پاکستان ميں مفروضہ ہےجسے میڈیا نےبھرپورپذیرائی بخشی کہ سیاستدان لٹیرےہیں،کرپٹ ہیں اوربدعنوان ہیں۔مگرسالوں قید،بےشمارریفرنسزکےباوجودیہ بات کہیں بھی مستندطریقےسے ثابت نہیں ہوئی۔انکےخلاف اخبارات کےصفحات کالےہوتےمگر کسی اورادارےکیخلاف ایک خبر بھی شائع ہوتواخبار/رسالہ غائب ہوجاتاہے۔
13جنوری1994کوایک خبرشائع ہوئی۔جس میںPOFکےسربراہ جنرل صبیح قمرالزمان کی کرپشن کوبےنقاب کیاگیا۔یہ واقعات1990میں ہونےوالےایک معاہدہ کےگردگھومتےتھے۔معاملہ بلغاریہ سےراکٹ لانچرخریدنےکاتھا۔یہ رپورٹ ایک ہفتہ روزہ رسالےنےشائع کی۔مگریہ شمارہ کہیں نہ مل سکا۔اس کی ایک جھلک۔۔
1990میں پاک فوج کوپی۔جی9راکٹ داغنےوالےایس۔پی۔جی9ماڈل کےراکٹ لانچرزکی ضرورت تھی۔جنرل صبیح نےGHسےرابطہ کرکےپیشکش کی وہ کم قیمت اورکم وقت میں راکٹ دلاسکتےہیں۔انکی بات کومنظورکرلیاگیا۔25ملین روپےکی رقم اداکی گئی۔جنرل صبیح نےPOFکےڈرائکٹرعبدالقدیر کوراکٹوں کی خریداری پرمامور کیا۔
15مارچ1990کوجنرل بخیری نےدس ہزار$کاڈرافٹ عبدالقدیرکےنام بھیجا۔جوکوالالمپورمیںBCCIکی شاخ نہ ہونےکی وجہ سےکیش نہ ہوا۔قدیرپاکستان آئے۔درخواست دی کہ رقم کےوصول کنندہ میں اکی جگہ فصیح الزماں کانام لکھاجائے۔جوقمرزماں کےبھائی تھے۔یہ رقم جنرل بخیری نےPOFکےاکاؤنٹ میں نہیں بھیجی تھی۔
بلغاریہ نےبغیراینڈیوزرسرٹیفکیٹ لانچربیچنےسےانکارکیا۔اس کام کیلئےجنرل بخیری نےالگ سےسرٹیفکیٹ دینےکاوعدہ کیا جسکےعوض وہPOFے50ہزار$اضافی چارج کریگا۔قدیرنےبخیری کوہدایت کی وہ یہ رقم لانچرزکی قیمت میں شامل کردے۔لانچرزکی قیمت قدیرنےخودتجویزکی۔یہ قیمت62ہزار$تھی۔اسی لئےمعاہدہ مشکوک ہوا۔
8مئی1990کوجنرل بخیری نےPOFکوراکٹوں کی نئی قیمتوں کیساتھ پیشکش کی۔یہ وہی قیمت تھی جوقدیرپہلےہی طےکرچکاتھا۔اس وقت راکٹوں کی عالمی مارکیٹ میں قیمت اس کے نصف سےبھی کم تھی۔مگرحیرت کی بات یہ ہےپیسےاداکرنےکےباوجودراکٹ نہیں خریدےگئے۔بلکہCIGجوبلیک لسٹ کمپنی تھی،سےراکٹ خریدےجوناکارہ تھے۔
اکتوبر1988میں جنرل صبیح امریکہ کےدورےپرگئے۔وہاں تین ایسی کمپنیوں کےپتےلائےجوFregmentation vestsتیارکرتی تھیں۔نوکروڑروپےکاٹینڈرتیارہوا۔ جنرل صبیح ایک مخصوص کمپنی کوٹینڈردینےکاارادہ رکھتےتھے۔اس دوران ایک اورکمپنی سے20گناکم قیمت پریہی اشیاءفراہم کرنےکایقین دلایا۔مگرپیشکش ردکردی گئی۔
1988میں یہ ٹینڈرPACAکودیاگیا۔جس سےجنرل صبیح وعدہ کرچکےتھے۔بعدمیں اس مواد کی کوئی انسپکشن نہیں کروائی گئی۔مگرحیرت یہ ہےامریکی کمپنی نےمال وقت پرنہیں دیا۔جب یہ مال آیاتوسب گودام کی نذرہوا۔اس سارےعمل کی وجہ جنرل صبیح کاکمیشن حاصل کیا۔مگراسکا آڈٹ ہوا یا نہیں۔۔؟
مئی1990میں رومانیہ نے6ہزارینموک راکٹوں کی چریداری کاآڈردیا۔ہرراکٹ کی قیمت780$تھی۔اس دوران جنرل صبیح نےشمالی کوریاکےاکنامک کونسلرمسٹرکینی سےچفیہ ڈیل کی۔جون90میں شمالی کوریاسےیہ راکٹ پاکستان آئےتوپتہ چلاکہ یہ راکٹ بیکارتھے۔اس دوران پتہ چلارومانیہ کاراکٹ خریدنےوالامنصوبہ جعلی تھا۔
دسمبر88میں جنرل صبیح نےارجنٹائن سےمارٹرفیوژ درآمدکرنےکافیصلہ کیا۔فیوژغیرمعیاری تھے۔فیوژکی مارکیٹ قیمت34$تھی۔ٹکیسزکےبعد39-40$تک پہنچ جاتی تھی۔جب فیوژپاکستان آئےتوپتہ چلایہ ناکارہ ہیں۔ارجنٹائن کی کمپنی نےواپسی سےانکارکیا۔اس سودےکی چارلاکھ$کانقصان ہوا۔اس میں جنرل صبیح کاکمیشن تھا۔
POFمیں اعلی خدمات کےبعدجنرل صبیح کوچیرمین سٹیل مل تعینات کیاگیا۔مگراس دوران سٹیل مل کو7ارب کانقصان ہوا۔دسمبر1997کونئےچیرمین جنرل سکندرحیات آئے۔خسارہ دس ارب کاہوگیا۔احتساب سیل نےجنرل صبیح پرکیس کیا۔81صفحات پرمشتمل رپورٹ عدالت میں پیش ہوئی۔جنرل صبیح نےسپریم کورٹ سےصمانت حاصل کرلی۔
جنرل صبیح پرکیس ثابت بھی ہوا۔مشرف مارشل لاکےبعد وہ عدالت سےباعزت بری ہوئے۔اس دوران انکےخلاف ہائیکورٹ میں اپیل کامطالبہ ہوا۔آخرکار11ستمبر،2008بروزبدھ کونیب نےانکی رہائی کیخلاف درخواست واپس لےلی۔کیس ختم ہوا۔سٹیل مل تباہ۔پتہ نہیں اب کس سیاستدان کے نام یہ نقصان باندھاگیا ہے۔۔