کرپشن:
قبلہ یوسفی صاحب نے کہیں لکھا ہے کہ بزنس مین کرپٹ افسر سے پریشان نہیں ہوتا۔ اس کی قیمت وہ اپنے اخراجات میں شامل کر لیتا ہے۔ لیکن دیانتدار افسر سے اس کی جان جاتی ہے۔
نام نہاد دیانتدار افسر محض احتیاطاً بھی کام لٹکائے رکھتے ہیں۔ کیوں کہ آڈٹ، نیب، میڈیا، عدلیہ یا کاروباری رقیب competitors کسی بھی کام پر آپ کو خوار کرسکتے ہیں۔ اور دیانتدار افسر کو اپنی عزت اور شانتی کروڑوں کے رکے ہوئے منصوبوں سے زیادہ عزیز ہوتی ہے۔
دوسری طرف بزنس مین نے تنخواہیں، قرضے، ٹیکس اور بل دینے ہوتے ہیں اسے دیانت سے زیادہ دھندے کی فکر ہوتی ہے۔
ہمیں ایک سینئر وکیل صاحب نے بتایا کہ ان کے کسی کلائنٹ کا کروڑوں کا ریفنڈ ٹیکس والوں کے پاس پھنسا ہوا تھا۔ وکیل صاحب ایف بی آر کے کسی ممبر سے ملے۔ ممبر نے فائل منگوا کر تفصیل دیکھی اور بتایا کہ کیس بالکل جائز اور درست ہے۔ وکیل صاحب نے پوچھا تو پھر پیسے کیوں نہیں دیتے؟
ممبر صاحب نے فرمایا کہ پیسے کافی زیادہ ہیں۔ خواہ مخواہ کوئی میڈیا، عدالت، ایمنسٹی انٹرنیشنل یا پارلیمان کی کسی کمیٹی کو شکایت کر دے گا۔ آپ براہ کرم رٹ پٹیشن دائر کریں۔ عدالت کے حکم پر ہم پیسے دے دیں گے۔ آپ کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا ہماری بھی جان بخشی ہوجائے گی۔
ہمیں کالج کے کسی پرنسپل نے بتایا تھا کہ دنیا دار پرنسپل خود بھی کھاتے ہیں، آڈٹ والوں کی بھی خدمت کرتے ہیں اور اپنے ادارے کے لیے بھی کچھ خرید لیتے ہیں۔ جبکہ معلم اور دیانتدار قسم کے پرنسپل خوف کے مارے بجٹ کو ہاتھ بھی نہیں لگاتے اور وہ lapse کر جاتا ہے۔
خان صاحب کا کرپشن کےخلاف جہاد بھی اپنے صوبے کے احتساب چیئرمین کے استعفے کے بعد ٹھنڈا ہوگیا تھا۔
الیکشن کے سائنسدانوں کو ٹکٹ دینے کا مطلب بھی پیسے بنانے اور لگانے کی سائنس کے عالم ہیں۔
لگی بندھی تنخواہ لینے والی معصوم مڈل کلاس کو بقول ملک ریاض دھندے کا ککھ پتہ نہیں۔ کہ سیٹھ یا سرکار ان کی تنخواہیں دینے کے لیے کیا پاپڑ بیلتے ہیں۔
اکھے مال بنانا کھیل نہیں ایک مشکل کام ہے۔
بحریہ کی ہر بستی بستے بستے بستی ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔