کارپوریٹ سیٹھ کو کیسے پٹہ ڈالا جائے؟
امریکہ میں Bernie Sanders نے ۲۰۱۵ میں جب صدر کہ انتخاب میں پرائمئریز کہ لیے اپنا منشور دیا تو سر فہرست مڈل کلاس کی فلاح و بہبود رکھی ۔ اس کہ نزدیک کارپوریٹ سیٹھ مڈل کلاس کو آہستہ آہستہ نگل رہا ہے۔ برنی تو کلنٹن سے پرائمری ہار گیا لیکن اسی وجہ سے ایک سیاسی تماشبین ٹرمپ کہ وارے نیارے ہو گئے جو ایک بلکل ہی non serious رنر تھا اس ریس میں ۔ ٹرمپ نے وہی Bernie کا نعرہ پکڑ لیا اور گوری نسل کے نوجوان نے اسی نعرے کی بنیاد پر اُسے امریکہ اور پوری دنیا کا صدر بنا دیا ۔ کلنٹن نے اپنی حالیہ کتاب میں یہ لکھا ہے کہ گو کہ میں محسوس کرتی تھی کہ اگر خاوند ۶۰ ہزار ڈالر سالانہ کما رہا ہے اور بیوی ۳۰ ہزار ، تب بھی گزارہ ناممکن ۔ میں ہار گئ ، کیونکہ میں اس مسئلہ کو اجاگر نہ کر سکی ۔ پچھلے دنوں نیویارک کی کانگریس کے ممبر کے لیے پرائمری ریس میں ایک ۲۸ سالہ Cortez نے ایک بابے کو اسی نعرہ پر شکست دے دی جو جیت کر ڈیموکریٹ کی طرف سے اسپیکر کا امیدوار تھا ۔ اور آج Cortez کہ پاس ایک منٹ کا ٹائم نہیں کیونکہ وہ باقی ریاستوں میں اسی نعرے کو پاپولر کروانے میں مصروف ہے ۔ ٹرمپ نے پچھلے دنوں Amazon کہ چیف کو للکارا ، گالیاں دیں ، کہ آپ امریکہ کی پوسٹل سروسز استمعال کر رہے ہیں اور منافع سارا خود رکھ رہے ہیں ۔ Amazon ایک لاکھ ڈالر ہر سیکنڈ کما رہا ہے ۔ سارے میڈیا گروپ ان سیٹھوں نے خرید لیے ، اخبارات ، رسائل اور جرائید ان کہ گن گانے میں مصروف ہیں۔ کسی زمانے کہ غیر جانب دار اور مستند رسالہ the Economist نے ہیڈ لائن لگائ کہ پاکستان میں فوج الیکشن جیت گئ۔ یہ تزکرہ نہیں کیا کہ اگر فرض کریں فوج نے جتوائے بھی تو ایک convict اور criminal کو ہرایا ، پناما زدہ ۔ سارا کنٹرول اب ان کہ پاس ، میں پھر دہراؤں گا ایک امریکہ سے لوٹے پاکستانی کا ۱۹۸۲ میں جس نے ہمیں اکیڈمی میں ملٹی نیشنل کی ریاستوں پر یلغار کہ موضوع پر لیکچر دیا اور نواز شریف کی مثال دی کہ وہ پاکستان کہ سب سے بڑے صوبہ کا وزیر خزانہ ہے ۔ آج وہ جیل سے بھی اتنا طاقتور ہے محض پییسے کہ زور پر ، پاکستان کی فوج اس سے کانپتی ہے عمران خان کہ احتساب کہ ایجینڈے کو sabotage کیا جا رہا ہے ۔ عدلیہ اس کی مُرید ۔ آدھی دنیا اس کی باندھی ۔
یہی کھیل چین اور روس میں بھی کارپوریٹ سیٹھ کھیل رہے ہیں لیکن وہاں کمیونسٹ نظام اور ڈکٹیٹر شپ ہے لہٰزا کچھ کنٹرول ہے ابھی ریاست کا ان کارپوریٹ بدمعاشوں پر ۔ مڈل کلاس روس اور چین میں بھی مر رہی ہے ۔ جب یہ کارپوریشنز سٹاک کہ زریعے وجود میں آئیں تو انہوں نے کہا کہ چلو اسٹاک میں چلتے ہیں اور تمام شیئر ہولڈر برابر کہ حصہ دار ۔ ایسا نہیں ہوا ۔ اپنے ڈائریکٹر ، ساری دولت ان کے پاس شئیر ہولڈرز کو dividends جو وہ ڈائریکٹر فیصلہ کریں ۔ ایک دفعہ میں نے رزاق داؤد کی Descon کے اس کہ ڈائریکٹرز کہ الیکشن میں حصہ لیا جہاں اس نے کہا تھا کہ ایک minority ڈائریکٹر بناتے ہیں ۔ وہ ایسا کرنے سے مُکر گیا ، جب میرے وکیل اقبال جعفری نے اس پر تنقید کی تو اس نے کہا کہ میری مرضی ، میری کمپنی ہے تم مامے لگتے ہو ۔
ایک اور انتہائ شرمناک بات اس سارے کھیل میں یہ ہے کہ جب ان پر پریشر بڑھتا ہے تو یہ چندہ اور charity کا کھیل کھیلتے ہیں ، یہاں وہی کھیل Melinda & Gates کھیل رہے ہیں ۔ جنرل خالد مقبول اور جنرل منیر حفیظ تو باقاعدہ نیب کی فائلیں دکھا کر ان لوگوں سے چندہ لیتے ، بری کرتے اور کچھ حصہ اپنی جیب میں رکھتے ۔ ملک ریاض بھی یہی کر رہا ہے ۔ ڈیم فنڈ میں بھی پیسے دے دو ، الطاف حسین یونیورسٹی بنا دو ، زرداری کو محل بنا دو ، لال مسجد کی تعمیر کرو ، لیکن لُوٹ مار جاری رکھو ۔ کمال کا ڈاکہ ہے دن دیہاڑے کا ۔ چکوال کی تین سیمنٹ ملوں نے چیف جسٹس کے ڈیم فنڈ میں ہیسے ڈال کر اپنی جان چھڑا لی ۔ اب دبا کہ ماحول کی آلودگی کرو ، بھلے کٹاس راج گر جائے ، تاج محل کا ماربل بھی تو کُھر گیا ہے سیٹھوں کی ملوں کی آلودگی سے ۔
عمران خان جو نوجوانوں کہ تقریباً اسی طرح کہ نعرے پر پاپولر ووٹ لے کر آئے ہیں بھی اسی چیلنج کا سامنا کرتے نظر آ رہے ہیں ۔ اسی وجہ سے میں اسد عمر کی بطور وزیر خزانہ کُھل کر مخالفت کرتا ہوں ۔ کارپوریٹ ادارے استحصال پر چلائے جاتے ہیں سیونگ کہ اصولوں پر ، بچت پر ۔ ملک پیسہ کی برابر تقسیم اور flow پر ۔ ہمارے پاس تو حضور صلعم کا معاشی نظام موجود ہے جو پیسہ کسی کی جیب میں ٹکنے ہی نہیں دیتا اور ہر قسم کہ استحصال کو حرام گردانتا ہے ۔ خان صاحب شراب اور زنا معاف ہو سکتا ہے استحصال نہیں ۔ اس کی پُوچھ رب قیامت کہ دن گریبان پکڑ کر کرے گا ۔ اللہ تعالی کا نظام اٹل ہے ۔
کل پاکستان سے میری مداح میرے کل کہ بلاگ پر بہت شدید upset تھیں خاص طور پر نواز شریف کی ڈیل پر ، آخر تنگ آ کر کچھ اشعار اس نے کہ دیے ۔ انہیں پر ختم کرتا ہوں ۔
ھجر کی راتوں سے فگار ہیں
کس لئے ھم بیقرار ہیں
بڑے ھنس مکھ سے لوگ ہیں
کے حیات میں درد بیشمار ہیں
میں کیسے بھروسہ کروں
بدگمانیاں میرے لئےآزار ہیں
دل کو اپنی پرواہ نہیں
بھول چکے درد بیشمار ہیں
لوگوں کی گتھیاں سلجھاتے رہے
اپنی آنکھ میں آنسو زار زار ہیں
پاکستان پائیندہ باد
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔