہے۔ بلیک مارکیٹ کرنے کے کئی طریقے آزمائے جاتے ہیں۔پاکستان میں پہلے کھانے پینے کی خالص چیزوں میں ملاوٹ کرکے دی جاتی تھی۔ اب ملاوٹ یا دونمبر(2nd Best) اچھی لگنے ہے ان کی جگہ ویسی ہی تیار شدہ اشیا ملتی ہیں۔ دودھ بنانے کے 1001 طریقے ہیں، ذائقہ بنانے کیلیے آسان تیار ڈبے، انسٹنٹ ڈرنکس، کولڈ ڈرنکس سے تیزابیت میں اضافہ،کیچپ، مایونیز ،نمکو، ٹافیاں، بسکٹ، کیکس، فروٹس سبزیوں کے ساتھ کیمیکل عمل شدہ کسی خدا، حکومت ، اتھارٹی کو کچھ نہیں سمجھتے۔۔۔؟
پاکستان میں قومی احتسابی ادارہ NAB ، قومی اینٹی کرپشن ادارہ NAB ملک میں کرپشن پر قابو پانے کا ادارہ ہے جہاں کرپشن کے ہر طرح کے کیسز رجسٹرڈ ہوتے ہیں یہ ادارہ سولین یا خود مختار تو نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ عسکریت سے زیر سرپرستی ہوتا ہے اس کے باوجود آئی ایس آئی کے اندر بھی وزیروں پر نظر رکھنے کیلیے علیحدہ سیل بنایا ہوا ہے۔ ہاں ایسے عسکری آفیسر جو کرپشن کرتے پکڑگئے ہیں ان کے خلاف کیا ہوا کیا کبھی میڈیا پر انکی تشہیر بنائی گئی یا اُسے کم کرنے کے اقدامات کیے گئے؟
اسی طرح نیب کا کام ملک سے لوٹی ہوئی رقم واپس لانا ہے اس کا کام خالصتاً رقم کے حوالے سے ہے۔ کوئی ادارہ کرپشن پر قابو پانے یا تحقیق کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ کنٹونمنٹ بورڈ کے انتظامی امور پانی، سوئی گیس، فٹ پاتھ پر قبضے والوں سے رشوت، فوتگی نامہ پر رشوت، مکانوں پر رشوت، کاغذوں پر دستخط پر رشوت وغیرہ انتہائی نچلی سطحی معاملات ہیں جبکہ پھر بھی کنٹونمنٹ میں کام نہیں ہوتا۔ وغیرہ پر کون قابو پاسکتا ہے؟
جہاں کرپشن کا بول بالا ہو وہاں سیاست نکمی حکومت، سیاسی احسانات، کھوکھلی سیاست، سیاسی عدم استحکام، کنٹرولڈ میڈیا، طبقاتی تقسیم میں وسعتیں، قانون کی دھجیاں اڑانا،کمزور غیر قوانین کی پابندی سرفہرست ہیں۔پاکستان میں لوگ مایوسی /عدم استحکام Pessimistic ہیں جلدی ہی سطحی امیدیں وابسطہ کرکے کرپشن کی بڑی وجہ بنتے ہیں
کرپشن کے سیاست پر اثرات کچھ اس طرح ہوتے ہیں معاشی لحاظ سے پستی شروع ہوجاتی ہے۔ حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر نظریاتی کام چھوڑ کر بلدیاتی یا نچلی سطحی کام شروع کردیتی ہے۔ غربت کی سطح خدشاتی سطح پر پہنچ جاتی ہے۔ ملکی بجٹ خسارے میں جاتا رہتا ہے اور عالمی بینک کے قرضوں میں انتہائی اضافہ ہوجاتا ہے Grey List سے Black List میں جانے لگتا ہے۔ تعلیم اور صحت کے معاملات اعلیٰ درجے کے متاثر ہوتے ہیں۔ گورنمنٹ کی رٹ کو ہرکوئی للکارتا ہے کیونکہ ووٹ غریب عوام سے لی جاتی ہے خواب دیکھا دیکھا کر لیکن تحفظ امیروں کی املاک کا کیا جاتا ہے
مذہبی مالیاتی:
پاکستان میں مذہبی علماء کثیر رقم زکوٰۃ، عشر، صدقہ، خیرات اور فطرانہ کے نام پر مدرسے کے بچوں کیلیے لے لیتے ہیں اور ان کو غیر حقیقی مذہبی تعلیم دے کر کرپشن کی بہت بڑی وجہ بن رہے ہیں پھر بھی لوگ لاکھوں کروڑوں روپے مدرسوں میں دے دیتے ہیں۔ دنیا میں نئی تحقیق سے ہمارا علمی، عملی، عقلی میدان متاثر ہوا؟ بہت بڑی رقم مدرسوں میں اسلام کی بقاء کیلیے اکٹھی کر لی جاتی ہے ۔کیا اسلام اتنے چھوٹے سے فریم ورک میں قید کیا جاسکتا ہے؟
اس کے علاوہ ساری زندگی یہاں کرپشن کرتے ہیں اور معافی مانگنے کیلیے حج اور عمرہ کرنے کیلیے سعودی عرب چلے جاتے ہیں اس دور میں بھی تیل سے زیادہ زرائع آمدن مذہبی رسومات سے کماتے ہیں۔ مطلب یہ پیسہ ان کی جھولی میں جھونک دیتے ہیں
غیرشفافیت:
ٹیکس کی مد میں اثاثے ظاہر نہیں کرتے حتیٰ کہ پاکستان میں کام کرنے والی سیمی عالمی کمپنیاں بھی اپنے اثاثے چھپا لیتی ہیں۔ بیرون ممالک سے آنے والی رقم پر بہت زیادہ ٹیکس لگایا جاتاہے جس کیلیے وہ غیرقانونی اقدامات کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا یہ پیسہ واپس عالمی بینکوں میں چلا جاتا ہے
انسانوں نے حکومتیں بنانے کا رواج اضافہ غلے کی پیداوار کی حفاظت کرنے سے سیکھا۔ اس کیلیے فوج بنائی، عدلیہ بنائی، قوانین بنائے اور ذرائع ابلاغ بنایا۔ان پر ایک فلسفہ حکومت کرتا تھا جسے سیاسی رہنما لے کر آتا تھا زرعی دور میں یہ اللہ کے سپرد کردینے سے کافی حد تک ختم ہوجاتا تھا ارسطو کا بھی یہی ماننا تھا کہ قوانین کی پاسداری کیلیے عظیم طاقت لازم ہے جبکہ صنعتی دور مادی دور ہے تیسری دنیا کے لوگ زبانی زبانی اللہ کو مانتے ہیں جبکہ اللہ کی کوئی نہیں مانتا کرپشن کی شرح یہاں قابو سے باہر ہے نا قانون سازی کرتے ہیں نا کرپشن پر قابو پاسکتے ہیں حالانکہ اس دور میں لوگ کا انحصار ہر چیز میں زرعی دور کی نسبت حکومت پر بڑھ گیا ہے
بادشاہی نظام، آمریت میں کرپشن کرنے مواقع کم ہوتے ہیں کیونکہ اس میں مخصوص طبقے کے جاہ و جلال کی خدمت پیش نظر ہوتی ہے جبکہ طبقات کی حکومت Oligarchy, Aristocracy میں بہت سے لوگ تمام لوگوں کی مالیت پر قبضہ جمانہ چاہتے ہیں۔ زرعی دور میں بادشاہ ظلِ الہٰی ہوتا تھا اس لیے اختیار ایک جگہ جمع ہوجاتے تھے۔ اس میں اختیارات اور مواقع کی لامرکزیت کی ضرورت ہے۔ 1 فیصد لوگ 99 فیصد لوگوں سے زیادہ مال اکٹھا کرنا چاہتے ہیں
ذرائع ابلاغ کا غلط استعمال اور سمجھ کا فقدان:
پاکستان میں صنعتی اصلاحات کے نفاذ کا عظیم فقدان ہے۔ کیا پاکستان میں پایا جانے والا میڈیا سیاسی وعسکری تفریح دینے کے علاوہ اور کوئی ذمہ داری محسوس نہیں کرتا۔جو کام زرعی دور کی خانقاہوں، مدرسوں، یونیورسٹیوں کے علم کی تبلیغ کرنے والوں کی جگہ جدید میڈیا کیوں نہیں لے سکا۔ علم کی روشنی دیکھانے اور اس کے رواج کی ذمہ داری مبلغوں سے تبدیل ہوکر میڈیا کی ذمہ داری بن گئی ہے کیا ہمارا قابو یا بے قابو میڈیا اپنی ذمہ داری نبہا رہا ہے یا عالمی دنیا سے آنے والے پیسے، اشتہارات، مارکیٹنگ، ریٹنگ کے پیچھے بھاگنا ہے
علماءِ دین ذرائع ابلاغ کی تمام چیزوں کو غلط قرار دیتے تھے اب سب سے بڑا جھوٹا میڈیا کو قرار دیتے ہیں کیونکہ ان کو انکی اپنی مرضی کا دیکھنے کو نہیں ملتا اور پاکستانی میڈیا تمام چیزیں نہیں دیکھا سکتا بلکہ پیمرا کو اداروں کی رہنمائی سے حکم بھیجنا پڑتا ہے ۔ ٹھیک ہے فحاشی پر پاکستانی معاشرے کا متفقہ رائے یہی ہے کہ میڈیا پر نہیں دیکھی جاسکتی جبکہ ممتاز قادری کے جنازے کو میڈیا پر کیوں نہیں دیکھایا گیا؟ منظور پشتین کو کوریج نہیں دی گئی، مزدور پارٹیوں کو کیوں نہیں دیکھایا جاتا۔ بچوں کے قتل کو میڈیا سرعام دیکھایا گیا، زینب قتل پر عزتِ نفس مجروح نہیں ہوتی؟
آئی ٹی کی ترقی سے زرعی و صنعتی اصلطلاحات ویب پر آ گئی ہے۔ مابعد جدیدیت Postmodernism کے معمار کا کہنا ہے کہ جو چیز انٹرنیٹ پر نہیں اس کے ہونے پر شبہات ہیں۔ آپ کورٹ کچہری، ہسپتال، پولیس، جیل، ڈاک خانے، اسٹیشن، کورئیراور پبلک آفس کی ویب سائیٹ پر چلے جائیں کوئی معلومات نہیں ملے گی۔ کسی دن سٹامپ پیپر لینے چلا جائیں کافر کیا منافق بن کر نہ آیا تو بتائیں
عدالتیں اور قوانین:
یہ انتہائی ضروری ہے کہ قوانین کی پابندی کو آسان، شفاف اور قابل عمل بنایا جائے اس کی وجہ سے معاشیات کی غیر یقینی صورت حال کم ہوگی اور اختیارات کی تقسیم برابر ہوگی ۔لوگوں کو خود کرپشن پکڑنے میں آسانی ممکن رہے گی اور شفافیت قائم ہوتی۔ کرپشن قوانین کو توڑتی ہے اور یہی قوانین معاشیات کی سیڑھی ہوتے ہیں جب کوئی قانون نہیں ہوگا تو لوگوں کی جان مال آبرو بھی محفوظ نہیں ہونگی۔ کرپشن کی وجہ سے بنیادی کاروبار کا ر کا تحفظ مجروح ہوگا جس سے پولیس کی نسبت مقامی سیکیورٹی کے مسائل بڑھے گے۔کرپشن کی قیمت بڑے پڑھے لکھے لوگوں کو ادا کرنی پڑتی ہے ۔
قانون، حالات، انصاف کے محافظ لوگ اتنی زیادہ اجرت حاصل کرنے کے باوجود پاکستان 150 نمبر ہے
اقربا پروری:
اقرباپروری نا پروفیشنلزم کی طرف ایک بہت بڑا قدم ہے۔عوام کا اعتمادختم ہوجاتا ہے۔ اقرباپروری کی زیادہ ذمہ داری عسکری اداروں سے تعلق رکھنے والے افراد سے ہے۔ ریٹائر فوجیوں کو سول میں ایڈجسٹ کرنے کیلیے میرٹ کی دھجیاں اُڑائی جاتی ہیں، اپنے خدمت گاروں کیلیے میدان صاف کیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ سفارش یا رشوت سے وہ مقام حاصل کرلیتے ہیں جو محنت سے مقام حاصل نہیں کرپاتے ۔حوصلہ شکنی کاسبب ہے مزیدیہ کہ ان کی کارکردگی میں بڑا فرق ہے۔ دانتے رشوت خوری کو جہنم کا نچلا درجہ قرار دیتے ہیں جسے مذہب معاشرتی منافقت قرار دے کر جہنم کے نچلے درجے پر کھڑا کرتا ہے۔ پچھلے دور کی نسبت اس دور میں رشوت اور سفارش بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں
پاکستان میں مختلف سطح پر کرپشن:
پاکستانی لوگ ہر سطح پر کرپشن کرتے ہیں تاکہ برتری کا مقام بنائے رکھا جائے۔ بچے کی پیدائش پر ڈاکٹروں، نرسوں کو رشوت دی جاتی ہے کئی ان کا لڑکا /بچہ کسی دوسرے بچے، بچی کے ساتھ تبدیل نہ کردیں۔ہسپتالوں میں نارمل بچوں کی پیدائش کی نسبت آپریشن سے بچوں کی پیدائش کراتے ہیں تاکہ ہمیں کھانے کیلیے ملے۔ اس کے بعد بچے کے کوائف اندارج/ب فارم اندراج پر رشوت لی جاتی ہے،سکول میں داخلے پر رشوت دی جاتی ہے، سکول کے دباؤ پر ٹیوشن پڑھائی جاتی ہے، انٹرمیڈیٹ پر بچوں کو کوچنگ سینٹر بھیجا جاتا ہے تاکہ وہ آئی ایس ایس بی،ائے ایس آئی یا یونیورسٹی کا ٹیسٹ پاس کرسکے۔یونیورسٹی کے بعد ٹیسٹنگ سروسز کے ٹیسٹ، پبلک سروس کمیشن کے ٹیسٹ کیلیے کوچنگ لی جاتی ہے اسی طرح کے ہزاروں ٹیسٹ آپ کی کلاس(طبقہ) متعین کرتی ہیں۔ مکان حاصل کرنے پر کورٹ کچہریوں کے چکر وں پر رشوت دینی پڑتی ہے۔ طاقت سے خریداری میں آسانی رشوت کی سب سے بڑی وجہ ہے تاکہ اپنی مرضی کے کام آسان بنائے جائے جو نہیں دے سکتے ان کیلیے کام مشکل بنادیا جائے۔ مزدور ، کسان یا نچلی سطح ِ پیداوار کے حاملین تمام ترقی کے ذمہ دار ہیں انتظامی امور کے ماہرین ان کا استحصال کرکے ان کی محنت کو اپنے نام کرلیتے ہیں
پاکستان میں کرپشن کی سہولیات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں لوگوں کو زندہ رہنے پر کوئی فائدہ نہیں دیا جاتا۔ مرنے پر ان کے وارثین کو اتنے لاکھ روپے کی مدد کی جائے گی وغیرہ وغیرہ۔ میڈیکل کی سہولیات میں بیمار بندے کی ادویات اور دوسری سہولیات پر بحث مباحثے کرتے نظر آتے ہیں کوئی شخص تندرستی کی قیمت ادا نہیں کرنا چاہتا۔ عام آدمی کیلیے صحت مندی میں چیک اپ، پارکوں کا انتظام، ورزش کے انتظامات کی نسبت پارکوں پر تعمیراتی کام کیا جارہا ہے۔دو افراد یا دو جماعتوں کے درمیان معاملات کو تحریری شکل نہ دینے پر جذبات کی اونچی اُڑان بنا لی جاتی ہے لیکن جب معاملہ تبدیل ہوتا ہے تو بس یہی کہتے ہیں رہتے ہیں کہ تم نے یہ کہا تھا پھر لڑائی تھانہ اور رشوت دے کر صلح کرلی جاتی ہے
کنفیوشیس نے کہا تھا ملک میں قحط سالی ہو یا ریاستی تحفظ نہ ہو پھر بھی حکومت پر لوگوں کا اعتبار قائم رہنا چاہیے۔پاکستان میں بنیادی طور پر کرپٹ کون ہے جو پکڑا جائے ۔۔۔!نہیں ۔ کیونکہ جو پکڑا جائے وہ چور ہوتا ہے بلکہ جو شخص کرپشن پر کرپشن کرکے بھاگ جاتا ہے یا پکڑا نہیں جاتا اس نے قومی مال تو لوٹ لیا ناں۔چور چوری سے جاتا ہے پر ہیرا پھیری سے نہیں جاتا۔؟ اس لیے کرپٹ یا بد عنوان معاشرہ ہے جو لوگوں کو کرپشن کرنے کیلیے مجبور کرتا ہے مواقع پیدا کرتا ہے۔ اس لحاظ سے کرپٹ انسان کی نسبت کرپٹ معاشرہ مورد الزام ٹھہرتا ہے جو لوگ کرپشن کا رونا روتے ہیں وہ کرپشن ہونے کا نہیں کرپشن نہ کرپانے کا رونا روتے ہیں وہ اس کرپشن میں برابر کے شریک ہوتے ہیں وہ اس لیے بھی انہوں نے شفافیت کا رواج ممکن نہیں ہونے دیا۔ امریکی صدر براک اوباما الیکشن کے بعد اپنا سامان خود لے کر گئے بغیر کسی شاہی پرٹوکول کے۔ دو دفعہ حکومت ملنے پر اپنے لیے محلات تک تعمیر نہ کراسکے اس کے مقابلے میں پاکستان عطائیت، آفسر شاہی کی طرف لے جاتی ہے اور میرٹ کا جنازہ نکل جاتا ہے۔اقتدار میں پروٹوکول ختم نہیں ہوتا، عدالتی عتاب پر ساری کسر نکل جاتی ہے۔ کیا ایسے ماحول میں بیرونی سرمایہ کاری ممکن ہے جہاں سرمایہ کاروں کو عتاب کا نشانہ بنانے کیلیے تلاش کی جائیں۔ 2013 میں جسے ہیرو بنایا گیا 5 سال بعد زیرو بنا دیا پاکستان سے زیادہ بجٹ تو سیاسی جماعتوں کے پاس بجٹ ہوتا ہے۔ دہشتگردوں کے پاس اتنا بجٹ ہے کہ ان تعلقات کا اندازہ لگانا مشکل ہے
دنیا بھر میں سماجی و معاشرتی و اخلاقی تعلیم میں Problem Solving Techniques سیکھائی جاتی ہیں جبکہ پاکستان کے نظامِ تعلیم میں Problem Creating Techniques سیکھائی جاتی ہیں۔ کارل سیگن کا کہنا ہے جہاں سائنس نہیں پنپ سکتی وہاں نقلی سائنس پروان چڑھتی ہے اور جہاں نقلی سائنس پروان چڑھتی ہے وہاں جمہوریت بھی پھلتی پھولتی نہیں۔ اس لیے ایسے معاشرے میں کوئی بھی کرپشن کرکے لے جائے اسے سزا نہ دی جائے بلکہ اسے رول ماڈل بنا کر کرپشن کے راستے سمجھے جائیں
انصاف دولت کی تقسیم اور مواقع برابر ہوتو سبسڈی(ہیلتھ کارڈ،کسان کارڈ، بے نظیر انکم سپورٹ وغیرہ) دینے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بادشاہ اپنے غریب ملازمین کو سبسڈی دیتے تھے۔ یہ کام حکومتوں کے نہیں ہوتے بلکہ غربت پر پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔سبسڈی سے کرپشن کم اور شفافیت بڑھائی جاتی ہے۔ ملک کی بڑی کلاس مڈل کلاس ہے اور ترقی بھی مڈل کلاس سے ہوتی ہے ۔ جب لوگوں کی کلاس میں فرق بڑھنے لگے گا تو ترقی کی جگہ کرپشن ہوگی۔ کرپشن کی بڑی وجہ جذباتی فیصلے بھی ہیں "قرض اُتارو ملک سنواروں "، "نیلم جہلم منصوبہ" اور ڈیموں کی مد میں لوٹا جائیگا۔ یہ چیز منصوبہ بندیوں سے بنتی ہیں اور بننی چاہیے
اداروں میں کرپشن:
صنعتی انقلاب کے بعد ملکوں کے بارڈر بنائے گے کیونکہ اس میں رہنے والے لوگوں کے مفاد یکساں ہونے گے وہ ان کی باہمی محنت کے نتیجہ پر منحصر ہوگی۔ لیکن آفسر شاہی اس کو اپنا بنانے کی کوشش کرتی ہے جس کی بہت زیادہ قیمت ادا کرنی پڑتی ہے ۔بیوروکریسی اعلیٰ سطحی پالیسی کو رواج دینے کیلیے ہوتی ہے۔ پاکستان میں بیوروکریسی کی نچلی سطح(کلرک، نیب قاصد) کا رویہ دیکھا جاسکتا ہے۔ بیوروکریسی میں نیچے سے اوپر تک تمام لوگ عطائی ہے میرٹ نام کی کوئی چیز نہیں۔ بڑے بڑے وسائل پر قبضہ کرکے بیٹھنے کے چکروں میں ہے۔ قائد اعظم نے کہا تھا کہ بیوروکریسی ٹھیک چلتی رہی تو جمہوریت بھی ٹھیک چلے گی۔بیوروکریسی کو جمہوریت کی جان قرار دیا۔بیوروکریسی کی بے ضابطگیوں کی وجہ سے ملک کئی دفعہ آمروں کے ہاتھوں میں چلا گیا۔مزید یہ کہ جمہوریت آمروں کی گود میں پلتی رہی یہانتکہ عوام آمروں کو جمہوریت سے بہتر اور محافظ سمجھتی ہے یہی ذہن سازی میڈیا نے کئی تاریخی اعتبار سے سرانجام دے کر کی۔ صنعتی انقلاب نے تیسری یا مذہبی دنیا کے لوگوں کے جمود کے ساتھ کرپشن نے نئی راہیں کھولی ہیں جبکہ پہلی اور دوسری دنیا کے لوگوں نے اس پر کافی حد تک قابو پالیا ہے۔ تیسری دنیا کے لوگوں میں مشہور مقولہ ہے کہ "لوگ آپ کی محنت دیتے نہیں بلکہ ان کے منہ سے کھینچ نکالو"
تیسری دنیا کے لوگوں کی خدمت کرنے کیلیے ملٹی نیشنل کمپنیز اور NGOs کا کردار کرپشن کی مد میں سرفہرست ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنی معاشیات میں عدم استحکام کی وجہ بنتی ہے وہی NGOs کے منفی کردار اور اداروں پر نظر رکھنا بھی پائی جاتی ہے۔ ان کی مدد سے خفیہ ادارے کام کرتے ہیں
پولیس کے ادارے میں رشوت نیچے سے اوپر اکٹھی ہوتی ہے۔ پٹواریوں میں بھی رشوت نیچے سے اوپر اکٹھی ہوتی ہے جبکہ کچھ ادارے اوپر سے رشوت لے کر نیچے تک تقسیم کرتے ہیں جتنا زیادہ ٹیکس اتنی زیادہ کرپشن ہوتی ہے۔نجکاری بھی کرپشن کی طرف لے جاتی ہے۔ پاکستان میں ساسی پارٹیوں کا بجٹ پاکستان کے بجٹ سے زیادہ ہے وہاں پاکستان ترقی کرے گا پارٹیاں۔۔؟ اسی وجہ سے پارٹیوں کے ساتھ منسلک اداروں اور ججز سے یک طرفہ رویہ ملتا ہے
بین الاقوامی اور قدرتی وسائل میں کرپشن:
فیکٹری کے مالکان فاضل مادوں کا اخراج ندی نالوں اور عام ہوا میں کردیتے ہیں جس سے عام لوگوں کو بلاواسطہ متاثر کرتی ہے طبی علاج پر ذاتی خرچہ، ماحول کی صفائی ستھرائی پر اجتماعی خرچہ ،واٹر پوریفیکیشن، موسمیاتی تغیرات (Climate Change) کے اصول پر کارفرماء اشیاء کا استعمال کرنا پر اخراجات ،آئی ٹی کے آلات کے ذریعے سے،ٹیکنالوجی کے استعمال، پہلی دوسری تیسری دنیا کے لوگوں کی تقسیم سے منڈیاں واضح کرناوغیرہ سے انسانیت پر سرمایے کو فوقیت دی جاتی ہے
عالمی کانپریسی میں پہلی دنیا کے لوگ نظریات، ٹیکنالوجی ،اپنی منڈی بنانے کیلیے اور تیسری دنیا کی دولت پر قابض رہنے کیلیے کانسپریسی نظریات کا سہارا لیتے ہیں۔ جب سول سرونٹ/بیوروکریسی اور میڈیا کو سیاسی نظریات نہیں ملتے یا عالمی دباؤ سے وہ عالمی کانسپریسی کا حصہ بن جاتے ہیں
پاکستان کے تاریخی ادوار:
پاکستان میں کرپشن، آفسر شاہی، فوجی شاہی، طبقاتی نظام برطانوی کالونیل دور کی دین ہے جب وہ حکومت کرتے تھے اور پیسہ بھی یہاں سے برطانیہ لے جاتے تھے اور برطانوی ہندی فوج سے انتظامی امور کی تکمیل بھی ممکن بناتے تھے مزید یہ کہ انہوں نے اپنے دروازوں پر لکھا ہوتا تھا کہ " کتے اور ہندی اندر نہیں آسکتے" ہندوستان کا GDP برطانوی راج سے پہلے 25٪ تھا اور برطانوی راج میں 4٪ سے بھی کم رہ گیا تھا۔ پاکستان علاقے ہندوستان کیلیے بارڈر کی بھی حیثیت رکھتے تھے یہاں انکی باقیات حد درجہ کمال ترقی کرگئی ہیں۔سپر ہیروز کے پاس اتنا پیسہ کس کام کا ہے جبکہ ان کی ملت کا شخص دو وقت کی روٹی کیلیے ترس گیا ہو۔ اچھی طبی سہولیات حاصل کرنے کیلیے بیرونی ممالک کا سفر طے کرلیتے ہیں ان کے اپنے ملک کے لوگ رکشوں میں ولادت کردیتے ہیں یا نیلے آسمان کے نیچے ولدیت حاصل کرلیتے ہیں۔ سپر ہیروز بہت بڑے پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے مالک ہیں جبکہ عام شہریوں کو کوئی تعلیمی نظام ہی مہیا نہیں ہے"عام عوام بے فکر رہے ان کو بھی کچھ تعلیم مہیا ہوا کرے گی کیونکہ سپرہیروز جاہل اَن پڑھوں سے رابطہ کرنے سے قاصر ہوتے تھے" الغرض آمری جمہوریت کے تعلیمی نظام نے طبقاتی نظام کو باقاعدہ ترتیب دی ہے۔ کولونیل دور میں حاکم محکوم کو قصے کہانیوں، مادی، فوری استعمال کی چیزوں تک محدود رکھتے ہیں انکی زندگی کا کوئی فلسفہ نہیں ہوتا۔ سوئی گیس، بجلی، پانی، انصاف وغیرہ کی فراہمی پر حکومتیں حاصل کرتے ہیں۔ ہندوپاک کے لوگ پیسے،کلاس تبدیلی، بیرونِ ملک قومیت،آفسر شاہی اور دیگر سطحی باتوں کے شیدائی ہوتے ہیں ان میں ان کے لیڈروں کے پاس ویژن Vision نہیں ہوتا وہ غربت پر نہیں غریب کی باتیں کریں گے۔ تعلیمی نظام کی نہیں سکولوں کی تعداد کی بات کریں، نوکریوں کی بات کریں پروفیشنلزم کی بات نہیں کریں گے،لوگوں کو فزیکل انٹرٹینمنٹ کی جگہ پولیٹکل انٹرٹیمنٹ دیں گے، جہاں سائنس اور ٹیکنالوجی نہیں پنپ سکتی وہاں جمہوریت نہیں نقلی سائنس پروان چڑھتی ہے۔پاکستان اسلام پر لیا گیا ہے کسی مدرسے سے فارغ التحصیل لوگ قرآن پڑھنے کیلیے آسانی پیدا کرتے؟ تمام لوگ قصے کہانیاں سناتے ہیں۔ وقتی قصے کہانیاں سنا ئی جاتی ہیں اُصول، فلسفہ، سائنس سے نابلد رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
جنسی کرپشن:
مردابھی تک عورت کو اپنی جاگیر سمجھتا ہے ریپ کیسز میں عورت ہی بے رحمی کا نشانہ بنتی ہے خریداری میں عورت کا حصول زرعی دور کی علامت سمجھا جاتا ہےابھی تک اکثر مرد ہی عورت کے حصول کیلیے طاقت کا استعمال کرتے نظرآتے ہیں۔بنیادی ضروریاتِ زندگی کے حصول سے پر تکلف اور عیاش و عشرت والی زندگی کا حصول جنسی آسودگی کی صورت میں ممکن ہے جبکہ دوسری طرف عورت جنسیت کی علامت بھی ہے۔ جنسی معاملات کو میڈیا پر موضوع بنایا جاتا ہے۔ اسی کو دیکھا کر اشتہار بازی کی جاتی ہے، ڈراموں کا موضوع ہمہ وقت جنسی ہوتا ہے۔ دفتروں میں صنف نازک کو استعمال کیا جاتا ہے ۔ اسی طرح کئی محافل میں عورتیں جدید لباسوں میں ملبوس کرکے ترقیاں لی جاتی ہیں۔"پارلیمنٹ سے بازارِ حسن "کی کتاب میں کیسے میرٹ کو ٹھیس پہنچائی جاتی ہے
کرپشن کیسے کی جاسکتی ہے:
کرپشن کی وجوہات میں احتساب میں کمی، غربت، پرخطر زندگی کے معاملات، زیادہ قانون دانیاں، کمزورقانون اورعدلیہ، اخلاقیات کے اصول و قوانین کی کمی، نام نہادجمہوریت، طبقاتی تنخواہیں،طاقت کی مرکزیت و اجارہ داری،غیر شفافیت، دفترشاہی وغیرہ کرپشن کے بنیادی اجزاء میں شامل ہیں۔ نظریاتی طور پر بات کی جائے تو اس میں کچھ اداروں کو اپنے اپنے اقلیم یا دائرہ اختیار میں کام کرنا چاہیے اور اتنا ہی نظریاتی ہونا چاہیے جیسے جمہوری اداروں کو نظریاتی ہونا چاہیے اور ان کی اپنی ذات ، اجتماعیت میں فرق ہونا چاہیے ان کو حاصل شدہ اختیارات کی امانت ایک دن قوم کو واپس کرنی ہے اسی طرح کچھ ادارے جن کو ان نظریات کے نیچے نظریات قائم کرنے چاہیے جیسے فوج، پولیس، وزارتیں، تعلیمی ادارے، میڈیا، عدالتیں اور دوسرے نظم و نسق کے ادارے جمہوریت کے زیر سایہ اپنی خدمات سر انجام دیں ناکہ ان کے ذہن میں یہ ہوکہ فلاں ملک کو بیچ کر کھا جائیں اور ہم اس بات کے ذمہ دار ہیں ۔سب کچھ کھلم کھلا ،واضح ہو کیونکہ راز کسی کیلیے ذاتی مفاد ہی ہوسکتا ہے
کرپشن کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ لوگوں کے مالی، معاشی، ثقافتی معاملات مرکزیت کا شکار ہیں۔وسائل پر کچھ لوگوں کے اختیارات ہیں اگر وسائل پر جمہور کے اختیار ممکن ہوتو شفافیت ممکن ہے وسائل اور انسان کے درمیان مڈل مین کی تعداد میں اضافہ کرنے سے ممکن ہے ورنہ سازشی نظریات کرپشن کی طرف لے جاتے ہیں، طبقاتی نظام میں انسان اپنی کلاس کو نہیں اپنے اوپر والے کو دیکھتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ یہ میری محنت کا نتیجہ تھا جبکہ وہ اپنے اختیارات سے دوسروں کو محنت ہی نہیں کرنے دیتا تھا ۔طبقات میں کمی سے بھی ممکن ہے
اسلام کی کرپشن پر حکمت عملیاں:
کسی تحصیل دار کو تحائف ملتے تو تحصیل دار کے واپس لوٹنےپر ہی احتساب چکتا کردیا جاتا تھا، نبیؐ کے دور میں ہی میرٹ پر عہدے دئیے جاتے تھے۔ 1400 سال پہلے بہترین Human Resources کی مثالیں ملتی ہیں۔ چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ہےجبکہ کرپشن کو ابہامی چوری کا نام دیا جاسکتا ہے جس کیلیے ہاتھ اور پاؤں کو مختلف اطراف سے کاٹنے کا حکم ہے۔ ملاوٹ کرنے والا ہم میں سے نہیں ہے۔حلال اور حرام میں کے فرق کو تفصیل سے بیان کیاہے۔کرپشن کو فساد/فتنہ فی الارض سے تعبیر کیا گیا ہے فتنہ انسانیت کی جڑ کاٹنے کے مترادف ہے اس کے خلاف جہاد کا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت عمر نےوقتی ضرورت کے تحت عہدوں کی تقسیم بھی ایسے ہی کی تھی کہ کرپشن کے مواقع کم سے کم ممکن ہوجائیں۔حضرت حسین نے جمہوری کرپشن کے خلاف اپنے خاندان کی قربانی پیش کردی تھی
کرپشن کی روک تھام:
کرپشن کو واضح طور پر نہیں بیان کیا جاسکتا۔اس لیے اس کی روک تھام کرنے کیلیے حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔ کرپشن یا بدعنوانی کی روک تھام کیلیے اقدامات کیے جاسکتے ہیں:
v شفافیت کا رواج:
v نظریاتی سیاست کا بول بالا ہو:
v آفسر شاہی کے مقابلے میں پروفیشنلزم:
v روپے کی قدر میں اضافہ اور افراطِ زر پر قابو:
v اختیارات کی لامرکزیت:
v بدامنی کی صورتِ حال کا خاتمہ:
v نسبتاً زیادہ اختیارات والوں پر تحائف پر پابندی:
v اختیارات دینے اور لینے کے درمیان ملکیت پر نظر:
v سبسڈی اور مالی معاونت کی دیکھ بھال:
v عوامی شعور /کردار کے ماڈل کی آگاہی سےبلدیاتی امور میں تیزی:
v ٹیکنالوجی اور فیشن تک یکساں رسائی اور مواقع:
v معیارِ زندگی کی تفریق کو کم کرنےسے دہشتگردی کا خاتمہ:
v تعلیمی نظام کی یکسانیت سے اعتبارکا بڑھنا اورگمان کی کمی :
v صحت کی سہولیات میں تندرستی کی قیمت کی ادائیگی:
v وسائل کے نقصانات اور ضیاع پر مشترکہ نظر کی تعلیم:
v چھوٹے چھوٹے کاروبار کی بحالی اور جدت:
پاکستان میں اعلیٰ سطحی کرپشن کا جائزہ: پاکستان میں سیاسی پارٹیوں کے بجٹ ، دفاع کا بجٹ، دہشتگردوں کا بجٹ، مولویوں کا بجٹ، پولیس وعدلیہ و بلدیات کے پاس رشوت ستانی کی رقم، ڈاکٹروں کے پاس لوٹ مار کا پیسہ، تعلیمی معیارات کا پیسہ اور اسی طرح دوسرے کئی محکموں کی انفرادی مالیت پاکستان کے رفاع عامہ کے بجٹ سے کئی زیادہ ہے اور ان کے اخراجات بھی انہی مقاصد کیلیے ہوتے ہیں
قدرت نے انسانوں کو بیش بہا وسائل سے نوازا ہے اس کی صحیح تقسیم سے انسانوں کی ترقی ممکن ہے کسی بھی قسم کے استحصال سے بدعنوانی بڑھتی ہے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔