آج کل یہاں امریکہ میں یہ موضوع بہت شدت سے زیر بحث ہے کہ کیا کارپوریٹ چوریاں خیرات یا خدمت خلق سے justify کی جا سکتی ہیں ؟
یہ اب لوگ سمجھنے ہر مجبور ہیں کہ کارپوریٹ بدمعاشیاں ہی دراصل لوگوں کو populist اور nationalist بنیادوں پر سوچنے کہ لیے مجبور کر رہی ہیں بلکہ ٹرمپ کا xenophobic بیانیہ بھی اسی زمرہ میں ڈسکس کیا جاتا ہے ۔ گو کہ ٹرمپ خود اس کلاس سے ہے لیکن پاپولر ووٹ لینے کہ لیے ااپنی ہی برادری کہ خلاف نعرہ لگایا اور امیگریشن روکنے کو کامیابی کا منترہ چنا ۔
کل مجھے اس موضوع پر بہت زبردست کتاب پڑھنے کا موقع ملا ۔ وہ بھی حال ہی میں مارکیٹ میں آئ ہے ۔
“Winners take all”
یہ کتاب نیویارک یونیورسٹی میں جرنلزم کہ استاد ، آنند گر دہرا داس ، نے لکھی ہے ۔ آنند نے ۱۵ سال مختلف مشہور امریکی اخباروں اور جریدوں کہ لیے بھی کام کیا ہے ۔ مجھے جو بات اس کتاب میں بہت پسند آئ ہے ، کہ کالج زمانے سے میرا بھی ان سرمایہ داروں اور ان کِہ خدمت کہ دعووں کہ بارے میں یہی خیال رہا ہے اور اس کا تزکرہ بھی میں نے اکثر اپنے سابقہ بلاگز میں کیا ، جہاں میں نے وارن بفٹ اور بل گیٹ پر تنقید کی کہ ان کو کمائ غیر استحصالی زرائع سے کرنی چاہیے ۔ نہ کہ استحصال کر کہ پیسہ بناؤ اور کچھ غریبوں میں بانٹ کر اسے صاف کرو ۔
آج کل پاکستان کی سپریم کورٹ میں یہی بحث ہو رہی ہے کہ ملک ریاض کہ حرام کہ پیسے کا کیا کیا جائے ۔ مجھے بغداد میں وہ بحث یاد آ گئ جو علماء میں عین اس وقت چھڑی ہوئ تھی جب ہلاکو خاں نے بغداد پر قبضہ کیا ۔ وہ تھی کہ اگر کتا کنویں میں گر جائے تو کتنے ڈول پانی کہ نکال کر وہ کنواں پاک ہو جائے گا ۔ یہی معاملہ یہاں ہے اور آنند اس کتاب میں یہی کہ رہا ہے کہ بہتر یہ ہے کہ کتے کو کنوئیں میں گرنے سے روکا جائے تا کہ پانی صاف رہے ۔
یہ سارا معاملہ آسان بھی ہے اور مشکل بھی ۔ آسان اس لیے کہ سب کو اس کی وجوہات پتہ ہیں ، نقصانات پتہ ہیں ، اپنی آنکھوں کہ سامنے یہ سارا دھوکہ ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں ۔ لیکن مال و دولت کی چمک آنند کہ نزدیک اس
The EliteCharade
کہ سامنے بند نہیں باندھنے دیتی ہے ۔ جسے بہت خوبصورت الفاظ میں آنند کہتا
“Globe trotting jet set of people going from Davos to Bellagio to Aspen talking about solving poverty “
بل گیٹس بھی وہاں جاتا ہے ملکوں کہ صدور اور سربراہان بھی وہاں پہنچتے ہیں ۔ آنند کہتا ہے کہ اسے انہی لوگوں کہ ساتھ Aspen میں ایک fellowship مل گئ ۔ نہ جانے کیوں ۔ نہ وہ مالدار ایلیٹ اور نہ ہی وہ intellectual ۔ بہت تنگ آیا سب کو تنگ کیا ۔ جیسے میں نوکری میں ہوتا تھا تو ہر باس کہتا تھا تم chain کا وہ کتا ہو جو chain کو چلنے نہیں دے رہے ، جان چھوڑو ۔
آنند اس کتاب میں راک فیلرز کی ، Carnegie کی اور کئ موجودہ کاروباری لوگوں کہ خدمت خلق کہ منصوبوں کی ڈسکشن کرتا ہے ۔ یہ کہتا ہے جب Rockefeller فاؤنڈیشن بنا رہے تھے ان کو اور سب کو پتہ تھا
“Money was tainted by its origins ..”
پھر وہ slacker brothers کی مثال دیتا ہے purdue pharma کہ زریعے نشہ آور گولی OxyContin بنائ اور آج روزانہ ۱۴۰۰۰ کہ قریب امریکیوں کو نشہ والی painkillers کی عادت پر کسی نہ کسی ہسپتال کی ایمرجینسی میں داخل کروایا جا رہا ہے ۔ سلیکر برادرز نے لاکھوں ڈالر کی پینٹنگز اور قیمتی نوادرات تحفہ میں دیے امریکہ کہ کئ میوزیم کو۔ جب سلیکر برادر کا نام Forbes کی لسٹ کہ نئے امیروں میں آیا ان کی worth اس دوائ کی وجہ سے ۱۴ بلین ڈالر بتائ گئ ۔ opioid crisis ان کہ نام سے ہی منسوب ہے ۔ اور آنند کیا خوبصورت الفاظ میں کہتا ہے ۔
“Generosity is not a substitute for justice, but here in the market world it was allowed to stand in.. “
آج ملک ریاض لاکھوں لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنے کہ باوجود سلیکر برادرز کی طرح بری ہو جائے گا ۔ میڈیا اس کا ، ججز اس کے ، فوج اس کی ، ہر کوئ بس اس کہ نزدیک ایک پلاٹ کی مار ہے ۔
آنند ایک اور مثال ایک خاتون Lauri Tisch کی دیتا ہے جو ۲۴ بلین ڈالر کی وراثت حاصل کرتی ہے اور باوجود بے دریغ فلاحی کاموں میں پیسے دینے کہ ہمیشہ اپنے آپ کو guilty محسوس کرتی ہے ۔ اور آنند کو کہتی ہے کہ دراصل
“Giving won’t remove that guilt, because it’s not institutional or systematic change”
ٹِش کا خاوند کلنٹن کی کیمپین پر ۴۰ ملین ڈالر لگاتا ہے اور سر عام کہتا ہے کہ
“Remove the influence of donors, it is very odd to be giving millions when your objective is to actually get the money out of politics”
ٹِش کی سگریٹوں کی کمپنی LOEWS ہے ۔ جو اس کو وراثت میں اپنے روس سے امیگرنٹ والدین سے ملی ۔ اس کمپنی نے ۱۹۶۸ میں امریکہ کی مشہور سگریٹ بنانے والی کمپنی خریدی اور آج کمپنی درجنوں اور کام بھی کرتی ہے ، لیکن ٹِش کہ زہن میں یہ چیز بھی ہتھوڑے کی طرح لگتی ہے کہ نجانے سگریٹ سے کتنے لاکھوں لوگ مرے اور وہ ان کی موت میں برابر کی قصوروار ہے ۔ وہ آنند کو کہتی ہے
“Being at war with my self or being a little bit schizophrenic, a little bit tortured, when her spending surges, her guilt rises in tandem, along with her inclination to give back”
ٹِش یہاں تک پریشان ہوتی ہے کہ جب اپنا کریڈٹ کارڈ استمعال کرتی ہے تو سوچتی ہے کہ اس پر non profit والے اداروں کا چیک ہو یہ پریشانی کبھی ختم نہیں ہو سکتی اس نے اپنی سہیلی کو کہا
“Guilt will never go, can’t absolve her from benefitting from a system that she thinks unjust “
آنند پھر ایک دم مبشر لقمان جیسا کردار introduce کرواتا ہے جس کا نام Daniel Walker ہوتا ہے اور اس کا ۲۰۱۵ کا مضمون ۲۰۰۰ الفاظ پر مبنی gospel بن جاتا ہے ۔ اس مضمون میں ڈینیل سارے ہتھکنڈے کارپوریٹ دنیا کہ ننگے کرتا ہے ، اور آخر میں خود پیپسی کولا بورڈ کا ممبر بن جاتا ہے ۔ اس تبدیلی کو آنند کہتا ہے اس نے ڈائٹ کوکا کولا کی بجائے ڈائیٹ پیپسی شروع کر دی ۔ اور آنند مزید اسے کہتا ہے کہ
The best tactics is to bring your critics in to the field ..
جسے ڈینیل کہتا ہے وہ ان کہ ساتھ شامل ہو کر ان کو بدلے گا ، جو ایجینڈا عمران خاں صاحب بھی فرما رہے ہیں ۔
آنند آخر میں اپنی کتاب کا خاتمہ ایک شکاگو یونیورسٹی کی سیاسیات پر فلاسفر ,Chiara Cordelli پر کرتا ہے ۔ شیارا Italian ہے ، اس کہ نزدیک اس مسئلہ کا حل بہت سادہ ہے ۔ بلکل وہی جو پیٹر ویریک بتاتا ہے ، رِیش بتاتا ہے اور اسلام میں ہے ۔ یہ سارے فلاسفر اور سیاسیات کہ ماہر رہے ۔ ان معاملات کا حل مزہب ، اخلاقیات اور سیاسیات میں ہے ۔ معاشیات کہ ماہر تو مزید لُوٹ مار کہ طریقوں کہ لیے تربیت یافتہ ہوتے ہیں ۔ میری خواہش ہو گی اگر میرے دوست رؤف کلاسرا پاکستان کے ان کارپوریٹ ٹھگوں پر ایک کتاب لکھیں اور سیاسیات اور فلسفہ سے ہی اس مسئلہ کا حل بتائیں ۔ یہ چندہ ، فنڈ یا خیرات سے معاملہ حل ہونے والا نہیں ۔ کل کلاسرا کا اسی بیانیہ پر کالم ۱۵۰ شئیر لے گیا ۔ یہاں امریکہ میں کلنٹ واٹس کہتا ہے زیادہ لائکس والا expert گردانا جاتا ہے اور زیادہ شیئر والا Authority ۔ کلاسرا صاحب اب اتھارٹی ہیں ۔ انصافین ٹھیک کہتے ہیں گو طنزا کہ کلاسرا صاحب سے خان صاحب پوچھا کریں ۔
میں کورڈیلی کہ چند انگریزی میں quotes پر ختم کروں گا ۔ وہ کہتی ہے ۔
“It’s not harder to seek more effective taxation of globe trotting plutocrats rather than to develop an elaborate annual conference getting them to give a little back “
مائیکل سینڈل ہارورڈ کا پروفیسر اسے کہتا
“Money has transcended being currency to become our very culture, conquering our imaginations and infiltrating domains that had nothing to do with it”
اور شیارا کورڈیلی اسے مزید کہتی ہے
“Our political institutions
Our laws, our courts,our elected officials, our agencies, our rights, our police, our constitutions, our regulations, our taxes, our shared infra structure, the million little pieces that uphold our civilisation and that we own together can speak on behalf of every one. They often don’t do that but that isn’t the way out that market world so often made it to be.
“It’s our job to make them do that, rather than working to weaken and destroy those institutions by thinking that we can effect not change by our selves. Let’s start working to create the condition to make those institutions better”
دراصل کورڈیلی پراءویٹ فیصلوں کہ سخت خلاف ہے ۔ وہ کہتی ہے ۔
“When help is moved to private sphere , no matter how efficient we are told it is, the context of the helping in a relationship of inequality , the giver and the taker the helper and the helped, the donor and the recipient”
اسلام نے اسی لیے کہا کہ دینے والے ہاتھ کو لینے والے کا علم نہ ہو ۔ یہ ریاست کا کام ہے ۔ اسی کا فرض ہے ۔ یہ پرائیوٹ لوگوں کی domain نہیں ۔ جسے آنند
“Reformed Goldman Sachs executives offering private solutions to public problems, which should not be left to people like Sanford Weill founder Citigroup President, who is up to his neck with public good agenda after million robberies.
یہی مسئلہ رزاق داؤد ، اسد عمر اور قادیانی ماہر معیشت میاں عاطف کا ہے ۔ یہ سارے لوگ استحصالی ہیں یہ public good کی کیوں بات کریں گے ؟ ہمیں رؤف کلاسرا جیسے تنقید کرنے والوں کو بہت سراہنا چاہیے کلاسرا ان ہی استحصالی سیٹھوں کہ چینل سے پبلک کی بھلائ کی بات کرتا ہے ، جیسے Engels نے اپنے کاروباری باپ کہ خلاف مارکس کا ساتھ دے کر کی ۔ میں ، آنند ، رِیش ، کورڈیلی اور کلنٹ واٹس تو امریکہ رہ رہے ہیں جہاں بولنے اور لکھنے پر پابندیاں نہیں جیسی پاکستان میں ہے سلام ہے ان سپوتوں پر جو پاکستان میں بیٹھ کر اجتماعی بہتری کا الم بلند کیے ہوئے ہیں ۔ آئیں سب مل ان کی مدد کریں اور اسلامی نظام اجتماعی خود کفالت لانے کی کوشش کریں ۔ اسی میں ہماری آنے والی نسلوں کی بہتری ہے ۔ اللہ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔ پاکستان پائیندہ باد ۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...