صبح صبح چڑیوں کی چہکار کانوں سے ٹکراتی تھی، ان کے خوشنما گنگناہٹ سے دل کو سکون ملتا تھا، چوڑیوں کی آپسی گفتگو کا منظر بہت حسین ہوتا تھا، نگاہیں جب پھولوں سے سجے پارک میں پڑتی تھیں تو بینائ میں توانائی پیدا ہوجاتی، صبح کی خنکی سے ذہن کی صفائی ہو جاتی باد نسیم کی خوشگوار فضا میں سانس لینے کا موقع ملتا، ہر طرف رعنائی و زیبائی کا دور دورہ ہوتا ہر سو چہل پہل کا ماحول ہوتا، قدموں کی آہٹ کانوں سے ٹکراتی تو دنیا کا نظارہ معلوم ہوتا، یہ کسان پھاوڑا اٹھاۓ چل دئیے ہیں وہ ہل لۓ کھیت پہچ رہا ہے، چرواہا مویشیوں کو لیۓ خوبصورت منظر کے ساتھ چراگاہ کا راہی ہوا، ساقی پانی بھر رہا ہے، صفائی کرنے والا صفائی میں مشغول ہے، اخبار بیچنے والا آواز لگا رہا ہے، یہ دیکھو دودھ والا بھی گھروں کو پہنچ رہا ہے، ساری دکانیں کھولی جارہی ہیں سامان فروخت ہونا شروع ہو گیا ہے، سبزی والا بھی پہنچ چکا ہے، مکتب میں پڑھنے والے بیگ اٹھاۓ مکتب کے راہی ہوۓ، الغرض پوری دنیا متحرک تھی رواں دواں تھی کہ یکایک خاموشی کا رن پڑا اور فضا خاموش ہو گئی روانی جمود میں تبدیل ہو گئی، نقل و حرکت میں گویا جماؤ آگیا دریائے عالم میں سکوت چھاگیا اور بس ایک ہی آواز سنائی دے رہی تھی ایک ہی نعرے ہر سو لگاۓ جا رہے تھے۔، کہ اب نقل و حرکت ایک مدت کیلئے بند، ملک میں کرفیو نافذ کردیا گیا ہے، سب اپنے اپنے گھروں قید ہو جائیں گویا گھر کو جیل خانہ میں تبدیل کردیا گیا اور جیتے جی جینے کی آزادی چھین لی گئی اب ضروریات زندگی بھی محدود کردی گئی اشیاء خورد بھی قدر کفاف ملنے لگیں غریبوں مسکینوں اور مزدوروں کیلئے قیامت کا ماحول ہے ثروت مندوں سے اب ثروت نے بھی بے وفائی شروع کردیاہے۔ جی ہاں
یہ سب کورونا وائرس کی دین ہے جس نے نظام عالم کو تتر بتر کردیا ہے پوری دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، کرونا وائرس جو ایک خدای عذاب ہے جس کو دنیا پر مسلط کیا گیا ہے سب سے پہلے۔ چین، کو تہس نہس کیا پھر اٹلی پر اپنا شکنجہ کسا اور اٹلی کو تہ و بالا کیا اور پھر دنیا کے بیشتر ممالک میں اپنا علم گاڑ دیا ہے درجن در درجن کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے کتنوں کو موت کی دنیا میں دھکیل دیا ہے اور ان گنت تعداد ابھی موت و زیست کی کشمکش میں ہے، گویا کہ وہ کشتوں کے پشتے لگارہا ہے،
ہندوستان میں بھی کورانا کی آمد ہوئی اور ایسا ماحول پیدا کردیا کہ حکومت جیتے جی مردہ دکھائی دے رہی ہے یہی حکومت ہے کہ جس نے اپنی طاقت و قوت کے نشے میں چور ہوکر اپنی دنیا کا خدا بننا چاہتی تھی اور زبان حال سے گویا کہ رہی تھی کہ میری ایک الگ دنیا ہے میں خدا ہوں جس کو چاہوں رکھو جس کو چاہوں باہر نکال دوں،۔ اس کیلئے وہ طرح طرح کے قانون لا رہی تھی کبھی این آر سی ، تو کبھی۔ این پی آر،۔ تو کبھی۔ CAA لیکن خدا نے کورونا وائرس کی شکل میں ایسا NRC اور CAA لاگو کردیا جس سے حکومت حیران و ششدر رہ گئ نہ کوئی ملک سے باہر جاسکتا ہے اور نہ کوئی آسکتا ہے جو جہاں ہے وہی اس کا نشیمن ہے خدا نے حکومت کے سارےnrc اور CAA کو خاک میں ملا دیا گویا ذہن و دماغ سے اسکا صفایا کردیا،
یہی سچ ہے کہ جب جب بھی دنیا میں برائیاں عام ہوئی شرو فساد کی حکمرانی قائم ہوئی اور زمینی حکمران اپنے کو خدا سمجھنے لگتے رعایا کے ساتھ ناانصافی ظلم و زیادتی، حق تلفی و حق پامالی کے ساتھ پیش آنے لگتے اور نشہ اقتدار میں چور و مخمور ہو کر خدا کی تدبیروں میں روڑے اٹکانے لگتے اور اس کی قدرت کاملہ کو کمزور کرنے کی تدبیر کرنے لگتے تو پھر خدائی جلال زمین پر اترتا ہے اور اپنا جلال دکھاتا ہے اپنی قہاریت و جباریت کا مظہر دکھاتا ہے پھر دنیا کے دعویدار خداؤں کو پل بھر میں زمین بوس کردیتا ہے ماضی میں بھی یہی کچھ ہوا فرعون و ہامان نمرود و شداد جیسے ظالم و جابر پیدا ہوئے لیکن جب خدا کی مار پڑی تو کوئی دریا میں غرق ہوا کوئی مچھر سے مارا گیا کوئی زمین میں دھنسا دیا گیا،
آج حکمران سبق لیں اور عوام بھی سبق لیں اور خدا کی قدرت کاملہ پر یقین رکھیں، اگر خدا ہماری برائیوں کی پاداش میں ہمیں گرفت نہیں کررہا ہے تو اس کا مطلب یہ بالکل نہیں کہ وہ بے خبر ہے وہ ہمیں مہلت دیتاہے یقیناً اس کی پکڑ بہت سخت ہے،
اس وقت پوری دنیا وبا زدہ ہے لوگ ادھر ادھر بھاگ رہے ہیں کوئ دوائ کی تلاش میں ہے کوی علاج کی تلاش میں کوئی بیماری کا توڑ ڈھونڈنے میں مصروف ہے کوئی بچاؤ کیلئے پناہ گاہ کی جستجو میں ہے، ایسا لگتا ہے کہ پوری دنیا کی پناہ گاہیں ختم ہو چکی ہیں، اب ایک ہی پناہ گاہ ہے جو اس سے حفاظت کا ضامن ہے اور وہ ہے خدائی پناہ، وہی ہماری بیماریوں کا حل ہے یہ بیماری نما عذاب بھی وہیں سے ٹلیگا اس لئے اس کی پناہ میں آنے کی ضرورت ہے،
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...